تفسیر آیات نمبر 26 ، 27 ، 28 ۔
26 ؎ مذہبی رسوم ادا کرنے کے لیے جانے والے کون تھے ؟ قریش کے وہ افراد تھے جن کو انہوں نے بدمذہب یا لامذہب سمجھ کر مکہ سے نکال دیا۔ وہ جو کچھ بھی تھے ان کی بلا سے جس بات کو وہ بھی مذہبی فریضہ سمجھتے تھے اور وہ بھی جن کو انہوں نے لامذہب قرار دیا پھر اسی فریضہ کے ادا کرنے سے روکنے کے کیا معنی ؟ اس بات کو قرآن کریم نے مکہ والوں کی حمیت قرار دیا ہے اور حمیت ام ہے کد اور ضد کا گویا قوت غضب جب جوش میں آئے اور بہت ہی بڑھ جائے تو حمیت کہلاتی ہے۔ ضد اور ہٹ دھرمی اچھی چیز ہے ؟ ہرگز نہیں لیکن طاقت و قوت نے کبھی اس بات کا خیال نہیں کیا اور پھر جب اس کے ساتھ جہالت بھی مل جائے تو پھر ضد کو مزید چار چاند لگ جاتے ہیں۔ فرمایا ” جب کافروں نے اپنے دلوں میں ضد ٹھان لی اور ضد بھی ایسی جو خالصتاً جاہلیت کی ضد تھی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور ایمانوالوں پر تسکین نازل کردی یعنی انکے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ مکہ والوں نے جو حرکت کی وہ بلاشبہ نازیبا ہے لیکن اس کی اصل وجہ ان کی جہالت ہے اور جاہل کے ساتھ اسی طرح کی ضد کی جائے جس طرح کی وہ کر رہا ہے تو دونوں میں فرق کیا رہا ؟ اس فرق کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جس طرح کی وہ ضد کر رہا ہے اسی طرح کی اس کے ساتھ ضد نہ کی جائے اور اگر ایسا سمجھ لیا جائے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل و کرم کردیا اور جہالت کا جواب جہالت سے نہیں بلکہ علم سے پیش کردیا اور علم کیا ہے ؟ تسکین قلب ہی تو ہے جو ضد اور ہٹ دھرمی کا عکس ہے۔ اس لیے اللہ نے بہت مہربانی فرمائی کہ اہل ایمان کو تقویٰ پر جمے رہنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائی اس طرح گویا اہل حق نے حق کا ساتھ دیا اور ایسا ہی ہونا ضروری تھا اور اس بات کے وہ اہل تھے اور اللہ تعالیٰ دونوں فریقوں کی حالت کو خوب جاننے والا ہے اور اس کے علم میں ہے کہ کون ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے رہا ہے اور کون علم و فکر کا ساتھ دے رہا ہے۔ ورنہ جس طرح کفار مکہ نے ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ہم مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی عمرہ اور حج کے مراسم ادا کرنے دیں گے اور نہ ہی ان کی قربانیاں قربان گاہ تک پہنچنے دیں گے اس طرح اگر مسلمان بھی بضد ہوجاتے کہ ہم حج وعمرہ کی غرض سے آئے ہیں جس کی صاف علامت موجود ہے کہ ہم نے احرام باندھ رکھے ہیں اور قربانی کے جانوروں کے گلوں میں قلادے پہنا رکھے ہیں لہٰذا ہم عمرہ اور حج کی سعادت کو چھوڑ کر واپس نہیں جائیں گے کیونکہ ایسا کرنے سے عرب ہم کو طعنہ دیں گے کہ مسلمان اپنی طاقت کے بل بوتے پر آئے تھے اور ان کی ہوا نکل گئی اور وہ بغیر حج وعمرہ کیے واپس چلے گئے مسلمانوں نے اس طرح کے طعنہ دینے والوں کے طعنوں کی کوئی پروا نہ کی اس بات کو قرآن کریم نے { کلمۃ التقوی } قرار دیا اور مکہ والوں کی ضد کو { الحمیۃ حمیۃ الجاہلیۃ } سے تعبیر فرمایا اور اس طرح جاہلوں کی جہالت اور عالموں کے علم کی پوری پوری وضاحت کردی تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس بات کو اچھی طرح یاد رکھیں کہ جاہلیت کی ضد اور پرہیزگاری کے کلمہ میں کیا فرض ہے ؟ اور یہ بھی کہ جب کوئی جہالت کا مظاہرہ کرے تو علم کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ بھی جہالت کی ضد کے مقابلہ میں ویسے ہی ضد یا اس سے بھی بڑھ کر ضد شروع کر دے اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ بھی اسی طرح کا جاہل ہوگا۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آج اپنے معاشرہ کا تجزیہ کر کے دیکھیں کہ کہیں علم کی بات بھی آپ کو نظر آتی ہے ؟ کیا ہر طرف جاہلیت ہی کی ضد کا دور دورہ نہیں ؟ دیانت و امانت کے ساتھ اپنے اردگرد کا مطالعہ کریں ، سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کو دیکھیں ، مذہبی راہنماؤں کی حالت پر غور کریں۔ اسلامی مکاتب فکرکے قائدین و راہنماؤں کو دیکھیں۔ پیشواؤں ، مرشدوں ، مفتیوں اور عالموں پر نظر کریں اور بتائیں کہ کہیں کوئی ایسا نظر آتا ہے جو اس حمیت جاہلیت سے بچا ہو۔ پھر غور کرو کہ { حمیۃ الجاہلیۃ } کیا ہے ؟ سراسر کفر ہے پھر اس کفر سے کون بچا ہے ؟ وہاں تو کفر اور اسلام کا مقابلہ تھا ہمارے ملک عزیز میں سپاہ محمد اور سپاہ صحابہ کا مقابلہ ہے۔ دیوبندی اور بریلوی کا مقابلہ ہے۔ شیعہ اور سنی کا مقابلہ ہے اور اگر مزید غور کرو گے تو شیعہ شیعہ کا ، سنی سنی کا ، دیوبندی دیوبندی کا ، بریلوی بریلوی کا اور اہل حدیث اہل حدیث کا آپس میں مقابلہ ہے۔ یہ چند نام میں نے گنوائے ہیں اور بیسیوں کو چھوڑ دیا ہے جن کو آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی جانتے ہیں۔ وہاں چونکہ کفر و اسلام کا مقابلہ تھا اس لیے جب کفر نے جاہلیت کا مظاہرہ کیا تو اسلام سنبھال گیا اور اس نے مسلمان کو باور کرایا کہ وہ کافر تھے اس لیے انہوں نے کفر و جہالت دونوں کا مظاہرہ کیا تم مسلمانوں اور فرمانبردار لوگوں کا ایک گروہ ہو اس لیے تم کو جہالت کا نہیں علم و فضل اور دیانت و امانت کا مظاہرہ کرنا ہے اس لیے برداشت کرلو۔ جس کی رضا کے لیے تم نکلے تھے کہ اس کی رضا حاصل کرنے کیلئے حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کریں تم یہاں تک اس جذبہ سے سرشار پہنچ گئے اب آگے بڑھنے سے کفر اور جہالت مانع ہے اور اسلام کفر اور جہالت کے مظاہرہ سے مسلمانوں کو روکتا ہے اور سلامتی کا درس دیتا ہے۔ پھر ثواب دینے والا تمہاری نیتوں سے خوب واقف ہے تم اس جگہ اپنی قربانیاں کرو اور اسی جگہ سر کو منڈا دو تمہارا عمرہ اور حج منظور ہوں گے اور تم کو اجر وثواب پورا ملے گا اور دنیا میں جہالت کے مقابلہ میں علم کا مظاہرہ کرکے علم کا بول بولا کرو یہی تقویٰ اور یہی پرہیزگاری ہے۔ مسلمانوں نے اس بات کو قبول کرلیا اور اللہ نے ان کی نصرت اور مدد کا اعلان فرما دیا کیونکہ یہ دونوں فریقوں کے دلوں کے رازوں سے خوب واقف تھا اور اب بھی ہماری گروہ بندیوں اور سارے مذہبی پیشواؤں اور سی اس لیڈروں کے دلوں سے وہ اسی طرح واقف ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ سارے کے سارے جاہل ، ضدی اور ہٹ دھرم ہیں اور اپنی جہالت ہی کی باعث اپنے اپنے ناموں کے ساتھ سابقے اور لاحقے ملا کر انہوں نے بڑے بڑے نام بنا رکھے ہیں علم کی ان کو ہوا بھی نہیں لگی اور نہ ہی جہالت اور علم کبھی اکٹھے ہوئے ہیں۔
نبی اعظم و آخر ﷺ نے جو خواب دیکھا تھا وہ لاریب حق تھا جو من و عن پورا ہوا
27 ؎ نبی اعظم و آخر ﷺ نبوت کے بعد تقریباً تیرہ سال مکہ میں رہے اور نبوت کے پہلے تین سال چھوڑ کر باقی دس سالوں میں مخالفت بھی زوروں پر رہی لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ اپنا زیادہ وقت بیت اللہ ہی میں گزارتے رہے۔ صلوٰۃ موقت اگرچہ ابھی فرض نہ تھی تاہم فطری طریقہ پر نماز میں وقت گزارتے۔ بیت اللہ کی دیواروں کے سائے میں بھتے اور اپنے غم غلط کرنے کے لیے بیت اللہ ہی کو اختیار کرتے اگرچہ آپ مخصوص مجالس بیت اللہ میں نہ کرسکتے تھے بہرحال جب مکہ سے ہجرت کی تو اس وقت بھی مکہ سے نکلتے وقت آپ ﷺ نے اپنی کسی چیز کا غم نہیں کیا ، جو غم تھا وہ بیت اللہ ہی کو چھوڑنے کا تھا باقی سب غموم و ہموم ضمنی تھے۔ آپ ﷺ نے عین ہجرت کے لیے نکلتیوقت بھی مکہ سے باہرآ کر جو بات کہی تھی وہ بھی یہی تھی کہ ” بیت اللہ تجھے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا لیکن تیرے رہنے والوں نے مجھے یہاں رہنے سے باز رکھا “ جس انسان کے دل میں کسی چیز کی اتنی محبت موجود ہو اور وہ مسلسل چھ سال تک اس سے دور رکھا جائے اور اس پر پابندی لگا دی جائے کہ تو اس کی زیارت بھی نہیں کرسکتا تو اس کے لیے اس سے زیادہ قلق اور کیا ہو سکتا ہے ؟ بہرحال مہاجرین و انصار کے دلوں میں بیت اللہ کو دیکھنے کا شوق ضرور تھا لیکن حالات اجازت نہ دیتے تھے کہ پابندی عائد تھی اور مکہ والے اس پابندی کو اٹھانے کیل یے تیار بھی نہ تھے۔ جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے اندر ہجرت کے چھٹے سال ایک خواب دیکھا ، اس خواب کا ذکر زیرنظر آیت میں بھی کیا گیا ہے کہ جو رویا صادقہ نبی کریم ﷺ نے دیکھن تو وہ اللہ نے پورا کردیا رہی یہ بات کہ وہ رویا صادقہ کیا تھا ؟ فرمایا وہ رویا یہ تھا کہ ” ان شاء اللہ تم مسجد حرام میں امن وامان سے داخل ہو گے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بال کترواتے ہوئے ، تم کو کسی بات کا خوف نہیں ہوگا ، بلریب اللہ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے اور اس کے علاوہ ایک اور فتح بھی جلدی ہی عطا فرمائی جائے گی “ خواب سے جب آپ ﷺ بیدار ہوئے تو آپ ﷺ مکمل طور پر مطمئن تھے کہ بحمد اللہ اب وقت آگیا کہ ہم بخیریت بیت الہل کی زیارت کریں۔ آپ ﷺ نے یہ خواب صحابہ کرام ؓ کو بھی بتایا پھر کیا تھا کہ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں لوٹ آئیں اور لوگوں کے سارے غم گویا غلط ہوگئے۔ ذی قعدہ آنے والا تھا جو حرمت کے مہینوں میں سے ایک مہینہ تھا اور اس کے بعد مسلسل دو ماہ مزید حرمت کے تھے اور اس حرکت کے مکہ والے اور دوسرے عرب بھی قائل تھے۔ آپ ﷺ نے رخت سفر اور قربانی کا انتظام کیا اور ذی قعدہ 6 ھ میں حج وعمرہ کی غرض سے مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ کے ساتھ چودہ پندرہ سو لوگوں کا قابلہ بھی تھا۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر جو مدینہ والوں کا میقات تھا عمرہ کی نیت سے سب لوگوں نے احرام باندھا قربانی کے جانوروں کے گلوں میں قلاوہ پہنائے تاکہ سب لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ لوگ مکہ میں بیت اللہ کی زیارت کو جا رہے ہیں اور یہ دونوں علامتیں اسلام سے قبلہی مکہ والوں میں بطور علامت مروج تھیں۔ بہرحال یہ قافلہ جب مکہ کے قریب پہنچا اور مکہ والوں کو خبر دی گئی کہ مسلمان اس سالع مرہ اور حج کے لیے آ رہے ہیں تو مکہ والوں کی جہالت آڑے آئی اور انہوں نے آپس میں باقاعدہ مشورہ کر کے اپنے مشورہ سے مسلمانوں کو آگاہ کردیا جب کہ آپ ﷺ نے اپنے قافلہ کو پہلے حدیبیہ میں رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔ فریقین میں گفت و شنید ہوتی رہی ، حدیبیہ میں مسلمان احرام کی حالت میں موجود تھے اور ادھر مکہ کا لشکر مسلمانوں کو روکنے کے لیے مکہ کے قریب موجود تھا کہ اگر مسلمان مکہ میں داخل ہونے کی کوشش کریں تو ان کو سختی سے روکا جاسکے۔ سفارت کے آنے جانے میں بہرحال وقت خرچ ہوتا ہے۔ حدیبیہ میں آپ ﷺ کا کئی روز قیام رہام لیکن مکہ کے کفار نے اپنی جہالت کا مظاہرہ برابر جاری رکھا اور انجام کار یہ طے پایا کہ مسلمانوں کو اس سال مکہ میں داخلہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی البتہ آئندہ سال ان کی مزاحمت نہیں ہوگی اور ان کو اجازت ہوگی کہ وہ بیت اللہ کی زیارت کریں۔ اس کے ساتھ مزید شرائط بھی تھیں جن کو مسلمانوں نے دب کر اور جھک کر صلح کرنے سے تعبیر کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس معاہدہ کو فتح مبین قرار دیا اور ساتھ ہی وحی الٰہی نے مکمل طور پر مکہ فتح ہوجانے کی بشارت بھی سنا دی اور مسلمانوں کو اس تاخیر کے اچھے نتائج کی طرف بھی اشارہ دے دیا کہ جو کچھ اللہ جانتا ہے تم لوگ نہیں جانتے کہ اس معاہدہ کے اندر تمہارے لیے کیا کیا بھلائیاں رکھ دی ہیں کیونکہ تمہارے مشاہدہ میں وہ نہیں ہیں اس لیے تم بددل نظر آتے ہو جوں جوں وقت گزرے گا اور تم کو مشاہدہ ہوگا تم خود تسلیم کرتے جاؤ گے۔ اور اس بات کی تاریخ آج تک گواہ ہے کہ فی الواقع جو اللہ تعالیٰ نے زیرنظر آیت میں اشارہ دیا اس پر کوئی بات پوشیدہ نہیں رہے گی کہ اہل مکہ کے ساتھ معاہدہ ہونے میں نبی رحمت ﷺ نے دوسری قوموں کو سبق سکھانے کے لیے کیا کیا اقدام کیے اور ان کے نتائج کیا رہے اور مسلمنو کو چھ سال تک مسلسل پریشان کرنے والوں کا انجام کیا رہا اور فتوحاتِ اسلام کا دروازہ کس طرح کھول دیا گیا اور مسلمانوں کی بڑی بڑی اقوام پر کس طرح دھاک بیٹھ گئی اور اسلام کی یہ خصوصیت کہ ” یہ اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ دبایا جائے گا “ کس طرح واضح ہوگئی۔ حدیبیہ میں جس چیز کو دب کر اور جھک کر صلح کرنے سے مسلمانوں نے تعبیر کیا تھا اور نہایت بددلی کا اظہار کیا ان پر کس طرح روشن ہوگیا کہ یہ دبنا اور جھکنا مزید ابھرنے کے لیے تھا نہ کہ کسی بزدلی کے مظاہرہ کے لیے اور اس فتح مبین کے بعد وہ فتح جو فتح عظیم یعنی مکہ کا فتح ہوجانا تھا کتنا بڑا کام تھا جو خصوصاً اس وقت ہوا جب دوسری اقوام عالم میں بھی مسلمانوں کے خلاف اٹھنے کی ہمت نہ رہی اور جہاں سے بھی کس ینے ذرا سر اٹھایا اسلام کے باز اور شکرے کس طرح اس کے شکار میں نکلے اور پھر کس طرح ان کو شکار کیا گیا تاریخ کا یہ سنہری باب آج بھی کوئی شخص پڑھ کر دیکھے تو وہ حیران و ششدر ہوگا کہ مسلمان قوم پر کیسا دور گزرا اور انہوں نے عین فتوحات کے دوران کن کن اخلاق کا مظاہرہ کیا اور کس حسن سلوک کی داغ بیل ڈالی لیکن افسوس کہ آج وہی مسلم قوم جس کے آباء و اجداد نے یہ کارہائے نمایاں کر کے دکھائے اور دنیا والوں کو اپنی طاقت و قوت کا لوہامنوایا تھا آج کس طرح دنیا کے منہ پر ذلیل و خوار ہیں۔ اے اللہ ! اے رب کریم ہم مسلمانوں کو اس ذلالت و خواری سے باہر نکال دے تجھے تیری جلالت و قہاری کا واسطہ ہم پر رحم فرما اور ہم کو قومی زندگی عطا فرما دے۔ اے اللہ ! ہماری دعا قبول فرما۔
اللہ نے اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کو اس لیے بھیجا ہے کہ وہ دین اسلام کو غالب کر
اللہ تعالیٰ نے جب سے انسان کو دنیا میں بھیجا اس وقت سے نسل انسانی کے لیے ایک اور صرف ایک دین پسند کیا اور وہ وہی دین ہے جس کو اسلام کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ انسان نے ہمیشہ شیطان کی پیروی و فرمانبرداری میں اس دین کو بدلنے کی کوشش کی نہ تو اس نام کو پسند کیا اور نہ ہی اس کی حدود کی حفاظت۔ اللہ تعالیٰ نے اس غرض کے لیے انبیاء و رسل کا سلسلہ جاری کیا اور ہر نبی و رسول نے آ کر اسلام کے اصولوں کی دعوت دی اور اسی دین کی طرف لوگوں کو بلایا۔ انسانوں نے اپنی ہی قوم کے ان انبیوں اور رسولوں کی مخالفت کی اور ان کی دعوت کو قبول نہ کیا بلکہ روگردانی کی اور ایک مدت تک یہی صورت حال قائم رہی اور قوم نے جب حالات کو زیادہ ہی خراب کردیا اور نبی و رسول کے وجود کو برداشت نہ کیا تو اللہ نے اپنے نبی و رسول کی مدد و نصرت فرماتے ہوئے اس قوم کو تباہ و برباد کردیا اور بچے تو صرف وہی لوگ بچے جو نبی و رسول کا ساتھ دینے والے تھے۔ پھر ان لوگوں کی نسل کا سلسلہ چلا تو وہی پھڈا انہوں نے ڈال دیا۔ اللہ نے پھر نبی و رسول بھیجا اور اس نے آ کر اپنے نبی و رسول کی دعوت کو من و عن پیش کیا لیکن قوم نے وہی کچھ کیا جو گزشتہ لوگ کرچکے تھے اور انجام بھی وہی ہوا جو گزشتہ قوم کا ہوا تھا اور یہ سلسلہ بدستور اسی طرح چلتا رہا تا آنکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی و رسول محمد رسول اللہ ﷺ بھیج دیا اور آپ ﷺ کی آمد کو پوری دنیا کے لیے لازم قرار دے دیا گویا اب آپ کی رسالت دنیا کی ساری اقوام کے لیے یکساں ہے اور آپ کے بعد کوئی نیا اور پرانا رسول نہیں آئے گا اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی کتاب قرآن کریم کے علاوہ دنیا میں ہدایت کی اور کوئی کتاب نہیں آئے گی اس لیے آپ ﷺ کی رسالت کا اصل (Main) مقصد بھی یہ قرار دیا کہ آپ ﷺ اس دین اسلام کو جس کے لیے سارے نبی و رسول بھیجے گئے تھے غالب کردیں اور اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے۔ یہ مقصد آپ ﷺ کی زندگی میں حاصل ہوگیا کہ آپ ﷺ کی دعوت نے اللہ کے حکم سے مکہ سے سر نکالا مخالفین نے اس کا سر کو ٹنے کے سارے حربے اختیار کیے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام کو اٹھا کر مکہ سے باہر نکال دیا لیکن پیغمبر ﷺ نے اپنا کام جاری رکھا اور پھر وہ مرحلہ آیا کہ اس کی زندگی کو لمبا کرنے کے لیے بدر میں ایک نئی زندگی عطا کی اور پھر وہ وقت آیا کہ اس زندگی کو میدان حدیبیہ میں مزید تقویت دے کر فتح مبین عطا کی اور مکہ والوں کے ساتھ صلح کرا کر ایک طرف سے اسلام کو مطمئن کردیا اور حنین و تبوک کے بعد گویا پوری دنیا میں فتح و نصرت کے دروازے کھول دیئے اور آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد پورا ہوگیا اور وہ دین جو بار بار پٹ رہا تھا اس کو نہایت قلیل مدت میں سر بلندو سرفراز فرمایا اور { لیظہرہ علی الدین کلہ } کی حقیقی صورت واضح ہوگئی جس کا اپنوں اور بیگانوں سب نے اعتراف کیا اور آج تک اعتراف کرتے چلے آ رہے ہیں ، قیامت تک اس کا اعتراف ہوتا رہے گا کہ وہ دور جو اسلام پر آیا تھا فی الحقیقت ایسا ہی دور تھا کہ صائبیت ، یہودیت ، عیسائیت جو دنیا کے بڑے بڑے مذاہب میں شمار ہوتے تھے ، سب پٹ گئے اور اسلم کا دور دورہ شروع ہوگیا و پوری دنیا کا اصل دین تھا وہ ظاہر ہو گای۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ یہی کہ جو دین تمام دنیا کے ادیان کی اصل و بنیاد تھا یعنی اسلام اور جس کی دعوت لے کر دنیا کے سارے انبیاء و رسل آئے تھے اسی دین سے اقوام عالم نے بیزاری کا اظہار کردیا اور وہ دین اپنی اصل ہیئت اور اپنے اصل نام کے ساتھ باقی رہا تو وہ صرف اور صرف قوم مسلم کے لیے رہ گیا۔ اب فی زماننا ہماری حالت جو کچھ بھی ہے سب کو معلوم ہے تاہم ہم اسلام کے نام پر مر مٹنے کے لیے تیار ہیں اگرچہ ہمارے پاس بھی فقط نام ہی نام رہ گیا ہے ، کام ہمارے بھی وہی ہیں جو دوسری اقوام عالم کے ہیں تاہم ہم اس نام پر دوسری اقوام عالم میں شناخت کیے جاتے ہیں اور ہمارا یہ نام محض دوسری اقوام عالم کے وجود سے قائم ہے ورنہ ہم اندرونف اسلام ، اسلام کی بجائے دوسرے فرقہ بندی کے ناموں ہی کو پسند کرتے ہیں اور اسلام کے نام سے شناخت دوسری اقوام عالم کی مرہون منت رہ گئی ہے اور ہم دوسرے فرقہ بندی کے ناموں ہی کو پسند کرتے ہیں اور اسلام کے نام سے شناخت دوسری اقوام عالم کی مرہون منت رہ گئی ہے اور ہم دوسری اقوام عالم میں اسی نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں اور آپس میں ہماری شناخت اسلام کے نام پر نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ اور دوسرے گروہوں کی طرح دیوبندی ، بریلوی ، اہلحدیث ، اہل سنت ، اہل تشیع اور اسی طرح دوسری بہت سی شناختوں سے شناخت کیے جاتے ہیں اور انہی شناختوں کو ہم اسلام پر ترجیح دیتے ہیں۔ اگر دوسری اقوام عالم آج ہم کو اسلام کے نام سے موسوم نہ کرتیں تو معلوم نہیں کہ ہماری حالت کیا ہوتی ؟ ذراغور کرو کہ اہل اسلام کی شناخت کے لیے جو روز اول سے بات لازم و ضروری ٹھہرائی گئی وہ کیا تھی ؟ یہی کہ سارے اہل اسلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی توحید و الوہیت کا اقرار ، روزِ جزا و سزا کا اقرار ، وحی الٰہی اور نبیوں و رسولوں کا اقرار ، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی وحی یعنی کتب آسمانی کا اقرار ، ایک مرکز ہونے کا اقرار اصل بنیاد تھا اور آج بھی پوری انسانیت کے لیے وہ بدستور اپنی اصلی حالت پر قائم ہے اور سب ادیان ان کو اصل بنیاد کے طور پر مانتے اور تسلیم کرتے ہیں لیکن ان میں جو بات غیر مشترک ہے وہ صرف اور صرف مرکز ہے کہ مرکز ایک نہ رہا بلکہ بہت سے مراکز بن گئے۔ اہل اسلام نے جو اہل کتاب کے مرکز کو مرکز مانا تھا اللہ ربِّ ذوالجلال والا کرام نے ان کو بتا دیا کہ یہ مرکز اور اس کے ساتھ دوسرے مراکز جن کو قومیں اپنا اپنا مرکز تسلیم کرتی ان سب میں دنیا کا اول مرکز بیت اللہ تھا اور ہم تم کو اسی مرکز کی طرف راہنمائی کرتے ہیں کہ جب تم نے ال دین اسلام کی دعوت جاری کی ہے تو اسلام کے اصل مرکز کو بھی بطور ایک مرکز تسلیم کرلو اور اسی کی طرف منہ کرکے صلوٰۃ ادا کیا کرو اور اسی مرکز کو اصل اور حققی مرکز سمجھو۔ اب غور کرو کہ مسلمان قوم دنیا کے کسی خطہ میں آباد ہو وہ کعبہ ہی کو بطور قبلہ مانتی اور تسلیم کرتی ہے اور اسی کی طرف منہ کر کے صلوٰۃ ادا کرتی ہے لیکن اس کو تسلیم کرنے کے باوجود ہم ایک مرکز کے ساتھ وابستہ نہیں رہے بلکہ ہمارے اندر وہی گروہ اور فرقہ بندی کے مراکز قائم کردیئے گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اسی مرکز کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے جو اسلام کے اندر رہ کر اسلام کے ساتھ دغا اور فریب کی نشاندہی کرتا ہے اور اصل مرکز کے ساتھ صرف چند رسومات کی وابستگی باقی رہ گئی ہے اگرچہ جہالت نے اس کو توڑنا شروع کردیا ہے اور اس وقت کئی ایک درباروں اور خانقاہوں پر باقاعدہ مراسم حج ادا کی جانے لگی ہیں اور حج پڑھا جانے لگا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھ کی توفیق دے اور یہ عقل کے ناخن لیں اور ایسی قباحتوں سے باز آئیں۔ حکومت کو جو اسلام کا نام استعمال کر کے برسراقتدار آتی ہے اس نام کی لاج رکھتے ہوئے اس کی اصلاح کی سختی کے ساتھ سعی و کوشش کرے۔ اگر یہ کام نہ کیا گیا تو دیکھتے ہی دیکھتے کچھ کا کچھ ہوجائے گا جس کے نتائج بہت ہی برے ہوں گے۔
بہرحال نبی اعظم و آخر ﷺ کی بعثت کا اصل مقصد جس طرح زیرنظر آیت میں واضح کیا گیا اسی طرح اس سے بقل سورة التوبہ کی آیت 33 , 32 میں بھی واضح کیا گیا ہے اگر آپ لوگ اس مقام کے ساتھ عروۃ الوثقی کی جلد چہارم سے سورة التوبہ کی آیت 33 , 32 کی تفسیر بھی ایک نظر دیکھ لیں تو اس کی مزید وضاحت ہوجائے گی اور بات کی سمجھ آئے گی کہ اسلام کے اصل مرکز کے ایک ہونے میں کیا کیا حکمتیں اور کیا کیا خوبیاں پنہاں ہیں جن کو آج ہم نے بالکل بھلا دیا ہے اور ہم غیروں کے بنائے ہوئے مراکز سے وابستہ ہو کر کس مصیبت میں مبتلا ہوچکے ہیں اور مسلمانوں نے جو اقوام متحدہ (United Nations) اور اس کے ذیلی اداروں کے ساتھ وابستگی اختیار کی ہے اس کے کیا کیا نقصانات معرض وجود میں آ چکے ہیں اور ابھی کیا کیا معرض وجود میں آئیں گے اور خصوصاً غیر قوموں نے جو ویٹو (VETO: Power of rejecting stopping) کا حق منوایا ہے اس نے اہل اسلام کے لیے کیا پریشانیاں جنم دیں ہیں اور خصوصاً یہ حق مسلمانوں نے مان کر اپنے لیے کیا مشکلات پیدا کی ہیں اور ان اداروں کی وابستگی نے ان کو اپنے اصل مرکز سے کس قدر دور کردیا ہے اور یہ بھی کہ مرکز ایک ہونے کی کیا کیا خوبیاں ہیں اور جب مرکز کا کنٹرول غیروں کے قبضہ میں چلا جائے تو کیا ہوتا ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کی طرف ہماری قوم کے مذہبی اور سیاسی لیڈروں نے بہت کم دھیان دیا ہے اور جس طرح اس کو نظر انداز کردیا گیا ہے اگر صورت حال یہی رہی تو اہل اسلام کن کن مصائب سے دوچار ہو سکتے ہیں ، کن کن کے ساتھ دوچار ہوچکے ہیں اور کن کن کے ساتھ ہو رہے ہیں اور یہ کہ اس سلسلہ میں اگر کوئی مثبت قدم نہ اٹھایا گیا تو اس کے نتائج کیا ہوں گے ؟ ذمہ دار لوگوں کو ان سوالوں پر غورو فکر کرنا اور ان کے لیے تدارک کرنا اور اپنے مرکز کو مضبوط بنانے کی جتنی ضرورت اس وقت ہے شاید ہی اس سے پہلے کبھی ہوئی ہو۔ خلافت عثمانیہ جیسی کیسی بھی تھی اہل اسلام نے جب سے اس کی وابستگی کو ترک کیا ہے بلکہ ان سے اس وابستگی کو ترک کرایا گیا ہے اکور اس کے ساتھ ہی اقوام متدہ کی داغ بیل ڈال کر اس کے ساتھ وابستگیا ختیار کرائی گئی ہے اور مسلم مملکت کو مختلف مملکتوں میں تقسیم کر کے ان سے ایک مرکز چھین لیا گیا ہے اسس کے اثرات بہت دور رس نکل چکے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے یہ کام کیا وہ مکمل طور پر مطمئن ہیں کہ : جو کچھ انہوں نے کیا اور سوچا وہ بالکل صحیح اور درست تھا کہ اس سے صال مقصد اسلام کو کمزور کرنا تھا اور وہ اس سے جتنا مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے ان کو اس سے زیادہ حاصل ہوچکا اور وہ اسلام کو جتنا کمزور دیکھناچاہتے تھے اسلام اس سے بھی زیادہ کمزور ہوچکا۔ اللہ تعالیٰ مسلم راہنماؤں کو اس کی توفیق دے کہ وہ اپنے مرکز کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وابستگی اختار کریں اور اس معاملہ میں مرکز پر بیٹھنے والے جو کوتاہیاں کر رہے ہیں ان کو ان کوتاہیوں سے آگاہ کریں اور متحدہ اقوام کی بجائے اتحاد قوم و ملت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش کریں اور بیت اللہ کو اسلام کا مرکز بنانے ، تسلیم کرنے اور تسلیم کرانے کی پالیسی پر گامزن ہوں اور اچھی طرح سمجھ لیں کہ جس قوم کا مرکز کمزور ہو وہ قوم دنیا میں کبھی طاقتور نہیں ہو سکتی اور ہماری کمزوری کی اصل وجہ ہی یہ ہے کہ ہمارا مرکز کمزور ہوچکا ہے اور ہماری وابستگی اس سے بہت ہی کمزور (Weak) ہے اس لیے کہ مرکز صرف مذہبی رسومات کی ادائیر کے لیے نہیں ہوتا اس کے فوائد بہت وسیع ہوتے ہیں اور اس کے مقاصد بہت وسیع ہیں جس کی ظاہری علامت { لیظہرہ علی الدین کلہ } قرار دی گئی ہے۔ اس جگہ دین بمعنی قانون ہے اور قانون کے اندر جو طاقت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں لیکن افسوس کہ ہم نے رسومات کو اصل دین تصور کرلیا اور دین کے معنی قانون ہم کو یاد ہی نہ رہے۔ اے اللہ ہم کو حقیقت کے سمجھنے اور تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں صراط مستقیم پر گامزن فرما دے۔ اے اللہ ! ہمیں ان سارے مراکز سے ہٹا کر اس ایک مرکز کے ساتھ وابستہ ہونے کی توفیق عطا فرما دے۔ اے اللہ ! تجھے ترمی ذات کا واسطہ ہمیں اس فرقہ پرستی کی لعنت سے بچا۔ اے اللہ ! ہماری دعا قبول فرما۔ اے اللہ ! اپنی شہادت نافذ فرما دے۔