Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 13
لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْهِ وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ
لِتَسْتَوٗا : تاکہ تم چڑھ بیٹھو عَلٰي ظُهُوْرِهٖ : ان کی پشتوں پر ثُمَّ تَذْكُرُوْا : پھر تم یاد کرو نِعْمَةَ رَبِّكُمْ : اپنے رب کی نعمت کو اِذَا اسْتَوَيْتُمْ : جب سوار ہو تم عَلَيْهِ : اس پر وَتَقُوْلُوْا : اور تم کہو سُبْحٰنَ الَّذِيْ : پاک ہے وہ ذات سَخَّرَ لَنَا : جس نے مسخر کیا ہمارے لیے ھٰذَا : اس کو وَمَا كُنَّا : اور نہ تھے ہم لَهٗ : اس کے لیے مُقْرِنِيْنَ : قابو میں لانے والے
تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر (اطمینان سے) بیٹھو پھر جب تم بیٹھ جایا کرو تو اپنے رب کے احسان کو یاد رکھو اور کہو کہ پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارے زیر فرمان کردیا اور ہم تو اس کو قابو میں نہ لاسکتے تھے
تمہارا حق تھا کہ تم انعاماتِ الٰہی کا شکر ادا کرتے اور اس کی حمد کے گیت گاتے 13 ؎ کیا تم کو کوئی شخص ذرا سہولت فراہم کر دے جس کی تم کو ضرورت ہو تو کیا تم اس کا شکریہ ادا نہیں کرتے ؟ ہاں ! اپنی روزمرہ زندگی کا خیال کرو کہ تم کو ایک ہی دن میں کتنے لوگوں کا شکریہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ تمہارا وہ دانت جس کی وجہ سے تم بےچین تھے دانتوں کے ڈاکٹر (Dentist) کے پاس گئے اور اس کو اچھی خاصی فیس ادا کی اور اس نے اگر کوئی ایسی دوا استعمال کردی کہ تم کو آرام آگیا تو تم نے کیا کیا ؟ بلاشبہ اس کا شکریہ بھی ادا کیا اور بھاری فیس بھی ادا کی لیکن جس نے تم کو یہ دانت دیا اور برسوں تم نے اس سے فائدہ اٹھایا اور اب پھر تم اس سے فائدہ اٹھاؤ گے کیا کبھی اس دانت دینے والے کا خیال بھی آپ کے دل میں گزرا ؟ اگر نہیں تو تم خود ہی جواب دو کہ کیا تم ناشکرے نہیں ہو۔ تم جس سواری کے جانور کی پیٹھ پر سوار ہوئے اور بڑے آرام و سکون سے اپنی منزل کو رواں دواں ہوگئے یا کسی بھی ایجاد کی گئی سواری پر بیٹھے اور وہ سواری نہایت آرام و سکون کے ساتھ تم کو اٹھائے لیے جا رہی ہے کبھی تم نے اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جس نے تمہاری خاطر یہ سب کچھ مسخر کردیا ہے کیا وہ تمہارا رب نہیں ہے ؟ کیا یہ اس کی ربوبیت ہی کا تقاضا نہ تھا ؟ کیوں نہیں بلاریب یہ اس کی ربوبیت ہی کا تقاضا ہے کہ اس نے یہ سب کچھ تمہارے لیے پیدا فرما دیا ہے پھر تم نے اس سواری کے جانور پر یا اس ایجاد کردہ سواری پر بیٹھتے وقت یہ کلمہ بھی زبان سے ادا کیا ہے کہ { سبحن الذی سخرلنا ہذا و ما کنا لہ مقرنین } ” کہ پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لیے مسخرکر دیا ہے حالانکہ ہم میں اس کو مسخر کرنے کی طاقت و قوت نہیں تھی۔ “ غور کرو کہ اسلام ہی وہ دین فطرت ہے کہ اس کی روشنی نے زندگی کے سارے گوشے منور کردیئے ہیں اور اس کے فیض سے ہماری زندگی کا ہر شعبہ بہرہ ور ہو رہا ہے اور اسلام اس کی معمولی معمولی باتوں میں راہنمائی کرتا چلا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنے ربِّ کریم کو کہیں بھول نہ جائے اور ہر حال میں اس کو یاد رکھے۔ عزوۃ الوثقی ، جلد پنجم کی سورة النحل کی آیت 8 کے تحت تفصیل سے وضاحت کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مروجہ سواریوں کے ذکر کرنے کے بعد ایسی سواریوں کی نشاندہی فرما دی ہے جو اس وقت تک ابھی انسان نہیں جانتا تھا لیکن آج بحمد اللہ ان سواریوں کی نشاندہی فرما دی ہے جو اس وقت تک ابھی انسان نہیں جانتا تھا لیکن آج بحمد اللہ ان سواریوں میں بہت حد تک اضافہ ہوچکا ہے اور ابھی نہ معلوم کیا کیا سواریوں سے انسان کو واسطہ پڑنے والا ہے اور کیا کیا سواری کے لیے ایجاد ہوگا بلاشبہ یہ سب کا سب اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ احادیث میں کسی بھی سواری پر بیٹھتے وقت اس آیت کے الفاظ سمجھ کر پڑھنے کا ذکر آیا ہے اور اس کے بعد تین بار الحمد اللہ اور تین بار اللہ اکبر کہنے کے بعد (لا الہ الا انت ظلمت نفسی فاغفرلی ذنوبی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت) کے الفاظ پڑھنے کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور بلاشبہ ان الفاظ میں بہت مضمون مخفی ہے اس لیے کبھی بھی سواری پر سوار ہوتے وقت اس آیت اور ان الفاظ کو سمجھ کر پڑھ لینا چاہئے۔ (ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی)
Top