Urwatul-Wusqaa - Al-Fath : 29
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١٘ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ١ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ١ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ١ۛ۫ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ١ؕ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠   ۧ
مُحَمَّدٌ : محمد رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے رسول وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مَعَهٗٓ : ان کے ساتھ اَشِدَّآءُ : بڑے سخت عَلَي الْكُفَّارِ : کافروں پر رُحَمَآءُ : رحم دل بَيْنَهُمْ : آپس میں تَرٰىهُمْ : تو انہیں دیکھے گا رُكَّعًا : رکوع کرتے سُجَّدًا : سجدہ ریز ہوتے يَّبْتَغُوْنَ : وہ تلاش کرتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے، کا وَرِضْوَانًا ۡ : اور رضا مندی سِيْمَاهُمْ : ان کی علامت فِيْ وُجُوْهِهِمْ : ان کے چہروں میں مِّنْ : سے اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ : سجدوں کا اثر ذٰلِكَ : یہ مَثَلُهُمْ : انکی مثال (صفت) فِي التَّوْرٰىةِ : توریت میں وَمَثَلُهُمْ : اور انکی مثال (صفت) فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ : انجیل میں كَزَرْعٍ : جیسے ایک کھیتی اَخْرَجَ : اس نے نکالی شَطْئَهٗ : اپنی سوئی فَاٰزَرَهٗ : پھر اسے قوی کیا فَاسْتَغْلَظَ : پھر وہ موٹی ہوئی فَاسْتَوٰى : پھر وہ کھڑی ہوگئی عَلٰي سُوْقِهٖ : اپنی جڑ (نال) پر يُعْجِبُ : وہ بھلی لگتی ہے الزُّرَّاعَ : کسان (جمع) لِيَغِيْظَ : تاکہ غصہ میں لائے بِهِمُ : ان سے الْكُفَّارَ ۭ : کافروں وَعَدَ اللّٰهُ : وعدہ کیا اللہ نے الَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے اعمال کئے الصّٰلِحٰتِ : اچھے مِنْهُمْ : ان میں سے مَّغْفِرَةً : مغفرت وَّاَجْرًا عَظِيْمًا : اور اجر عظیم
محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ ﷺ کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں (برداشت میں) سخت ہیں آپس میں رحمدل ، تو دیکھتا ہے کہ وہ رکوع میں (کبھی) سجدے میں ہوتے ہیں وہ اللہ سے اس کے فضل اور رضامندی کے طلب گار ہیں ان کی علامت ان کے چہروں پر نمایاں ہے جو سجدوں کا اثر ہے ان کی تعریف توراۃ میں اور ان کے اوصاف انجیل میں ہیں ان کی مثال ایک کھیتی کی مانند ہے کہ اس نے انگوری نکالی پھر وہ مضبوط ہوگئی اور موٹی ہوگئی پھر اپنے بل پر کھڑی ہوگئی وہ کاشتکاروں کو بھی بھلی معلوم ہونے لگی تاکہ کافروں کا جی جلے اللہ نے ان (لوگوں) سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ہیں مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے
(2) نبی اعظم و آخر ﷺ قبل از نبوت بھی شرم و حیا کا پیکر تھے بچہ بچہ ہی ہوتا ہے خواہ وہ نبی و رسول ہو یا کوئی دوسرا بچہ لیکن بچپن کے بھی کئی حصے ہوتے ہیں کیونکہ عرف عام میں پیدائش سے لے کر بلوغت تک بچہ معصوم ہی کہلاتا ہے آپ ﷺ کی زندگی قبل از بلوغت بھی دوسرے بچوں سے امتیاز رکھتی تھی چناچہ احادیث میں ہے کہ : ان رسول اللہ ﷺ کان ینقل معھم الھجارۃ للکعبۃ وعلیہ ازارہ فقال لہ العباس عمہ یا ابن اخی لو حللت ازار ک فحعلتہ علی منکبیک دون الحجارۃ قال فحلہ فحعلہ علی منکبیہ فسقط مغشیا علیہ فماروی بعد ذلک عریانا (بخاری و مسلم) آپ ﷺ کے بچپن کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ خانہ کعبہ کی تعمیر شروع تھی اور لوگ پتھر لا رہے تھے اور دیواریں چنی جارہی تھیں آپ ﷺ نے بھی اپنے کندھوں پر پتھر رکھ کر لانا شروع کردیئے آپ ﷺ کے چچا عباس ؓ نے دیکھا تو کہا کہ بیٹے اپنا ازار اتار کرک ندھے پر رکھ لو تاکہ کندھا زخمی نہ ہوجائے یونہی آپ ﷺ نے ایسا کیا تو آپ ﷺ پر غشی طارف ہوگئی اور جو نہی آپ ﷺ کو ہوش آیا تو میرا تہبند ، میرا تہبند کہنا شروع کردیا یہاں تک کہ وہ ازار آپ ﷺ کو پہنا دیا گیا “ حالانکہ ازار کے اوپر آپ ﷺ نے کرتہ بھی پہن رکھا تھا جیسا کہ اس کی وضاحت میں کہا گیا ہے اور عربوں میں اس کا رواج بھی موجود تھا یہ بات آپ ﷺ کی فطری حیا پر دال ہے اور آپ ﷺ کا بچپن دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود ، بچپن کی آوارگی میں ہرگز نہیں گزرا باوجود اس کے کہ آپ ﷺ نے بچپن میں بکریاں چرائی ہیں اور چرواہوں کی حالت کسی سے مخفی نہیں ہے چناچہ امام نووی (رح) نے اس کی وضاحت مسلم شریف جلد اولص 155 میں اور حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری پارہ دوم ص 236 ، عمدۃ القاری ج دوم ص 72 پر اس کی خوب وضاحت کی ہے اور معجم الصغیر طبرانی ص 193 مرفوعاً آیا ہے کہ : من کر امتی علی ربی عزوجل انی ولادت مختونا ولم یراحمد سواتی “ میں مختون پیدا ہوا ہوں مجھے ضرورت ہی پیش نہیں آئی کہ میں عام بچوں کی طرح ننگا ہو کر ختنہ کراتا “ خیال رہے کہ ایک مدت تک ختنہ کے لیے 6 تا 8 سال کی عمر درست سمجھی جاتی تھی اور اتنی عمر کے بچہ کا معصوم ہونا توع رف عام میں بھی موجود ہے لیکن آپ ﷺ کی شرم و حیا کا عالم ہی کچھ عجیب تھا کہ کوئی کنواری بچی بھی اتنیشرم و حیا کی مالک نہیں ہوتی جتنے آپ ﷺ تھے اور اس کی مثالیں احادیث میں بہت ہیں اور آپ ﷺ جوں جوں بڑے ہوئے اس شرم و حیا میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ (3) نبی اعظم وآخر ﷺ کو الہام میں کبھی شبہ نہیں ہوا ” نبی کریم ﷺ کا شروع الہام میں شبہ “ یہ ایک عنوان ہے جو مرزا قادیانی نے حقیقتہ الوحی ص 140 میں تحریر کیا ہے کہ ” آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر جب آپ ﷺ پر فرشتہ جبریل نازل ہوا تو آپ ﷺ نے فی الفور یقین نہ کیا کہ یہ خدا کی طرف سے ہے بلکہ خدیجہ ؓ کے پاس ڈرتے ڈرتے آئے اور فرمایا کہ خشیت علی نفسی یعنی مجھے اپنے نفس کے متعلق بڑا اندیشہ ہے کہ کوئی شیطانی مکر نہ ہو “ مرزا جی علیہ ماعلیہ نے جس مقصد کے لیے یہ تحریر کیا ہے اور جو مفہوم اس کا بیان کیا ہے وہ ہرگز ہرگز درست نہیں ہے۔ بات دراصل وہ ہے کہ جیسے کسی کو حکومت و خلافت عطا کی جارہی ہو اور وہ اس کو قبول کرتے ہوئے یہ کہہ رہا ہو کہ یہ بوجھ تو بہت بھاری ہے اللہ کرے کہ میں اس کے اٹھانے کے قابل ہو جائوں اور آپ کے اس احسان پر پورا اتر سکوں اور اس کا حق ادا کرسکوں اور اس کی وضاحت پیچھے اس مضمون میں گزر چکی ہے اس لیے دوبارہ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں اس جگہ محض مرزا صاحب کی ہزلیات کے باعث اس کا ذکر کیا گیا مرزا صاحب کا مخصوص ذکر اس لیے کیا گیا کہ جس منصب کا انہوں نے دعویٰ کیا ہے اسی منصب کو وہ سمجھنے سے قاصر رہے جس سے یہ بات خود بخود ثابت ہوجاتی ہے کہ وہ نہ اس منصب پر فائز تھے اور نہ ہی اس پر کوئی فائز ہسکتا ہے کیونکہ یہ کسی چیز نہیں ہے کہ جو چاہے ہمت کرکے حاصل کرلے پہلے تو یہ چیز ہی وہبی تھی اور پھر جس نے اس کے اجرا کا اعلان کیا تھا اس نے اس کے بند کرنے کا بھی اعلان کردیا اور اب میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوکا کوئی جواز نہیں ہے افسوس کہ انسان کو دنیا کی اغراض کس طرح اندھا کردیتی ہیں اور وہ محض غرض پرستی کے باعث کیسی کیسی ٹھوکریں کھانے لگتا ہے لیکن اس کے باوجود سنبھلنے کی بجائے اور پھسلتا ہی چلا جاتا ہے پھر کاش کہ مرزائی قوم بھی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتی اور خصوصاً وہ لوگ جو مرزا جی کی نبوت کے بھی انکاری ہیں انہوں نے اس خبط کو گلے کا ہار کیوں بنالیا اور حقیقت سمجھنے کے باوجود کیوں انجان ہوگئے۔ (4) نبی عظم و آخر ﷺ اور ضلالت کا جوڑ کیا ؟ سورة النجم میں ہم اس کی وضاحت کر آئے ہیں اور سورة النجم عروۃ الوثقیٰ جلد ہشتم میں ہے اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ : (ماضل صا حبکم وما غویٰ ) ” تمہارا دوست نہ بھٹکا ہ کے نہ بہکا ہے “ ظاہر ہے کہ یہ وہ حالت ہے جب آپ ﷺ اصلی راہ کی پہچان میں حیران و ششدر نہ تھے بلکہ راہ ہدایت پا چکے تھے اور اس پر چل رہے تھے اس لیے فرمایا (ماضل) اور سورة (الضحیٰ ) میں فرمایا ہے کہ (ووجدک ضالا) ” اور آپ کو متلاشی پایا “ (فھدیٰ ) ” تو ہدایت عطا کردی “ گویا یہ وہ حالت تھی کہ ابھی ہدایت کی تلاش میں تھے اور کسی چیز کی تلاش میں ہونا گمراہ ہونا نہیں ہوتا گمراہ اس کو کہتے ہیں جس کے سامنے ہدایت موجود ہو اور ہدایت دینے والا ہدایت کی طرف بلا رہا ہو لیکن کوئی اس کی آواز پر کان نہ دھرے یا یہ کہ وہ سیدھی راہ کو جانتا ہو لیکن محض کسی غرض کے لیے وہ سیدھی راہ کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ الٹی راہ چل رہا ہو پھر جب اس کو سیدھی راہ کی طرف بلایا جائے تو وہ اس کی طرف توجہ نہ کرے اور ظاہر ہے کہ وہ اس کی طرف توجہ کیوں کرے گا کیونکہ اس نے تو جان بوجھ کر اور سمجھ سوچ کر سیدھی راہ چلنے سے انکار کیا ہے اور اس طرح اس کو اس کی غرض نے اندھا کردیا ہے کہ وہ جان بوجھ کر سیدھی راہ چلنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ آپ کی حالت ایسی نہیں تھی بلکہ آپ کا تعلق اس قوم سے تھا جو ایک مدت سے سیدھی راہ کو چھوڑ چکی تھی اور پھر عرصہ سے ان کے پاس کوئی سیدھی راہ بتانے والا آیا ہی نہ تھا اس کے باوجود آپ ﷺ کا یہ کمال ہے کہ آپ ﷺ سمجھ گئے کہ میری قوم جس راہ پر گامزن ہے وہ راہ صحیح نہیں ہے اور آپ ﷺ کے دل میں سیدھی راہ پانے کی تڑپ پیدا ہوگئی اور فطری طور پر اس طرف آپ ﷺ کا متوجہ ہونا آپ ﷺ کے کمالات میں سے ایک کمال تھا اور اسی کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کو جس چیز کی تلاش تھی اور آپ ﷺ جس کو حاصل کرنے کے لیی حیران و ششدر ہیں وہ آپ ﷺ نے اس فریضہ کو نہایت اہم طریقہ سے ادا کیا لہٰذا اس طرح کسی شخص کا کسی معاملہ میں خود رفتہ اور دا رفتہ ہونا اس بات کی نشانی ہے کہ اس کو کسی چیز کی تلاش ہے اور سنت اللہ یہی ہے کہ جو تلاش کرتا ہے وہ پالیتا ہے اور لاریب جو یندہ یابندہ ہوتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جب آپ ﷺ کو وا رفتہ اور خود رفتہ پایا تو جس معاملہ میں آپ ﷺ خود رفتہ اور وار رفتہ تھے وہ چیز عطا کردی اور جب وہ چیز عطا کی تو سب کو معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ کس چیز کے لیے خود رفتہ یا دا رفتہ تھے ؟ کہ وہ چیز ہدایت تھی کیونکہ اللہ رب ذوالجلال والا کرام نے آپ ﷺ کو وہ عطا کردی اور صرف عطا ہی نہ کی بلکہ اس کا اعلان بھی فرما دیا کہ جس چیز کی آپ ﷺ کو تلاش تھی ہم نے اپنی سنت کے مطابق آپ ﷺ کو عطا کردی اور وہ ہدایت ہے کیونکہ آپ ﷺ کو ہدایت ہی کی تلاش تھی اس میں ہمارے لیے یہ سبق پنہاں ہے کہ ہم میں سے ہر آدمی کا اپنا فرض ہے کہ وہ محض اپنے باپ دادا پر انحصار کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہدایت یافتہ نہ سمجھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت یعنی کتاب و سنت پر اپنے آپ کو پیش کرے اور اپنے ہر فعل و عمل کا خود جائزہ لے کر دیکھے کہ آیا یہ کتاب و سنت کے مطابق ہے یا نہیں اور جہاں اس کو اپنی زندگی میں کتاب و سنت کا خلاف نظر آئے تو اس کی خود اصلاح کرے اور اس طرح کی تلاش اس کے لیے یقیناً مفید ثابت ہوگی اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہدایت جس چیز کا نام ہے وہ وہی ہے جس کی طرف کتاب و سنت رہنمائی کرتی ہے باپ دادا کی رسومات اور رواجات کا نام ہدایت نہ کبھی پہلے تھا اور نہ ہی آج ہ کے نبی اعظم و آخر ﷺ کی نبوت سے پہلے کی زندگی اگرچہ معصوم تھی لیکن معصوم کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ میں معصوم ہوں اس کی وضاحت آپ عروۃ الوثقیٰ جلد ہشتم سورة الشوریٰ کی آیت 52 کی تفسیر میں پڑھ چکے کیونکہ اس کا حوالہ آپ موجودہ سرخیوں میں سرخی نمبر ایک میں ملاحظہ کرچکے ہیں (ضل) کا لفظ ایک ہی ہے لیکن اس کے استعمال سے جو اس میں فرق کرنا لازم اور ضروری ہے اس کی طرف دھیان دینا آپ کا اپنا فرض ہے ہم پیچھے بھی عرض کرچکے ہیں کہ ” محبت “ ایک لفظ ہے لیکن اس کے استعمال سے جو فرق ظاہر ہوتا ہے اس سے آپ کو بھی اور کسی کو بھی انکار نہیں ہے اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے ، ماں سے محبت کرتا ہے ، بیٹی سے محبت کرتا ہے ، بیوی سے محبت کرتا ہے تو ان چاروں محبتوں کا مفہوم اور مطلب یکساں نہیں ہوسکتا اس لیے کہ جو محبت اللہ سے ہے وہ کسی دوسرے کے لیے قطعاً جائز نہیں اور جو ماں سے ہے یا بیٹی سے ہے وہ بیوی سے ممکن نہیں جو بیوی سے ہے وہ ماں اور بیٹی کے لیے حرام ہے جس طرح ” محبت “ کا لفظ کسی کے لیے دھوکے کا باعث نہیں ہونا چاہیے اسی طرح (ضل) یا (ضالا) کا لفظ بھی کسی کے لیے دھوکے کا باعث نہیں ہون چاہیے اور ظاہر ہے کہ جس چیز کی آپ کو تلاش تھی جب وہ آپ ﷺ کو عطا کردی گئی تو پھر کبھی آپ ﷺ کو اس کی تلاش نہ ہوئی جس کا ذکر سورة النجم کی آیت 2 میں گزر چکا آپ ﷺ کے مناقب میں بیان کی گئی بات گمراہی کیسے ہوسکتی ہے ذرا غور کرلیں انشاء اللہ العزیز آپ پر بھی یہ حقیقت کھل جائے گی جو آج تک نہیں کھلی اس میں مفسرین نے بہت لمبا کلام کی ہے لیکن ہھم نے جو سہل طریقہ تفہیم کا سمجھا ہے اسی طریقہ سے سمجھانے کی کوشش کی ہے علمی موشگافیاں علامہ اور حضرت العلام حضرات کا کام ہے میرے جیسے کم فہم آدمی کا کام نہیں۔ (5) نبی اعظم و آخر ﷺ کے متعلق وقوع شک کا زعم باطل ہے قرآن کریم میں ہے کہ ” اور اگر آپ ﷺ کو کسی طرح کا اس بات میں شک ہو جو ہم نے تمہاری طرف بھیج ہے تو تم ان لوگوں سے پوچھ لو جو تمہارے زمانے سے پہلے کی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں “ (94:10) پہلی کتابیں کن پر نازل ہوئیں اور کون ان کو پڑھتے تھے ظاہر ہے کہ وہ کتابیں تورات ، انجیل اور زبورہی تھیں اور ان کو زیادہ تر پڑھنے والے یہود و نصاریٰ ہی تھے اس زیر نظر آیت اور اس جیسی دوسری آیات سے ہمارے بعض مفسرین نے ایسی باتیں درج کردی ہیں جن کا کوئی سرپیر نہیں ہے لیکن انہوں نے محض اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات کے مضمون کے پیش نظر وہ روایات درج کردی ہیں جو درجہ اعتبار سے نہایت ساقط تھیں اس لیے اس کی وضاحت ضروری سمجھی گئی اگرچہ اس کا جواب عروۃ الوثقیٰ جلد چہارم سورة یونس کی آیت 94 میں دے دیا گیا ہے تاہم اس کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھا گیا تاکہ اس اشارہ سے اس حقیقت کو دیکھا جاسکے جس کے تحت یہ آیت اور اس جیسی کثیر دوسری آیات بیان ہوئی ہیں مختصر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ قرآن کریم کا اسلوب بیان یہ ہے کہ جب مومنوں سے خطاب مقصود ہوتاے تو وہ خطاب اکثر پیغمبر اسلام ﷺ ہی کو مخاطب کرکے کیا جاتا ہے مثال کے طور پر اس کو آپ اس طرح سمجھ لیں کہ سورة بنی اسرائیل میں آپ ﷺ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ” تمہارے پروردگار نے یہ بات مقرر کردی ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بلھائی کرو اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہاری زندگی میں بڑھاپے کی عمر تک پہنچ جائیں تو ان کی کسی بات پر اف نہ کرو اور نہ جھڑکنے لگو ان سے بات چیت ادب و احترام کے ساتھ کرو “ (23:17) غور کریں کہ (وقضیٰ ربک) اور (عندک) کا بظاہر خطاب تو نبی اعظم و آخر ﷺ سے ہے حالانکہ علم الٰہی میں موجود تھا اور آج بچہ بچہ اس بات کو جانتا ہے کہ آپ ﷺ بےباپ پیدا ہوئے تھے اور آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ آپ ﷺ کی عمر مبارک کے چھٹے سال وفات پاگئی تھیں جس سے بظاہر آپ ﷺ کو مخاطب کرکے یہ بات کہی ہی نہیں جاسکتی تھی جس سے واضح ہوگیا کہ یہ تعلیم آپ ﷺ کی امت ہی کے لیے دی گئی تھی لیکن بظاہر خطاب آپ ﷺ ہی سے کیا گیا ہے کیونکہ آپ ﷺ ہی نبی و رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں علاوہ ازیں جو آیت کریمہ اوپر بیان کی گئی ہے جس میں آپ ﷺ کو حکم دی گیا ہے کہ اگر آپ ﷺ کو شک ہو تو اس آیت کے آخر میں یہ ارشاد بھی فرمایا گیا ہے : ( لقد جاء الحق من بک فلا تکونن من الممترین) (94:10) ” یقیناً یہ حق ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر اترا ہے تم ہر گر ایسا نہ کرنا کہ شک کرنے والوں میں سے ہوجائو “ جب خود ہی قرآن کریم نے حق آنے کا اعلان کردیا تو پھر شک کی گنجائش ہی آخر کیا رہ گئی ؟ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بعض اوقات انسان کسی دوسرے کو یقین دلانے کے لیے قسم کھاتا ہے اسی طرح یقین دلانے کے لیے اس طرح کی بات بھی کرتا ہے لیکن اس سے مراد محض اپنی بات کی تاکید و تائید مطلوب ہوتی ہے نہ کہ کسی طرح کا شک و شبہ لیکن جہاں بعض مفسرین نے اس طرح کی تفسیر بیان کی ہے جس میں شک و شبہ کا پہلو نکلتا ہے وہاں اس کا رد بھی اس وقت کی تفاسیر میں کردیا ہے چناچہ درمنثور ص 317 ج 3 میں بحوالہ ابن منذر ، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ اور ضیاء میں ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ : لم یشک رسول اللہ ﷺ ولم یسئل کہ ” رسول اللہ ﷺ کو نہ تو کبھی شک ہوا اور نہ ہی آپ ﷺ نے کبھی کسی سے کچھ دریافت کیا “ اسی طرح بحوالہ عبدالرزاق ابن جریر قتادہ سے مرسلاً مروی ہے : ان رسول اللہ لا اشک ولا اسئل ” رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا کہ نہ مجھے کبھی شک ہوا اور نہ ہی میں نے کبھی کسی سے کچھ دریافت کیا “ قاضی عیاض (رح) نے ایسے لوگوں کی خوب خبرلی ہے جن کو اس مقام میں شک کا خیال پیدا ہوا اور مواہب الرحمن میں ہے کہ ” بلاشبہ قاضی (رح) نے سچ کہا کہ جس نے امکان شک کا زعم کیا وہ خطا کار ہے کیونکہ وقوع شک کا زعم محض غلط اور آوارہ ہے “ (6) نبی عظم و آخر ﷺ اور قیاس استثنائی کو تردد پر محمول نہ کیا جائے سورۃ سبا کی آیت 24 کے آخر پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ : (وانا او ایاکم لعلیٰ ہدی او فی ضلال مبین) (24:34) ” اور ہم یا تم دونوں میں سے ایک ہدایت پر ہے اور دوسرا کھلی گمراہی میں مبتلا ہے “ محاورہ ہے کہ جھوٹے کو گھر تک پہنچا دینا مطلب یہ ہے کہ جھوٹے کو لاجواب کردینا یا اس کو منوا لینا کہ واقعی وہ جھوٹا ہے اس انداز سے کفارکو لاجواب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ ان کو پوچھیے کہ تمہارے رزق کو بہم پہنچانے والا کون ہے گزشتہ آیت کو پیش نظررکھ کر ان سے گیا پوچھا جارہا ہے کہ کون بادلوں کے مشکیزے میٹھے پانی سے بھر کر کندھوں پر لاد کر لاتا ہے اور تمہارے کھیتوں پر آکر برساتا ہے یہ سورج کی کرنیں اور چاند کی شعاعیں کس کے حکم سے ہرچیز کی مناسب نشو ونما کررہی ہیں اور ان کو رنگ اور ذائقہ سے معطر کررہی ہیں کون ہے جو یہ انتظامات نہایت حسن و خوبی سے انجام دے رہا ہے تمہارے کھانے کے لیے ہر طرح کی اجناس ، سبزیاں ، پھل اور ترکاریاں تیار کررہا ہے کفار کے پاس چونکہ ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا وہ اگر یہ کہتے کہ ان کے بزرگ یہ سب کچھ کر رہے ہیں تو ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہ تھی اور اگر اللہ تعالیٰ کا نام لیتے تو پھر وہ شک کیسے کرسکتے تھے اس لیے انہوں نے خاموشی میں نجات سمجھی لیکن یہ اس وقت کے مشرکوں کی بات ہے آج کل کا مشرک زیادہ ڈھیٹ ہوتا ہے بہرحال چونکہ وہ خاموش تھے اس لیے ان کو جواب سنوایا گیا کہ اے پیغمبر آپ ﷺ ہی ان سے کہہ دیجئے کہ وہ تو اللہ تعالیٰ ہی کی واحد ذات ہے اور اس طرح بات کہہ کر ان کو ایک بار پھر برابری کے معیار پر رکھ کر بات کی جارہی ہے کہ اب تم غور کرو ہم اللہ تعالیٰ کی توحید و وحدانیت کے قائل ہیں اور تم شرک میں مبتلا ہو اس لیے یہ بات تو یقینی ہے کہ ہم دونوں تو راہ راست پر نہیں ہوسکتے اس لیے لازم ہے کہ اگر ہم رہ راست پر ہیں تو تم گمراہ ہو اور اگر تم راہ راست پر ہو تو ضروری ہے کہ تم بھٹکے ہوئے ہو یہ نہیں ہوسکتا کہ توحید الٰہی کے ماننے والے اور شرک کرنے والے دونوں راہ حق پر چل رہے ہوں اب تم خود ہی فیصلہ کرو کہ حق پر کون ہے ، ہم یا تم ؟ دلائل کس کی تائید کرتے ہیں ، عقل کن لوگوں کا ساتھ دیتی ہے اور خود تمہارے دل کیا کہتے ہیں اس طرح یہ قیاس استثنائی کی مثال پیش کی جارہی ہے نہ کہ اس میں کسی طرح کا کوئی تردد پایا جاتا ہ کے لیکن ہمیں تعجب ہے کہ بعض مفسرین نے اس میں تردد کی راہ اختیار کی ہے حالانکہ اس کی وضاحت آگے آنے والی آیت خود کررہی ہے تفصیل کے لیے دیکھئے عروۃ الوثقیٰ جلد ہفتم سورة سبا کی آیت 25 , 24 پھر مزید وضاحت کے لیے جلد چہارم سورة یونس کی آیت 41 ، سورة ہود کی آیت 35 ، جلد ہفتم سورة سبا کی آیت 50 ، طرز کلام اہل فن کے نزدیک ایک بلیغ اور موثر پیرا یہ انداز بیان ہے جیسے کوئی بائع بھی اپنے مال کی بابت مشتری سے یہ کہتا ہے کہ یہ ہے میرا مال ، اسے خوب دیکھ لو ، کسی کو دکھا لو اگر درست ہو تو خریدو ورنہ مت خریدو یا یہ کہ خریدا ہوا مال بھی کل تک واپس کر دو اور اپنے دام لے جائو اس کا مطلب کیا ہے ؟ ییا کہ بائع کو اپنے مال پر پورا پورا وثوق ہے کہ وہ بالکل صحیح اور درست ہے اور خصوصاً جب کہ وہ ابھی ایسی بات کہنے میں سچا بھی ہو اور یہ کہ بھول چوک لینے دینے کا ہم کو پورا پورا حق ہے اور اس انداز میں اس جگہ کلام کیا گیا ہے اور اپنے حق پر ہونے کی آخری یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ (7) نبی اعظم و آخر ﷺ کو مخاطب کرنے کا ایک اور انداز دیکھنا ضروری اور لازم ہے کہ جو بات کہی گئی ہے اس میں مخاطب کون ہے ؟ کیونکہ ہم جو زبان بھی بولتے ہیں اس میں ایسا انداز تخاطب بھی موجود ہے کہ ایک آدمی کو مخاطب کیا جاتا ہے لیکن اس سے بات کرنا مقصود اصل نہیں ہوتا بلکہ مقصود اصل کسی دوسرے سے بات کرنا ہوتا ہے جس کو آج کل کی زبان میں کہتے ہیں کہ فلاں نے بات ڈائریکٹ نہیں کی بلکہ ان ڈائریکٹ کی ہے یا یہ کہ مخاطب زید کو کیا ہے اور حقیقت میں مخاطب کرنے والے کے ذہن میں بکر ہے جس کو وہ مخاطب نہیں کرنا چاہتا اور یہ تخاطب انداز بھی ہر جگہ اور ہر زبان میں عام ہے مثلاً قرآن کریم میں ہے کہ : (لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخاسرین) (الزمر 65:39) ” اگر تو نے شرک کیا تو تیرا سارا کیا کرایا عمل ضائع ہوجائے گا “ اس طرح کا کلام قرآن کریم میں عام طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس کو شرط اور جزا کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جس کا وقوع ضروری نہیں ہوتا لیکن گزشتہ آیات کی طرح یہاں بھی نبی کو جو مخاطب کیا گیا ہے تو وہ دراصل نبی و رسول کو مخاطب نہیں کیا گیا بلکہ مخاطب حقیقت میں دوسرے مسلمانوں کو کیا گیا ہے جیسا کہ سنن کبریٰ بیہقی ج 74 ص 44 میں ہے کہ : المراد بھذا الخطاب غیرالنبی صلی اللہ علیہ وسلیم کہ اس سے مراد دوسرے افراد امت ہیں اور بعض تفاسیر میں بھی یہی بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ کوئی نبی اور رسول کبھی بھی نہ نبوت کے پہلے اور نہ ہی نبوت کے بعد شرک کا مرتکب ہوا جس نے ایسا کوئی شبہ پیدا کیا ہے اس نے سراسر زیادتی اور ظلم کیا ہے خواہ وہ کوئی ہو ، کون ہو اور کہاں ہو جن لوگوں نے آدم (علیہ السلام) پر شرک کا الزام رکھا ہے انہوں نے بھی سراسر غلطی کی ہے لیکن اس کی وضاحت ہم عروۃ الوثقیٰ جلد سوم سورة الاعراف کی آیت 190 تا 192 بیان کر آئے ہیں وہاں سے ملاحظہ کریں۔ (8) نبی اعظم و آخر ﷺ کی شان اور تفہیم العلماء (قل ان کان للرحمن ولد فانا اول العابدین) (الزخرف 81:4) کا ترجمہ ہمارے مترجمین نے یہی کیا ہے کہ ” ان سے کہو اگر واقعی رحمن کے کوئی اولاد ہوتی تو اس کی عبادت سب سے پہلے میں ہی کرنے والا ہوتا “ یہ ترجمہ شان رسالت کے سراسر خلاف ہے کیونکہ اس سے جیسا باپ ویسا بیٹا ، جیسے احترام کے لائق باپ اسی احترام کے قابل بیٹا کا تصور نکلتا ہے جو سراسر غلط تصور ہے عبادت اللہ کے لیے ہے ، صحیح ہے اور اللہ کے اگر اولاد ہوتی تو وہ بھی اللہ ہی ہوتی چونکہ اللہ کے کوئی اولاد نہیں اس لیے ہم کسی دوسرے کی عبادت نہیں کرتے اگر اولاد ہوتی تو ہم یقیناً اس کی اولاد کو بھی اللہ ہی مانتے ، یہ جاہلی تصور ہے کسی نبی و رسول کا بیٹا بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ نبی اور رسول ہی ہو یہ ہندوانہ تصور اسلام میں کہاں سے آگیا اس کی وضاحت ہم نے اس کے اصل مقام پر کردی ہے اگر وضاحت چاہتے ہوں تو عروۃ الوثقیٰ ، جلد ہشتم سورة الزخرف کی آیت 81 کی تفسیر دیکھیں ہم نے واضح کیا ہے کہ اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم تو کہتے ہیں ، کہہ رہے ہیں اور کہتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اللہ کی اولاد ہے تو ہم ایسے اللہ ہی کو چھوڑ دیں گے اور کبھی اس کو اللہ نہیں مانیں گے اور یہی بات آپ ﷺ کو کہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ میں ایسے اللہ ہی کا انکار کردوں گا جس کے لیے اولاد ثابت ہوجائے اور یہ گویا تحدی اور چیلنج ہے اس بات کا کہ میں جس ذات کو الٰہ اور معبود مانتا اور تسلیم کرتا ہوں اس کی نہ تو اولاد ہے نہ ہوسکتی ہے اور نہ ہی کبھی ہوگی کیونکہ یہ ممکن ، ناممکن کی بحث نہیں بلکہ ممتنع ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جسکتا اگر کوئی ایسا تصور کرے گا تو گویا اس نے اللہ تعالیٰ کی الوہیت سے انکار کردیا اور ایک فنا ہونے والی ذات کو الٰہ مان لیا کیونکہ اولاد کا تعلق محض نسل جاری رکھنے سے یا زیادہ سے زیادہ جنس جاری رکھنے ہی سے ہوسکتا ہے۔ (9) نبی اعظم و آخر ﷺ اور عین القعا نبی کریم ﷺ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کی گردن میں چھوٹی چھوٹی دو آنکھیں تھیں جن سے آپ ﷺ کو پیچھے سے اسی طرح نظر آتا تھا جس طرح آپ ﷺ کو سامنے سے نظر آتا تھا اور بعض نے یہ کہا کہ دو نہیں بلکہ ایک آنکھ تھی جب سوال اٹھایا گیا کہ اس کا کسی شخص نے مشاہدہ کرکے ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کسی حدیث میں اس کی وضاحت کی گئی تو اس سوال کا جواب یہ دیا گیا کہ دو آنکھیں تھیں لیکن اتنی باریک جیسا کہ سوئی کا ناکہ ہوتا ہے اس لیے بظاہر وہ نظر نہیں آتی تھیں اس پر کسی نے اعتراض کیا کہ آنکھوں کے لیے جس جگہ کا تعین کیا گیا ہے اس جگہ پر تو اکثر بال ہوتے ہیں اور خصوصاً آپ ﷺ کے بال تو ویسے بھی لمبے لمبے بتائے جاتے ہیں تو اس کا جواب یہ دیا گیا کہ معجزانہ طور پر بالوں اور کپڑوں کا پردہ آپ ﷺ کی باصرہ کو نہیں روک سکتا تھا پھر اس پر بخاری و مسلم اور دوسری حدیث کی کتابوں کے حوالے دیئے گئے اور اس طرح بات کو اس طرح مدلل کردیا گیا کہ اب اگر کوئی شخص اس کا انکر کرتا ہے تو اس پر نکر حدیث اور انکار معجزات کا فتویٰ صادر کیا جاتا ہے حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے نہ تو آپ ﷺ کی گردن میں ایک یا دو آنکھیں تھیں اور نہ ہی کسی حدیث میں اس کا کوئی ذکر ہے بلکہ لوگوں کی باتوں کا بتنگڑ بناتے ہوئے اس طرح کا مفہوم گھڑ لیا گیا ہے ہم چاہتے ہیں کہ پہلے ان احادیث کا ذکر کیا جائے جن سے اس طرح کا مفہوم اخذ کرلیا گیا ہے تاکہ بات کی وضاحت ہوجائے اگر کوئی وضاحت کو پسند کرے اور فتویٰ بازی نہ شروع کردے۔ (1) عن ابی ہریرہ ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال ھل ترون قبلتی ھھنا فو اللہ مایخفی خشو عکم ولا رکوعکم انی لاراکم من بعد ظہری۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری پارہ دوم میں ص 256 ، کتاب اصلٰوۃ) (2) عن انس ان النبی ﷺ قال اقیموالصفوف فانی اراکم خلف ظہری۔ (فتح الباری پارہ 3 ص 398) (3) عن نس بن مالک عن النبی ﷺ قال اقیموا الرکوع والسجود فو اللہ انی لارا کم من بعد ظہری اذا مارکعتم اذا ماسجدتم ۔ (صحیح مسلم ج اول ص 180) (4) عن انس بن مالک قال صلی لنا النبی ﷺ صلٰوۃ ثم اتی المنبر فقال فی الصلٰوۃ وفی الرکوع انی لارا کم من ورآء کما ارا کم ۔ (فتح الباری پ 2 ص 256) (5) عن ابی ہریرۃ ؓ قال صلی بن رسول اللہ ﷺ یوم ثم انصرف فقال یا فلان الا تحسن صلوتک الاینظر المصلی اذا صلی کیف یصلی لنفسہ انی واللہ لابصرمن وراء ی کما ابصر من بین یدی ۔ (مسلم ج اول ص 180) (6) عن انس قال صلی بنا رسول اللہ ﷺ ذات یوم فلما قضی اصلٰوۃ اقبل علینا بوجھہ فقال ایھا الناس انی امامکم فلا تسبقونی بالر کو ع ولا بالسجود ولا بالقیام ولا بالا نصراف فانی ارا کم امامی ومن خلفی۔ (مسلم ص 180) اوپر 6 احادیث درج کی گئی ہے ان سب پر غور کرو اور مفہوم ان سب کا یہی ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو نماز کا طریقہ سکھایا اور ان کو بار بار سمجھایا ، نماز ادا کرکے بتایا پھر جب جماعت کراتے تو جو کچھ ان کو سمجھایا اور بتایا گیا تھا اس کے خلاف بھی پاتے تو آپ ﷺ لوگوں کو اس طرح تلقین فرماتے کہ لوگو میں جب نماز پڑھا رہا ہوتا ہوں تو اس وقت بھی تمہاری نماز سے غافل نہیں ہوتا تم میں کتنے ہیں جو مجھ سے پہلے رکوع میں جھک جاتے ہیں اور اسی طرح سجدہ میں پہل کر جاتے ہیں احتیاط کیا کرو جس طرح میں نماز پڑھاتے ہوئے اپنے سامنے دیکھ رہا ہوتا ہوں اسی طرح اپنے پیچھے بھی میری نظر بصیرت کام کررہی ہوتی ہے اور تمہاری حرکات و سکنات کا مجھے علم ہوجاتا ہے میرے امام مت بنو ، میرے مقتدی بن کر نماز ادا کیا کرو یہ باتیں آپ ﷺ نے بعض اوقات نماز کا سلام پھیرنے کے بعد اس جگہ کیں اور بعض اوقات اپنے خطبات میں ارشاد فرمائیں آپ ﷺ کی موجودگی میں آپ ﷺ کے ان ارشادات کو سن کر نہ کسی کو کوئی وہم ہوا ، نہ کسی کے ذہن میں یہ چیز موجود تھی کہ آپ ﷺ کیگدی میں ایک یا دو آنکھیں ہیں بلکہ سب سامعین سمجھتے تھے کہ امام جب نماز پڑھا رہا ہوتا ہے تو پچھلوں کی حرکات و سکنات پر بھی اس کی نظر ہوتی ہے اور پچھلوں کی حرکات و سکنات آہٹ ہی سے واضح ہوتی رہتی ہیں اور کن انکھیوں سے بھی وہ دیکھ سکتا ہے اور بصیرت تیز ہو تو سلام پھیرتے ہی جب نمازیوں پر ایک نظر دوڑاتا ہے تو جہاں جہاں سے نماز میں اس نے آہٹ پائی تھی وہاں نظر کرکے وہ سمجھ سکتا ہ کے کہ حرکت مجھ سے پہلے کسی نے کی وہ کون ہے جو اس طرح کی کوتاہی کسکتا ہے اور کون ہے جو اس طرح کی کوتاہی نہیں کرتا ؟ اس لیے آپ ﷺ سے کبھی کسی نے سوال نہ کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ پیچھے سے کیسے دیکھتے ہیں اور نہ ہی کسی نے کبھی تعجب کا اظہار کیا اور نہ کسی کو یہ شک تھا کہ آپ ﷺ غیب جانتے ہیں ہاں ! آپ ﷺ کے رخصت ہوجانے کے برسوں بعد جب لوگوں نے آپ ﷺ کے توسط سے اس طرح کی باتیں کیں اور جو آپ ﷺ سے سنا تھا وہ بیان کردیا تو ہوتے ہوتے وہ زمانہ بھی آیا جس میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آپ ﷺ کو اپنے پیچھے نمازیوں کا کیسے پتہ چل جایا کرتا تھا جس سے سوال ہوا اس نے اپنی طرف سے جو اس کی سمجھ میں آیا اپنے مذاق کے مطابق جواب دے دیا اور پھر اس طرح کے جوابات نقل ہوگئے ، ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے بعض نے کہا کہ آپ ﷺ کو نماز کے اندر وحی ہوجاتی تھی کہ فلاں نے آپ ﷺ سے پہلے حرکت کی اور فلاں سے یہ سرزد ہوا اور فلاں نے ایسا کیا بعض نے کہا کہ آپ ﷺ کن انکھیوں سے یعنی قدرے التفات کے ساتھ پہلی صف کے ان مقتدیوں کو ملاحظہ فرما لیتے تھے جو آپ ﷺ کے داہنے اور بائیں ہوتے تھے اور بعض نے کہا کہ آپ ﷺ کی پشت میں ایک انکھ تھی اور آپ ﷺ اس سے ملاحظہ فرما لیا کرتے تھے بعض نے کہا کہ آپ ﷺ کے کندھوں کے درمیان سوئی کے ناکے کے برابر دو آنکھیں تھیں جو باریک ہونے کے باعث نظر تو نہ آتی تھیں لیکن آپ ﷺ کو ان سے سب کچھ نظر آتا تھا اور بعض سے جب سوال کیا گیا کہ آپ ﷺ کے پشت اور کندھوں پر تو کپڑا ہوتا تھا تو اس نے جواب دیا کہ کوئی پردہ اس نظرکو مانع نہیں ہوتا تھا اور بعض نے کہا کہ جب آپ ﷺ نماز پڑھتے تھے تو سامنے دیوار پر سارے مقتدیوں کی تصاویر منعکس ہوجاتی تھیں جیسے آئینہ کے اندر تصویر آجاتی ہے پھر ان پر بحث بھی کی گئی اور کسی نے کسی قول کو ترجحک دی اور کسی نے کسی قول کو اور بعض نے یہاں تک بھی لکھ دیا کہ یہ غیب کی خبریں تھیں اور اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے آپ ﷺ کو غیب کی طاقت دی تھی صرف فرق ہے تو یہ کہ آپ ﷺ کے پاس یہ غیب عطائی تھا اور نبوت نام ہی غیب کے جاننے کا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ فراست نبوی تھی یعنی بصارت کا معاملہ نہیں تھا بلکہ بصیرت کا مسئلہ تھا جس کے لیے ظاہری آنکھوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور جہاں تک بصیرت پہنچتی ہے بصارت وہاں تک نہیں پہنچ سکتی وضاحت دیکھنا ہو تو فتح الباری میں ان ہی احادیث کی شرح دیکھ لیں جن کو ہم نے اوپر درج کردیا ہے۔ (10) نبی اعظم و آخر ﷺ و حسن معاشرت جس کا مفہوم غلط سمجھا گیا نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی امت مسلمہ کے ہر فرد کے لیے ایک نمونہ اور ماڈل ہے اس میں نہ کسی کو کوئی اختلاف ہے اور نہ ہی اختلاف کی یہاں کوئی گنجائش ہے اور جو شخص مسلمان کہلا کر آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو پسند نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں ہوسکتا پھر آپ ﷺ کی پوری زندگی خواہ وہ اندرون خانہ ہو یا بیرون خانہ سب حالات کا جاننا اور ان کو اپنے لیے نمونہ بنانا بالکل صحیح اور درست ہے لیکن افسوس کہ اس معاملہ میں بعض لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں اور ان غلطیوں کے باعث اغیار نے اسلام اور بانئی اسلام محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق بد زبانی کی اور گندی تحریرات اور برے مفہوم بیان کیے اس طرح جن باتوں کو حسن معاشرت کے لیے بیان کیا گیا تھا اور مسلمانوں کی گھریلو زندگیوں کو درست کرنے کے لیے بطور نمونہ پیش کیا گیا تھا ان سے بجائے استفادہ کرنے کے آپ ﷺ کی زندگی کو ایک طرح کا مذاق اور استہزاء بنا کر رکھ دیا گیا لیکن بدقسمتی سے اپنوں نے بھی ان لوگوں کو دندان شکن جواب دینے کی بجائے آئیں بائیں شائیں سے کام لیا اور اس طرح وہ داغ اور دھبے مزید پختہ کردیئے گئے اور آج ماننے والوں کی بھی کثیر تعداد محو حیرت ہو کر رہ گئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے ان احادیث کا انکار کرکے اغیار سے جان چھڑائی اور اپنوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنا شروع کردیئے جس کے نتیجہ میں فتنہ انکار حدیث زور پکڑ گیا اور آج جو صورت حال ہے سب اس سے اچھی طرح واقف ہیں اس جگہ بحث و تمیص کی گنجائش نہیں ہے اس لیے ہم اختصار کے پیش نظر ان احادیث کو پیش کر رے ہیں جن سے اس طرح کا مفہوم اخذ کیا گیا ہے اور اس کے بعد مختصر الفاظ میں ہم اصل حقیقت کو واضح کریں گے تاکہ بات سمجھ میں آسکے۔ (1) عن انس بنمالک حدثھم ان النبی ﷺ کان یطوف علیٰ نسائہ فی اللیلۃ الواحدۃ ولہ یومئذ تسع نسوۃ (فتح الباری پ 21 ص 137) (2) حدثنا انس بن مالک قال کان النبی ﷺ یدور علی نسائہ فی الساعۃ الواحدۃ من اللیل والنھار وھن احدی عشرۃ قال قلت لانس او کان یطیقہ قال کنا نتحدث انہ اعطی قوۃ ثلاثین وقال سعید عن قتادۃ ان نتحدث ان انسا حدثھم تسع نسوۃ (فتح الباری ص 189 پ 2) (3) عن انس ان البنی ﷺ کان یطوف علی نسائہ فی لیلۃ الواحدۃ ولہ یومئذ تسع نسوۃ (فتح الباری شرح صحیح بخاری ص 137 پارہ نمبر 12) یہ اور اس جیسی دوسری روایات میں آپ ﷺ کی خانگی زندگی کی وضاحت کی گئی ہے جب کہ آپ ﷺ کی خصویات میں سے یہ خصوصیت تھی کہ آپ ﷺ بیک وقت زیادہ وقت زیادہ شادیاں کرسکتے تھے اور اسی رخصت کے تحت آپ ﷺ نے زیادہ شادیاں کی تھیں لیکن آپ ﷺ نبوت کے کاموں کو پورا کرنے کے ساتھ گھریلو ذمہ داریوں کو بھی پورا فرمایا کرتے تھے اور نہایت پابندی کے ساتھ پورا فرماتے یہاں تک کہ جب بھی آپ ﷺ کو فراغت ہوتی تو ایک دفعہ آپ ﷺ ساری ازواج مطہرات کے ہاں الگ الگ گھر میں جاتے ، ان کی خیرت معلوم کرتے ، ان کی ضروریات زندگی کا ہر طرح خیال رکھتے اور باوجود اس کے کہ آپ ﷺ نے ازواج مطہرات کے لیے باری کے دن مقرر کر رکھے تھے لیکن ہر روز خیریت دریافت کرنا ، ہر گھر کی خبررکھنا اور ضرورت کی چیزیں بہم پہنچانا آپ ﷺ کی زندگی کے دوسرے معمولات ھ میں سے ایک معمول تھا اور رات یا دن میں بلاناغہ ایک بار سب گھروں میں بنفس نفیس جاتے اور رات آپ ﷺ وہیں گزارتے جہاں رات گزارنے کی باری مقررہوتی مطلب بالکل صاف اور سیدھا تھا جس سے امت کے لیے یہ سبق تھا کہ اگر ضرورت کے تحت کسی مرد کو ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ نکاح کی ضرورت محسوس ہو خواہ وہ ضرورت کسی قسم کی بھی ہو بہرحال عورتوں کے درمامن عدل و انصاف ضروری ہے اور سب کی خبر گری لازم ہ کے جو دینی و دنیاوی فرائض میں سے ہے جو شخص اس میں کوتاہی کرے گا وہ مستوجب سزا ہوگا صحابہ کرام ؓ سے اس طرح کی احادیث سن کر بعد میں آنے والے لوگ بہت متاثر ہوئے اور تعجب کے ساتھ پوچھنے لگے کہ بھائوس نبوت و رسالت کی ذمہ داریاں تو بہت بڑی ذمہ داریاں تھیں اور آپ ان ذمہ داریوں کو نباہنے کے ساتھ اگر حسن معاشرت میں اس حد تک خیال رکھتے تھے تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بہت ہی قوت و ہمت عطائی فرمائی ہوئی تھی سبحان اللہ ! آپ ﷺ کی کیا ہی شان تھی تو اس وقت صحابہ کرام ؓ ان سے فرماتے کہ اس طرح کی باتیں ہمارے زمانہ میں بھی سوچی جاتی تھیں اور آپ ﷺ کی ہمت و طاقت برداشت کا اندازہ لگایا جاتا تھا تو ہم سمجھتے تھے کہ آپ ﷺ میں بلامبالغہ تیس آدمیوں کے برابر ہمت و وقت عطا کی گئی تھی یہ گویا آپ ﷺ کے عزم و جزم کا بیان تھا جو صحابہ ؓ ہی کے دور میں اندازہ لگایا جاتا تھا لیکن ہمارے دوستوں اور بزرگوں نے اس کو کیا سے کیا بنا دیا کہ آپ ﷺ ایک رات میں اپنی ساری بیویوں سے جنسی خواہشات کو پورا کیا کرتے تھے اور نہ معلوم انہوں نے یہ بات کیوں اور کیسے کہہ دی اور پھر ترجمہ کرنے والوں نے اسی نظریہ کے مطابق تراجم کردیئے اور جو بات ان احادیث میں سمجھائی گئی تھی اس کا پوری طرح ستیاناس کردیا حالانکہ احادیث میں ہی اس کی وضاحت بھی موجود تھی لیکن اس کو سب نے نظر انداز کردیا اور اس اپنے اختراعی مطلب و مفہوم کو اس قدر وسعت دی کہ اس کے حاشیہ پر حاشیہ چڑھاتے ہوئے ایسی ایسی باتیں بیان کردیں جن کو دیکھ اور پڑھ کر ایک طبقہ متنفر ہونے لگا اور ان کی نفرت کا انجام ہوا کہ انہوں نے فتنہ انکار حدیث کھڑا کردیا اور بجائے اس کے کہ اس طرح کا مفہوم بیان کرنے والوں کو وہ گریبان سے پکڑتے انہوں نے علم حدیث سے نفرت شروع کردی حالانکہ ایسا کرنے کا کوئی جواز ان کے پاس موجود نہیں تھا لیکن اس مفہوم کو انہوں نے احادیث سمجھ کر اس کو جواز بنا لیا اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان احادیث کا مطلب احادیث ہی کے ذریعہ سے صاف کردیا جائے تاکہ اگر کوئی ہدایت حاصل کرنا چاہے تو اس کو ہدایت می جائے چناچہ احادیث میں ہے کہ (عن عائشۃ ؓ کان رسول اللہ ﷺ اذا انصرف من العصر دخل علی نسائہ فیدنومن احدھن) (فتح الباری ص 137 پارہ نمبر 21) ” سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ آپ ﷺ کی زندگی کا معمول تھا کہ اکثر نماز عصر کے بعد آپ ﷺ ایک دفعہ ساری بیبیوں کے ہاں جاتے اور ان کے قریب پہنچ کر ان کی خانگی ضرورتوں کے متعلق پوچھتے اور اس میں کسی ایک کو بھی کبھی مستثنیٰ نہ سمجھتے تھے اور جہاں جتنی ضرورت ہوتی اتنا خرچ فراہم فرماتے۔ اس طرح اگر صبح کی نماز کے بعد فرصت پاتے تو کبھی صبح کی نماز کے بعد بھی ایسا کرلیتے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ (عن ابن عباس ففیھا وکان رسول اللہ ﷺ اذا صلی الصبح جلس فی مصلاہ و جلس الناس حولہ حتیٰ تطلع الشمس ثم یدخل علی نسائہ امراۃ لیسلم علیھن و یدعولھن فان کان یوم احدی ھن کان عندھا) (الحدیث اخرجہ ابو یعلیٰ فتح الباری پ 21 ص 172) ایک حدیث میں ہے کہ (یمر علیٰ نسائہ یسلم علیٰ کل واحدۃ منھن سلام علیکم کیف انتم یاھل البیت فیقولون بخیر یار سول اللہ کیف وجدت اھلک فیقول بخیر فلما فرغ رجع و رجعت معہ) (مسلم ج اول ص 420) ایک حدیث میں ہے کہ (حتی اذا جآء ازواجہ فسلم علی امراۃ امراۃ حتی انی مبینہ) (ابو دائود ج 2 ص 78) ایک حدیث میں ہے کہ (فید نوامن کل امراۃ من غیر مسیس حتی یبلغ التیھی یومھا فبیت عندھا) (السنن الکبریٰ البیھقی ص 300 ج 7) ایک حدیث میں ہے کہ (عن عائشۃ ؓ زوج النبی ﷺ یطوف علینا جمعیا فلیقبل ویلمس مادون الرقاع فاذ جاء الی التی ھوفی یومھا بیت عندھا ) (سنن الکبریٰ البیھقی ص 300 ج 7) ایک حدیث میں ہے کہ (عروۃ عن ابیہ و عن عائشۃ قالت قل ماکان یوم اوقالت قل یوم الاکان رسول اللہ ﷺ یدخل علیٰ نسائہ فید نومن کل امراہ منھنفی مجلسہ فیقبل ویمس من غیر مسیس ولا مباشرہ قالت ثم یبیت عندالتی ھو یومھا ) (دار قطنی ص 409 ج 2) اور ایک حدیث میں ہے کہ (عن ام سلمۃ ان النبی ﷺ کان یدخل علیٰ ازواجہ کل غداۃ فیسلم علیھن ) (مجمع الزوائد ص 316 ج 4) صاحب علم جانتے ہیں کہ سب احادیث گزشتہ احادیث کی وضاحت پیش کررہی ہیں اور ان سب کا ماحصل یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ ایک دن رات میں ایک دفعہ آپ ﷺ ساری ازواج مطہرات کے پاس جاتے ان کی خبر گیری کرتے ، ان پر سلام پیش فرماتے ، خیرت معلوم کرتے ، ازدواجی ضرورت کے علاوہ اپنے اہل میں گھل مل کر کھاتے پیتے اور اٹھتے بیٹھتے لیکن رات ہمیشہ اسی جگہ گزارتے جہاں آپ ﷺ کی باری ہوتی اور غسل کی ضرورت وہیں پوری کرتے اگر ضرورت ہوتی اور ظاہر ہے کہ یہ بیان آپ ﷺ کی حسن معاشرت ہی کا ہے لیکن افسوس کہ ہمارے شارحین و مترجمین نے مل کر اس کا مفہوم کچھ سے کچھ کردیا جس کا نتیجہ ہم نے پیچھے ذکر کردیا۔ بلاشبہ اس جگہ اشارات اور استعارات سے ہم نے بات کی ہے لیکن محض اس لیے کہ بات بھی ہوجائے اور لمی بحث بھی نہ چھڑے کہ اس کے لیے ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے لیکن اگر کوئی صاحب بات کرنا چاہیں گے تو ہم حاضر ہیں جب تک موجود ہیں اور یہ مضمون پہلے ہی لمبا ہوگیا ہے حالانکہ اس کو ابھی مزید آگے چلنا ہے اسی لیے ہم کو اختصار کی ضرورت ہوئی۔ نبی اعظم وآخر ﷺ رفیق اعلیٰ کی جانب جب دعوت دین مکمل ہوگئی اور عرب کی نکیل اسلام کے ہاتھ میں آگئی تو رسول اللہ ﷺ کے جذبات و احساسات ، احوال وظروف اور گفتارو کردار سے ایسی علامات نمودار ہونا شروع ہوئیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ اب آپ اس حیات مستعار کو اور اس جہان فانی کے باشندگان کو الوداع کہنے والے ہیں مثلاً آپ ﷺ نے رمضان 10 ھ میں بیس دن کا اعتکاف فرمایا جبکہ پہلے ہمیشہ رمضان میں دس روز کا اعتکاف کرتے تھے جبریل (علیہ السلام) نے اس سال آپ ﷺ کو دو مرتبہ قرآن کریم کا دورہ کرایا جب کہ ہر سال ایک ہی مرتبہ دور کرایا کرتے تھے آپ ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا : مجھے معلوم نہیں شاید میں اس سال کے بعد اپنے اس مقام پر تم لوگوں سے کبھی نہ مل سکوں جمرہ عقبہ کے پاس فرمایا کہ ” مجھ سے اپنے حج کے اعمال سیکھ لو کیونکہ میں اس سال کے بعد شاید حج نہ کرسکوں گا ایام تشریق کے وسط میں آپ ﷺ پر سورة نصر نازل ہوئی اور اس سے بھی آپ ﷺ نے سمجھ لیا کہ اب دنیا سے میری روانگی کا وقت آن پہنچا ہے اور یہ گویا موت کی خبردی جارہی ہے اول صفر 11 ھ میں آپ ﷺ دامن احد میں تشریف لے گئے اور شہداء کے لیے اس طرح دعا فرمائی گو آپ ﷺ زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہے ہیں پھر واپس آکر منبر پر فروکش ہوئے اور فرمایا : ” میں تمہارا امیر کارواں ہوں اور تم پر گواہ ہوں بخدا میں اس وقت اپنا حوض یعنی حوض کوثر دیکھ رہا ہوں “ (بخاری ج 2 ص 585) ازیں بعد ایک روز وہ بھی آیا کہ آپ ﷺ نصب رات کو اٹھے او بقیع کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں پہنچ کر اہل بقیع کے لیے دعات مغفرت کی اور فرمایا : ” اے قبروں والو ! تم پر سلام ! لوگ جس حال میں ہیں اس کے مقابل تمہیں وہ حال مبارک ہو جس میں تم ہو فتنے تاریک رات کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے آرہے ہیں اور بعد والا پہلے والے سے زیادہ برا ہے “ اس کے بعد آپ ﷺ نے اہل قبور کو یہ بشارت دی کہ ہم بھی تم سے آملنے والے ہیں۔ نبی اعظم و آخر ﷺ اور مرض الموت کا آغاز 29 صفر 11 ھ روز دو شنبہ یعنی سوموار کو رسول اللہ ﷺ ایک جنازے میں بقیع تشریف لے گئے واپسی پر راستے ہی میں درد سر شروع ہوگیا اور حرارت اتنی تیز ہوگئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی یہ آپ ﷺ کے مرض الموت کا آغاز تھا آپ ﷺ نے اسی حالت مرض میں گیارہ دن نماز پڑھائی آپ ﷺ کی مرض کی کل مدت 13 یا 14 دن تھی اس طرح آپ ﷺ کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی چلی گئی اور اسی دوران آپ ﷺ ازواج مطہرات سے پوچھتے رہتے تھے کہ میں کل کہاں رہوں گا ؟ مختصر یہ کہ آپ ﷺ مسجد کے اندر نماز کے بالکل قریب سیدہ عائشہ ؓ کے حجرہ میں منتقل ہوگئے اور سر پر پٹی باندھ رکھی تھی اور اس طرح آپ ﷺ نے اپنی مرض موت کا آخری ہفتہ اسی حجرہ میں گزارا ۔ وفات سے صرف پانچ روز قبل روز چہار شنبہ بدھ کو جسم کی حرارت میں مزید شدت آگئی جس کے باعث آپ ﷺ کی تکلیف بھی مزید بڑھ گئی اور غشی طاری ہونے لگی قدرے آفاقہ ہوا تو آپ ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے اور منبر پر تشریف فرما ہوئے اور بیٹھ کر خطبہ دیا صحابہ کرام ؓ منبر کے اردگرد جمع تھے اس خطاب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میری قبر کو سجدہ گاہ مت بنانا کہ اس کی پوجا کی جانے لگے (صحیح بخاری ج اول ص 62) وفات سے ایک روز قبل آپ ﷺ نے تمام غلاموں کو آزاد کردیا اور اپنے دوسرے کاموں کو بھی قدرے سمیٹ دیا۔ نبی اعظم و آخر ﷺ اور حیات مبارک کہ کا آخری دن حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ دو شنبہ کے روز مسلمان نماز فجر میں مصروف تھے اور ابوبکر ؓ آپ ﷺ کے تقاضے کے مطابق نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک آپ ﷺ نے حجرہ کے دروازہ سے پردہ ہٹایا اور مسجد میں نمازیوں کی حاضری اور نماز میں مصروفیت کو ملاحظہ کیا اور نماز اپنے مقام ہی پر ادا فرمائی اور اس کے بعد کسی دوسری نماز کا وقت ہی نہیں آیا کہ وقت رحلت آگیا دن چڑھے چاشت کے وقت آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ ؓ کو بلایا اور ان سے کچھ سرگوشی کی وہ رونے لگیں آپ ﷺ نے انہیں پھر قریب کیا اور کچھ سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ بعد میں ہمارے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ (پہلی بار ) نبی ﷺ نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپ ﷺ اسی مرض میں وفات پاجائیں گے اس لیے میں روئی پھر آپ ﷺ نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپ ﷺ کے اہل و عیال میں سب سے پہلے میں آپ ﷺ کے پیچھے جائوں گی ۔ اس پر میں ہنسی (بخاری ج 2 ص 638) نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ کو یہ بشارت بھی دی کہ آپ ؓ ساری خواتین عالم کی سیدہ (سردار) ہیں اس وقت رسول اللہ ﷺ جس شدید کرب سے دو چار تھے اسے دیکھ کر حضرت فاطمہ ؓ بےساختہ پکار اٹھیں واکرب اباہ ” ہائے ابا جان کی تکلیف “ آپ ﷺ نے فرمایا : ” تمہارے ابا پر آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں ہوگی “ (بخاری ج 2 ص 641) آپ ﷺ نے حسن و حسین ؓ کو بلا کر چوما اور ان کے بارے میں خیر کی وصیت فرمائی ازواج مطہرات کو بلایا اور انہیں وعظ و نصیحت کی۔ ادھر لمحہ بہ لمحہ تکلیف بڑھتی جارہی تھی اور اس زہر کا اثر بھی ظاہر ہونا شرع ہوگیا تھا جسے آپ ﷺ کو خیبر میں کھلایا گیا تھا چناچہ آپ ﷺ حضرت عائشہ ؓ سے فرماتے تھے ” اے عائشہ ! خیبر میں جو کھانا میں نے کھالیا تھا اس کی تکلیف برابر محسوس کررہا ہوں اس وقت مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس زہر کے اثر سے میری رگ جاں کٹی جارہی ہے۔ “ (بخاری ج 2 ص 637) آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو بھی وصیت فرمائی ۔ فرمایا : (الصلاۃ الصلاۃ وما ملکت ایمانکم) ” نماز ، نماز اور تمہارے زیردست “ (یعنی لونڈی ، غلام) آپ ﷺ نے یہ الفاظ کئی بار دہرائے (بخاری ج 2 ص 637) پھر نزع کی حالت شروع ہوگئی اور حضرت عائشہ ؓ نے آپ ﷺ کی اپنے اوپر ٹیک لگوادی ان کا بیان ہے کہ اللہ کی ایک نعمت مجھ پر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے گھر میں میری باری کے دن میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے وفات پائی اور آپ ﷺ کی موت کے وقت اللہ نے میرا لعاب اور آپ ﷺ کا لعاب اکٹھا کردیا ہوا یہ کہ عبدالرحمن بن ابی بکر آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے ان کے ہاتھ میں مسواک تھی اور رسول اللہ ﷺ مجھ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ مسواک کی طرف دیکھ رہے ہیں میں سمجھ گئی کہ آپ ﷺ مسواک کرنا چاہتے ہیں میں نے پوچھا ، آپ ﷺ کے لیے لے لوں ؟ آپ ﷺ نے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں ! میں نے مسواک لے کر آپ ﷺ کو کڑی (سخت) محسوس ہوئی میں نے کہا اسے آپ ﷺ کے لیے نرم کردوں ؟ آپ ﷺ نے سر کے اشارے سے کہا ، ہاں ! میں نے مسواک نرم کردی اور آپ ﷺ نے نہایت اچھی طرح مسواک کی آپ ﷺ کے سامنے کٹورے میں پانی تھا آپ ﷺ پانی میں دونوں ہاتھ ڈال کر چہرہ پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے : (لا الہ الا اللہ ) ” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، موت کے لیے سختیاں ہیں “ (صحیح بخاری ج 2 ص 640) مسواک سے فارغ ہوتے ہی آپ ﷺ نے ہاتھ یا انگلی اٹھائی نگاہ چھت کی طرف بلند کی اور دونوں ہونٹوں پر کچھ حرکت ہوئی حضرت عائشہ ؓ نے کان لگایا تو آپ ﷺ فرما رہے تھے ” ان انبیاء ، صدیقین ، شہدا اور صالحین کے ہمراہ جنہیں تو نے انعام سے نوازا اے اللہ ! مجھے بخش دے ، مجھ پر رحم کر اور مجھے رفیق اعلیٰ میں پہنچا دے ۔ اے اللہ ! رفیق اعلیٰ “ (ایضاً ) آخری فقرہ تین بار دہرایا اور اسی وقت ہاتھ جھک گیا اور آپ ﷺ رفیق اعلیٰ سے جالا حق ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ واقعہ 12 ربیع الاول 11 ھ یوم دو شنبہ کو چاشت کی شدت کے وقت پیش آیا اس وقت نبی ﷺ کی عمر تریسٹھ سال چار دن ہوچکی تھی۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کی وفات کا غم ہائے بیکراں اس حادثہ دلفگار کی خبرفوراً پھیل گئی اہل مدینہ پر کوہ غم ٹوٹ پڑا آفاق و اطراف تاریک ہوگئے حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ جس دن رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے اس سے بہتر اور تابناک دن میں نے کبھی نہیں دیکھا اور جس دن رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اس سے زیادہ قبیح اور تاریک دن بھی میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ج 2 ص 547) آپ ﷺ کی وفات پر حضرت فاطمہ ؓ نے فرط غم سے فرمایا : یا ابتاہ اجاب ربا دعہ یا ابتاہ من جنۃ الفردوس ماواہ ، یا ابتاہ الی جبریل ننعاہ۔ ” ہائے ابا جان ! جنہوں نے پروردگار کی پکار پر لبیک کہا ، ہائے ابا جان ! جن کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے ہائے ابا جان ! ہم جبریل کو آپ ﷺ کی موت کی خبر دیتے ہیں “۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی وفات کے بعد عمر فاروق ؓ کے اوسان خطا ہوگئے وفات کی خبر سن کر حضرت عمر ؓ کے ہوش جاتے رہے انہوں نے کھڑے ہو کر کہناشروع کیا : ” کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات نہیں ہوئی بلکہ آپ ﷺ اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں جس طرح موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) تشریف لے گئے اور اپنی قوم سے چالیس رات غائب رہ کر ان کے پاس پھر واپس آگئے تھے حالانکہ واپس سے پہلے کہا جارہا تھا کہ وہ انتقال کرچکے ہیں۔ اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ بھی ضرور پلٹ کر آئیں گے اور ان لوگوں کے ہاتھ پائوں کاٹ ڈالیں گے جو سمجھتے ہیں کہ آپ ﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے “ (ابن ہشام ج 2 ص 655) نبی اعظم و آخر ﷺ کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق ؓ کی فراست کا امتحان ادھر حضرت ابوبکر ؓ سخ میں واقع اپنے مکان سے گھوڑے پر سوار ہو کر تشریف لائے اور اتر کر مسجد نبوی میں داخل ہوئے پھر لوگوں سے کوئی بات کیے بغیر سیدھے حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے اور رسول اللہ ؓ کا قصد فرمایا آپ ﷺ کا جسد مبارک دھاری دار یمنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا حضرت ابوبکر ؓ نے رخ انور سے چادر ہٹائی اور اسے چوما اور روئے پھر فرمایا : ” میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ، اللہ آپ ﷺ پر دو موت جمع نہیں کرے گا جو موت آپ ﷺ پر لکھ دی گئی تھی وہ آپ ﷺ کو اچکی “۔ اس کے بعد ابوبکر ؓ باہر تشریف لائے اس وقت بھی حضرت عمر ؓ لوگوں سے بات کر رہے تھے حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے کہا ، عمر بیٹھ جائو حضرت عمر ؓ نے بیٹھنے سے انکار کردیا ادھر صحابہ کرام ؓ حضرت عمر ؓ کو چھوڑ کر حضرت ابوبکر ؓ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا : اما بعد۔ من کان منکم یعبد محمداً ﷺ فان محمداً قدمات ، ومن کان منکم یعبد اللہ فان اللہ حی لایموت ، قال اللہ (وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن بضر اللہ شیئاً وسیجزی اللہ الشکرین) (144:3) ” اما بعد ! تم میں سے جو شخص محمد ﷺ کی پوجا کرتا تھا تو (وہ جان لے) کہ محمد ﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے اور تم میں سے جو شخص اللہ کی عادت کرتا تھا تو یقیناً اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے کبھی نہیں مرے گا اللہ کا ارشاد ہے : ” محمد نہیں ہیں مگر رسول ہی ، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں تو کیا اگر وہ (محمد ﷺ مرجائیں یا ان کی موت واقع ہوجائے یا وہ قتل کردیئے جائیں تو تم لوگ اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جائو گے ؟ اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جائے تو (یاد رکھے کہ ) وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا “۔ صحابہ کرام ؓ کو جواب تک فرط غم سے حیران و ششدر تھے انہیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا یہ خطاب سن کر یقین آگیا کہ رسول اللہ ﷺ واقعی رحلت فرما چکے ہیں چناچہ حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ واللہ ایسا لگتا تھا کہ گویا لوگوں نے جانا ہی نہ تھا کہ اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے ، یہاں تک کہ ابوبکر صدیق ؓ نے اس کی تلاوت کی تو سارے لوگوں نے ان سے یہ آیت اخذ کی اور اب جس کسی انسان کو میں سنتا تو وہ اسی کو تلاوت کررہا ہوتا۔ حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : ” واللہ میں نے جوں ہی ابوبکر ؓ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا تو انتہائی متحیر اور دہشت زدہ ہو کر رہ گیا حتیٰ کہ میرے پائوں مجھے اٹھا ہی نہیں رہے تھے اور حتیٰ کہ ابوبکر ؓ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سن کر میں زمین پر گر پڑا کیونکہ میں جان گیا کہ واقعی نبی ﷺ کی موت واقعی ہوچکی ہے (بخاری ج 2 ص 640) نبی اعظم و آخر ﷺ کی تجہیز و تکفین اور تدفین آپ ﷺ کی وفات حسرت آیات نے عمر فاروق ؓ جیسے آدمی کے جہاں اوسان خطا کیے تھے وہاں بہت سے دوسرے لوگوں کے ہوش بھی اڑ چکے تھے اور کسی کو سمجھ میں بھی کچھ نہیں آتا تھا کہ اب کیا کرنا ہے اور کدھر جانا ہے اور خصوصاً نبی کریم ﷺ کی جانشینی کے مسئلے کا حل کیا ہے اور کس کام کو کس پر فوقیت دینا ہوگی بہرحال اللہ تعالیٰ کا یہ نظام چلتا آیا ہے اور چلتا رہے گا جب تک کہ اس کا چلانا اس کو منظور ہے۔ سوموار کا باقی دن تو اسی کسمپرسی کے عالم میں گزر گیا اور چند صحابہ ؓ کی ہمت نے کام کیا اور انہوں نے باہم مشورہ سے جن میں نمائندگی انصار و مہاجرین کی ضرور تھی مل کر آپ ﷺ کی جانشینی کا مسئلہ حل کرلیا اور ابوبکر صدیق ؓ کے نہ چاہنے کے باوجود آپ ہی کو خلیفہ وقت یعنی آپ ﷺ کا جانشین منتخب کرلیا اور اس بات کا اعلان کردیا گیا اور پھر رات گزرگئی۔ منگل کے روز آپ ﷺ کو غسل دیا گیا اور غسل دینے والے آپ ﷺ کے خاندان ہی کے افراد تھے یعنی آپ ﷺ کے چچا عباس ؓ اور ان کے دو صاحبزادے فضل اور تشم اور حضرت علی ؓ اور ان کی معاونت آپ ﷺ کے ایک آزاد کردہ غلام شقران اور اسامہ بن زید اور اوس بن خولی ؓ بھی شامل تھے امام بخاری اور امام مسلم (رح) کی وضاحت کے مطابق آپ ﷺ کو تین سفید یمنی چادروں میں کفن دیا گیا اور تین چادروں کے سوا کوئی چوتھا کپڑا موجود نہ تھا یعنی نہ کرتا اور نہ ہی کوئی اور کپڑا۔ آپ ﷺ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں بھی قدرے اختلاف ہوا لیکن جب صدیق اکبر ؓ نے فرما دیا کہ نبی کو وہیں دفن کیا جاتا ہے جہاں وہ وفات پائے تو آپ ﷺ کو وہیں دفن کرنے کے لیے قبر کھودی گئی جہاں آپ ﷺ کی وفات ہوئی تھی اور آپ ﷺ کی قبر مبارک لحد والی تھی جس کو ہمارے ہاں بغلی قبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس کے بعد صحابہ کرام ؓ کے انبوہ نے ترتیب کے ساتھ دس دس آدمی مل کر نماز جنازہ پڑھی اور ان میں کوئی امام نہ بنایا گیا یہ دس کا گروہ اس لیے تشکیل دیا گیا کہ اس سے زیادہ اندر داخل ہونے کی گنجائش ہی موجود نہ تھی اور اس طرح منگل کا پورا دن بدھ کی آدھی رات گزر گئی اور پھر اس بدھ کی رات کو ہی آپ ﷺ کے جسد اظہر کو خاک کے سپرد کردیا گیا۔ (ابن ہشام ج 2 ص 650) انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ ﷺ کے صحابہ ؓ کے بارے میں ایک مدت کے بعد بعض بدباطنوں نے ایک خاص سکیم کے تحت اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام اور بانئی اسلام کے ساتھ دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ صحابہ ؓ کے درمیان بہت مناتشات شروع ہوگئے اور جن کا ماحصل خلاف تھا کہ خلافت سیدنا علی ؓ کا حق تھا لیکن وہ سیدنا ابوبکر ؓ کے ہاتھ کیسے لگ گئی ؟ اس مختصر مضمون میں اتنی گنجائش نہیں تاہم ہم بغیر کسی بحث و تمحیص کے یہ بات ثابت کرنے کے لیی کہ صحابہ ؓ کے درمیان کبھی یہ مسئلہ مختلف فیہ نہیں رہا جس نے کہا بالکل سفید جھوٹ بولا جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔ جس کا زندہ وجاوید ثبوت یہ ہے کہ صحابہ ؓ کے درمیان ہمیشہ رشتہ داریاں ہوتی رہیں اور خصوصاً سیدنا علی ؓ اور آپ ﷺ کی اولاد کا احترام ہمیشہ صحابہ کرام ؓ میں ہوا اور خلفائے ثلاثہ ؓ نے حضرت علی ؓ سے کبھی کسی معاملہ میں بھی اختلاف نہیں کیا اور نہ ہی حضرت علی ؓ کے اندر کسی طرح کا کوئی گلہ اور شکوہ تھا حضرت علی ؓ نے اپنے بیٹوں اور پوتوں کے نام عمر ، عثمان اور ابوبکر رکھے اور آپس میں رشتہ داریاں کیں اس جگہ ہم ان رشتہ داریوں اور ان ناموں ہی کو واضح کرنے کے لیے آپ کی اولاد ، آپ کے چچا اور پھوپھیاں آپ کے داماد ، دوہتے اور دوہتیوں کا مختصر ذکر مع ان کے تعارف کے کریں گے تاکہ بات کی وضاحت ہوجائے اور آج کل کے بدبختوں کے کانوں کی کھڑکیاں کھلیں اور عوام میں جو ہیجان پایا جاتا ہے وہ ختم ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے شجرہ نسب چارپشت کی وضاحت (1) محمد رسول اللہ ﷺ عبداللہ کے بیٹے تھے۔ (2) عبداللہ عامر کے بیٹے تھے جو عبدالمطلب کے لقب سے معروف ہوئے اور آپ کے لقب نے آپ کا اصل نام چھپا کر اس کی جگہ پائی۔ (3) عامر یعنی عبدالمطلب عمرو کے بیٹے تھے لیکن عمرو کا قلب ہاشم تھا اور ہاشم کے لقب نے بھی ہاشم کے اصل نام عمرو پر سبقت حاصل کرلی اور وہ ہاشم ہی کے نام سے معروف ہوئے۔ (4) عمرو یعنی ہاشم کے والد کا نام مغیرہ تھا لکین مغیرہ کا لقب عبدمناف تھا اور اسی لقب نے ان کے اصل نام مغیرہ پر شہرت پائی۔ اب ان لقبوں کو اتنی شہرت حاصل ہے کہ ان لوگوں کے اصل ناموں کو صرف کتب نے سبنھال رکھا ہے کسی کو محمد ﷺ بن عبداللہ بن عامر بن عمرو بن مغیرہ کہیں تو شاید یہ سمجھ ہی میں نہ آئے اور کہنے والے کو وہ الٹا برا بھلا کہنا شروع کردے کہ تیری مت کیوں ماری گئی حالانکہ ایسا کہنے والے کی مت نہیں ماری گئی بلکہ اس طرح کہنے والے کی مت زمانہ یعنی رواج نے مار دی اور اس طرح رواج بڑوں بڑوں کی مت مار دیتا ہے اور پھر کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا سب کے سب بوکھلا کر رہ جاتے ہیں جن کی مت ماری گئی ہوتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کی مت ماری گئی حالانکہ حقیقت میں وہ خود سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور اپنی لاعلمی کو وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے غور کرو کہ آپ ﷺ کا اصل نسب نامہ تو محمد ﷺ بن عبداللہ بن عامر بن عمرو بن مغیرہ ہے لیکن لوگوں میں جو معروف ہے وہ محمد ﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہے اور آج اصل کسی کو معلوم نہیں لیکن نقل سب کو یاد ہے۔ ہمارے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کے دادا عامر یعنی عبدالمطلب کے پندرہ بیٹھے اور سات بیٹیاں تاریخ بتاتی ہے لیکن بیٹوں کے بارے میں اختلاف کرکے صرف بارہ کی تصدیق کرتی ہے اور سات بیٹیوں کو بھی مانا گیا ہے یاد رہے کہ آپ ﷺ کے چچوں کے نام اس طرح ہیں : حارث ، زبیر ، ابو طالب (عبد مناف) ، مقوم (عبدالکعبہ) عبداللہ ، ابو لہب (عبدالعزی) فجل ، مغیرہ ، حمزہ ، ضرار ، تشم ، عباس ، غیداق ، مصعب ، ان میں تشم اور فجل کے بارے میں اختلاف ہے اور آپ کی پھوپھیاں یہ تھیں ام حکیم ، بیضاء ، امیمہ ، اروی ، برہ ، عاتکہ اور صفیہ۔ ان سب کے نام آپ نے ذہن میں رکھے تو آگے کام دیں گے۔ خصوصاً ان میں سے آپ ﷺ کے 6 چچوں کا نسب و نام اس لیے درج ہے تاکہ ان کی اولادوں کے نام یاد رہ جائیں اور ان کے آپس کے تعلقات واضح ہوں۔ (1) حارث عم النبی ﷺ ، ان کی وفات قبل از بعث ہوئی 1 ۔ نوفل 2 ۔ عبداللہ 3 ۔ ربیعہ 4 ۔ مغیرہ (ابو سفیان) 1 ۔ نوفل فتح مکہ میں مسلمان ہوئے 25 ھ مدینہ میں وفات پائی ان کے تین بیٹے مغیرہ ، عبداللہ ، حارث بھی صحابی تھے مغیرہ بن نوفل حضرت عثمان کے عہد میں قاضی مدینہ تھے ابن ملجم جس نے حضرت علی ؓ کو زخمی کیا تھا جب بھاگ کر نکلا تو انہوں نے اسے پکڑا تھا سیدہ امامہ بنت زینب جو نبی کریم ﷺ کو دہتی تھیں فاطمہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کی وفات کے بعد ان کا نکاح حضرت علی ؓ سے ہوا اور پھر علی ؓ کی شہادت کے بعد مغیرہ بن نوفل کے عقد میں آئی اور مغیرہ کے بیٹے یحییٰ انہی امامہ بنت زینب رسول سے پیدا ہوئے۔ 2 ۔ عبداللہ مسلمان ہوئے۔ حیات نبوی میں وفات پائی ، ان کو نبی کریم ﷺ نے ” سعید “ کا لقب دیا تھا۔ 3 ۔ ربیعہ بھی مسلمان ہوئے اور ربیعہ ہی کا ایک بیٹا دشمنوں کے ہاتھوں قتل ہوا تھا جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے ایک خطبہ میں فرمایا تھا کہ ان اول دم اضعہ دم ربیعۃ بن الحارث ” یعنی خون کا پہلا مطالبہ جس کو میں ملیا میٹ کرتا ہوں اور ربیعہ بن الحارث کے بیٹے کا ہے تاکہ گزشتہ مطالبات ختم ہوجائیں اور ان کے دو فرزند مطلب اور عبدالمطلب بھی آپ ﷺ کے صحابہ ؓ میں سے تھے۔ 4 ۔ مغیرہ جن کی کنیت ابو سفیان تھی یہ نبی کریم ﷺ کے دودھ بھائی بھی تھے کہ انہوں نے بھی حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیا تھا اور عرب کے مشہور شاعروں میں بھی شمار ہوتے تھے فتح مکہ سے چند روز قبل مسلمان ہوئے تھے آپ ﷺ نے ان کے ساتھ بہت محبت کی اور اسلام لانے کے بعد انہوں نے نبی کریم ﷺ کے متعلق اشعار بھی کہے اور ان کے دو فرزند عبداللہ اور جعفر دونوں ہی صحابی ہیں اور جعفر بن ابوسفیان غزوہ حنین میں بھی شریک تھے۔ (2) عبد مناف (ابو طالب) عم النبی ﷺ 1 ۔ عقیل 2 ۔ جعفر طیار 3 ۔ علی 4 ۔ طالب ابو طالب کا اصل نام عبد مناف تھا لیکن ان کی کنیت نام پر غالب رہی اور آج بہت ہی کم کسی کو معلوم ہوگا کہ ان کا اصل نام عبد مناف تھا ان کے سب سے بڑے بیٹے کا نام طالب تھا اور اتفاق دیکھئے کہ یہی مسلمان نہیں ہوئے باقی تینوں نے اسلام قبول کیا اور علی تو بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں ہیں ان کی دو بیٹیاں ام ہانی اور جمانہ تھیں ، دونوں نے اسلام قبول کیا۔ 1 ۔ عقیل ؓ طالب سے چھوٹے تھے جنگ بدر میں قریش کے ساتھ تھے اس لیے بدر میں اسیر بھی ہوئے لیکن حدیبیہ سے قبل ہی مسلمان ہوگئے تھے اور ان کا انتقال امیر معاویہ ؓ کے دور میں ہوا مسلم ؓ جو حسین ؓ کی طرف سے نائب بن کر کوفہ گئے تھے انہیں عقیل کے بیٹے تھے جو کوفہ ہی میں شہید ہوئے۔ 2 ۔ جعفر ؓ علی ؓ کے حقیقی بھائی ہیں ہجرت حبشہ بھی کی اور 8 ھ میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے تھے ان کے ہاں حبش میں ایک فرزند پیدا ہوئے جن کا نام عبداللہ رکھا گیا ان کا لقب بحرالجود تھا حضرت علی ؓ کی دختر سیدہ زینب کبریٰ انہیں کے گھر میں آباد ہوئیں 80 ھ میں پچاسی سال کی عمر میں وفات پائی۔ 3 ۔ علی ؓ سابق ال ایمان ہیں ان کی پرورش رسول اللہ ﷺ نے اپنے ذمہ لے لی تھی اور آپ ﷺ نے علی ؓ سے اپنی چھوٹی بیٹی فاطمہ ؓ کا نکاح کردیا تھا سیدہ فاطمہ ؓ کے بطن سے حسن ، حسین اور محسن ؓ پیدا ہوئے اور دو بیٹیاں بھی پیدا ہوئیں یعنی زینب اور ام کلثوم علی ؓ نے فاطمہ ؓ کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں کی لیکن فاطمہ ؓ کے بعد آپ نے آٹھ شادیاں کیں جن میں سے کثیر اولاد پیدا ہوئی لیکن ان کی اولاد کا ذکر ہم آخر میں کریں گے کیونکہ اس میں بہت تفصیل ہے۔ 4 ۔ ابو طالب کے بیٹے طالب کے متعلق ہم نے عرض کردیا ہے کہ وہ اگرچہ اپنے باپ کے بعد فوت ہوا تاہم اسلام اس نے قبول نہیں کیا تھا اور اس کی اولاد کا ذکر بھی ہم نے نہیں دیکھا۔ (3) حمزہ ؓ عم النبی ﷺ سیدنا حمزہ ؓ 6 نبوی میں مسلمان ہوئے اور پھر ہمیشہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہی رہے آپ ﷺ کے یہ چچا بھی آپ ﷺ کے دودھ بھائی ہیں کیونکہ انہوں نے بھی حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیا ہے اور یہ بات تم کو یاد رکھنا ہے ان کے دو بیٹے ایمان لائے تھے ایک نام یعلیٰ ؓ اور دوسرے کا نام عمارہ ؓ لیکن ان کا تفصیلی حال معلوم نہ ہوسکا جن دوستوں کو معلوم ہو وہ نوٹ فرما دیں اور ان کی دو بیٹیاں ام الفضل ؓ اور امامہ ؓ کا ذکر بھی ملتا ہے امامہ ؓ ابھی چھوٹی تھیں کہ حمزہ ؓ شہید ہوگئے اور انہیں کے بارے میں احادیث میں آتا ہے کہ ان کی پرورش کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے تین دعویدار تھے زید بن الحارثہ ﷺ ، علی ؓ اور جعفر طیار ؓ اور چونکہ جعفرطیار ؓ کے ہاں امامہ کی حقیقی خالہ تھیں اس لیے ان کی پرورش کا حق آپ ﷺ نے جعفر طیار ؓ ہی کو دیا تھا۔ (4) عباس ؓ عم النبی ﷺ نبی کریم ﷺ کے یہ چچا آپ ﷺ سے صرف دو سال بڑے تھے ان کی والدہ کا نام نتیلہ تھا جس نے سب سے پہلے بیت اللہ کو حریر دیباج کا غلاف استعمال کرایا دل سے اسلام کو قبول کرچکے تھے لیکن اظہار بہت بعد میں کیا لیکن یہ مسئلہ سیاسیات اسلام سے ہے جنگ بدر میں اسیر بھی ہوئے ان کی کثیر اولاد مسلمان ہوئی جن میں سے فضل ، عبداللہ ، عبیداللہ ، عبدالرحمن اور دختر ام حبیب زیادہ معروف ہیں اور ان کے حالات بھی تاریخ میں ملتے ہیں اور خصوصاً فضل اور عبداللہ تو کتب احادیث کی زینت ہیں۔ (5) ابو لہب عم النبی ﷺ ابولہب کی مخالفت اسلام میں اظہر من الشمس ہے اس نے مخالفت میں حد کردی لیکن آپ ﷺ نے برداشت میں بھی کمال کر دکھایا کہ کبھی کوئی جملہ زبان پر ایسا نہ لائے جس میں ادب محلوظ خاطر نہ رہے اور اس بات نے واضح کردیا کہ کفرو اسلام اور چیز ہے اور رشتہ کا احترام اور شے ہے لیکن تفصیل کا یہ موقع نہیں ابولہب کی موت بھی بڑی دردناک ہوئی جس سے عبرت حاصل ہوتی ہے اس کے چار بیٹھے تھے دو تو کفر کی حالت ہی میں مرے اور دو نے فتح مکہ کے روز اسلام قبول کیا اور ان کی ایک بیٹی درہ بھی مسلمان ہوئیں جس کا ذکر تاریخ میں آتا ہے۔ (6) زبیر عم النبی ﷺ زبیر نے نبی کریم ﷺ کی پرورش میں بہت حصہ لیا آپ ﷺ سے بہت پیار کیا آپ ﷺ کو تجارت پر لگایا حلف الغفول میں آپ ﷺ کو ساتھ رکھا ان کی نیکی اور رحمدلی ضرب المثل تھی اور زبیر عبداللہ کے حقیقی بھائی بھی تھے یعنی والدہ بھی دونوں کی ایک ہی تھی یہ بعثت نبوی سے قبل ہی وفات پا گئے تھے ان کے ایک فرزند عبداللہ بن زبیر تھے انہوں نے اسلام قبول کیا اور اسلام کی خدمت میں حصہ لیا اور ابوبکر صدق ؓ کی خلافت میں وفات پائی بلکہ جنگ اجنادین میں شہید ہوئے اور ان کی دلیری اور بہادری کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کی پھوپھیوں نے اور ان کی اولاد نے اسلام کی بہت خدمت کی اور ان کی کثیر تعداد نے لشکر اسلام میں بہت کارہائے نمایاں کیے لیکن ان کی تفصیل بہت لمبی ہے اور اس جگہ اتنی گنجائش نہیں آپ ﷺ کی بڑی اور حقیقی پھوپھی ام حکیم کی بیٹی ارویٰ عثمان بنی عفان ؓ کی والدہ ہیں اسی طرح سیدنا عثمان ؓ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی زاد بہن کے بیٹے یعنی بھانجے بھی ہوتے ہیں۔ سیدہ فاطمہ ؓ کی وفات کے بعد سیدنا علی ؓ نے مختلف اوقات میں آٹھ عورتوں سے شادی کی اور سب سے آپ کی اولاد ہوئی ۔ جن کی تفصیل اس طرح ہے : نام اہلیہ اولاد ، بیٹے بیٹیاں 1 ۔ سیدہ فاطمہ ؓ حسن ، حسین ، محسن زینب ، ام کلثوم 2 ۔ ام البنین بنت حرام عمر (اطراف) عباس ، جعفر ، عبید اللہ ، عثمان 3 ۔ یعلیٰ بنت مسعود عبید اللہ ، ابوبکر 4 ۔ اسما بنت عمیس عون ، یحییٰ 5 ۔ امامہ بنت زینب محمد اوسط 6 ۔ خولہ بنت جعفر بن قیس محمد بن حنفیہ 7 ۔ ام سعید بنت عروہ x ام الحسن ، رملۃ الکبریٰ 8 ۔ ام حبیبہ بنت ربیعہ عمر رقیہ 9 ۔ محیات بنت امراء القیس x حارثہ بیٹیوں میں سے ام ہانی ، میمونہ ، زینب الصغریٰ ، رملہ الصغریٰ ، فاطمہ ، امامہ ، خدیجہ ام الکرام ، امہ سلمہ ، جمانہ ، نصیبہ ، ام جعفر کے نام بھی آئے ہیں چونکہ ان کی والدہ میں اختلاف ہے کسی نے کسی کو والدہ بتایا کسی نے کسی کو اس لیے ہم نے ان کو والدہ کے ناموں کے ساتھ بیان نہیں کیا بعض سیرۃ نگاروں نے بیٹیوں کی تعداد 19 اور بیٹوں کی تعداد 18 بتائی ہے اور بعض نے دونوں کی 18 , 18 اور بعض نے 17 , 17 تحریر کی ہے آگے ہم حضرت علی ؓ کی اولاد کی مزید تفصیل بیان کریں گے ہماری مراد اس بیان سے محض یہ دکھانا ہے کہ حضرت علی ؓ اور آپ کی اولاد در اولاد کو اصحاب ثلاثہ اور ان کے ناموں سے قعطاً کوئی نفرت نہ تھی اور نہ ہی ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی پرخاش موجود تھی یہ سب بعد کی کہانیاں ہیں اور جو لوگ منافقت کو ساتھ لے کر اسلام میں داخل ہوئے تھے ان کی ریشہ دوانیوں کا یہ نتیجہ ہے جو اہل تشیع کی صورت میں آج تک نظر آرہا ہے آپ ایمانداری کے ساتھ ذرا عقل پر زور دے کر خود فیصلہ کریں اور تجربہ کے لیے اپنے ملک کا مکمل طور پر سروے کریں آپ اس وقت اہل تشیع میں کسی ایک نام بھی ابوبکر ، عمر اور عثمان نہیں دکھا سکیں گے اور اہل کساء ہو کر جو اہل بیت میں داخل ہوئے ان کے نام اہل سنت کے ہر گھر میں موجود پائیں گے اور اس طرح جو اس وقت سادات خاندان کو عام امتی خاندانوں سے الگ رکھنے اور ان کے ساتھ نکاح نہ ہونے کا ذکر کیا جاتا ہے سب فرضی کہانیاں ہیں اگر سید خاندان ہی تسلیم کرنا ہے تو صحابہ کرام ؓ سب کے سب ہی سید ہیں کیونکہ سب ہی ماشاء اللہ قوم کے سردار ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کو سید کہہ کر دوسروں سے اس نام کی پرہیز کوئی معنی نہیں رکھتی اور کم از کم اتنی بات تسلیم کرلی جائے کہ یہ ساری تقسیمات جو اس وقت ہمارے ملک میں جائز رکھی گئی ہیں ان کا کوئی جواز موجود نہیں ہے یہ سب کا سب ذہنی اختراع ہے اور پرلے درجے فاسقوں ، فاجروں اور اخلاق و کردار کے گندے لوگوں کو جو سید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور سید ان کی قومیت تسلیم کرلی گئی ہے اس کی کوئی اصل موجود نہیں اور سید قوم کے ہر شریف اور با اخلاق و با کردار آدمی کو کہا جاسکتا ہے بلکہ ہم کو کہنا چاہیے اور ابوبکر صدیق ، عمر فاروق اور عثمان غنی ؓ کے ناموں کے ساتھ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیدنا کا سابقہ لگائے اور سیدنا ابوبکر صدیق ، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی ؓ لکھے اور بیان کرے جس طرح سیدنا علی ؓ کے نام کے ساتھ یہ لفظ لگایا جاتا ہے اور اسی طرح ان کی اولاد در اولاد کے ساتھ بھی خصوصاً وہ لوگ جو نیک کردار اور بااخلاق ہوں اب ہم اس کی مزید وضاحت کے لیے علی ؓ کے پورے خاندان کے لوگوں کا تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور جہاں وضاحت ضروری سمجھی وہاں اس کی وضاحت بھی کریں گے۔ علی ؓ بن عبد مناف (ابو طالب) 1 ۔ حسن ؓ نصف رمضان 3 ھ میں پیدا ہوئے ساتویں روز آپ کے نانا نبی اعظم و آخر ﷺ نے ان کا نسی کہ کیا ، نسی کہ میں دو جانور ذبح کئے (نسائی) ایک جانور ذبح کیا (ابو دائود) ان کو سبط رسول بھی کہا جاتا ہے اور یہ اہل کساء ہو کر اہل بیت نبوی میں داخل ہوئے یاد رہے کہ عققہا کا اسلامی نام نسی کہ ہے۔ 2 ۔ سیدنا علی ؓ کے دو بیٹوں کے نام عمر ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان دونوں کی پیدائش خلاف عمر یا اس کے بیت بعد ہوئی اگر سیدنا علی اور سیدنا عمر فاروق ؓ میں کوئی مناقشہ ہوتا تو علی ؓ کبھی اپنے بیٹے کا نام عمر نہ رکھتے لیکن حضرت علی ؓ کا دو بیٹوں کا نام عمر رکھنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ علی ؓ کو سیدنا عمر فاروق ؓ سے بہت محبت تھی جس کی دلیل قرآن کریم نے (رحماء بینھم ) کہہ کر پیش کی ہے۔ 3 ۔ سیدنا علی ؓ نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھ کر بعد میں آنے والوں پر ثابت کردیا ہے کہ میرے اور ابوبکر صدیق ؓ کے درمیان کسی طرح کا کوئی اختلاف نہیں ہے تم لوگ میرا نام خواہ مخواہ بدنام نہ کرو اور صحابہ کرام ؓ کی آپس میں محبت کی شہادت تو قرآن کریم نے بھی دی کہ وہ سب کے سب (رحماء بینھم ) کے مصداق تھے اور یہ بات بطور پیش گوئی بیان کردی گئی لیکن افسوس کہ لوگوں نے اس پر غور نہ کیا۔ 4 ۔ سیدنا علی ؓ نے اپنے ایک بیٹے کا نام عثمان بھی رکھا جو اس بات کی کھلی اور واضح دلیل ہے کہ علی ؓ اور سیدنا عثمان ؓ میں کسی طرح کا کوئی سقم موجود نہیں تھا بلکہ آپس میں شیرو شکر تھے منافقین نے ان کے درمیان جو اختلاف بتائے ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت کیا گیا ہے اگر ہمارا موقف صحیح نہیں ہے تو آج شیعہ کہلانے والے اپیی اولاد کے نام ابوبکر ، عمر اور عثمان آخر کیوں نہیں رکھتے۔ 5 ۔ ابو محمد حسن (رح) حسن ؓ کے پوتے ہیں اور خلیفہ منصور کے عہد میں امیر مدینہ مقرر کیے گئے اگر عباسیوں اور حسنیوں کے درمیان اس طرح کے اختلاف ہوتے جس طرح کے اختلافات بتائے جاتے ہیں تو خلیفہ منصور ان کو امیر مدینہ مقرر کرتے ؟ 6 ۔ حسن المثلث (رح) حسن المثنی (رح) کے بیٹے اور سیدنا حسن ؓ کے پوتے تھے اور عباسیوں کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات کا ذکر عام تاریخوں میں بھی ملتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ تاریخ اسلام کو بعد میں خاص سازش کے تحت مسخ کیا گیا ہے۔ 7 ۔ دائود (رح) بھی حسن المثنی (رح) کے بیٹے ہیں ان کا نکاح ام کلثوم بنت زین العابدین علی بن حسین ؓ کی بیٹی سے ہوا اور دائود کا عباسیوں کے ساتھ جو تعلق تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں جس کو تاریخ سے کچھ بھی واقفیت ہے وہ اس کا اعتراف کرے گا معلوم ہوا کہ دونوں خاندانوں کے درمیان رشتہ محبت موجود تھا جس کا اعتراف نہ کرنا حقیقت مسخ کرنا ہے۔ عمر (اطراف ) بن علی ؓ کے ایک بیٹے محمد (رح) نامی تھے ان محمد بن عمر کا نکاح خدیجہ بنت علی زین العابدین بن حسین بن علی ؓ سے ہوا اور محمد بن عمر نے اپنے بیٹوں کے نام عبداللہ ، عبید اللہ اور عمر رکھے اس طرح گویا عمر بن علی ؓ کے پوتے کا نام بھی عمر تھا قابل غور ہے کہ حضرت علی ﷺ کی اولاد کے لوگ نسلاً بعد نسل عمر نام رکھے جا رہے ہیں یہ کس بات کی شہادت ہے ؟ غور کرو اور سپاہ صحابہ ، جیش محمد اور سپاہ محمد جیسے نام رکھ کر لوگوں کو آپس میں مت لڑائو مسلمان کہلا کر مسلمانوں کے نام رکھ کر کفر کی تحریکیں مت چلائو۔ سیدنا علی ؓ کے بیٹے حسین ؓ کی اولاد اور اولاد در اولاد کی تفصیل۔ 1 ۔ ایک بات مزید قابل غور ہے کہ امراء القیس الکلبی سیدنا فاروق ؓ کے ہاتھ پر ایمان لائے چونکہ وہ سردار قوم تھے اس لیے ان کو اپنی ہی قوم بنی خزاعہ کا سردار بنا دیا اور رایت سرداری ان کو عنایت کیا وہ واپس جا رہے تھے کہ سیدنا علی ؓ سے ملاقات ہوگئی اس وقت علی ؓ کے ساتھ حسن و حسین ؓ بھی موجود تھے تعارف ہوا تو حضرت علی ؓ نے ان کو قرابت کے لیی مدعو کیا تو امراء القیس نے اپنی تین بٹیوں کا رشتہ دے دیا وہ اطرح کہ محیاۃ سیدنا علی ؓ کو سلمی حسن ؓ کو اور رباب حسین ؓ کے عقد میں آئیں (الاغانی) 2 ۔ حسین ؓ 5 شعبان 4 ھ میں پیدا ہوئے اور محرم 60 ھ میں شہادت پائی حسین ؓ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام سکینہ تھا اور ان کا نکاح عبداللہ بن حسن بن علی ؓ سے ہوا اور عبداللہ کربلا میں کام آئے اور سکینہ کا نکاح اس کے بعد مصعب بن زبیر سے ہوا اب یہ غور آپ خود کرلیں کہ مصعب بن زبیر کو سید کہا جاتا اور مانا جاتا ہے یا نہیں اور دونوں صورتوں میں جو نتیجہ نکلتا ہے اس پر بھی خود ہی غور کرلیں۔ 3 ۔ علی (رح) بن حسین بن علی ؓ کا لقب زین العابدین تھا اور وہ اسی سے معروف ہوئے ان کی دو بیٹیاں تھیں ام کلثوم اور خدیجہ ۔ خدیجہ کا نکاح محمد بن عمر اطراف بن علی ؓ سے ہوا اور خدیجہ کے بیٹا پیدا ہوا جس کا نام عمر رکھا گیا جیسا کہ آپ پیچھے بھی پڑھ چکے ہیں اور یہ عمر ، عمر بن علی ؓ کا پوتا ٹھہرا جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے اور ام کلثوم کا نکاح دائود بن زید بن حسن سے ہوا جیس کہ آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں۔ 4 ۔ ان کا اصل نام محمد اور باقرلقب تھا اور ابو جعفر کنیت تھی صحیح مسلم میں ان کی حدیث حج کے بارہ میں جابر ؓ سے ملتی ہے ان کی ولادت مدینۃ النبی میں ہوئی یہ 75 ھ میں پیدا ہوئے اور 114 ھ میں وفات پائی جنت البقیع میں مدفون ہوئے محمد باقر کی والدہ امام حسن ؓ کی بی بی تھیں ان کی شادی ام فروہ سے ہوئی جو ابوبکر صدیق ؓ کے پوتے قاسم الفقیہ کی بیٹی تھیں ام فروہ کی والدہ اسماء بنت عبدالرحمن بن ابی بکر ہیں اس لحاظ سے امام باقر کا تعلق سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے دوہرا ہے اور امام جعفر صادق جو امام باقر کے بیٹے ہیں اس تعلق پر فخر کرتے تھے اور فرماتے تھے ” ولدنی ابوبکر ؓ مرتین “ 5 ۔ زید الشہید نے خروج کیا اور اس وقت ہشام کی خلاف تھی مدائن ، بصرہ ، واسطہ ، موصل ، خراسان ، رے اور جرجان میں ان کی بیعت لی گئی لیکن جلد ہی اس تحریک کو ختم کردیا گیا اور اس طرح کے خروج ہوتے رہے جن کا اصل مقصد اسلام میں ریشہ دوانیاں ہی تھا جو حکماء وقت کی غفلت کا نتیجہ تھا۔ 6 ۔ عمر الاشراف علی زین العابدین (رح) کا بیٹ ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جب کربلا کا واقعہ یا حادثہ پیش آیا تو ابھی ان کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی اس حادثہ کے بعد ان کی شادی ہوئی اور پھر اولاد ہوئی اور تیسرے ، چوتھے بیٹے کا نام انہوں نے عمر رکھا اگر ان کے ذہن و دماغ میں ان باتوں کا شائبہ تک بھی ہوتا تو کبھی یہ بات تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے بیٹے کا نام ” عمر “ رکھتے ہم بار بار آپ کو یہ بات باور کرا رہے ہیں کہ اس بات پر غور کریں آج جب کہ اس حادثہ کو چودہ سو سال گزرنے کو ہیں اہل تشیع میں ان ناموں کو جو بہت بری نظر سے دیکھا جاتا ہے یہ کس بات کا نتیجہ ہے ؟ اگر یہ باتیں جو آج کہی جاتی ہیں صحیح ہوتیں تو ان کا اثر تو اس قریب کے زمانہ پر ہونا چاہیے تھا جس زمانہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ گزشتہ حالات کو اس روشنی میں دیکھا جائے جس روشنی میں دیکھنے کے لیے ہم بار بار عرض کر رہے ہیں تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس وقت سب لوگ آپس میں شیرو شکر تھے حادثہ کربلا میں جو کچھ ہوا وہ کوفہ کے منافقین کی منافقت کا نتیجہ تھا جو حادثہ کے بعد سب پر واضح ہوگیا۔ 7 ۔ حسین الاصغر کی وفات 157 ھ میں ہوئی ان کے چار بیٹے تھے عبداللہ ، عبیداللہ ، الاعرج ، علی ابو محمد الحسن اور سلیمان وغیرہ۔ 8 ۔ امام جعفر صادق (رح) 83 ھ میں پیدا ہوئے اور ان کی وفات 148 ھ میں ہوئی البقیع میں مدفون ہیں آپ کی والدہ ماجدہ ام فروہ ہیں جو ابوبکر ؓ کے پوتے قاسم الفقیہ (رح) کی بیٹی تھیں جن ذکر پیچھے گزر چکا ہے۔ 9 ۔ عمرالشجری (رح) عمر الاشراف کے پوتے اور علی الاصغر کے بیٹے تھے اور عمر الاشراف کے متعلق آپ پڑھ چکے ہیں کہ وہ علی زین العابدین کے بیٹے تھے اور اسی طرح سیدنا حسین ؓ کے پوتے کا نام بھی عمر تھا اور پوتے کے پوتے کا نام بھی عمر ہوا حسین ؓ کے ایک بھائی بھی عمر اطراف تھے اور شیعہ عمر ہی کا نام سن کر جزبز ہوجاتے ہیں کیا ان لوگوں کو غور و فکر نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ایسا کرکے کس خاندان سے بیر اور دشمنی کر رہے ہیں اور لوگوں پر کیا ثابت کرتے ہیں ؟ کیا اس کی کوئی حقیقت ہے ؟ 10 ۔ گزشتہ شجرہ نسب علی زین العابدین سے آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ ایک علی الاصغر علی زین العابدین کے بٹے و ہیں اور ایک علی الاصغر آپ کے پوتے۔ علی الاصغر آپ کے بیٹے کے ایک بیٹے یعنی پوتے کا نام حسین انس تھا اور حسین انس کے چھ بیٹے تھے اور ان میں سے ایک بیٹے کا نام بھی ” عمر “ تھا اور یہ عمر علی زین العابدین کے پوتے بیٹے ہوتے ہیں اور سیدنا حسین ؓ کے پوتے کے پوتے۔ جعفر بن عبد مناف (ابو طالب) (بقیہ حصہ اگلی آیت کے ذیل میں)
Top