Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 20
وَ قَالُوْا لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰهُمْ١ؕ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ١ۗ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَؕ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ : اگر چاہتا رحمن مَا عَبَدْنٰهُمْ : نہ ہم عبادت کرتے ان کی مَا لَهُمْ : نہیں ان کے لیے بِذٰلِكَ : ساتھ اس کے مِنْ عِلْمٍ : کوئی علم اِنْ هُمْ : نہیں وہ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ : مگر اندازے لگا رہے ہیں
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ رحمن اگر چاہتا تو ہم ان کی پرستش نہ کرتے اس بات پر ان کے پاس کوئی سند نہیں وہ تو اٹکل سے بات کہہ رہے ہیں
انہوں نے ایک اور شوشہ بھی چھوڑا کہ اگر رحمن نہ چاہتا تو ہم ان کی عبادت کیوں کرتے ؟ 20 ؎ زیرنظر آیت میں بیان کیا گیا تخیل بہت پرانا ہے اور جس طرح یہ پہلے لوگوں میں پایا جاتا تھا آج بھی پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے سوال کرنے والے نادان اپنے آپ کو دانایانِ زمانہ کہلاتے ہیں اور خود سمجھتے ہیں کہ ہم چوما دیگرے نیست وہ جب کسی سے مخاطب ہوں گے تو یہی کہیں گے صاحب دیکھو تم خود ہی تو یہ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سوا ایک پتہ بھی نہیں ہلتاتو پھر جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ عین اس کی رضا ہے اور اگر اس کی رضا نہ ہوتی تو ہم ایسا کبھی نہ کرسکتے۔ بلاشبہ وہ جاہل ہیں خواہ کتنے ہی پڑھے لکھے ہوں کیونکہ خواندہ ہونا اور بات ہے اور جہالت اور چیز ہے ہم پیچھے عرض کرچکے ہیں کہ ہر خواندہ عالم اور ہر ناخواندہ جاہل نہیں ہوتا بلکہ بہت سے خواندہ جاہل اور بہت سے ناخواندہ ایسے ہیں جو جاہل نہیں ہوتے۔ اس طرح کا کوئی جاہل اپنی جہالت کو جب علم و فضل خیال کرنے لگتا ہے تو اس کو یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے اور وہ کبھی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا بہرحال حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کی مشیت ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے اور یہ پڑھے لکھے جاہل اس فرق کو سمجھ نہیں سکتے اس لیے اس طرح کی باتیں بنانے لگتے ہیں حالانکہ ان کی پیش کردہ بات کو اگر فی الحقیقت مان لیا جائے اور اس حقیقت کو ان ہی لوگوں پر آزمایا جائے تو ان کو چھٹی کا دودھ یاد آئے گا۔ ذرا غور کرو کہ اگر یہ اصول تسلیم کرلیا جائے جو ان پڑھے لکھے جاہل و نادان حضرات نے پیش کیا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے تو پھر فسق و فور کی محفلیں جو ہر شب کو سجتی ہیں اور وہ ظلم و ستم کی مشق جو مظلوموں اور کمزوروں پر ہوتا ہے اور اسی طرح قتل ، ڈاکہ ، چوری ، زنا ، شراب خوری ، جوا بازی اور ملک و قوم سے غداری کی جو واردتیں ہوتی رہتی ہیں یہ سب کی سب عین صواب ہیں اور نہ تو کسی کو اعتراض کا حق ہے اور نہ ہی ان کا ارتکاب کرنے والوں کو کوئی سزا دینے کا جواز ہے کیا وہ اپنی پیش کردہ دلیل کے مطابق ان سب خرافات کو جائز اور درست قرار دینے کی جرأت رکھتے ہیں اگر ایسا نہیں اور یقینا نہیں تو پھر ان کا یہ بنایا ہوا اصول کیسے درست ثابت ہوا یہ تو محض ایک شوشہ ہے جو ان صاحب نے چھوڑ دیا اور سمجھے کہ ہم نے وہ دلیل بیان کردی کہ اب اس کے سامنے کوئی ہل ہی نہیں سکتا۔ یہی بات مشرکین مکہ کہتے تھے کہ ہم لوگ جن کی عبادت کر رہے ہیں ایک تو صرف ہم نہیں کرتے بلکہ ہمارے آباؤ اجدادایسا ہی کرتے آئے ہیں کیا وہ سب کے سب غلط تھے اور صرف یہ ایک صاحب ہی صحیح کہہ رہے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر اللہ کو ہماری یہ بات پسند نہ ہوتی تو آخر وہ ہم کو ایسا کرنے ہی کیوں دیتا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے جبرواکراہ سے روکنا ہی تو ممنوع قراردیا ہے کہ میں کسی انسان کو مجبور کر کے نیکی کی طرف لانا نہیں چاہتا بلکہ میری مشیت کا یہ فیصلہ ہے کہ میں نے انسان کو جو اختیار دیا ہے اس تک وہ آزادی سے جو کرنا چاہے کرے اس کو مجبور نہیں کرنا چاہتا ہاں ! میری رضا یہ ہے کہ وہ خود اپنی خواہش اور چاہت سے ہر برے کام سے باز آئے اور ہر اچھے کام کو کرے لیکن اگر وہ ایسا نہ کرنا چاہے اور میرے دیئے ہوئے اختیار سے میرے احکام کی خلاف ورزی کرنا پسند کرے تو بلاحیل و حجت کرے کیونکہ انجام کار اس کو اپنے کیے ہی سے ایک روز دوچار ہونا ہے اور برے کا انجام اچھا اور اچھے کا انجام برا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وہ اگر آج نہیں سمجھتے اور کٹ حجتیاں کرتے ہیں تو آنے والے روز ان کٹ حجتیوں کا مزہ بھی انہیں کو چکھنا ہوگا۔ بلاشبہ اس طرح کی بحثیں کرنے والے بالکل اکھڑ اور جاہل ہیں علم و فہم کی ان کو ہوا بھی نہیں لگی اور اس طرح کی بیکار قیاس آرائیوں کو انہوں نے بہت بڑی دلیل سمجھ رکھا ہے حالانکہ اس کی حیثیت تار عنکبوت سے کچھ بھی زیادہ نہیں ہے۔
Top