Urwatul-Wusqaa - Al-Fath : 9
لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ١ؕ وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا
لِّتُؤْمِنُوْا : تاکہ تم ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول وَتُعَزِّرُوْهُ : اور اس کی مدد کرو وَتُوَقِّرُوْهُ ۭ : اور اس کی تعظیم کرو وَتُسَبِّحُوْهُ : اور اس (اللہ) کی تسبیح کرو بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا : صبح اور شام
(اے لوگو ! ) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان کی مدد کرو اور ان کی تعظیم کرو اور اس کی پاکیزگی صبح و شام بیان کرتے رہو
تاکہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور آپ ﷺ کی عزت و تعظیم کرو 9 ؎ زیرنظر آیت میں مسلمانوں کو براہ راست خطاب کیا گیا ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کو شاہد ، مبشر اور نذیر بنا کر تمہاری طرف مبعوث کیا ہے کیوں ؟ اس لیے کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ خالق ہے ، رسول اس کی مخلوق ہے اس لیے دونوں کو ایک مقام پر نہ رکھو بلکہ اللہ کو اس کا مقام دو اور رسول ﷺ کو ان کا مقام کیونکہ اسی چیز کو ایمان سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دونوں پر ایمان لانا ایک دوسرے کے لیے بھی لازم و ضروری قرار دیا گیا ہے کسی ایک کو مان کر اور دوسرے سے انکار کر کے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ کو رسول کے مقام پر لا کر اور رسول کو اللہ کے مقام پر لے جاکر بھی آدمی مومن نہیں ہو سکتا اسی افراط وتفریط سے بچتے ہوئے اللہ رب ذوالجلال والا کرام کو اس کے مقام پر اور محمد رسول اللہ ﷺ کو ان کے مقام پر رکھتے ہوئے اللہ کو اللہ اور محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ کا رسول ماننا ہے اور پھر اس کا طریقہ بھی بیان فرما دیا کہ رسول اللہ ﷺ کے کام کو تسلیم کرتے ہوئے اس کام میں مدد دینا اور آپ ﷺ کی عزت و توقیر کرنا ، آپ ﷺ پر ایمان لانے کی وضاحت ہے اور اس طرح اللہ رب ذوالجلال والاکرام پر ایمان لانے کی وضاحت فرمائی کہ صبح و شام اس کی تسبیح و تہلیل میں رہنا اللہ پر ایمان لانا ہے۔ اس بات کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے سے تعبیر کیا ہے پچھلے مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا حکم تھا اور آگے دونوں پر ایمان لانے کی وضاحت بھی الگ الگ بیان کردی کیونکہ دونوں پر ایک جیسا ایمان لانے کا دعویٰ بذات خود کفر ہے اور یہ اتنا نازک مقام ہے کہ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو انسان کا سارا کیا کرایا خراب ہوجاتا ہے اور اس کے کسی عمل کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اس بات کا خیال نہ کر کے اور اللہ اور اس کے رسول کو ایک مقام پر لا کر پہلے کئی ایک قومیں ہلاک ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی بجائے اس کی لعنت کی مستحق قرار دی گئی ہیں جن میں عیسائی قوم کا حال آج بھیق رآن کریم میں موجود ہے۔ ان کا تصور کیا تھا ؟ یہی کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایک جیسی حیثیت دے دی اور قرآن کریم نے ان کے اس پیار اور محبت کو ان کا کفر قرار دیا۔ زیر نظر آیت میں حکم دیا جا رہا ہے کہ میرے پیارے رسول ﷺ کی عزت و توقیر کرو اور آپ ﷺ پر سچے دل سے ایمان لاؤ ۔ آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین کی نصرت و اعانت میں سر دھڑ کی بازی لگا دو اور یہی آپ ﷺ کی مدد و نصرت ہے اور آپ ﷺ کے پیش کردہ دین کی سربلندی کے لیے جملہ مادی اور مالی وسائل کو پیش کر دو اور اس کے ساتھ آپ ﷺ کے ادب و احترام کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھو اور یہ بھی کہ دین نام ہی اس بات کا ہے کہ اللہ کو اللہ رب ذوالجلال ولا کرام اور رسولکو اللہ کا رسول سمجھو اور دونوں کو ایک نہ بنا دو ۔ پھر سمجھ لو کہ { تعزروہ و توقروہ } ” ہٗ “ کی ضمیر نبی اعظم و آخر محم رسول اللہ ﷺ کی طرف راجع ہے اور آپ ﷺ کے مقام کی حفاظت کا یہ بہترین طریقہ ہے جو ہم مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دے کر اس کی تاکید فرما دی ہے جس کا خلاف لاریب کفر ہے کیونکہ آپ ﷺ کی عزت و توقیر اللہ کی عزت و توقیر ہے ، دین اسلم کی عزت و توقیر ہے اور قرآن کریم کی عزت و توقیر ہے۔ بلاشبہ آپ ﷺ اللہ رب کریم کی محبت کا ذریعہ ہیں ، آپ ﷺ کی اتباع و پیروی کر کے ہی آدمی اللہ تعالیٰ کی محبت کا مستحق ہو سکتا ہے۔ ایک سچے مسلمان کا عمل وہی مقبول ہے جو آپ ﷺ کی اتباع و پیروی میں کیا جائے۔ آپ ﷺ نے دین کے کام جس طرح سرانجام دیئے اسی طرح مسلمانوں کو دین کے کام سرانجام دینا ہی آپ ﷺ کی اتباع اور پیروی کہا جاتا ہے جو کام آپ ﷺ کی اتباع اور پیروی سے ہٹ کر کیا گیا وہ دین اسلام کا کام نہیں کہلائے گا خواہ وہ دیکھنے میں کتنا ہی خوبصورت اور کتنا ہی اچھا نظر کیوں نہ آئے۔ غور کرو کہ قرآن کریم نے صلوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” اس طرح نماز ادا کرو جس طرح میں نے نماز ادا کی “ (صلو کمار ایتمونی اصلی) قرآن کریم نے فقط اشارہ دیا کہ ” نماز اوقات کے ساتھ ایمان والوں پر فرض کی گئی ہے “ { ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتاً } لکن قرآن کریم نے نہ تو نماز موقت کی رکعت ہم کو بتائیں اور نہ ہی ان کی مکمل ہیئت اور صورت کی وضاحت کی اور نہ ہی اوقات کا تعین کر کے بتایا۔ ایسا کیوں کہا ؟ محض اس لیے کہ جس کے ذریعہ ہم کو یہ حکم پہنچایاوہ ایک انسان تھا اور انسانوں کی ہدایت کے لیے اس کا اللہ نے انتخاب کیا اور جو احکام اس کو دیئے ان احکام کا پریکٹیکل کرنے کے لیے رسول کو بھیج دیا اور رسول نے وہ احکام بجا لاکر اپنی امت کو بتا دیا اور سمجھا دیا اور پھر اسی کے مطابق عمل کرنے کی تاکید کے لیے رسول کی پیروی کو لازم قرار دیا۔ ہم کو بتایا گای کہ آپ ﷺ نے فجر کی چار رکعت ادا کیں ، دو کا نام سنت اور دو کا فرض رکھا۔ اب کوئی شخص ان چاروں کو ملاکر فرض قرار دے لے یا ان کا نام سنت رکھ لے اور چار رکعت ایک سلام کے ساتھ ادا کرے تو اس فعل کو آپ ﷺ کی اتباع و پیروی نہیں کہا جائے گا بلکہ اس فعل کو ناجائز و حرام کہا جائے گا۔ اگرچہ ایسا کرنے والاچاروں رکعت باجماعت ادا کرے اور کرائے اور ان چاروں رکعتوں میں باقاعدہ اسی طرح قیام ، رکوع اور سجدے ادا کرے۔ وہی سارے اذکار ادا کرے اور ان حرکات و سکنات کو بھی بڑے سکون اور وقار سے ادا کرے لکین کیا ایسا کرنے والے نے آپ ﷺ کی اتباع کی ؟ آؤ کسی مکتبہ فکر کے کسی ایک عالم ، علامہ ، حضرت العلام ، پیر ، مرشد اور مفتی سے پوچھ لو ہر طرف سے ایک ہی جواب ملے گا کہ نہیں اور ہرگز نہیں بس اسی پر دین کی ساری باتوں کو قیاس کرتے جات یا کرواتے جاؤ اور نہیں نہیں سنتے جاؤ لیکن اس ترتیب کو ذرادرماین سینکال دو اور نماز ، روزہ سے ذرا ہٹ کر دیکھو۔ ایک شخص کوئی نیک عمل کرتا ہے لیکن ہم کو یہ امر معلوم ہے کہ اس طرح آپ ﷺ نے یہ عمل نہیں کیا پر کسی کو یہ بات کہہ دو کہ میاں تیرا یہ عمل بظاہر تو نیک ہے لیکن چونکہ آپ ﷺ کا ایسا کرنا ثابت نہیں اس لیے یہ عمل درست نہیں تو فوراً کہا جائے گا کہ اس میں حرج کیا ہے ؟ یہ آپ نے کیوں کہا ہے کہ درست نہیں۔ ایک نہیں سو سو اعتراض ہوں گے اور بات کسی کو یاد نہیں رہے گی کہ کسی عمل کے مبقول ہونے اور اس کا اجر محفوظ رہنے کی صورت ہی اسلام نے یہ قرار دی ہے کہ وہ عمل آپ ﷺ کی پراوی اور اتباع میں کیا جائے اور اس طرح جو عمل آپ ﷺ کی پیروی اور اتباع میں نہ ہوگا وہ عمل کتنا ہی اچھا کیوں نہ نظر آئے ، اس کو سارا معاشرہ کرنے والا کیوں نہ ہو وہ بلاشبہ آپ ﷺ کی عزت و توقیر کے خلاف ہے بلکہ اس سے آپ ﷺ کی عزت و توقیر مجروح ہوتی ہے اس لیے یہ عمل قابل رد ہے خواہ اس کا کرنے والا کوئی ہو ، کون ہو اور کیسا ہو۔ پھر غور کرو کہ { سبحوہ } میں ضمیر ” ہٗ “ کا مرجع اللہ رب ذوالجلال والا کرام کی ذات ہے اور اس کے سوا اس کا مرجع کوئی اور نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ خود رسول اللہ ﷺ بھی نہیں ہو سکتے حالانکہ تینوں ضمائر ایک جیسی اور ایک ہی ساتھ تسبیح کے دانوں کی طرح اکٹھی ہیں ، ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟ اس لیے کہ تسبیح وتحمید خالصتاً اللہ رب کریم کی ذات کے لیے ہے کوئی دوسرا تسبیح وتحمید اور تہلیل کا مستحق نہیں ہے اور یہ اسلام کا تسلیم شدہ قاعدہ ہے جس کا خلاف ممکن نہیں اس لیے تسلیم کرنا ہوگا کہ { تعزروہو توقروہ } پر وقف تام ہے اور { و تسبحوہ بکرۃ واصیلاً } الگ عبارت ہے اور اس طرح الگ ہے جیسے سنت اور فرض الگ الگ ہیں۔ پہلی دونوں ضمائر مفعول کا مرجع نبی اعظم و آخر ﷺ کی ذات ہے اور آخری ضمیر مفعول کا مرجع اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی ذات ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو اور یاد روھو کہ اللہ رب کریم کی تسبیح کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت و توقیر کرنا ہے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی تسبیح کرنا آپ ﷺ کی عزت و توقیر کرنے کے ضمن میں نہیں آسکتا بلکہ آپ ﷺ کی نافرمانی اور حکم عدولی کے ضمن میں آئے گا جو سب کچھ برباد کر کے رکھ دے گا اور اسی کو کہتے ہیں کہ ؎ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب مسلمانوں کو نبی اعظم و آخر ﷺ کی اتباع و پیروی کرنے کی اور سچے دل کے ساتھ اتباع و پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور افراط وتفریط سے مکمل طور پر بچنے کی توفیق دے تاکہ ہمارا دین اور ہماری دنیا محفوظ رہے۔ ربنا اتنا فی الدین حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار۔
Top