Urwatul-Wusqaa - Faatir : 21
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
اِنَّآ : بیشک اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
بلاشبہ ہم نے آپ کو گواہ ، خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے
اے پیغمبر اسلام ! ہم نے آپ ﷺ کو شاہد ، بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے 8 ؎ زیر نظر آیت سورة الاحزاب میں آیت 45 کے طور پر گزر چکی ہے اور ہم نے اس کی وضاحت بھی اسی مقام پر کردی ہے جو عزوۃ الوثقی جلد ہفتم میں موجود ہے۔ آپ ﷺ کے ان اوصاف کے ساتھ مزید اوصاف بھی وہاں بیان کیے گئے ہیں۔ اس جگہ ان کا دوبارہ ذکر فرا کر گزشتہ دو کرداروں کی وضاحت فرما دی ہے کہ آپ ﷺ اے پیغمبر اسلام ! ایک گروہ کے کردار کو بشارت دینے والے اور دوسرے گروہ کیکردار کے لیے نذیر بنا کر بھیجے گئے ہیں اور ان دونوں ہی کرداروں پر آپ کی گواہی نہایت واضح اور غیر مبہم ہوگی۔ ان دونوں پر بھی جو آپ ﷺ کے ساتھ جانے والے اور ساتھ جانے والوں کو روکنے والے اور بددل کرنے والے تھے اور آنے ولاے لوگوں کے کرداروں پر بھی کیونکہ ان لوگوں میں بھی ان دو کرداروں کے لوگ موجود ہوں گیجو اپنی عادات و خصائل سے خود اپنی پہچان ہیں۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی گواہی دونوں کرداروں کے لیے آج بھی موجود ہے اور قیامت تک کے لوگوں کے لیے رہے گی۔ لاریب سچے ایمان لانے والے موجود ہوں گے وہاں ایمان لانے کے دعویٰ کے باوجود منافقت کا کردار ادا کرنے والے بھی قائم رہیں گے اور فطرت دنوں کو نکھار کر پیش کرتی رہے گی اور ان کا حال سب پر روشن ہوگا۔ آج بھی دونوں کردار بدستور موجود ہیں اور دونوں ہی اپنے کردار سے پہچانے جا رہے ہیں اگر چہپہچاننے والوں کی کمی آج بہت ہوچکی ہے اور دوسرے لفظوں میں بشارت والوں کے مقابلہ میں نذارت والوں کا پلا بہت بھاری ہے اور ظاہر ہے کہ اکثریت میں اقلیت کا چھپ جانا ایک فطری چیز ہے۔ پھر جب دور دورہ ہی اکثریت کا ہو تو حالت وہی ہوتی ہے جو اس وقت ہو رہی ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ کتنے ہیں جو اپنے آپ کو عالم فاضل ، پروفیسر ، علامہ اور حضرت العلام جسے خطابات سے نوازتے ہیں اور اپنے ناموں کے ساتھ سابقے اور لاحقے لگا لگا کر اپنی شہرت کرتے ہیں لکین جب ان کی بات کو دیکھا جاتا ہے تو وہ اتنی سطحی ہوتی ہے کہ آدمی کو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ بات کہنے والے وہی صاحب ہیں جو ان خطابات سے نوازے جاتے ہیں۔ زیر نظر آیت سے انہی ناموں کی اکثریت والوں نے نبی کریم ﷺ کو ہر جگہ ، ہر آن اور ہر وقت حاضر و ناظر تسلیم کیا ہے اور بڑا زور دیکر یہ بات کہی ہے کہ آپ ﷺ شاہد ہیں تو شاہد تب ہی ہو سکتے ہیں کہ وہ ہر ایک انسان کے عمل کو دیکھ رہے ہوں خواہ وہ برا کرنے والا ہے یا اچھا کیونکہ آپ ﷺ نیک و بد پر گواہ ہیں اور ہر ایک کے عمل کا مشاہدہ فرما رہے ہیں اور وہ اسی مشاہدہ کی بنا پر قیامت کے روز گواہی دیں گے۔ اگر ان صاحب سے کوئی اتنی بات پوچھ لے کہ پیر صاحب آپ اس ملک عزیز میں جسٹس کی حیثیت سے مانے اور تسلیم کیے جاتے ہیں کیا آپ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کی گواہی دیتے ہیں یا نہیں ؟ میرے خیال میں وہ کبھی اس سے انکار نہیں کریں گے اور نہ ہی کرسکتے ہیں اس لیے لازماً وہ یہ گواہی دیں گے پھر اگر ان سے کوئی پوچھ لے کہ کیا آپ نے اللہ کو ایک دیکھا ہے ؟ وہ یقینا سوال کرنے والے کو پاگل کہیں گے کیونکہ اللہ کی ذات تو ان ظاہری آنکھوں سے دیکھی جانے والی چیز نہیں اور نہ ہی وہ دیکھا جاسکتا ہے۔ اچھا تو پھر پیر صاحب کی ہر گواہی جھوٹی گواہی ہے جو وہ بغیر دیکھے دے رہے ہیں۔ یہ تو ایک بات ہے اور ہم سے زیادہ اس طرح باتیں پیر صاحب خود جانتے ہیں اور جن کی گواہی پیر صاحب دیتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم آپ کی گواہی کو صحیح سمجھتے ہیں اور ہم کبھی ان سے ان باتوں پر دیکھ کر گواہی دینے کا مطالبہ نہیں کرتے اس لیے پیر صاحب سے ہماریگ زارش ہے کہ جس طرح یہ ساری شرعی گواہیاں بغیر عینی شاہد ہونے کے دی جاتی ہیں اور بالکل سچ اور صحیح تسلیم ہوتی ہیں اسی طرح نبی اعظم و آخر ﷺ کی گواہی کو آپ بھی تسلیم کرلیں اور آپ ﷺ نبی اعظم و آخر ہیں ، آپ ﷺ کا احترام اتنا تو کریں جتنا ہم پیر جی ! آپ کا کر رہے ہیں۔ تعجب ہے آپ پر کہ آپ ہم کو گستاخ سمجھتے ہیں اور خود کو فرمانبردار اور احترام کرنے والا گردانتے ہیں جب کہ بات اس کے بالکل برعکس ثابت ہو رہی ہے۔ پیر جی ! آپ اپنے دنیاوی مقام ہی کا خیال کریں اور صرف مکتبہ فکر کی ترجمانی محض چند لوگوں کی داد لنیے کیل یے چھوڑ دیں اور نبی اعظم و آخر ﷺ کی گواہی جو خالصتاً شرعی گواہی ہے آپ ﷺ کو ہر کام کا عینی شاہد بنانے کے سوا ہی تسلیم کرلیں کیونکہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی گواہی جو خالصتاً شرعی گواہی ہے آپ ﷺ کو ہر کام کا عینی شاہد بنانے کے سوا ہی تسلیم کرلیں کیونکہ نبی اعظم و آخر ﷺ کا احترام اسی میں ہے۔ ہر اچھے اور برے کا عینی گواہ آپ ﷺ کو نہ بنائیں آپ کا بھی بھلا اسی میں ہے اور قوم کا بھی اور یہ بھی کہ آپ امت محمدیہ میں ہیں اور امت محمدیہ کی گواہی دوسری ساری امتوں پر قرآن کریم کی شہادت ہے کیا آپ ﷺ کی ساری امت بشمول آپ کے گزشتوں امتوں کے کاموں پر عینی گواہ تھے۔ ذرا غور کرلیں اور آنے والی آیت کی تفسیر تو آپ کرچکے ذرا اس مفہوم کو سامنے رکھ کر اس کو ایک بار آپ بھی پڑھ لیں کہ یہی بات اللہ رب کریم ارشاد فرما رہا ہے۔ رہا امت محمدیہ کی گواہی کا حال دوسری امتوں پر تو اس کا ذکر سورة البقرہ آیت 143 میں گزر چکا ہے وہاں سے ملاحظہ کریں۔
Top