Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaafir : 85
فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا١ؕ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖ١ۚ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ۠   ۧ
فَلَمْ يَكُ : تو نہ ہوا يَنْفَعُهُمْ : ان کو نفع دیتا اِيْمَانُهُمْ : ان کا ایمان لَمَّا : جب رَاَوْا : انہوں نے دیکھ لیا بَاْسَنَا ۭ : ہمارا عذاب سُنَّتَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ : وہ جو گزرچکا ہے فِيْ عِبَادِهٖ ۚ : اس کے بندوں میں وَخَسِرَ : اور گھاٹے میں رہے هُنَالِكَ : اس وقت الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
پھر وہ جب ہمارا عذاب دیکھ چکے (تو اس وقت) ان کا ایمان لانا ان کے کچھ کام نہ آیا (یہ) اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں چلا آرہا ہے (کہ انکار کی سزا ہلاکت ہے) اور اس وقت وہ منکرین حق خراب و برباد ہو کر رہ گئے
موعود عذاب دیکھ لینے کے بعد لایا ہوا ایمان مقبول نہیں ہوتا 85۔ جس اعلان الٰہی کا ذکر ہم نے گزشتہ آیت میں کیا ہے وہ یہی اعلان ہے جو زیر نظر آیت میں کیا جا رہا ہے کہ ” جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو ان کا ایمان لانا ان کے لئے سود مند نہ ہوا “ کیوں سود مند نہ ہوا ؟ فرمایا اس لیے کہ ” یہ سنت اللہ ہے جو اس کے بندوں میں پیچھے سے چلی آرہی ہے “ یعنی سارے منکرین اللہ ہی کے بندے تھے اور اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ گزشتہ قوموں سے یہی چلتا آرہا ہے کہ جب عذاب خداوندی کے آنے کا اعلان ہوجاتا ہے تو اس اعلان الٰہی کے بعد عذاب دیکھ لینے کے پیچھے اگر کوئی فرد یا کوئی قوم ایمان لاتی ہے تو ہم اس کے ایمان کو قبول نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی سنت کے لئے بدلنا نہیں ہے اس کے بعد جو دوسرا اعلان خداوندی ہوتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ اب کافروں کو آخرت کے گھاٹے کے سوا کچھ میسر نہ آیا۔ عذاب الٰہی کوئی ایک طرح کی چے شدہ چیز نہیں یہی وجہ ہے کہ کسی قوم کو کسی طرح کا عذاب آیا اور کسی قوم کو کسی اور طرح کا یہ تو قوموں کی حالت کا بیان تھا لیکن سنت اللہ کے اس اعلان نبوی کے باعث انفرادی طور پر بھی ہر انسان پر جب اس شدت کا وقت آتا ہے جس کو نزع کا وقت کہا جاتا ہے تو اس وقت کی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کی توبہ کا یہ وقت ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے مرنے والے کو کسی طرح کی ترغیب دینے سے منع کیا گیا ہے لیکن ہماری اکثریت وہی کام کرتی نظر آتی ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ جو کچھ پڑھتے ہیں اگر دل میں جمتا ہے کہ یہ قرآن کریم کا منشا ہے تو اس کو اپنے اوپر اور اپنے ماحول میں اپنی بساط کے مطابق لازم کرلینے کا عہد کریں تاکہ زندگی ہی میں اپنی حالت کو خود سمجھ سوچ کر بدل لیں جو حالت عالم آخرت میں کام آئے اور اگر میرے کسی بھائی کو آخرت کے ساتھ یہ ” عالم “ کا سابقہ شاق گزرے تو وہ اس کو صرف آخرت پڑھ لے۔ سورۃ مومن اس مضمون پر ختم ہو رہی ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین الحمد للہ کہ اس جگہ جلد ہفتم ختم ہوئی عبدالکریم اثری 23۔ نومبر 1997 ء بعد از نماز فجر
Top