دو مسلمان جماعتیں اگر آپس میں بھڑ جائیں تو دوسرے مسلمانوں کی ذمہ داری
9 ۔ (وان طائفتین من المومنین اقتتلوا) ” اور اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑپریں “ (طائفۃ) کیا ہے ؟ (طائفۃ) گروہ یا جماعت کو کہتے ہیں اور اس کا مطلب ہے ” بعض لوگ “ ” کچھ لوگ “ ۔ ایک اور ایک سے زائد طائفہ کہلاتا ہے طرف سے اسم فاعل کا صغیہ واحد مونث۔ علامہ بدرالدین عینی (رح) نے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں بیان کیا ہے کہ لغت میں طائفہ کے معنی کسی شے کے ایک قطعہ یا ٹکڑے کے ہیں جیسا کہ عباب میں ہے کہ الطائفۃ من الشی القطعۃ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ (ولیشھد عذابھما طائفۃ من المومنین) (2:24) ” ان دونوں کو عذاب دیتے وقت مومنوں کی ایک جماعت حاضر کرو “ (طائفۃ) کا لفظ قرآن کریم میں بیس بار استعمال ہوا ہے مثلات (154 , 72 , 69:3) (113 , 102 , 81:4) (87:7) (122 , 83 , 66:9) (2:24) (4:28) (13:33) (14:61) (20:73) اور ان سب جگہوں کو نگاہ میں رکھا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ایک اور ایک سے زائد طائفہ ہے اور مجاہد کا قول ہے کہ ایک سے ایک ہزار تک طائفہ کا لفظ بولا جاتا ہے لیکن زجاج نے کہا ہے کہ میرے نزدیک اقل طائفہ دو ہیں اور پھر دو سے جتنے زیادہ ہوں سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور اس میں بہت سے اقوال اور بھی دج کیے گئے ہیں لیکن ماحصل سب کا یہی ہے کہ کم از کم ایک اور زیادہ کی کوئی قید نہیں البتہ فرقہ کے مقابلہ میں طائفہ کم جماعت کو کہتے ہیں کیونکہ فرقہ سے طائفہ کو الگ کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے : ( فلولا تفرمن کل فرقۃ منھم طائفۃ) ” ہر ایک فرقہ میں سے کیوں نہ نکلا ایک طائفہ یعنی چھوٹی جماعت یا کوئی ایک فرد “ امام راغب (رح) کہتے ہیں کہ (طائفۃ) سے جب جماعت مراد لی جائے گی تو طائف کی جمع ہوگا اور جب اس سے واحد مراد ہوگا تو اس صورت میں اس کا جمع ہونا بھی صحیح ہے اور اس کے ذریعہ واحد سے کنا یہ ہوگا اور یہ بھی صحیح ہے کہ اس کو ( روایۃ) اور (علامۃ) کی طرح قرار دیاجائے یعنی اس کی تاء کو مبالغہ کی تاء قرار دیاجائے نہ کہ تانیث کی اور اس لفظ (طائفۃ) کے معنوں میں بہت وسعت ہے اگر مزید وضاحت چاہتے ہوں تو سورة التوبہ کی آیت 122 کی تفسیر دیکھیں۔
زیر نظر آیت کے شان نزول میں بہت سے واقعات نقل کیے گئے ہیں اور بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے کہ عبداللہ بن ابی نے کچھ کلمات نبی اعظم و آخر ﷺ کی شان میں نازیبا کہے اور آپ ﷺ کی تحقیر کی اور اس پر بعض صحابہ کرام ؓ اور عبداللہ بن ابی کے ساتھیوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا “ اور اس موقعہ پر یہ آیت اتری بہرحال اس کے نازل ہونے کا کوئی واقعہ قرار دیاجائے یہ بات اپنی جگہ محقق ہے کہ حکم آیت کا عام ہے اور عام حکم کو کسی واقعہ کے ساتھ منسلک کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے کہ وہ حکم عام ہے جس کا اطلاق سب مسلمانوں پر ایک جسار ہوتا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ عبداللہ بن ابی بھی نام کا مسلمان ہی تھا اور اپنی قوم کا سردار بھی اور قرآن کریم نے ان لوگوں کو جن کے دلوں کے اندر منافقت کا روگ تھا ان کا نام لیے بغیر ان کے روگ کو اکثر مقامات پر اجاگر کیا لیکن بظاہر اسلام سے نکال باہر نہیں پھینکا کیونکہ وہ بظاہر ارکان اسلام کو مانتے اور ادا کرتے تھے ، نمازیں پڑھتے تھے ، روزے رکھتے تھے ، جنگوں میں چندے دیتے تھے اور بددلی کے ساتھ ہی سہی اکثر جنگوں میں شریک ہوتے تھے اور کبھی کبھی عذر بہانے بناکر آنکھیں چرا بھی جاتے تھے اس لیے ان کو مسلمانوں ہی کا ایک گروہ کہنے میں بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے اور پھر بعض اوقات سچے مسلمان بھی ایسے لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں جن کا سبب خاندان ، رشتہ داری اور اسکے علاوہ کوئی بھی ہوسکتا ہے اور اس طرح کی غلطی کا امکان ہوسکتا ہے کہ باتوں ہی باتوں میں طول کلامی ہوجائے اور نوبت جھگڑے اور فساد تک پہنچ جائے اور اس طرح کے واقعات اس وقت بھی رونما ہوتے رہتے تھے اور آپ ﷺ کے بعد بھی صحابہ کرام ؓ کے دور میں ہوئے اور آج بھی ہو رہے ہیں تاہم اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہو تو مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہے اس بات کا بیان ہے کہ جب دو فریق ، دو گروہ ، دو جماعتیں ، دو خاندان ، دو افرادآپس میں الجھ جائیں اور نوبت جنگ وجدال تک پہنچ جائے تو دوسرے مسلمانوں کا حق کیا ہے ؟ فرمایا دوسرے مسلمانوں کا فرض ہے کہ فوراً مداخلت کریں ، خاموش تماشائی نہ بنے رہیں اور مداخلت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اثر و رسوخ والے لوگ ہی ہوں جن کا اثر فریقین پر ہوسکتا ہو اور ان کی یہ مداخلت محض اسلام کے ناطے اور رشتہ داری کے باعث ہو اور وہ ان دونوں فریقوں کے درمیان اصلاح کی کوشش کریں ان کے جھگڑے کا اصل حال معلوم کریں جب باعث معلوم ہوجائے تو جس فریق نے ابتدا زیادتی کی ہے اس کو اچھی طرح سمجھائیں کہ آپ لوگوں نے یہ زیادتی کی ہے اور پھر اس زیادتی کا تدارک بھی ہوسکتا ہے جتنا جلدی ہوسکے اس کا تدارک کریں تاہم زیادتی کرنے والا فریق اپنی زیادتی سے اگر باز نہ آئے تو پھر اس کو ظالم قرار دیتے ہوئے مظلوم کی مدد کریں اور وہ اس طرح کہ ظالم فریق کو خوب اچھی طرح باور کرا دیں کہ ہماری ہمدردیاں ہی نہیں ہم مکمل طور پر مظلوم فریق کے ساتھ ہیں اب تم لوگوں کو جو کچھ کرنا ہے وہ ہمارے ساتھ کرنا ہے اس معاملہ میں اگر جنگ ناگزیر ہوجائے تو پھر مظلوم کے ساتھ ہو کر ظالم سے جنگ کرنا ہے تاوقتیکہ وہ فریق اصل حقیقت کی طرف لوٹ آئے اور پھر جونہی وہ حقیقت کی طرف لوٹے تو نہ صرف یہ جنگ سے رکنا ہے بلکہ اس کا صحیح تصفیہ کرکے دونوں فریق کو دو نہیں ایک بنانا ہے کیونکہ اسلام فرقہ بندی اور متفرق ہونے کی مذمت کرتا ہے ان کے اختلاف کو ختم کرانے کے بعد ان کو شیرو شکر بنانے کے اقدامات کرنا ہیں تاکہ اگر کوئی بات دلوں میں ایسی موجود ہے تو وہ بھی نکل جائے اور دل اس خباثت سے بالکل پاک ہوجائیں اس طرح سارے مسلمانوں کو اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں ، دو فریق جو اصل میں بھڑ گئے ان کی ذمہ داریاں اور نوعیت کی ہیں اور جو فریق درمیان میں صلح کے لیے پڑا تھا اس کی ذمہ داریاں اور نوعیت کی ہیں پھر اگر اصلاح کی کوئی صورت نکل آئے تو سب فریقوں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور سب کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا چاہیے زیادتی کرنے والے گروہ سے حسب و نسب کے تعلقات ہوں ، ہم مشرب ، ہم فکر اور ہم خیال ہونے کے تعلقات ہوں تو بھی ان تعلقات کا لحاظ نہیں کرنا چاہیے بلکہ مظلوم کے ساتھ کوئی پرخاش بھی ہو تو اسی وقت اس کو بھلا کر اس کی مدد لازم و ضروری ہے اگر اس میں کسی نے کوئی کوتاہی کی تو وہ اس کوتاہی کے باعث مومن نہیں رہے گا یہ حکم عام ہے لنک افسوس کہ آج فی زماننا جس حالت سے ہم دو چار ہیں وہ حالت کسی سے پوشیدہ نہیں ہمارے درمیان مذہبی جنگ جاری ہے بلکہ اس وقت خوب زوروں پر ہے آپس میں خاندانی رقابتیں زوروں پر ہیں اور سیاسی صورت حال نہایت ابتر ہے اور کسی ایک مقام پر حق و ناحق کی بات نظر نہیں آتی ہر جگہ جنگ ہے مکاتب فکر کی جنگ ہے ، فرقہ بندی کی جنگ ہے ، خاندانی رقابتوں کی جنگ ہے ، سیاسی پارٹیوں کی جنگ ہے اور ان ساری جنگوں میں بڑے بڑے عقل و فکر والے ، بڑے سمجھدار ، بڑے بڑے دین کے دعویدار ، مذہب کے ٹھیکہ دار ، اسلامی سیاست کی ڈینگیں مارنے والے ، سپاہ صحابہ کا نام استمعال کرنے والے ، سپاہ محمد کا نام رکھنے والے پھر تعجب ہے کہ سب کے سب ایک کلمہ پڑھتے ہیں ایک اللہ کو مانتے ہیں ، محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت اور خاتمیت کے دعویدار ہیں ایک مذہب و ملت سے وابستہ ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور قرآن کریم کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں گویا بنیادی عقائد کے اندر بھی ان کو کوئی اختلاف نہیں پھر جس بات پر لڑ رہے ہیں اور برسرپیکار ہیں وہ بات بھی آج کی نہیں بلکہ اس کو بھی ہزار ہا سال سے بہرحال زیادہ گزر چکے ہیں مثلاً شیعہ سنی جھگڑا ہے جو پچاس ہجری کی بات پر ہے حنفیوں ، مالکیوں ، شانعیوں اور حنبلیوں کا جھگڑا اپنے عقیدہ سے لحاظ سے سب کہتے ہیں کہ چاروں حق ہیں لیکن چاروں حق ہونے کے باوجود ان میں وہ نفرت پائی جاتی ہے جو ایک ہندو اور مسلمان ، یہودی اور مسلمان ، عیسائی اور مسلمان ، لامذہب اور مسلمان کے درمیان بھی نہیں پائی جاتی اور پھر یہ نفرتیں رکھنے والے جاہل ، اجڈ اور ناخواندہ لوگ بھی نہیں اس میں زمانہ کے متقی و پرہیزگار ، مذہبی اور سیاسی رہنما سب کے سب برابر کے شریک ہیں اور سب قرآن کریم کی اس آیت کو جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں ، اس پر ہاتھ پھیر کر اپنے منہ پر لگاتے ہیں اس کو متبرک خیال کرتے ہیں ، اس کو کلام اللہ سمجھتے ہیں ، اس کی طرف پیٹھ کرنا حرام جانتے ہیں ، اس کو بغیر وضو و طہارت کے چھونا ناجائز سمجھتے ہیں ، اس پر بہترین قسم کا غلاف ڈال کر سروں سے اوپر کہیں طاق پر رکھتے ہیں ، صبح اٹھ کر اس کی چند آیتوں کی تلاوت کرنا ایک نہایت اچھا عمل جانتے ہیں لیکن اس حکم کی جو قدر و قیمت وہ ڈال رہے ہیں وہ بھی سب کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے کہ اس ہمارے دور میں جس طرح اس کی طرف مسلمانوں نے پیٹھ کردی ہے اور اس کو وراء ظہر پھینک دیا ہے اس کی مثال کسی دوسرے زمانہ میں نہیں ملتی اور جو مثالیں گزشتہ ادوار اور خصوصاً صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام (رح) کے دور کی ہمارے اندر سرایت کرچکی ہیں ان کی کوئی اصل موجود ہی نہیں اور اگر کوئی غلط فہمی پیدا بھی ہوئی تو وہ اس وقت کے منافقوں اور یہودیوں کی ریشہ دوانیوں سے ہوئی جس کا وقت پر تدارک بھی کردیا گیا آج ان داستانوں کو داستان گوئوں نے جس طرح بڑھا چڑھا کر کچھ سے کچھ کردیا ہے اور جس طرح پر سے کوا اور کوے سے ڈار بنایا ہے اس کی مثال باقی دنیا میں بہت ہی کم ملتی ہے قرآن کریم کی اس ہدایت اور تعلیم کی جو وضاحت نبی کریم ﷺ نے کی ہے وہ آج بھی من و عن ہمارے پاس موجود ہے اور اس کو بھی ہمارے سارے مذہبی گروہ ، سیاسی لیڈر اور سارے پڑھے لکھے سمجھدار لوگ حق مانتے اور سمجھتے ہیں۔ مثلاً آپ ﷺ نے فرمایا :
(1) (سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر) (بخاری و مسلم ، مشکوٰۃ ص 411 ، عن عبداللہ بن مسعود ؓ
” مسلمان کو گالی دینا گناہ اور اس کے ساتھ لڑائی جھگڑا کفر ہے “
(2) (لاینبغی لصدیق ان یکون لعانا) (صحیح مسلم بحوالہ مشکوٰۃ ص 411 عن ابی ہریرہ ؓ
” کسی مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ دوسروں پر لعنت کرتا پھر۔ “
(3) (مثل المومنین فی تو ادھم و تراحمھم و تعاطفھم مثل الجسد اذا اشتکیٰ منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد بالسھر والحمی) (بخاری ، ترمذی ، جمع الفوائد ص 358 ج 2 ، عن نعمان بن بشیر ؓ
” باہمی دوستی اور ایک دوسرے پر رحم و شفقت میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے جب اس کے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہو تو پورا جسم اس کی خاطر بخار اور بیداری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ “
(4) (انصرا خاک ظالماًٰ او مظلوماً فقال الرجال یا رسول اللہ انصرہ اذا کان مظلوماً افرایت ان کان ظالماً کیف انصرہ ؟ قال تعجزہ اور تمنعہ عن الظلم فان ذلک نصر تہ) ( بخاری ، ترمذی جمع الفوائد ص 355 ج 2 ، عن انس ؓ
” اپنے بھائی کی مدد کر ، ظالم ہو تب بھی مظلوم ہو تب بھی ، ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ مظلوم کی تو میں مدد کروں گا لیکن ظالم کی مدد کیسے کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اسے ظلم سے روکو ، یہی اس کی مدد ہے۔ “
(5) (مامن مسلم یخذل امر امسلمافی موضع ینتھک فیہ حرمتہ وینتقص فیہ من عرضہ الاخذلہ اللہ فی موضع یحب فیہ من حرمتہ الانصرہ اللہ فی موضع یخب نصرتہ ) (ابو دائود جمع الفوائد ص 355 ج 2 ، عن جابر وابو طلحہ ؓ
” جو مسلمان بھی کسی دوسرے مسلمان کو کسی ایسی جگہ بےیارو مددگار چھوڑ دے جہاں اس کی بےحرمتی ہورہی ہو اور آبرو پر حملہ کیا جارہا ہو تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو ایسی جگہ بےیارو مددگار چھوڑ دے گا جہاں وہ اپنی مدد کو پسند کرتا ہو اور جو شخص بھی کسی مسلمان کی ایسی جگہ پر مدد کرے گا جہاں اس کی آبرو پر حملہ کیا جارہا ہو اور جہاں اس کی بےحرمتی کی جارہی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی ایسی جگہ مدد کرے گا جہاں وہ اپنی مدد کو پسند کرتا ہے۔ “
(6) (من ذب عن عرض اخیہ رد اللہ النار عن وجھ یوم القیامۃ ) ( ترمذی جمع الفوائد ص 355 ج 2 ، عن ابوالدرداء ؓ
” جو شخص اپنے بھائی کی آبرو کا دفاع کرے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے سے آگ کو دور رکھے گا “
(7) (المسلم اخوالمسلم لایظلمہ ولا یسلمہ و من کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجۃ و من فرج عن مسلم کر بۃ فرج اللہ عنہ بھامن کرب یوم القیامۃ ومن ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ) (ابودائود ، جمع الفوائد 356 ج 2 عن عبداللہ بن عمر ؓ
” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے اس کے دشمنوں کے حوالے کرتا ہے اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرنے میں لگ جاتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی کوئی بےچینی دور کرے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے قیامت کی بےچینیوں میں سے اس کی کوئی بےچینی دور کرے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ “
(8) (الا اخبر کم بافضل من درجۃ الصیام و الصلوٰۃ والصدقۃ قالو ابلیٰ قال صلاح ذات البین فان فساد ذات البینھی الحالقۃ لا اقول تحلق الشعر ولکن تحلق الدین) (ابودائود جمع الفوائد ص 361 ج 2 ، عن ابورداء ؓ
” کیا میں تم کو نفلی روزے ، نماز اور صدقہ سے زیادہ افضل چیز نہ بتائوں ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا ضرور بتائیے ، آپ ﷺ نے فرمایا باہمی تعلقات کو خوش گوار بنان اس لیے کہ باہمی تعلقات کا بگاڑ مونڈنے والی چیز ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ بال مونڈتا ہے بلکہ یہ دین کو مونڈ دیتا ہے۔ “
(9) (لا یحل ل مومن ان یھجر اخاہ فوق ثلث لیال یلتقیان فیعرض ھذا و یعرض ھذا و خیر ھما الذی یبدا بلملام) ( بخاری ، مسلم ، جمع الفوائد ج 2 ص 395 ، عن ابو ایوب ؓ
” کسی مومن کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ایسا قطع تعلق کرے کہ دونوں ملیں تو یہ اس سے منہ موڑ جائے اور وہ اس سے منہ موڑ جائے ان دونوں میں بہتر شخص وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے “
(10) (الدین النصیحۃ ، قلنا لمن یا رسول اللہ ؟ قال اللہ ولکتابہ ولرسولہ ولائمۃ المسلمین و عامتھم) ( صحیح مسلم جمع الفوائد ص 371 ج 2 ، عن تمم الداری ؓ
” بلاشبہ دین خیر خواہی کا نام ہے ، ہم نے پوچھا کس کے لیے یا رسول اللہ ﷺ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے لیے ، اس کی کتاب کے لیے ، اس کے رسول کے لیے ، مسلمانوں کے حکا کے لیے اور عام لوگوں کے لیے ۔ “
اوپر دس احادیث ہم نے درج کی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہی دس احادیث ہیں جن میں اصلاح بین المسلمین کا حکم ہے نہیں ! اس طرح کے ارشادات اتنے ہیں کہ اگر ان کو نقل کیا جائے تو ایک کتاب تیار ہوجائے ہم نے صرف دس پر اکتفا کیا ہے ویسے بات پر عمل کرنا ہو تو ایک ہی بار کا آپ ﷺ کا حکم کفایت کرتا ہے اور نہ ماننے اور نہ تسلیم کرنے والوں کے سامنے ایک حکم سو بار بھی پیش کیا جائے تو وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیں گے ان کو ایک بار یا سو بار کے حکم سے کیا فرق پڑے گا اس وقت جو حالت ہم مسلمانوں کی ہے اور جو کمزوریاں قوم مسلم کے اندر آچکی ہیں ان کا دور کرنا جوئے شیر لانے کیے مترادف ہے۔ پھر یہ حال کسی ایک ملک کا نہیں پوری دنیا میں اسلامی ممالک کا یہی حال ہے کہ مسلمان کہلانے ، ایک قبلہ کی طرف منہ کرنے ، ایک اللہ کی توحید کا اعلان کرنے ، ایک کلمہ کا ورد کرنے ، ایک کتاب کو کتاب اللہ اور ایک رسول کو رسول اللہ اور خاتم النبیین ماننے اور تسلیم کرنے کے بعد آپس میں برسر پیکار ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کو ہڑپ کرجائیں اور اس مقصد کے لیے غیروں سے مدد کے طلب گار ہیں اور اس قرآن کریم کی اشاعت میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں کوشاں ہیں اللہ تعالیٰ ہم کو سمجھ کر توفیق دے اور ہمارے ان اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو آپس کے تعلقات اپنے مسلمانوں کے اجتماع میں آگے بڑھانے اور مل بیٹھنے کی توفیق دے جس طرح ہمارا قبلہ ، ہمارا اللہ ، ہمارا رسول ، ہماری کتاب ، ہمارا کلمہ ایک ہے اللہ کرے کہ ہماری سوچ ، ہمارا دفاع اور ہمارے آپس کے تعلق اور دکھ درد اور خوشی و غمی بھی ایک ہوجائیں اور سارے اسلامی ممالک مل کر ایک اسلامی ملک و ملت بن کر ایک ہی ملک کے مختلف صوبہ جات تسلیم کرلیے جائیں ہمارا وفاق ایک ہوجائے ، ہمارا قانون ایک ہوجائے اور ہمارا دکھ درد اور خوشی و مسرت بھی ایک ہوجائے اے اللہ ! ہمارے حکمرانوں کو مثبت سچ عطا فرما دے اور ایک ہونے اور عوام کو ایک بنانے کی ہمت عطا فرما۔ اے اللہ ! ہماری دعا قبول فرما۔
خلاصہ کلام کیا ہوا ؟ یہ کہ مسلمانوں میں جنگ نہیں ہونی چاہیے اگر بدقسمتی سے ایسا ہو تو پھر اس ناگوار صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اس ارشاد الٰہی کے مطابق عمل کرنا چاہیے اس باہمی جنگ وجدل کی مختلف صورتیں ہیں اور ہر صورت کے اپنے اپنے مخصوص احکام ہیں سب سے پہلے جس بات پر زور دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھے تو قطع نظر اس کے کہ لڑنے والے کثیر التعداد ہیں یا مختصر سا گروہ ہے ، یہ تصادم حکومت سے ہے یا ایک قبیلہ کا دوسرے قبیلہ سے یا ایک گروہ کا دوسرے گروہ سے ؟ ان تمام صورتوں میں دوسرے مسلمانوں کو محض تماشائی بن کر رہنے کی اجازت نہیں بلکہ انہیں اپنے اثرو رسوخ سے کام لیتے ہوئے اس فتنہ کو فرو کرنے کی ہر امکانی کوشش کرنی چاہیے اگر یہ لڑائی دو خاندانوں یا رعایا کے دو گروہوں کے درمیان ہے تو ان کے درمیان مصالحت اور اصلاح احوال کی اولین ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اثر و اختیار سے کام لے کر صورت حال پر قابو پائے اور اگر ارباب حکومت اس میں دلچسی نہ لیں یا معاملہ ان تک پہنچا ہی نہ ہو تو پھر اہل محلہ یا علاقہ کے بااثر لوگوں کا فرض ہے کہ مصالحت کی مخلصانہ کوشش کریں اگر حکومت اس طرح کے ادارے نہ بنائے جو اپنے علاقہ کے اندر ایسے حالات کا جائزہ لے کر جہاں کہیں اس طرح کی صورتحال ظاہر ہو اس کا حل تلاش کریں تو وہ حکومت نہ اسلامی حکومت کہلا سکتی ہے اور نہ ہی حکومت کرنے کا ان لوگوں کو حق ہے اگر وہ مسلمان رعایا کے اس ابتدائی حق کی نگہداشت بھی نہیں کرسکتے تو وہ حکمران کیسے حکمران ہوں گے اور ان کو حکومت کرنے کا کیوں حق حاصل ہوگا ؟ لیکن اس ملک عزیز کو معرض وجود میں آئے کتنا عرصہ ہوا یا آج تک کسی حکمران نے اس معاملہ میں کوئی حرکت کی یا کسی سیاسی اور مذہبی رہنما نے یہ سوال اٹھایا کہ حکمرانوں کی جو ابتدائی ذمہ داری ہے اس کی طرف کیوں توجہ نہیں دی جاتی اگر اس معاملہ میں پیش رفت کی جائے تو کیا جھگڑے ، لڑائیاں اور قتل و غارت کی ساری نوبتوں کا دفاع ممکن نہیں ہوسکتا ؟ اگر ہوسکتا ہے اور یقیناً ہوسکتا ہے تو اس سلسلہ میں قدم کیوں نہیں اٹھایا جاتا ؟ ہم سب کا مذہب اسلام ہے۔ اسلام کیا چیز ہے کس کو علم نہیں ؟ کیا اسلام کے کوئی اصول و ضوابط نہیں ؟ اگر اسلام کوئی چیز ہے اور اس کے اصول و ضوابط بھی ہیں تو ان کی وضاحت کیوں نہیں کرائی جاتی تاکہ ان غیر اسلامی چیزوں کو اس سے نکال کر صحیح اسلام کی داغ بیل ڈالی جاسکے تاکہ یہ فرقہ بندیاں روز بروز بڑھنے کی بجائے خود بخود سمٹنے لگیں اور آہستہ آہستہ ان کا وجود ختم ہوجائے کیا اسلام کوئی ایسا بےلگام گھوڑا ہے کہ جدھر اس کا منہ آئے وہ دوڑتا پھرے اور اس کے منہ کو پھیرنے والا کوئی نہ ہو ؟
اوپر غور و خوض کرنے کا ایک رخ بیان کیا گیا اور اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر کوئی گروہ ، جماعت ، پارٹی یا فرد حکومت سے متصادم ہوتا ہے تو اس کے حل میں حکومت کیا اقدام کرے اور عوام کی ذمہ داری کیا ہے ؟ یہ کہ حکومت کی مخالفت کرنے والا کیوں مخالفت کرتا ہے اس کی وجہ معلوم کی جائے اگر وہ مخالفت صحیح مخالفت ہے تو حکومت کو وہ وجہ ختم کرنا ہوگی جو اس مخالفت کا باعث ہوئی اور اگر مخالفت کرنے والا غلط ہے تو حکومت اس کو قرار واقعی سزا دے اور عوام بھی حکومت کا ساتھ دیں اور اگر وہ گروہ ، جماعت یا پارٹی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی ہے اور اس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ ایسا کرسکتی ہے یا بغاوت پھیلا سکتی ہے تو ضروری ہے کہ عوام حکومت کا ساتھ دے کر اس کی طاقت کو ختم کریں اور بغاوت و انارکی پھیلانے والوں کا قلع قمع کریں۔ ہاں ! سخت اقدام کرنے سے پہلے ان کی تفہیم کے لیے حالات اجازت دیں تو ضرور ان کو متنبہ کیا جائے تاکہ الجھائو سے بچا جاسکے اگر کوئی صورت ممکن ہو اس جگہ ہمارے مفسرین نے صحابہ کے مناتشات کا ذکر بھی کیا ہے اور دونوں اطراف سے جو کچھ کیا گیا وہ بھی بیان کیا گیا ہے لیکن ہم اس کو نظر انداز کر رہے ہیں کیونکہ اس وقت کی تاریخ اس قدر مسخ ہوچکی ہے کہ جس کا تجزیہ کرنے کا یہ موقع و محل نہیں ہے کم از کم اس معاملہ میں ایک کتاب تیار کرنا ضروری ہے تاکہ اس میں مکمل وضاحت موجود ہو اور اس کے بعد تفسیری نوٹ میں اس کا حوالہ ہی دیا جاسکے اور اس طرح کی کوئی کتاب ہماری نظر سے نہیں گزری جس کو بنیاد بناکر اس معاملہ میں گفتگو کی جاسکے ہم ایک بار پھر گزارش کرتے ہیں کہ آیت کا حکم عام ہے گزشتہ لوگوں کے واقعات بر بحث کرنے کی بجائے موجودہ حالات پر بحث کرنا اور صورتحال کو درست کرنا علماء کرام کا اصل کام ہے نہ کہ گزشتہ موضوعات پر بحث و تکرار پر سارا وقت صرف کردینا کیونکہ ایسے واقعات کے لیے ہمارے لیے رب ذوالجلال والا کرام کی یہ ہدایت موجود ہے کہ (تلک امۃ قد خلت لھا ماکسبت ولکم ما کسبتم ولا تسلون عما کانویعملون) (البقرہ 141:2) ” وہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی اور ان کے لیے ہے جو انہوں نے کمایا اور تمہارے لیے وہ ہے جو تم نے کمایا اور تم سے ان کی حالت کے بارے میں بالکل نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے “ پھر ایک غرن متعلق بات پر گفتگو کرتے رہنا عقل مندی نہیں بلکہ عقل مندی یہ ہے کہ اپنے معاملات پر غور و فکر کیا جائے کہ اس وقت ہم کیا کر رہے ہیں اور ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟
زیر نظر آیت کے مفہوم میں بہت وسعت ہے اور اس وسعت کے پیش نظر ہم کو اپنا تجزیہ کرتے رہنا بہت ضروری ہے آج جب ہر طرف سے ایسے حالات موجود ہیں کہ ہمارے ہر فرد کو اس سلسلہ میں جہاں بھی وہ موجود ہے اس طرح کی جدوجہد کرتے رہنا لازم و ضروری ہے اور صلح کرتے وقت اگر کمزور کو مزید دبا کر صلح پر مجبور کیا گیا تو یہ وہ ظلم ہوگا جو ان ظالموں سے بھی بڑا ہوگا جو پہلے ہی ظلم کر رہے ہیں اور اس کی اصلاح کرانے والے نہ تو صحیح معنوں میں اصلاح کرا سکیں گے اور نہ ہی ظلم کا دفاع بلکہ وہ ظالموں کے ساتھ مل کر ظالم بن جائیں گے لیکن اس وقت ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہی ہے کہ فیصلہ کرنے والے پنچ اور چودھری صاحب جب منتخب ہوتے ہیں تو وہ ہمیشہ جس کو کمزور دیکھتے ہیں اس کو مزید دبا کر اور جھکا کر صلح پر مجبور کردیتے ہیں اور اس طرح صلح کرا کر وہ لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عنداللہ وہ منصف نہیں بلکہ ظالم کا کردار ادا کرتے ہیں اور ایسے اصلاح کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کبھی پسند نہیں کرتا بلکہ اللہ رب ذوالجلال والا کرام ان ہی لوگوں کو پسند کرتا ہے جو عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیں اور عدل و انصاف سے کام لیتے ہوئے حق کا ساتھ دیں اللہ تعالیٰ ہم کو ظالموں کے شر سے محفوظ رکھے اور ہم کبھی ظالموں کی حمایت کرنے والے نہ ہوں کیونکہ ظالموں کی حمایت کرنے والا ان ظالموں سے بھی زیادہ ظالم اور مجرم ہوتا ہے۔