بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
(اے پیغمبر اسلام ! ) بلاشبہ ہم نے آپ کو صریح فتح دے دی
اے پیغمبر اسلام ! ہم نے آپ ﷺ کو ایک شاندار فتح عطا فرما دی ہے 1 ؎ اس فتح سے کونسی فتح مراد ہے ؟ کہا گیا ہے کہ اس سے مراد فتح مکہ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد فتح خیبر ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے اور سب کے حالات ، واقعات اکٹھے کیے جائیں تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سے مراد آخری فتح یعنی ” صلح حدیبیہ “ ہی کا نام صادق آتا ہے۔ چننچہ صحیح بخاری میں ہے کہ : (قال شعبۃ سمعت قتادۃ عن انس انا فتحنالک فتحاً مبیناً قال الحدیبیۃٌ ) ” شعبہ نے کہا میں نے قتادہ سے سنا انہوں نے انس ؓ سے وہ کہتے تھے (انا فتحنالک فتحاً مبیناً ) سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ “ (بخاری کتاب التفسیرپارہ 20) تفسیر ابن کثیر میں ابن مسعود ، جابر اور برا بن عازب ؓ کے اقوال نقل کیے گئے ہیں جن کے الفاظ تقریباً ایک ہی جیسے ہیں (انکم تعدون الفتح مکۃ و نحن نعد صلح الحدیبیۃ) ” تم فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو اور ہم صلح حدیبیہ کو فتح سمجھتے ہیں۔ “ صلح حدیبیہ کیا ہے ؟ اس کے تفصیلی واقعات اور شرائط و نتائج نبی اعظم و آخر ﷺ نے جب سے مکہ کو چھوڑا تھا یعنی ہجرت کی تھی تو مکہ کے لوگوں نے مسلمانوں کو حج وعمرہ جیسی عبادت سے روک دیا تھا اور پابندی عائد کردی تھی کہ کوئی مسلمان حج وعمرہ میں شریک نہیں ہو سکتا۔ اس پابندی کو پانچ چھ سال کا عرصہ گزر رہا تھا اور اب مسلمانوں کی طاقت و قوت کا اندازہ تقریباً تمام ہی عرب کو ہوچکا تھا لیکن اس کے باوجود مکہ والوں نے اس پابندی کو اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ ہجرت کا چھٹا سال آیا تو نبی اعظم و آخر ﷺ کو مدینہ میں ایک خواب دکھایا گیا جس کا ذکر اس سورة کی آیت 27 میں آ رہا ہے۔ خواب کیا تھا ؟ یہ کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ آپ ﷺ نے بیت اللہ کی چابی حاصل کی اور صحابہ سمیت بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کیا پھر کچھ لوگوں نے بال کٹوائے یعنی منڈوائے اور کچھ لوگوں نے کتروائے۔ آپ ﷺ نے یہ خواب صحابہ ؓ کو سنایا تو سب کو بہت مسرت ہوئی اور وہ سمجھ گئے کہ اب ہمارا مکہ میں داخلہ یقینا قریب آگیا اور ظاہر ہے کہ اس کی تعبیر یہی ہو سکتی تھی اس لیے اپنی جگہ صحابہ ؓ کی اکثریت اندر اندر تیاری میں مصروف تھی۔ آپ ﷺ نے بھی تیاریاں شروع کردیں جن کی وضاحت اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے مدینہ کے اردگرد لوگوں میں اعلان کرا دیا کہ لوگ ہمارے ساتھ روانا ہونا چاہیں تو ضرور روانہ ہوں اس پر کوئی پابندی نہیں بلکہ صدائے عام ہے دیہات کے لوگوں نے تو بہرحال تاخیر کی لیکن آپ ﷺ نے ابن مکتوم ؓ اور بعض روایات کے مطابق نمیلہ لیثی ؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور اپنی خاص اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر نکلے۔ آپ ﷺ کے نکلنے کے دن کے متعلق تحقیق کرنے والوں نے لکھا ہے کہ یکم ذیقعدہ دو شنبہ کا دن تھا اور چودہ پندرہ سو صحابہ ؓ بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ امہات المومنین میں سے ام المومنین ام سلمہ ؓ بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھیں۔ مکہ مکرمہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر ایک کنواں ہے جس کو حدیبیہ کہتے ہیں اور اس جگہ ایک گاؤں بھی اسی نام سے معروف ہے چونکہ آپ ﷺ وہاں تک پہنچ گئے اور معاہدئہ صلح بھی اسی جگہ تحریر ہوا اس لیے اس کو صلح حدیبیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ اسلام میں یہ معاہدہ نہایت اہم اور اسلام کی آئندہ کامیابیوں کا دیباچہ ثابت ہوا اس بنا پر باوجود اس کے کہ وہ ایک صلح کا معاہدہ تھا اور صلح بھی بظاہر لوگوں کی نگاہ میں مغلوبانہ تھی تاہم اللہ تعالیٰ نے اس کو فتح کا لقب دیا اور پھر حالات نے ثابت کردیا کہ جو قرآن کریم نے کہا وہ سچ کہا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی بات حرف بحرف پوری ہوئی۔ کعبہ اسلام کا اصل مرکز تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو مسلمانوں کا قبلہ بنا کر اور ان کو بتا کر دنیا میں سب سے پہلے کی یہی عبادت گاہ ہے اشارہ کردیا تھا کہ تمہارا مرکز تم کو واپس ملے گا۔ اس کی بنیادیں بھی ابراہیم (علیہ السلام) نے اٹھائیں اور آپ کے ساتھ اسماعیل (علیہ السلام) بھی اس کام میں شریک تھے اور اسلام کا نام بھی انہی کی یادگار تھا۔ امتداد زمانہ سے اگرچہ ان کی اولاد بت پرست ہوچکی تھی تاہم کعبہ جو ابراہیم (علیہ السلام) کی یادگار تھا عرب کا مرکز سمجھا جاتا تھا اور سارے ابراہیمی اس کو اپنا مشترک ورثہ سمجھتے تھے۔ اس کی تعظیم میں صرف وہ لوگ جو ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد تھے وہی شریک نہ تھے بلکہ سارا عرب شریک تھا۔ مسلمانوں کے دلوں میں کعبہ کی محبت بدستور قائم تھی بلکہ جب سے وہ قبلہ قرار پایا تھا اس کے لیے تڑپ رہے تھے اور ظاہر ہے کہ یہی مہاجرین کا اصل وطن بھی تھا اور وطن کی محبت بھی ان کے دلوں میں برابر موج زن تھی وہ صحابہ کرام ؓ جو مکہ میں بہت ستائے گئے تھے باوجود ستائے جانے کے وطن کی محبت ان کو بھی بےچین کردیتی تھی۔ بلال ؓ کے ساتھ جو کچھ مکہ میں کیا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور خود بلال ؓ کو وہ کب بھولا ہوگا لیکن اس کے باوجود وہ مکہ کو یاد کرتے اور روتے تھے چناچہ صحیح بخاری میں بھی اس کا ذکر موجود ہے بلکہ مکہ کی یاد میں جو شعر وہ پڑھتے تھے وہ بھی بخاری میں موجود ہیں۔ (باب مقدم النبی ﷺ و اصحاب المدیۃ) الا لیت شعری ھل ابتین لیلۃ بواد دخولی اذخر و جلیل وھل اردن یوما میاہ مجنَّۃ وھل یبدون لی شامۃ و طفیل ” خبردار ! کیا پھر کبھی وہ دن آسکتا ہے کہ میں مکہ کی وادی میں ایک رات بسر کروں اور میرے پاس اذخر اور جلیل ہوں۔ اور کیا وہ دن بھی ہوگا کہ مجنۃ کے چشموں پر اتروں اور شامہ و طفیل مجھ کو دکھائی دیں۔ “ پھر یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ اکثر مہاجرین تو جانیں بچاکر مکہ سے نکل آئے تھے اور ان کے بال بچے اور اہل و عیال ابھی تک وہیں موجود تھے اور ان کی یاد بھی ایک فطری چیز ہے جس سے کوئی انسان بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس لیے سب مہاجرین اور اکثر انصار بھی چاہتے تھے کہ بیت اللہ کی زیارت کریں اس لیے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ چودہ پندرہ سو آدمیوں کی تعداد تھی کہ آپ ﷺ مدینہ سے نکلے۔ مقام ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ ﷺ نے اور آپ ﷺ کے ساتھ سارے لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا اور جو جانور قربانی کے ساتھ لے گئے تھے ان کے گلے میں بطور علامت قلادہ پہنائے گئے تاکہ سب دیکھنے والوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ قافلہ عمرہ کے لیے مکہ جارہا ہے جیسا کہ اس کا رواج عربوں میں موجود تھا۔ نبی اعظم و آخر ﷺ نے قبیلہ خزاعہ کے ایک آدمی کو قریش کے ہاں روانہ کیا مزید احتیاط کے لیے آپ ﷺ نے قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص جس کے اسلام قبول کرنے کا حال قریش کو معلوم نہ تھا پہلے بھیج دیا گیا کہ وہ قریش کے ارادوں کی خبر لائے قافلہ عسفان کے قریب پہنچا تو اس نے آ کر خبر دی کہ قریش نے تمام قبائل کو یکجا کر کے کہہ دیا ہے کہ محمد ﷺ مکہ میں کبھی نہیں آسکتے غرض یہ بھی کہ قریش نے بڑے زور و شور سے مقابلہ کی تیاری شروع کردی ہے اور متحدہ قبائل بھی ایک خاص مقام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور خالد بن ولید دو سو سواروں کو ساتھ لیکر جن میں ابوجہل کا بیٹا عکرمہ بھی موجود ہے مقدمۃ الجیش کے طور پر آگے بڑھ رہا ہے اور وہ غمیم تک پہنچ گیا ہے اس لیے تم لوگ وہاں کترا کر داہنی طرف سے چلو اور اس طرح جب افواج اسلام غمیم کے قریب پہنچ گئیں تو خالد کے قافلہ کے گھوڑوں کی گرد اڑتی نظر آئی۔ وہ گھوڑا اڑاتے ہوئے گئے اور قریش کو خبر دی کہ لشکر اسلام غمیم تک پہنچ گیا ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ آگے بڑھے اور حدیبیہ میں پہنچ کر وہاں ٹھہر گئے۔ حدیبیہ کے کنویں میں پانی کی قلت تھی لیکن کچھ دیر رکنے کے بعد کنویں میں پانی جمع ہوگیا اور وہ اس قدر تھا کہ قافلہ کے لوگوں نے ضرورت کے مطابق اس کو استعمال کیا۔ قبیلہ خزاعہ نے اب تک اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن اسلام کے حلیف ضرور تھے اس لیے کفار اور عام طور پر قریش جو منصوبے اسلام کے خلاف بناتے تھے وہ نبی اعظم و آخر ﷺ کو اس سے مطلع کرتے رہتے تھے اور اس قبیلہ کے رئیس اعظم کا نام بدیل تھا بدیل بن ورقاء کے نام سے موسوم کیے جاتے تھے آپ ﷺ کے آنے کی خبر جب ان کو ہوئی تو وہ چند آدمیوں کو ساتھ لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ قریش کی فوجوں کا سیلاب آگے بڑھ رہا ہے اور وہ آپ ﷺ کو کعبہ میں نہ جانے دیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قریش سے جا کر کہہ دو کہ ہم عمرہ کی غرض سے آئے ہیں اور ہمارا مقصد لڑائی نہیں ہے اور یہ بھی کہ قریش کی حالت جنگ نے پہلے ہی زار کردی ہے اور ان کو سخت نقصان پہنچا ہے ان کے لیے یہ بہتر ہے کہ ایک مدت کے لیے وہ ہم سے امن کا معاہدہ کرلیں اور مجھ کو عرب کے ہاتھ میں چھوڑ دیں اور اگر اس پر وہ راضی نہ ہوں تو اس ربِّ ذوالجلال والا کرام کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہاں تک لڑوں گا کہ میری گردن میرے جسم سے الگ ہوجائے اور اللہ ربِّ کریم کو جو فیصلہ کرنا ہے وہ کر دے۔ بدیل خزاعی نے نبی اعظم و آخر ﷺ کا پیغام پہنچایا قریش کا ایلچی آپ ﷺ کے دربار میں پہنچا بدیل نے جا کر قریش کو یہ بات کہہ دی کہ میں محمد ﷺ کی طرف سے ایک پیغام لے کر آیا ہوں اگر تم اجازت دو تو میں کہہ دوں چند شریروں نے نفی کی لیکن سنجیدہ لوگوں نے بات کرنے کی اجازت دی بدیل نے آپ ﷺ کا پیغام من و عن پہنچا دیا۔ عروہ بن مسعود ثقفی نے اٹھ کر کہا اے قریش کے لوگو ! کیا میں تمہارا باپ نہیں یا یہ کہا کیا تم میرے بچے نہیں۔ قریش نے کہا ہاں ! کیوں نہیں۔ عروہ نے کہا کیا میری نسبت تم کو کوئی بدگمانی ہے ؟ سب نے کہا کہ نہیں۔ پھر عروہ نے کہا اگر تم مجھ کو اجازت دو تو میں خود جاکر محمد ﷺ سے بات کروں اور جو بات طے ہو وہ تم کو بتاؤں اس لیے کہ جو کچھ محمد ﷺ کی طرف سے پیغام ہے وہ پیغام معقول ہے۔ عروہ بن مسعود ثقفی آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور قریش کا پیغام سنایا اور آپ ﷺ سے کہا کہ آپ فرض کریں کہ آپ نے قریش کا استیصال کرلیا تو کیا اس کی اور بھی کوئی مثال ہے کہ کسی نے اپنی قوم کو خود برباد کردیا ہے اور اگر لڑائی کا رخ بدلا تو تمہارے ساتھ جو بھیڑ ہے وہ گرد کی طرح اُڑ جائے گی۔ اس گفتگو میں ابوبکر صدیق ؓ بھی تھے وہ اس کی بات سن کر برداشت نہ کرسکے اور کچھ سخت سست اس کو سنا دیں۔ عروہ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ابوبکر۔ عروہ نے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن ابوبکر کے خاندان کا مجھ کو بہت لحاظ ہے اس لیے میں اس کی بات کو بھی برداشت کرتا ہوں۔ اس گفتگو میں آپ ﷺ مصروف تھے تو آپ ﷺ کو کھنکار کر تھوکنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ ﷺ کے اٹھنے سے قبل ہی کئی ہاتھ آپ ﷺ کی طرف بڑھے کہ ان ہاتھوں میں پڑا تھا تاکہ آپ ﷺ کا تھوک کپڑا پر حاصل کرلیں اور آپ ﷺ کو اٹھنا نہ پڑے اور پھر جس کے مقدر میں یہ سعادت تھی اس نے اپنے کپڑے میں آپ ﷺ کا تھوک لیا اور اس کپڑے کے دوسرے حصہ سے آپ ﷺ کے ہونٹ بھی صاف کردیئے اور اس بات کو عروہ نے دیکھا تو وہ حیران رہ گیا پھر جب آپ ﷺ کو وضو کروانے کا منظر اس نے دیکھا کہ ہر آدمی کی خواہش ہے کہ پانی میں ڈالوں اور اس معاملہ میں جو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی صورت اس نے دیکھی تو وہ اور بھی حیران ہوا اور جب قریش مکہ کے پاس واپس گیا تو اس نے ان باتوں کا وہاں ذکر بھی کیا لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس معاملہ نے ایک عجیب بحث پیدا کردی کہ آپ ﷺ کا تھوک صحابہ ؓ نے اپنے مونہوں پر ملا اور آپ ﷺ کے مستعمل پانی کو کسی نے نیچے نہ گرنے دیا بلکہ گرتے وقت پانی کو دوسرے لوگوں نے استعمال کیا اور پھر اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ آپ ﷺ کے پیشاب ، پاخانہ اور خون وغیرہ کے پاک ہونے پر بحثیں چھڑ گئیں اور جو کسی کے منہ میں آیا وہ اس نے کہہ دیا اور آج یہی بحثیں اسلام کے نام سے جاری وساری ہیں۔ قریش کے ایلچی نے واپس جا کر قریش کے سامنے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا بہرحال عروہ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام ؓ کی حیرت انگیز عقیدت کا جو منظر دیکھا اس نے اس کے دل پر بہت اثر کیا اس نے واپس جاکر قریش سے کہا میں نے قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے دربار دیکھے ہیں یہ عقیدت اور وارفتگی میں نے کہیں نہیں دیکھی محمد ﷺ بات کرتے ہیں تو سناٹا چھا جاتا ہے۔ کوئی شخص آپ ﷺ کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتا ، وہ وضو کرنا چاہیں تو اس خدمت کے لیے خلقت ٹوٹ پڑتی ہے۔ وہ تھوکنا چاہیں تو خدام اپنے ہاتھوں پہ اس کو لیتے ہیں اور پھر آپ ﷺ کو اپنا ہاتھ منہ تک بھی لے جانے نہیں دیتے بلکہ اپنے ہی ہاتھ میں کپڑے سے آپ ﷺ کا منہ بھی صاف کردیتے ہیں۔ (بخاری کتاب الشروط فی الجہاد و المصالہ مع اہل الحرب و کتابۃ الشروط) میں آپ لوگوں سے یہی کہوں گا کہ تم لوگ محمد ﷺ سے صلح کرلو اور جنگ سے بچنے کی یہی ایک تدبیر ہے۔ جب قریش کے پرجوش اور جنگ جو نوجوانوں نے دیکھا کہ ان کے سربرآوردہ لوگ صلح کے جو یا ہیں تو انہوں نے صلح میں ایک رخنہ اندازی کا پروگرام بنایا اور یہ طے کیا کہ رات کو یہاں سے نکل کر چپکے سے مسلمانوں کے کیمپ میں گھس جائیں اور ایسا ہنگامہ برپاکر دیں کہ جنگ کی آگ بھڑک اٹھے۔ پھر انہوں نے اس منصوبہ پر عملدرآمد کی کوشش بھی کی اور رات کی تاریکی میں ستر اسی آدمی وہاں سے نکل کر جبل تنعیم سے اتر کر مسلمانوں کے لشکر کی طرف بڑھے لیکن لشکر اسلام کے پہرے داروں نے ان کو اس سازش میں کامیاب نہ ہونے دیا اور نہایت پھرتی اور چالاکی سے ان کو پکڑ لیا اور گرفتار کے نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش کردیا اور اس کا ذکر اس سورت کی آیت 24 میں کیا گیا ہے پھر اس طرح کے ایک دو ناخوشگوار واقعات اور بھی ہوئے جن کو آپ ﷺ نے برداشت کیا اور حالات کو نہایت دلیری کے ساتھ قابو میں رکھا اور جنگ سے بچنے کے لیے ایک نئی کوشش شروع کردی۔ نبی اعظم و آخر ﷺ نے سیدنا عثمان غنی ؓ کو پیغام دے کر پھر روانہ کیا آپ ﷺ کی نئی کوشش کیا تھی ؟ آپ ﷺ نے قریش کے ان حملہ آور نوجوانوں کو معاف کرتے ہوئے چھوڑ دیا اور اپنی طرف سے اپنے معتمد خاص سیدنا عثمان غنی ؓ کو بطور سفیر قریش کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ قریش پر ایک بار پھر واضح کردیں کہ ہمارا ارادہ لڑائی کا نہیں ہے ہم عمرہ کی نیت سے آئے ہیں ہمیں عمرہ ادا کرنے دو اور مزاحمت نہ کرو۔ سیدنا عثمان غنی ؓ آپ ﷺ کا پیغام لے کر روانہ ہوئے۔ مقام بلدح میں قریش کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچنھا کہ کہاں کا ارادہ ہے ؟ فرمایا مجھے نبی کریم ﷺ نے یہ یہ پیغام دے کر روانہ کیا ہے۔ قریش نے کہا ہم نے آپ کی بات سن کر آپ اپنے کام پر جائیے ادھر سعید بن عاص نے اٹھ کر حضرت عثمان ؓ کو مرحبا کہا اور اپنے گھوڑے پر زین کس کر آپ کو سوار کیا اور اپنے ساتھ لے کر اپنی پناہ میں مکہ لے گیا وہاں پہنچ کر حضرت عثمان ؓ نے سربراہانِ قریش کو رسول اللہ ﷺ کا پیغام سنایا اس سے فارغ ہوچکے تو قریش نے پیش کش کی کہ آپ بیت اللہ کا طواف کرلیں لیکن آپ نے اس کو منظور نہیں کیا اور درست نہ سمجھا کہ نبی کریم ﷺ سے پہلے وہ طواف شروع کرلیں۔ سیدنا عثمان غنی ؓ کی شہادت کی افواہ ، بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی نبی اعظم و آخر ﷺ نے خود حضرت عثمان ؓ کو روانہ کیا تھا مسلمانوں کو آپ ﷺ سے بددل کرنے کے لیے کسی نے ایک نیا شوشہ چھوڑا کہ مکہ والوں نے عثمان ؓ کو قتل کردیا ہے اور یہ افواہ بجلی کی طرح اسلامی لشکر میں پھیل گئی حالانکہ اس کی حقیقت کچھ بھی نہ تھی قریش نے عثمان ؓ کو روکا ہوا تھا تاکہ اتفاق رائے سے کوئی مثبت بات آپ کے ہاتھ بھیجی جائے اس مقصد کے لیے قریش کے سرداروں نے آپس میں بار بار مشورہ کیا تاکہ جو بات وہاں پہنچائی جائے وہ پتھر پر لکیر ثابت ہو اور عثمان ؓ کو ان کے لائے ہوئے پیغام کا واضح جواب دے کر واپس کریں لیکن جب لشکر اسلام میں آپ کی شہادت کی خبر پہنچی تو بےچینی پیدا ہونا یقینی تھا۔ جب آپ ﷺ تک یہ افواہ پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم اس جگہ سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ان لوگوں سے معرکہ آرائی نہ کرلیں اور اس کے بعد آپ ﷺ نے صحابہ کو بیعت کی دعوت دی۔ صحابہ کرام ؓ بیعت کی طرف ٹوٹ پڑے اور یہ بیعت اس بات پر تھی کہ ہم میدان جنگ چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے بلکہ اس جگہ لڑتے لڑتے شہید ہوں گے اور لوگوں میں ایک نیا جذبہ اور ولولہ پیداہو گیا۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ یہ عثمان ؓ کا ہاتھ ہے مطلب یہ تھا کہ اگر عثمان زندہ ہے تو وہ بھی اس میدان میں اس بیعت پر قائم رہے گا لیکن ایک طرف بیعت مکمل ہوئی اور دوسری طرف عثمان ؓ بھی آگئے اور انہوں نے بھی وہاں پہنچ کر بیعت میں حصہ لیا کیونکہ حالات کا ابھی کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اب کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ چونکہ یہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی اس لیے اس کو بیعت الشجرہ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے اور زیادہ تر یہ بیعت بیعت رضوان کے نام سے زیادہ موسوم کی گئی ہے اس کا ذکر اس سورت کی آیت 18 میں آئے گا۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی خدمت میں قریش کا سفیر بھی پہنچ گیا معلوم ہوتا ہے کہ عثمان ؓ قریش کو صلاح و مشورہ ہی میں چھوڑ کر چلے آئے تھے اور بعد میں قریش کا سفیر نبی اعظم و آخر ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جس کا نام سہیل بن عمرو تھا۔ وہ نہایت فصیح وبلیغ مقرر تھا یہی وجہ ہے کہ اس کی باتیں سن کر لوگوں نے اس کو ” خطیب قریش “ کا لقب دیا۔ (زرقانی ج 2 ص 223) چونکہ قریش نے اس سے کہہ دیا تھا کہ صلح صرف اس بات پر ہو سکتی ہے کہ محمد ﷺ اس سال واپس چلے جائیں۔ سہیل نے آ کر دوسری باتیں پہلے کہیں جن باتوں پر دیر تک بات ہوتی رہی اور آخر الکلام اس نے اور مسلمانوں نے چند باتوں پر اتفاق کیا اور آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ آپ اس معاہدہ کو تحریر کریں۔ علی ؓ نے تحریر کرنے کے لیے ہاتھ چلایا تو عنوان قائم کرنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا تو اس پر بحث شروع ہوگئی کیونکہ مکہ کے لوگ تحریرات پر ” باسمک اللہم “ کے الفاظ تحریر کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوانا شروع کیا تا اور یہ بات معلوم ہے کہ مکہ کے لوگ { الرحمن } کے لفظ سے بہت الرجک (Allergic) تھے بہرحال بسم اللہ کو چھوڑ کر باسمک اللہم لکھا گیا پھر یہی بحث من محمد الرسول اللہ کے لفظ پر کھڑی ہوگئی۔ آپ ﷺ نے اس کو بھی ترک کردیا اور من محمد بن عبداللہ تحریر پر لکھا گیا جس نے یہ بات واضح کردی کہ اسلام ہر حال میں صلح کا جو یا ہے اور جنگ صرف اس پر مسلط کی جاتی ہے اور جب وہ ناگزیر ہوجاتی ہے تو میدان جنگ سے بھاگنا اس کے نزدیک کفر کی طرف لوٹنا ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں چونکہ آپ ﷺ نے خود رسول اللہ ﷺ پر لکیر کھینچی تھی اور اپنا نام بھی خود تحریر کیا تھا جیسا کہ بخاری شریف میں ہے جو اس بات پر دال ہے کہ نبوت کے بعد آپ ﷺ کو لکھنا اور پڑھنا دونوں آگئے تھے اگرچہ دوسروں سے تحریر کروانا آپ ﷺ کا معمول زندگی رہا تو اس پر ہمارے ہاں ایک معرکہ کھڑا ہوگیا جس نے لوگوں کو یعنی مسلمانوں کو میدان مبارزت میں لے جا کر کھڑا کر دیا لیکن چونکہ اس کی بحث ہم پیچھے عروۃ الوثقی جلد ہفتم سورة العنکبوت کی آیت 48 میں بیان کر آئے ہیں اگر ضرورت ہو تو وہیں سے اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ بہرحال تحریر مکمل کرلی گئی جس سے مسلمانوں کو وہ کامیابی حاصل ہوئی جس کو اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ” فتح مبین “ سے تعبیر فرمایا اس صلح نامہ کی جو شرائط تھیں ان میں قابل ذکر یہ ہیں جن پر صلح کا انحصار تھا : صلح حدیبیہ کی شرائط جو کفار مکہ اور پیغمبر اسلام ﷺ کے درمیان طے پائیں 1۔ مسلمان اس سال مکہ جائے بغیر اور عمرہ ادا کیے بغیر اس میدان سے واپس چلے جائیں گے۔ 2۔ آئندہ سال مسلمان عمرہ کریں گے لیکن صرف تین دن قیام مکہ میں ہوگا اور تین دن سے زیادہ نہیں رہیں گے۔ 3۔ ہتھیار ساتھ نہیں لائیں گے سوائے تلوار کے۔ تلواریں ساتھ ہوں گی لیکن نیام میں رہیں گی۔ 4۔ جو مسلمان مکہ میں رہنا چاہے وہ رہ سکتا ہے لیکن کسی شخص کو مکہ سے مسلمان واپس اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ 5۔ کافروں یا مکہ کے رہنے والے مسلمانوں میں سے کوئی شخص اگر مدینہ گیا تو وہ واپس کردیا جائے گا لیکن اگر کوئی مسلمان مکہ میں رہنا چاہے تو اسے واپس اپنے ساتھ نہیں لے جایا جائے گا۔ 6۔ قبائل عرب کو اختیار ہو گا کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں معاہدہ میں شریک ہوجائیں اور جس کے ساتھ شریک ہوں گے وہ اسی گروہ کے تسلیم کیے جائیں گے۔ جب صلح مکمل ہوچکی تو بنو خزاعہ رسول اللہ ﷺ کے عہد و پیمان میں داخل ہوگئے اور اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ درحقیقت عبدالمطلب کے زمانے ہی سے بنو ہاشم کے حلیف تھے اس لیے عہد و پیمان میں داخلہ درحقیقت اس قدیم حلف کی تاکید اور پختگی تھی اور دوسری طرف بنوبکر قریش کے عہدو پیمان میں داخل ہوگئے۔ سطحی نظر سے دیکھنے والوں کو آج بھی یہی نظر آئے گا کہ مسلمانوں نے نہایت جھک کر اور دب کر یہ صلح کی لیکن کسی بات کی ظاہری حالت کو دیکھ کر فیصلہ کردینا عقلمندی کی دلیل نہیں اس کی حقیقت کو معلوم کرنے کے لیے اگر صرف چھ سال پیچھے جایا جائے جب خود نبی اعظم و آخر ﷺ نے ہجرت کی تھی اور پھر ان تیرہ سالوں پر ایک نظر دوڑائی جائے جو مسلمانوں نے مکہ می گزارے تھے اور آج اس حالت پر غور کیا جائے کہ وہی مسلمان جو تیرہ سال مکہ میں گزار کر ہجرت پر مجبور ہوگئے تھے اور پھر ہجرت کر جانے کے بعد قریش مکہ نے ان کو ایک دن مدینہ میں آرام و چین سے گزارنے نہ دیا اور دو سال تک تو ان کی ناک میں دم کر رکھا تیسرے سال میدان بدر میں ان کی حیثیت اس قابل ہوئی کہ ان کے وجود کو مشرکین مکہ نے چار و ناچار تسلیم کیا لیکن احد میں مسلمان پھر ایک دفعہ پٹ کر رہ گئے تاہم انہوں نے اپنے ناموس کی حفاظت برقرار رکھی اور ازیں بعد وہ آہستہ آہستہ پَر پرزے نکالنے لگے اور آج بحمد اللہ مکہ کے بالکل قریب پہنچ کر انہوں نے نہ صرف اپنے وجود کو منوایا بلکہ اپنی طاقت و قوت کو قریش کے مقابلہ میں لے آئے اور جو بات آج تک قریش نے تسلیم نہیں کی تھی وہ خود بخود تسلیم کرلی اور مسلمانوں کو آئندہ سال عمرہ کرنے اور دوسرے قبائل کے ساتھ اپنے روابط بڑھانے کا موقع فراہم ہوگیا اور یہ بات ان کو تسلیم ہوگئی کہ مسلمان ہمارے مقابلہ کی ایک طاقت و قوت ہے اور یہ بھی کہ وہ ہمارے ہی خاندان کے افراد ہیں اور ان کو ہمارے برابر آنے کا حق ہے اور مسلمانوں کو اللہ نے موقع دے دیا کہ وہ اپنی طاقت و قوت کو پوری دلجمعی کے ساتھ بحال کریں اور ہر روز کا خطرہ ان کے سروں سے مکمل طور پر ٹل گیا اور اللہ تعالیٰ نے جمع شدہ طاقت کو منتشر ہونے سے بچالیا اور دوسری اقوام عرب کو بھی معلوم ہوگیا کہ اب مسلمان دن دگنی رات چوگنی ترقی کر کی پورے عرب پر اپنی دھاک بٹھا سکیں گے اور مسلمانوں کو جو وقتی تکلیف محسوس ہوئی اس کا مداوا عنقریب ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو اس ایک ہی آیت سے جوڑ دیا کہ فتح بہرحال فتح ہے اگرچہ وہ دب کر یا جھک کر حاصل کی جائے اور تم کو معلوم نہ ہو یا تم کو یاد نہ رہے کہ بار آور ہونے کی نشانی ہی یہ ہے کہ بار آور ہونے والا درخت جھک کر اور دب کر زمین بوس ہوجاتا ہے اور اب تم یقین جانو کہ بحمد اللہ تم بار آور ہوچکے ہو اور آنے والے سال میں جب تم اپنے بار آور ہونے کے پھل چنوں گے تو ساری حقیقت تم پر واضح ہوجائے گی اور اس طرح دب کر اور جھک کر فتح حاصل کرنے کا تم کو اس وقت پورا احساس ہوجائے گا جب ساری دب کر اور جھک کر رہنے والے اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنے پاؤں چل کر تمہارا استقبال کریں گے اور تمہاری تعداد اور قوت میں اچانک اتنا اضافہ ہوگا کہ تم کو اس کا سان و گمان بھی نہیں اور اگر جنگ ہوجاتی تو تم چھ سال مزید پیچھے چلے جاتے خواہ تم میدان مبارزت میں کامیاب ہی ہو کر لوٹتے اور پھر کیا ہوا ؟ جو ہوا وہ دنیا نے دیکھا کہ جس کو بڑے بڑے زیرک شکست تصور کرتے تھے وہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کی قرار دی گئی فتح مبین کو فتح سلیم کرنے لگے۔
Top