Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 61
وَ لَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ وَّ اِنَّا بِهٖ كٰفِرُوْنَ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَهُمُ الْحَقُّ : آگیا ان کے پاس حق قَالُوْا : انہوں نے کہا ھٰذَا سِحْرٌ : یہ جادو ہے وَّاِنَّا : اور بیشک ہم بِهٖ كٰفِرُوْنَ : اس کا انکار کرنے والے ہیں
اور جب ان کے پاس حق (قرآن) آیا تو کہنے لگے یہ (تو) جادو ہے اور ہم تو اس کو نہیں مانتے
لیکن انہوں نے حق کو حق کہنے کی بجائے جادو کہہ دیا اور اس سے انکار کر گئے 30 ؎ اس کی وضاحت پیچھے بہت سے مقامات پر گزر چکی ہے کہ قریش مکہ جب اپنی مخصوص مجلسیں قائم کرتے جن میں قوم کے و ڈیرے اور زیرک لوگ مل کر بیٹھتے تھے اور اس موضوع پر غورو فکر کرتے تھے کہ محمد ﷺ جو کچھ پیش کرتا ہے اس کے متعلق کیا کہا جاسکتا ہے وہ بلاشبہ نبوت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن ہم اس کو کس طرح نبی و رسول تسلیم کرلیں جب کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہمارے ہی جیسا ایک انسان ہے ، کھاتا پیتا ہے ، بیوی بچے اس کے ہاں موجود ہے ، بازاروں میں آتا جاتا ہے اور سودا سلف بھی خریدتا نظر آتا ہے اس لیے یہ دعویٰ تو اس کا صحیح نہیں ہو سکتا کہ وہ نبی و رسول ہو کیونکہ ایسی بات آج تک ہم نے نہیں سنی اور نہ دیکھی ہے اور انجام کار وہ اپنی ہر مجلس میں یہ طے کر کے اپنے مجلس کو برخاست کردیتے کہ اس کی بات مت سنو اور اس کا ذکر عام لوگوں کے سامنے مت کرو اگر کوئی دوسرا شخص اس کا ذکر خیر کرے تو اس کو خاموش کرنے کے لیے یہ کہہ دو کہ چھوڑو یار کوئی اور بات کرو اس پر تو کسی نے جادو کردیا ہے اس لیے وہ اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے چونکہ وہ ہمارے خاندان کا ایک فرد ہے اس لیے ہم اس کی باتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیتے کہ یہ ہماری مجبوری ہے۔ جن وجوہ کی بنا پر وہ نبی اعظم و آخر پر ” سحر “ کا الزام لگاتے تھے اس کی چند مثالیں رسول اللہ ﷺ کے سب سے پہلے ایک سیرۃ نگار محمد بن اسحاق (متوفی 152 ھ) نے بیان کی ہے وہ لکھتا ہے کہ ایک وفد عبہ بن ربیعہ (ابو سفیان کے خسر) نے سردارانِ قریش سے کہا اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں محمد ﷺ سے جا کر ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کرو ، لوگوں نے کہا کہ اے ابو الولید آپ پر بھروسہ ہے کہ اگر آپ اس سے بات کریں تو شاید اس کا کوئی نتیجہ نکلے اس لیے آپ اس کے پاس ضرور جائیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور کہنے لگا کہ بھتیجے ہمارے ہاں جو آپ کو عزت حاصل تھی تم خود جانتے ہو اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں اور نسب بھی ہمارا تمہارا ایک ہے تم اپنیق وم پر کیا مصیبت لے آئے ہو ؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا ہے ساری قوم کو بیوقوف ٹھہرا دیا۔ قوم کے بزرگوں کی برائی کی ، باپ دادا جو مر چکے ہیں ان سب کو تو نے گمراہ اور کفار بنایا حالانکہ اس سے تم کو کوئی فائدہ بھی حاصل نہ ہوا تم نے اپنا سرا سر نقصان کیا یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں اس نے کیں کہا تم دولت چاہتے ہو۔ حکومت قائم کرنا چاہتے ہو یا کوئی بیماری آپ کو لاحق ہوگئی ہے آپ ﷺ خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے اور آخر میں بولے اور فرمایا کہ اے ابو الولید ! جو کچھ آپ نے کہنا تھا کہہ لیا یا کچھ مزید کہنا چاہتیہو اس نے جواب دیا کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا کہہ لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اچھا اب میری بات سنو آپ ﷺ نے اس کو متوجہ کیا اور بسم اللہ پڑھ کر سورة حم السجدہ پڑھنی شروع کی اور مسلسل آیت 38 تک پڑھتے چلے گئے۔ آیت 38 کے بعد سجدہ کیا اور سجدہ سے سر اٹھا کر عتبہ سے فرمایا کہ میں نے بھی جو کچھ کہنا تھا وہ کہہ لیا اب تم کچھ مزید کہنا چاہتے ہو تو کہو عتبہ اٹھا اور سردارانِ قریش کے پاس واپس آگیا قریش کے سرداروں نے دیکھتے ہی کہا کہ خدا کی قسم ابوالولید ! آپ کا چہرہ پہلے والا نہیں رہا ایسا لگتا ہے کہ آپ پر بھی محمد ﷺ کا جادو چل گیا ہے۔ ابوالوید کہنے لگا کہ مجھ پر تو کوئی جادو نیں چلا البتہ میں نے جو کلام آج سنا ہے وہ قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ شعر نہیں ، سحر نہیں ، کہانت نہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی بھی انسان کا کلام نہیں۔ اے معشر قریش میں تو آپ کو یہی کہوں گا کہ تم میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو اگر اس پر عرب غالب آگئے تو ایک بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہیں ہوگا اور اگر وہ غالب آگیا تو حکومت تمہاری قریش ہی کی ہوگی اور پھر اس طرح کی تین چار باتیں مزید ان کو کہہ دیں (ابن ہشام جلد اول ص 213 ، 214) اگر آپ غورو فکر کریں گے تو آج بھی حق کے مقابلہ میں آپ کو یہی باتیں سننے میں آئیں گی فرق ہوگا تو صرف ناموں کا ہوگا اور ناموں ہی کے فرق سے تم یہ بات نہیں سمجھ سکو گے تو یہ قریش کے سرداروں ہی کی سی بات ہے کیونکہ ہمارے علامہ حضرات قرآن کریم کی ایک آیت پڑھیں گے اور پھر اس کا ترجمہ کریں گے چونکہ ہماری زبان عربی ہے ہم ان کو اس آیت کا ترجمہ کرکے بتائیں گے کہ آپ کا ترجمہ صحیح نہیں بلکہ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے تو فوراً بولیں گے کہ اچھا آج تک تو جتنے لوگوں نے اس کا ترجمہ کیا وہ یہی کرتے رہے تم نے یہ نیا ترجمہ کیسے کردیا یہ ” جتنے لوگوں نے ترجمہ کیا “ کے لفظوں پر غور کرو کہ یہ جتنے لوگ ترجمہ کرنے والے تھے سب کے سب انسان ہی نہیں تھے ؟ کیا یہ لوگ اللہ کے نبی و رسول تھے ؟ کیا ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی کسی بات سے یہ مفہوم سمجھا ؟ اگر ان سارے سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو آپ نے ان لوگوں کو کیا سمجھا جس پر تم سیخ پا ہوگئے آخر وہ بھی انسان تھے اور انسانوں سے خطا ممکن ہے آپ براہ راست قرآن کریم کے اس ترجمہ پر غور کرو تم پر کوئی آفت نہیں گرے گی۔ یہ تمہارا حق ہے جیسا کہ ان گزرے ہوئے بزرگوں کا حق تھا۔ آپ ان بزرگوں کو کچھ نہ کہئے ان کا احترام کیجئے ان کو بزرگ سمجھئے اور ان کی اس تفہیم کے خلاف اپنا موقف بیان کیجئے اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ خائف کیوں ہیں آپ نے ان بزرگوں کو بزرگ مانا ہے کیوں ؟ اس لیے کہ وہ فی الواقع بزرگ تھے اور انہوں نے آپ سے بہت پہلے نامساعد حالات میں دین کی خدمت کی ، دین کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کیا اور وہ یقینا اپنا حصہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے پائیں گے لیکن وہ معصوم عن الخطاء نہیں تھے۔ کوئی نبی و رسول نہیں تھے ایک بات ان کی سمجھ میں نہ آئی عین ممکن ہے آپ اس کو سمجھ گئے اور کتنی باتیں ہیں جو آپ نے نہ سمجھیں اور شاید بعد میں آنے والے آپ سے بھی زیادہ سمجھ جائیں لیکن اس سے نہ تو کوئی پہلے لوگوں پر الزام ہے اور نہ ہی آپ پر آئے گا یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے اور جس پر وہ چاہتا ہے اپنے قانون کے مطابق کردیتا ہے۔ ہاں ! جس طرح گزشتہ بزرگوں کی کہی ہوئی بات حرف آخر نہیں ہے آپ کی بھی نہیں ہے اگر آپ کی بات سے کسی نے زیادہ بہتر بات کردی اور یہ معاملہ آپ کی زندگی میں ہوگیا تو آپ بلا ریب اس کو درست سمجھئے اور اپنی بات کو اسی وقت چھوڑ دیجئے یہ نہایت شجاعت اور اولوالعزمی کی بات ہے کہ آدمی محض ضد کی بنا پر ڈٹا نہ رہے بلکہ وسعت قلبی کے ساتھ حق کو حق ماننے کے لیے ہر وقت تیار رہے۔
Top