Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 15
وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِیْنٌؕ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے مِنْ عِبَادِهٖ : اس کے بندوں میں سے جُزْءًا : ایک جزو۔ حصہ ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ : البتہ ناشکرا ہے کھلم کھلا
اور اس کے لیے اس کے بندوں میں سے جزو (اولاد) ٹھہراتے ہیں بلاشبہ انسان بڑا ہی ناشکر گزار ہے
کتنا ناشکرا ہے انسان کہ اللہ کے ساتھ اس کے بندوں کو شریک ٹھہراتا ہے 15 ؎ یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو ، نصاریٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا ، مکہ والے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور مسلمان کہلانے والوں میں سے کتنے ہیں جو احد کو احمد کہنے میں ذرا جھجھک محسوس نہیں کرتے حالانکہ سب کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ بیٹا یا اولاد بہرحال اپنے باپ کا جزء ہوتی ہے اور جو خاصیت باپ میں ہو وہی بیٹے میں ضروری قرار پاتی ہے اور یہ بھی کہ اولاد بہرحال ماں باپ سے مشابہ اور ان کے نطفہ سے قرار پاتی ہے۔ صرف باپ کہہ دینے سے یا بیٹا کہہ دینے سے نہ کوئی کسی کا باپ بن جاتا ہے اور نہ ہی اس طرح کہنے سے کوئی بیٹا ہوجاتا ہے اس لیے یہ بیماری شروع سے چلی آرہی ہے اور تقریباً ہر قوم میں موجود رہی ہے اور آج بھی موجود ہے حالانکہ بندہ خواہ کوئی ہو ، کون ہو اور کتنا ہی اچھا ہو بہرحال مخلوق ہے اور مخلوق خالق کا جزء نہیں ہو سکتی جس نے ایسا کہا ہے وہ صریح شرک کا مرتکب ہوا ہے خواہ وہ کوئی ہے اور کون ہے۔ بلاشبہ یہ نظریہ بہت ہی لغو اور بیہودہ ہے۔ غور کرو کہ انسان تو اولاد کا اس لیے خواہش مند ہے کہ بڑھاپے میں اولاد اس کے لیے عصائے پیری ثابت ہو ، وہ ہوگی یا نہیں یہ دوسری بات ہے بہرحال انسان کی تمنا ضروری ہے کہ اولاد ہوگی تو غربت اور پیری میں کام آئے گی اور مرنے کے بعد اس کی وارث قرار پائے گی اس طرح کی اور بھی بہت سی خواہشات انسان کے اندر موجود ہیں لیکن کیا اللہ کو بھی بڑھاپا آئے گا یا وہ کبھی بیمار ہوگا یا اس کو غربت آئے گی یا وہ مر جائے گا کہ اس کا کسی کو وارث قرار دینے کے لیی اس کی اولاد کی ضرورت ہو ؟ اگر نہیں اور فی الواقعہ نہیں تو پھر اس طرح کے خرافات آخر کیوں اور کیسے ؟ بدقسمتی سے آج قوم مسلم نے بھی اس طرح کے بکھیڑے بنا رکھے ہیں اور تقریباً ہر بستی ، دہ اور گاؤں سے لے کر بڑے بڑے شہروں تک سب میں یہ ضمنی خدا مقرر کیے گئے ہیں اور مرے ہوئے بزرگوں کی قبروں ، خانقاہوں اور آستانوں میں ہر قسم کا شرک آج بھی کیا جا رہا ہے لیکن اس شرک کو کوئی شرک کہنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے بہرحال کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے جو شرک ہے وہ بہرحال شرک ہے کسی کے تسلیم نہ کرنے سے اس کا نام توحید تو نہیں ہو سکتا۔ اگر ذرا غور کرو گے تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ جو کچھ قریش مکہ کرتے تھے وہ کب اس کو شرک تسلیم کرتے تھے پھر جب پہلے مشرکوں نے شرک کو شرک تسلیم نہیں کیا تو یہ آج کے مشرک آخر اس شرک کو کیونکر شرک مان لیں گے اور جب ان کے شرک کو خود محمد رسول اللہ ﷺ تسلیم نہیں کروا سکے تو آپ اور میں کون ہیں کہ ان کو یہ شرک باور کرا لیں گے۔ بہرحال اس میں اور اس میں جو فرق ہے وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ان مشرکوں نے مرے ہوئے بزرگوں کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے ان کے بت تراشے اور ان مشرکوں نے مرے ہوئے بزرگوں کی قبریں ان کو تازہ رکھنے کے لیے پکی بنالیں اور ان پر قبے تعمیر کرلیے گویا انہوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہو بہو بت تراشے اور ان مشرکوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے یہ قبے تیار کیے اور قبروں کو ان گھڑے پتھروں کی طرح ایک ڈھیر کی شکل دے لی لیکن اس سے جو بات شرک تھی اس کے شرک ہونے میں کوئی فرق نہ پڑا اس کفر میں دونوں برابر کے شریک ہیں تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن ظاہر ہے کہ جب پہلوں نے اس شرک کو شرک نہیں تسلیم کیا تو یہ کیونکر تسلیم کرلیں گے اور اس طرح غورو کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ نظریہ وحدت الوجود بھی اسی شرک کی ایک منہ بولتی تصویر ہے اور ” ہمہ اوست “ ہر حال میں شرک ہے اگر کچھ کہنا ہی ہے تو ” ہمہ از اوست “ کہہ دینا چاہئے جو فی الحقیقت حقیقت ہے۔ اللہ ربِّ ذوالجلال والا کرام ہم مسلمانوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے بھائی اس شرک سے بیزار ہوجائیں اور اصل توحید الٰہی کی طرف لوٹ آئیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔
Top