Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 23
وَ كَذٰلِكَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَاۤ١ۙ اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح مَآ : نہیں اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل فِيْ قَرْيَةٍ : کسی بستی میں مِّنْ نَّذِيْرٍ : کوئی ڈرانے والا اِلَّا : مگر قَالَ : کہا مُتْرَفُوْهَآ : اس کے خوش حال لوگوں نے ۙاِنَّا وَجَدْنَآ : بیشک ہم نے پایا ہم نے اٰبَآءَنَا : اپنے آباؤ اجداد کو عَلٰٓي اُمَّةٍ : ایک طریقے پر وَّاِنَّا عَلٰٓي : اور بیشک ہم، پر اٰثٰرِهِمْ : ان کے نقش قدم (پر) مُّقْتَدُوْنَ : پیروی کرنے والے ہیں
اور اسی طرح جب بھی آپ ﷺ سے قبل ہم نے کسی بستی میں کوئی ہدایت کرنے والا بھیجا تو وہاں کے خوشحال لوگ یہی کہتے رہے کہ ہم نے اپنے باپ داداوں کو ایک راہ پر پایا ہے اور ہم تو انہیں کے قدم بہ قدم چلنے والے ہیں
جب بھی کسی بستی میں ہمارا کوئی ڈرانے والا پہنچا تو اس بستی کے وڈیروں نے مخالفت کی 23 ؎ نبی اعظم و آخر ﷺ کو بطور تسلی بتایا جا رہا ہے کہ اہل مکہ کی مخالفت اور خصوصاً اس بستی کے وڈیروں نے جو مخالفت شروع کر رکھی ہے اور جس طرح کی مکاریاں وہ دن رات کر رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ان سے پہلے جو اہل باطل اور اہل زیغ گزرے ہیں سب نے اپنے اپنے دور کے نبی و رسول کے ساتھ یہی کچھ کیا ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ یہ بات گویا ہمیشہ سے برابر چلی آرہی ہے کہ ان لوگوں کے پاس جب اپنے موقف کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے کوئی عقلی یا نقلی دلیل دستیاب نہیں ہوتی تو ہمیشہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی آڑ لے کر میدان میں آتے ہیں اور اپنا دفاع اس دلیل کے سہارے کرتے رہے ہیں اور یہ بھی کہ سارے نبیوں اور رسولوں کی سرگزشتوں کا مطالعہ کر کے دیکھ لو جب بھی کوئی نبی و رسول کسی قوم کی طرف ہم نے روانہ کیا تو اس قوم کے کھاتے پیتے اور باپ دادا والے لوگوں نے ہمیشہ مخالفت میں پہل کی اور نبیوں اور رسولوں کی اصلاحی تحریکوں کے مقابلہ میں اترے اور ہر طریقہ سے مزاحمت کی۔ اب یہ بات قابل غور ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی کیوں ہوا کہ خوش حال طبقہ کے عیش پرست لوگوں نے ہی مخالفت کی ہو حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ جب یہ لوگ فکر معاش سے آزاد ہیں ، معاشرہ میں ہر شخص ان کا احترام کرتا ہے اور انہیں اپنی رائے کے اظہار میں ہر طرح کی آزادی میسر ہے لہٰذا ان کا حق تھا کہ یہ لوگ آگے بڑھ کر حق کا جھنڈا تھام لیتے اور سابقین الاولین میں ان کا نام سرفہرست ہوتا اور ان کی دیکھا دیکھی لوگ ذرا دیر نہ لگاتے اور اس راستہ کی دعوت کو فوراً قبول کرلیتے۔ ان کے اثر و رسوخ کی اور سعی و کوشش سے سارا معاشرہ گمراہی و ضلالت کی گھمبیر ظلمتوں سے نکل کر ہدایت کی روشنی میں آجاتا لیکن انہوں نے اس کی بجائے ہمیشہ اہل حق کی مخالفت کی اور ان سے محاذ آرائی شروع کردی اور اپنے چیلوں چانٹوں کو ان کے خلاف ابھارا اور ان کا مذاق اڑایا ان کو ساحر ، سحرزدہ ، شاعر اور مجنون جیسے خطاب دیئے آخر ایسا کیوں ہوا ؟ اس لیے کہ ان لوگوں کے پاس دولت و ثروت کی فراوانی ہوتی ہے ، لوگ ان کے نام کو سلام کرتے ہیں اور ان کے اردگرد حاشیہ نشینوں کا ہر وقت جمگٹھا رہتا ہے اور وہ اس کے نشہ میں سرشار ہوتے ہیں ان کو کسی کا مطیع و فرمانبردار بن کر اور آزاد زندگی ترک کر کے قید کے بندھنوں میں اپنے آپ کو پابند کرنا نہیں آتا اور کوئی نبی و رسول بھی اپنے ماننے والوں اور ایمان لانے والوں کو اس طرح کی بےلگام زندگی گزارنے نہیں دیتا اور نہ وہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے بلکہ وہ ان کو ہر معاملہ اور ہر بات میں محتاط رہنے کی تلقین کرتا ہے اور ان کی زندگی پر خاص طرح کی قیود لگاتا ہے ، ان کو حکم دیتا ہے کہ تم کو یہ کام کرنا ہیں اور ان ان کاموں کے قریب نہیں جانا ہے اور اس طرح کی تنقید وہ کبھی برداشت نہیں کرسکتے اس لیے وہ اس طرح کی باتیں کرنے والوں کے درپے ہوجاتے ہیں اور مخالفت پر اتر آتے ہیں۔ بلاشبہ وہ بےلگام ہوتے ہیں اور بےلگام رہنا چاہتے ہیں اگر آپ کو یقین نہ آئے تو اس وقت جتنے بڑے بڑے توحید کے ٹھیکہ اور رسول کے شیدائی ہیں اور اپنے گروہ کے مذہبی راہنما کہلاتے ہیں ان کے قریب ہو کر ذرا دیکھ لو کہ ان کے حواریوں کی کیا حالت ہے وہ توحید کے علم بردار ہیں اور اپنی من مانیوں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ ظلم و زیادتی کرنا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے ، ڈکیتی اور راہزنی کی عادت ان میں راسخ ہے ، کلاشنکوف ان کے گلے میں ہے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں لیکن ان کے اپنے فرقے کے بڑے راہنما کی سند ان کو حاصل ہے کہ چاہے وہ کیا کریں جب وہ ان کی مسند کے نگہبان ہیں تو دونوں جہانوں میں ان کا بیڑا پار ہے ان کو اپنی حالت کے بدلنے کی ضرورت نہیں۔ صرف اس فکر کے ساتھ وابستہ رہنے کی ضرورت ہے اس طرح ان کے سارے گناہوں کی میل بالکل پاک اور صاف ہوجائے گی بس جہاں ان کے مذہبی لیڈر کو ان کی ضرورت پیش آئے گی ان کو وہاں حاضر ہونا ہوگا۔ آپ بغیر کسی استثناء کے جتنے مذہبی راہنما ہیں ان کے حواریوں کو اچھی طرح دیکھیں تو یہی کچھ پائیں گے اور اسی طرح دونوں طرف کا کام چل رہا ہے ورنہ آج بھی کوئی حق کی تبلیغ وتعلیم دے کر دیکھ لے کیا ہوتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ واعظ جب کھڑا ہوگا تو فرعونِ موسیٰ کی بات کرے گا لیکن کبھی اپنے وقت کے فرعون کی نشاندہی نہیں کرے گا۔ کفار مکہ کو گالیاں دے گا لیکن اپنے وقت کے کافروں کی بات کرنے کے لیے نہیں اٹھے گا بلکہ اگر ہوسکا تو ان کے نام کو ، ان کے کام کو ، ان کے کلام کو سرا ہے گا اور ان کی ہاں میں ہاں ملائے گا اور ان کی آنکھ کی طرف دیکھ کر بات کرے گا لیکن کسی نبی و رسول نے ایسا نہ کیا پھر وہ لوگ اس کی مخالفت نہ کرتے تو اور کیا کرتے جب کہ وہ اپنی عیش و عشرت کی زندگی بھی ترک نہ کرنا چاہتے ہوں۔ ان وڈیروں کی مخالفت کے انداز کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں تو ان کے پاس بھی مخالفت کا اصل ہتھیار وہی ہے جس کا اوپر کی آیت میں ھکر کردیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے وقت کے نبی و رسول کو مخاطب کر کے کہا تو یہی کہا اور یہیں سے بات شروع کی کہ ہم نے جس راہ پر اپنے باپ دادوں ، پیروں ، مرشدوں اور مذہبی پیشواؤں کو پایا ہے اسی راہ پر ہم چل رہے ہیں یہ نئی راہ جو تم لوگ بیان کرتے ہو اس کی ہم پیروی نہیں کرسکتے اور باپ دادا کے نام کو بٹہ ہم نہیں لگا سکتے ہم تو اسی نشان راہ پر چلیں گے جس نشان راہ پر اپنے بزرگوں کو پایا ہے لاریب وہ درباروں ، خانقاہوں ، گدی نشینوں ، سجادہ نشینوں ، پیرزادوں اور سید زادوں کے کتے بن لیں گے لیکن ان کے لیے انسان بننا بہت ہی مشکل اور دشوار گزرے گا اس لیے وہ انسانیت کے قریب نہیں آئیں گے اور دوسروں کو بھی انسانیت کے قریب دیکنای کبھی پسند نہیں کریں گے اور وہ کبھی اہل حق کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیں گے لیکن اگر اہل حق حق پر قائم رہیں تو دیر یا سویر بہرحال ان کا ناکام ہونا یقینی ہے کیونکہ سنت اللہ یہی چل آرہی ہے اور لاریب سنت اللہ کبھی نہیں بدلی اور نہ ہی کبھی سنت اللہ کو بدلتا دیکھیں گے۔
Top