Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 24
قٰلَ اَوَ لَوْ جِئْتُكُمْ بِاَهْدٰى مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَیْهِ اٰبَآءَكُمْ١ؕ قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ
قٰلَ : اس نے کہا (نبی نے) اَوَلَوْ : کیا بھلا اگر جِئْتُكُمْ : میں لایا ہوں تمہارے پاس بِاَهْدٰى : زیادہ ہدایت والا مِمَّا : اس سے جو وَجَدْتُّمْ : پایا تم نے عَلَيْهِ اٰبَآءَكُمْ : اس پر اپنے آباؤ اجداد کو قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّا : بیشک ہم بِمَآ اُرْسِلْتُمْ : ساتھ اس کے جو بھیجے گئے تم بِهٖ : ساتھ اس کے كٰفِرُوْنَ : انکار کرنے والے ہیں
(ہر نبی نے یہی) کہا کہ اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے بہتر راہ ہدایت لے آؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ، وہ بولے کہ ہم تو تمہارا لایا ہوا (دین) نہ مانیں گے
نبی و رسول نے ان سے کہا کہ جو تمہارے پاس ہے اگر میں اس سے بہتر بات لے آؤں تو پھر ؟ 24 ؎ یہ سوال ہر نبی کی طرف سے اپنی امت کے مخالفین پر کیا گیا تھا کہ تم جو میری مخلفت کرتے ہو اور اپنے آباؤ اجداد کے ڈھکوسلوں کو پسند کرتے ہو اور اس کو دین سمجھتے ہو اگر میں تم پر یہ بات واضح کر دوں کہ جو کچھ میں پیش کر رہا ہوں وہ وہی دین ہے جو میرے سے پہلے رسولوں نے بھی اپنی اپنی امت کے سامنے پیش کیا اور یہ بھی کہ تمہارے آباؤ و اجداد کا طریقہ گمراہ کن ہے اور خصوصاً یہ کہ وہ تمہاری ذہنی ، مادی اور روحانی ترقیوں میں سنگ گراں کی حیثیت رکھتا ہے اور زندگی کا جو پروگرام میں پیش کر رہا ہوں وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے باعث تمہارے لیے بہت مفید ہے جو تمہاری اس دنیا کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا ضامن ہے اور تمہاری آخری زندگی کو بھی روشن کردینے والا ہے تو وہ یہ سن کر برداشت بھی نہیں کر پاتے اور انکار کی روش اختیار کرتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ تم ایک نہیں لاکھ دلیلیں پیش کرو ہم تمہاری بات کو مان کر اپنے باپ دادا کے نام کو بٹہ نہیں لگا سکتے اور نہ ہی ان کے طریقہ کو چھوڑ سکتے ہیں۔ ہم یہ کیسے مان لیں کہ ساری دنیا کے لوگ غلط اور تم ہی ایک صحیح ہو حالانکہ ہمارے بزرگوں میں بڑے بڑے نامور لوگ گزرے ہیں اور انہوں نے جو خدمتیں کی ہیں انہیں کے مرہون منت ہم زندہ ہیں اور اپنے مسلک پر قائم ہیں اور برملا تمہارا اور جو کچھ تم پیش کرتے ہو اس کا انکار کرتے ہیں۔ آپ پیچھے شعیب (علیہ السلام) کی دعوت میں پڑھ چکے ہیں کہ شعیب (علیہ السلام) کو مخاطب کر کے قوم کے سرداروں نے کہا ” اے شعیب ہم تجھ کو اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں ضرور اپنی بستی سے نکال دیں گے یا تمہیں ہمارے مذہب میں لوٹ آنا ہوگا ، نوح (علیہ السلام) نے کہا ، کیا اس حال میں بھی کہ میں تمہارے اس دین سے بیزار ہوں۔ (اگر ہم نے ایسا کیا) تو یقینا ہم نے اللہ پر جھوٹ باندھا اگر ہم تمہارے مذہب میں لوٹ آئیں اس کے بعد کہ اللہ نے ہمیں اس سے نجات دی اور ہمیں ہرگز شایان شان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ آئیں مگر ہاں جو اللہ ہمارا رب چاہے ، ہمارے رب کا علم تمام چیزوں پر حاوی ہے۔ ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا۔ اے ہمارے رب ! ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے کہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے اور اس کی قوم کے سرداران نے جو کافر تھے شعیب کے پیروؤں کو کہا کہ اگر تم نیش عیب کی پیروی کی تو تم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں ہو گے۔ “ ( سورة الاعراف 88:7 تا 90) یہی کچھ ہر نبی و رسول کے ساتھ ہوا اور ان کے ماننے والوں کو اسی طرح کی دھمکیاں دی گئیں اور اگر تم غور کرو گے تو آج بھی اسی روش پر تم اکثریت کو پاؤ گے اور مذہبی راہنماؤں کی اکثریت بھی تم کو یہی کچھ کہتی نظر آئے گی اور حق کی آواز اٹھانے والوں کے سامنے بالکل وہی دشواریاں پیش آئیں گی جو پہلوں کو پیش آچکیں اور آج بھی دعوت حق کے مقابلہ میں کوئی دلیل پیش نہیں کرے گا بلکہ یہی ثابت کرے گا کہ یہ ایک بالکل نئی بات ہے ہم نے گزشتہ لوگوں سے ایسا بالکل نہیں سنا بلکہ ہمارے ہاں دشواری اب پہلے سے زیادہ اس لیے بڑھ گئی ہے کہ ہمارے سامنے گزشتہ لوگوں کی تحریریں پیش کی جاتی ہیں کہ یہ دیکھو فلاں کو اتنے سال گزر گئے اور فلاں کو اتنا عرصہ گزر چکا اور اپنی فلاں کتاب میں یہ لکھ کر گیا ہے اور تم جو کچھ کہتے ہو وہ بالکل اس کے نظریہ کے خلاف ہے کیا وہ غل تھا اور آپ صحیح ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ اور پھر سو بار ان کو قرآن کریم اور احادیث رسول سے دلیلیں دو لکین یہ وہ کہہ کر ٹھکرا دیں گے کہ کیا وہ لوگ یہی قرآن نہیں پڑھتے تھے اور ان کے سامنے ذخیرئہ حدیث موجود نہیں تھا پھر جو بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی تھی تمہاری سمجھ میں کیسے آگئی بہرحال کچھ بھی ہو ہم تمہاری بات ان کے مقابلہ میں نہیں مان سکتے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید قرآن و حدیث پر براہ راست کسی انسان کو حق ہی نہیں کہ وہ غور و فکر کرسکے حالانکہ یہ بین نہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف لگایا گیا اور نہ ہی نبی اعظم و آخر ﷺ کی طرف سے بلکہ دور اسلام میں ہر انسان کو یہ حق دیا گیا تھا کہ ہر آدمی براہ راست کتاب اللہ اور فرمانِ رسول اللہ ﷺ پر غور کرے اور عین ممکن ہے کہ وہ اس وقت کے سامعین سے بھی کسی بات کو زیادہ سمجھ سکے اور تاریخ اور احادیث میں ایسی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں کہ بڑے بڑے لوگوں نے ادنیٰ سے ادنیٰ لوگوں کے استدلال قرآن کو تسلیم کیا اور اپنی سمجھ کو بالکل چھوڑ دیا اور پھر برملا اعلان بھی کیا کہ جو بات فلاں نے سمجھی وہ بالکل حق اور صواب ہے اور اس کے مقابلہ میں میری رائے کی کوئی وقعت نہیں لہٰذا میں اپنی رائے کو واپس لیتا ہوں۔ امیر المومنین عمر فاروق ؓ کی سیرت کو اٹھاؤ اور دیکھو کہ وہ خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ آج کل عورتوں کے حق مہر میں لوگ بہت تجاوز کر رہے ہیں ، ان کے لیے ایک حد مقرر کر دینی چاہئے۔ ابھی یہ ارشاد فرما ہی رہے تھے کہ ایک عورت نے جو خطبہ سن رہی تھی قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کردی { واتیتم احدہن قنطار افلاتاخذوا منہ شیئًا } (النساء 20:4) ” اور تم ان کو سونے کا ایک ڈھیر دے چکے ہو تو بھی اس سے کچھ نہ لو “ اگرچہ عورتوں کو سونے کا ڈھیر حق مہر میں دینے کا حکم نہیں ہے تو اتنا سونا دینے سے روکا بھی نہیں گیا اور خود دینے ولاے کو واپس لینے کا بھی حق نہیں دیا گیا اس لیے جس معاملہ میں اللہ نے کوئی قید نہیں لگائی خلیفہ وقت اس میں اپنی طرف سے قید کیسے لگا دے گا۔ یہ بات سننا تھی کہ اسی خطبہ کے دوران عمر فاروق ؓ نے اپنی کی ہوئی بات کو واپس لے لیا اور اس عورت کی بھی تعریف کی۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے فرمایا میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے کبھی اس کا اول اچھا ہوتا ہے کبھی آخر۔ اس لیے اگر پہلوں کو یہ اختیار تھا کہ وہ براہ راست قرآن کریم اور احادیث رسول کو سمجھیں تو پچھلوں کا یہ حق ختم کردینا سرا سر زیادتی ہوگی اس لیے یہ بات کسی طرح بھی صحیح نہیں ہو سکتی کہ فلاں آیت کا ترجمہ و مفہوم آج سے ایک ہزار سال قبل ” ا “ نے یہ سمجھا تھا لہٰذا آج اس کے ایک ہزار سال بعد ” ب “ کو کوئی حق نہیں کہ وہ ” ا “ کے سمجھے ہوئے مطلب کے خلاف بیان کرے کیونکہ جس طرح ” ا “ صاحب وحی نہیں تمہاری طرح ” ب “ بھی صاحب وحی نہیں ہے ہاں اگر ” ا “ یہ بیان کرے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے فلاں آیت کا یہ مفہوم بیان کیا تو ” ب “ کا حق یہ ہوگا کہ وہ اس مفہوم کے متعلق غورو فکر کرے کہ یہ مفہوم قرآن کریم کی کسی دوسری آیت کے خلاف تو بیان نہیں کیا گیا اگر وہ قرآن کریم کی کسی ایک آیت کے خلاف نہ ہو تو ” ب “ کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ اس مفہوم کے خلاف اپنی طرف سے کچھ بیان کرے بلکہ اس کو یقین کرنا ہوگا کہ جو ” ا “ نے کہا وہ بالکل صحیح اور سچ ہے کیونکہ نبی کا کوئی ول و فعل قرآن کریم کے کسی ایک حکم کے بھی خلاف نہیں ہو سکتا اور نہ ہی قرآن کریم کا بیان کسی اپنے دوسرے بیان کے خلاف ہو سکتا ہے کیونکہ یہ مسئلہ اصول کا مسئلہ ہے اور اصول طے شدہ باتوں کو کہا جاتا ہے اور اس معاملہ میں طے شدہ بات یہی ہے جو اوپر بیان کی گئی کہ رسول ﷺ کا بیان قرآن کریم کے خلاف نہیں ہو سکتا اور نہ ہی قرآن کریم کا بیان اپنے کسی بیان کے خلاف ہو سکتا ہے۔ اگر یہ بات آپ نے اچھی طرح یاد رکھی تو ان شاء اللہ بہت سارے بکھیڑوں سے بچ جائیں گے اور ایک سیدھی بات کو سیدھی طرح سمجھ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
Top