Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaafir : 74
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَیْئًا١ؕ كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ الْكٰفِرِیْنَ
مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے سوا قَالُوْا : وہ کہیں گے ضَلُّوْا : وہ گم ہوگئے عَنَّا : ہم سے بَلْ لَّمْ : بلکہ نہیں نَكُنْ نَّدْعُوْا : پکارتے تھے ہم مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل شَيْئًا ۭ : کوئی چیز كَذٰلِكَ : اسی طرح يُضِلُّ : گمراہ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
اللہ کے سوا ، وہ کہیں گے کہ (وہ) ہم سے کھوئے گئے (نظر نہیں آتے) نہیں ہم تو (اس سے) پہلے کسی کو پکارتے ہی نہ تھے (وہ یہ جھوٹ بولیں گے) اس طرح اللہ (اپنے قانون کے مطابق) کافروں کو گمراہ کرتا ہے
وہ تو ہم سے کھوئے گئے ، نہیں ہم ان کو پکارتے ہی کب تھے ؟ 74۔ وہ بوکھلا کر جواب دیں گے اور جواب ان کا صحیح ہوگا کہ ( ضلوا عنا) وہ تو ہم سے کھوئے گئے لیکن فورا ہی سنبھل کر مزید بولیں گے کہ ہم تو کسی کو کبھی پکارا ہی کب کرتے تھے اس کو کہتے ہیں کہ رسی جل گئی پر بل نہ گیا۔ دوزخ عذاب میں گرفتار ہیں لیکن اب بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے اور پھر سچی بات کو چھپا کر جھوٹ بول رہے ہیں کہ ہم تو اللہ کے سوا کسی کو پکار ہی کب کرتے تھے۔ مفسرین نے ان کا یہ بیان بدحواس پر محمول کیا ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں صحیح یہی ہے کہ پہلے مرحلہ میں بات سنتے ہی وہ وسچی بات کہہ دیں گے اگرچہ انہوں نے کچھ سوچ سمجھ کر جواب نہ دیا ہوگا کیونکہ وہ لوگ تو سوچ سمجھ کر ہی جھوٹ بولنے کے عادی تھے۔ اب جب وہ سنبھلیں گے تو معا پہلو بدل دیں گے اور بول اٹھیں گے کہ ہم نے تو کبھی اللہ کے سوا کسی کو پکارا ہی نہیں تھا اور ان کے خیال میں یہ بات نہ رہے گی اس جھوٹ نے تو پہلے ہی ہماری یہ حالت بنائی ہے اور یہی ہم دوبارہ بول رہے ہیں اور سوچ سمجھ کر بول رہے ہیں کیا سوچ سمجھ کر کی گئی بات کو بھی کبھی اتفاق کہا جاسکتا ہے یا بدحواسی پر محمول کیا جاسکتا ہے شاید مفسرین نے دوزخ کے اس عذاب سے ڈر کر ایسا کہہ دیا ہو کہ ان کی اپنی سمجھ میں یہ بات نہ رہی ہو کہ سوچ سمجھ کر کی گئی بات کو بدحواسی پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی مزید وضاحت چاہتے ہوں تو عروۃ الوثقی کی جلد سوم میں سورة الانعام کی آیت 23 ، 24 کی تفسیر کو دیکھیں۔ اس جگہ فرمایا کہ ” یہ کافروں کی کھلی گمراہی کے باعث بات ہوگی “۔
Top