Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 37
وَ اِنَّهُمْ لَیَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ
وَاِنَّهُمْ : اور بیشک وہ لَيَصُدُّوْنَهُمْ : البتہ روکتے ہیں ان کو عَنِ السَّبِيْلِ : راستے سے وَيَحْسَبُوْنَ : اور وہ سمجھتے ہیں اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ : بیشک وہ ہدایت یافتہ ہیں
اور بلاشبہ یہ (شیاطین) ان کی راہ حق سے روکتے رہتے ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم راہ راست پر ہیں
اس کا سب سے بڑا داؤ یہ ہے کہ وہ سیدھی راہ سے روکتا ہے اور انسان رُک جاتا ہے 37 ؎ انسان خواہ کتنا ہی برا کیوں نہہو جب تک اس کو اس کا دل برائی کی طرف سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے وہ سمجھ لے کہ ابھی اس کے اندر یقینا موجود ہے خواہ وہ کتنے ہی ادنیٰ درجہ کا کیوں نہ ہو لیکن جب وہ برائی پر اس طرح لگ جائے کہ اس کو یہ احساس ہی نہ رہے کہ وہ برائی کر رہا ہے تو ایسے انسان پر یقینا شیطان کا تسلط ہوچکا ہے خواہ وہ ابھی کتنے ہی کمزور درجے میں کیوں نہ ہو۔ لیکن خدا نہ کرے اگر اس کی حالت یہ ہوگئی کہ شیطان نے اس کو سیدھی راہ سے بالکل روک دیا اور اس کے باوجود وہ سمجھتا ہے کہ ابھی وہ سیدھی ہی راہ پر گامزن ہے اور ہدایت اس چیز کا نام ہے جو میں کر رہا ہوں تو گویا اب اس کی اصلاح ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدعت کا مرتکب کبھی راہ ہدایت پر نہیں آسکتا یا یہ کہ بہت ہی کم راہ راس ت کی طرف آئے گا کیونکہ وہ جس راہ پر چل نکلتا ہے اس راہ کو صحیح اور درست سمجھتا ہے اس لیے جب تک کوئی انسان کسی برائی کو برائی سمجھتا اور برائی کہتا ہے اس وقت تک ابھی اس میں سیدھی راہ چل نکلنے کی امید باقی ہے خواہ وہ کفر میں کتناہی پکا کیوں نہ ہو اور عصیان میں کتنا ہی مبتلا نظر آتا ہو کیونکہ ابھی وہ کفر کی باتوں کو کفر سمجھتا ہے اور نافرمانی کی حالت کو نافرمانی کی حالت گردانتا ہے اس لیے گویا وہ سویا ہوا ہے اور شاید کسی کے جگانے سے جاگ جائے لیکن جو شخص کفر و شرک کرتا ہے اور پھر اس کو کفرو شرک بھی نہیں سمجھتا تو گویا وہ جاگتا ہوا سو گیا ہے اور جاگتے کو جو سویا ہوا نظر آتا ہے کوئی نہیں جگا سکتا۔ اللہ کرے کہ کسی کی یہ حالت نہ ہوجائے لیکن جس کی ایسی حالت ہوگئی اس نے اپنی ہدایت کا راستہ یقینا بند کردیا۔ خیال رہے کہ سب انسان برائی میں بہت ہی زیادہ مبتلا ہوجاتا ہے تو اس برائی کو وہ برائی نہیں سمجھتا بلکہ سچائی اور اچھائی سمجھنے لگتا ہے اس لیے کہ اس کا نور فطرت بالکل دب جاتا ہے اور اس کو اس سے تعبیر کیا گیا کہ اب شیطان اس کا دائمی ساتھی ہوچکا ہے اور اس نے اپنے ساتھی کو باور کرا دیا ہے کہ جو برائی وہ کر رہا ہے وہ برائی نہیں بلکہ ایک نیکی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی صورت حال سے بچائے ” لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ “
Top