Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 77
وَ نَادَوْا یٰمٰلِكُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّكَ١ؕ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ
وَنَادَوْا : اور وہ پکاریں گے يٰمٰلِكُ : اے مالک لِيَقْضِ : چاہیے کہ فیصلہ کردے عَلَيْنَا رَبُّكَ : ہم پر تیرا رب قَالَ اِنَّكُمْ : کہے گا بیشک تم مّٰكِثُوْنَ : تم یونہی رہنے والے ہو
اور وہ پکاریں گے اے مالک ! (داروغہ دوزخ) بہتر ہے کہ تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے وہ کہے گا (موت کہاں ؟ ) تم کو تو یہاں ہمیشہ رہنا ہے
اہل جہنم ، جہنم کے داروغہ کے سامنے فریاد کریں گے اور وہ کہے گا کہ بس اس میں رہنا ہے 77 ؎ (یملک) سے جنت کے مالک یعنی اللہ تعالیٰ کو بھی مراد لیا جاسکتا تھا لیکن آگے (ربک) کا لفظ اس کا تقاضا کرتا ہے کہ اس مالک کے لفظ سے اللہ تعالیٰ مراد نہیں لیا جاسکتا یہ کسی کا نام ہوسکتا ہے اور حدیث کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کے داروغہ کا نام مالک ہے اور ظاہر کہ یہ کوئی فرشتہ ہی ہوسکتا ہے۔ اہل جہنم جب مکمل طور پر مایوس ہوچکیں گے اور دوزخ میں جھونک دئیے جائیں گے تو وہ دربار دوزخ سے کہیں گے کہ اگر ہماری معافی اور بخشش کی کوئی سبیل نہیں اور کوئی پروانہ آپ کے پاس اس طرح کا موجود نہیں ہے تو پھر اپنے رب سے گزارش کرکے ہمیں موت ہی دلا دو کہ اس زندگی تو موت ہی بہتر ہے لیکن وہ ان کو جواب دے گا کہ (انکم ماکثون) تم انتظار کرتے ہوئے اس جگہ ٹھہرے رہو۔ مکث کے معنی انتظار کرتے ہوئے ٹھہرے رہنے کے ہیں اور غالباً یہ اس لیے کہا جائے گا کہ انہی لوگوں میں ایسے بھی ہوں گے جن کو کچھ وقت تک خواہ وہ کتنے ہی سال ہوں یہاں رکھ کر نکال لینا بھی اس کے علم میں ہوگا اور یہ بات ہم صرف اس کے اس جواب دینے کے باعث کہہ رہے ہیں کیونکہ جو اس نے جواب دیا ہے اس میں یہ توجیہہ پائی جاتی ہے اور ساتھ ہی وہ اہل دوزخ پر ایک طرح یک گزری ہوئی زندگی کی وضاحت بھی کردے گا۔
Top