بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
اے مسلمانو ! اپنے معاہدے پورے کرو ، تمہارے لیے مویشی جانور حلال کردیئے گئے ہیں ، مگر ہاں ! وہ جن کی نسبت حکم سنایا جائے گا ، لیکن جب حالت احرام میں ہو تو شکار کرنا حلال نہیں ہے ، بلاشبہ اللہ جیسا کچھ چاہتا ہے حکم دے دیتا ہے
اہل ایمان کو مخاطب کر کے جو کچھ کہا گیا ہے اس کی تعمیل ضروری : 1: حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے عبد اللہ بن مسعود (رح) سے کہا کہ آپ مجھے کوئی خاص نصیحت کیجئے۔ آپ نے فرمایا جب تو قرآن کریم میں لفظ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا ، سنے تو فوراً کان لگا کر دل سے متوجہ ہوجا کیونکہ اس کے بعد کسی نہ کسی بھلائی کا حکم ہو ہا یا کسی نہ کسی برائی سے ممانعت ہوگی۔ (ابن ابی حاتم) اس بات کے پیش نظر جی چاہتا ہے کہ قرآن کریم کے ان اوامرونواہی کو اس جگہ جمع کردیا جائے جو مسلمان کو مخاطب کر کے احکام دیئے گئے ہیں یا منع کیا گیا ہے ۔ اب دل لگا کر ان اوامرنواہی کو پڑھب اور جہاں تک ہو سکے ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ سے عمل کی توفیق بھی طلب کرتے رہو چناچہ ارشاد باری ہے : 1: اے مسلمانو ! { رَاعِنَا } کا لفظ استعمال نہ کرو بلکہ { اُنْظُرْنَا } کا لفظ بولو ، جی لگا کر سنو منکرین حق کو دردناک عذاب ملنے والا ہے۔ (البقرۃ 2 : 104) 2: اے مسلمانو ! صبر اور نماز کی قوتوں سے سہارا پکڑو ، یقین کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرہ 2 : 153) 3: مسلمانو ! اگر تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرنے والے ہو تو وہ تمام پاکیزہ چیزیں بےکھٹکے کھاؤ جو اللہ نے تمہاری غذا کیلئے مہیا کردی ہیں اور اس کی نعمتیں کام میں لا کر اسی کی بخششوں کے شکرگزار ہوجاؤ ۔ (البقرہ 2 : 172) 4: اے مسلمانو ! جو لوگ قتل کردیئے جائیں ان کے لیے تمہیں قصاص لینے کا حکم دیا جاتا ہے۔ (البقرہ 2 : 178) 5: اے مسلمانو ! جس طرح ان لوگوں پر جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ، روزہ فرض کردیا گیا تھا ، اسی طرح تم پر بھی فرض کردیا گیا ہے تاکہ تم میں پرہیزگاری پیدا ہو۔ (البقرہ 2 : 183) 6: اے مسلمانو ! (اعتقاد و عمل کی) ساری باتوں میں پوری طرح مسلم ہوجاؤ اور (کسی بات میں بھی اسلام کے خلاف نہ کرو) دیکھو شیطانی وسوسوں کی پیروی نہ کرو ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (البقرہ 2 : 208) 7: اے مسلمانو ! ہم نے جو کچھ تمہیں دے رکھا ہے اسے راہ حق میں خرچ کرو قبل اس کے کہ آنے والا دن سامنے آجائے کیونکہ اس دن نہ تو خریدو فروخت ہوگی اور نہ ہی کسی کی دوستی کام آئے گی اور نہ کسی کی سعی و سفارش سے کام لیا جائے گا اور جو لوگ منکر ہیں وہی ظالم ہیں۔ (البقرہ 2 : 254) 8: اے مسلمانو ! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور لوگوں کو اذیت پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو محض لوگوں کو دکھانے کے لیے مال خرچ کرتا ہے اور اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا ایسے لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے پتھر کی چٹان کہ اس پر مٹی کی ایک تہہ جم گئی ہو اور اس پر اس نے بیج بو دیا جب زور سے بارش برسے تو ساری مٹی معہ بیج بہہ جائے اور ایک صاف چٹان کے سوا کچھ باقی نہ رہے ، جو کچھ بھی کمایا تھا وہ رائیگاں کردیا ، اللہ ان لوگوں پر سعادت کی راہ نہیں کھولتا جو کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ (البقرہ 2 : 264) 9: اے مسلمانو ! جو کچھ تم نے کمائی کی ہو اس سے خرچ کرو جو کچھ ہم تمہارے لیے زمین میں پیدا کردیتے ہیں لیکن چاہیے کہ اللہ کی راہ میں خیرات کرو تو اچھی چیز خیرات کرو فصل کی پیداوار میں سے کسی چیز کو ردی اور خراب دیکھ کر تم خیرات نہ کر دو حالانکہ اگر ویسی ہی چیز تمہیں دی جائے تو تم کبھی اسے خوشدلی سے لینے والے نہیں مگر آنکھیں بند کرلو تو دوسری بات ہے ، یاد رکھو کہ اللہ کی ذات بےنیاز اور ساری ستائشوں کے لائق ہے۔ (البقرہ 2 : 267) 10: اے مسلمانو ! اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو جس قدر زائد مال نادار مقروضوں کے ذمہ لازم بنا رکھا ہے اسے چھوڑ دو ۔ (البقرہ 2 : 278) 11: اے مسلمانو ! جب کبھی ایسا ہو کہ تم خاص میعاد کے لیے ادھارلینے دینے لگو تو اس کو ضرور لکھ لیا کرو اور ضروری ہے کہ تمہارے د٭رمیان ایک لکھنے والا ہو جو پوری دیانتداری کے ساتھ لکھے اور لکھنے والے کو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے ، وہ حقیقت حال پوری دیانتداری سے لکھے جس طرح اللہ نے اس کو سکھایا ہے جس کے ذمہ دینا ہے وہ مطلب بولتا جائے اور چاہیے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے رب کا خوف دل میں رکھے اور اس میں کسی طرح کی کمی نہ کرے پھر اگر قرض لینے والا ایسا شخص ہو کہ وہ عقل نہ رکھتا ہو یا ناتواں ہو ، مکمل سمجھ نہ رکھتا ہو یا بول کر لکھوانے کی استعداد نہ رکھتا ہو ، اس کا کوئی سرپرست دیانتداری کے ساتھ مطلب بولتا جائے اس پر اپنے دو آدمیوں کو گواہ کرلو ، ہاں ! اگر دو مرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہ کرنا پسند کرو ، اگر ایک بات کو واضح نہ کرسکی تو دوسری کر دے گی اور ضروری ہے کہ جب گواہ طلب کیے جائیں تو وہ گواہی کیلئے تیار ہوں اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کی میعاد لکھنے میں کوتاہی نہ کرو ، اللہ کے نزدیک اس میں تمہارے لیے انصاف کی بات یہی ہے اور شہادت اچھی طرح قائم رکھنا ہے اور اس بات کا حتی الامکان بندوبست کردینا ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے ، ہاں ! اگر نقد لین دین کا کاروبار ہو جسے تم ہاتھوں ہاتھ لیتے دیتے ہو تو ایسی صورت میں اگر تم لکھا پڑھی نہ کرو تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن سودا کرتے ہوئے گواہ ضروری کرلیا کرو اور کاتب اور گواہ کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچاؤ اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہارے لیے گناہ کی بات ہوگی ، ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو اس نے تم کو سکھایا ہے اور وہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔ (البقرہ 2 : 282) تفصیل کیلئے عروۃ الوثقیٰ جلد اوّل میں نشان کردہ آیات کی تفسیر ملاحظہ کریں۔ 12: اے مسلمانو ! اگر تم اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی باتوں پر کاربند ہوگئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تمہیں راہ حق سے پھرا دیں گے اور تم ایمان کے بعد کفر میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ (آل عمران 3 : 100) 13: اے مسلمانو ! اللہ سے ڈرو ایسا ڈرنا جو واقعی ڈرنا ہے اور دیکھو دنیا سے نہ جاؤ مگر اس حالت میں کہ اسلام پر ثابت قدم ہو۔ (آل عمران 3 : 102) 14: اے مسلمانو ! ایسا نہ کرو کہ اپنے آدمیوں کے سوا کسی دوسرے کو اپنا ہم راز بناؤ ، ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ تمہارے خلاف فتنہ انگیزی میں کمی کرنے والے نہیں ، جس بات سے تمہیں نقصان پہنچے وہی انہیں اچھی لگتی ہے ان کی دشمنی تو ان کی باتوں ہی سے ظاہر ہے لیکن جو کچھ ان کے دلوں میں چھپا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے ، اگر تم سمجھ بوجھ رکھتے ہو تو ہم نے فہم و بصیرت کی نشانیاں تم پر واضح کردی ہیں۔ (آل عمران 3 : 118) 15: اے مسلمانو ! حرام کی کمائی سے اپنا پیٹ مت بھرو جو دوگنی چوگنی ہوجایا کرتی ہے اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔ (آل عمران 3 : 130) 16: اے مسلمانو ! اگر تم ان لوگوں کے کہنے میں آگئے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تمہیں راہ حق سے الٹے پاؤں پھرا دیں گے اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ تباہی و بربادی و نامرادی میں جا گرو گے۔ (آل عمران 3 : 149) 17: اے مسلمانو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے اور جن کا شیوہ یہ ہے کہ اگر ان کے بھائی بند سفر میں گئے ہوں یا لڑائی میں مشغول ہوں اور انہیں موت پیش آجائے تو کہنے لگتے ہیں ، اگر یہ لوگ گھر سے نہ نکلتے اور ہمارے پاس ٹھہرے رہتے تو کا ہے کو مرتے یا مارے جاتے ؟ تاکہ اللہ اس بات کو ان کے دلوں کیلئے داغ حسرت بنا دے ، زندگی اور موت کا معاملہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کی نگاہ سے چھپا نہیں۔ (آل عمران 3 : 156) 18: اے مسلمانو ! صبر کرو ، ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو ایک دوسرے کے ساتھ بندھ جاؤ ، اور ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو۔ (آل عمران 3 : 200) 19: اے مسلمانو ! تمہارے لیے یہ بات جائز نہیں کہ عورتوں کو ، میراث سمجھ کر ان پر زبردستی قبضہ کرلو اور ایسا نہ کرنا چاہیے کہ جو کچھ انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ لے نکلنے کیلئے ان پر سختی کرو اور انہیں روک رکھو الا ّ یہ کہ وہ اعلانیہ بدچلنی کی مرتکب ہوئی ہوں اور دیکھو عورتوں کے ساتھ معاشرت کرنے میں نیکی اور انصاف ملحوظ رکھو پھر اگر ایسا ہو کہ تمہیں وہ ناپسند ہوں ، عجیب نہیں کہ ایک بات تم ناپسند کرتے ہو اور اس میں اللہ نے تمہارے لیے بہت کچھ بہتری رکھ دی ہو۔ (النسا 4 : 19) 20: اے مسلمانو ! ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق و ناروا نہ کھاؤ ہاں ! اس صورت میں کھا سکتے ہو کہ آپس کی رضامندی سے ملا جلا کاروبار ہو اور (برابر کی محنت و مشقت) دیکھو اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو اللہ تمہارے لیے رحمت رکھنے والا ہے۔ (النساء 4 : 29) 21: اے مسلمانو ! ایسا نہ کرو کہ تم نشہ میں ہو اور نماز کا ارادہ کرو ، نماز کیلئے ضروری ہے کہ تم ایسی حالت میں ہو کہ جو کچھ زبان سے کہو اسے سمجھو اور جس کسی کو نہانے کی حاجت ہو تو وہ بھی جب تک نہا نہ لے نماز کا قصد نہ کرے ہاں ! راہ چلتا مسافر ہو (تو وہ تیمم کرسکتا ہے) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی آدمی جائے ضرور سے فارغ ہو کر آئے یا ایسا ہو کہ تم نے عورت کو چھوا ہو اور پانی نہ ملے تو اس صورت میں چاہیے کہ پاک زمین سے کام لو ، چہرہ اور ہاتھوں کا مسح کرلو ، بلاشبہ اللہ درگزر کرنے والا اور بخش دینے والا ہے۔ (النساء 4 : 43) 22: اے مسلمانو ! اللہ کی اطاعت کرو ، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی اطاعت کرو جو تم میں حکم اور اختیار رکھتے ہوں ، پھر اگر ایسا ہو کہ کسی معاملہ میں باہم جھگڑ پڑو تو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو ، اس میں تمہارے لیے بہتری ہے اور اسی میں انجام کار کی خوبی ہے۔ (النساء 4 : 59) 23: اے مسلمانو ! اپنی حفاظت اور تیاری میں لگے رہو پھر مقابلے میں نکلو الگ الگ گروہوں میں ہو کر یا اکٹھے ہو کر۔ (النسا 4 : 71) 24: اے مسلمانو ! جب ایسا ہو کہ تم اللہ کی راہ میں نکلو تو چاہیے کہ اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو اور جو کوئی تمہیں سلام کرے تو یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو ، کیا تم دنیا کے سروسامان زندگی کے طلبگار ہو ، اگر یہی بات ہے تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سی غنیمتیں موجود ہیں تمہاری حالت بھی تو پہلے ایسی ہی تھی پھر اللہ نے تم پر احسان کیا پس ضروری ہے کہ لوگوں کا حال تحقیق کر لام کرو ، تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے۔ (النساء 4 : 94) 25: اے مسلمانو ! ایسے ہوجاؤ کہ انصاف پر پوری طرح مضبوط کے ساتھ قائم رہنے والے اور اللہ کیلئے سچی گواہی دینے والے ہو ، اگر تمہیں خود اپنے خلاف یا اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے جب بھی نہ جھجکو ، خواہ کوئی مالدار ہے یا محتاج ہے تو اللہ زیادہ ان پر مہربانی رکھنے والا ہے ، پس ایسا نہ ہو کہ ہوائِ نفس کی پیروی تمہیں انصاف سے باز رکھے اور اگر تم بات گھما پھرا کر کہو گے یا گواہی دینے سے پہلوتہی کرو گے تو تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے۔ (النساء 4 : 135) 26: اے مسلمانو ! ایسا نہ کرو کہ مسلمانوں کے سوا کافروں کو اپنا رفیق و مددگار (اور رازداں) بناؤ ، کیا تم چاہتے ہو کہ (ایسا کر کے) اللہ کا صریح الزام اپنے اوپر لے لو ؟ ۔ (النساء 4 : 144) 27: اے پیغمبر اسلام ! (a) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی جس طرح نوح (علیہ السلام) پر اور ان نبیوں پر جو نوح (علیہ السلام) کے بعد آئے (وحی بھیجی تھی) اور جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) ، اسماعیل (علیہ السلام) ، اسحاق (علیہ السلام) ، یعقوب (علیہ السلام) پر ، عیسیٰ (علیہ السلام) ، ایوب (علیہ السلام) ، یونس (علیہ السلام) ، ہارون (علیہ السلام) اور سلیمان پر (بھی وحی) بھیجی اور داود (علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔ (النساء 4 : 163) 28: اے مسلمانو ! اللہ کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو۔ (المائدہ 5 : 2) 29: اے مسلمانو ! ایسے ہوجاؤ کہ اللہ کے لیے مضبوطی سے قائم رہنے والے اور انصاف کے لیے گواہی دینے والے ہو اور ایسا کبھی نہ ہو کہ کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اس بات کے لیے ابھار دے کہ انصاف نہ کرو ، انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے لگتی ہوئی ہات ہے اور اللہ سے ڈرو ، تم جو کچھ کرتے ہو وہ اس کی خبر رکھنے والا ہے۔ (المائدہ 5 : 8) 30: اے مسلمانو ! اپنے اوپر اللہ کا وہ احسان یاد کرو کہ جب ایک گروہ نے پورا ارادہ کرلیا تھا کہ تم پر ہاتھ بڑھائے تو اللہ نے ایسا کیا کہ اس کے ہاتھ تمہارے خلاف بڑھنے سے روک دیئے اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ ہی ہے جس پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے۔ (المائدہ 5 : 11) 31: مسلمانو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس تک پہنچنے کا ذریعہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔ (المائدہ 5 : 35) 32: مسلمانو ! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق و مددگار نہ بناؤ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور تم میں سے جو کوئی انہیں رفیق اور مددگار بنائے گا تو وہ انہی میں سے سمجھا جائے گا ، اللہ اس گروہ پر راہ نہیں کھولتا جو ظلم کرنے والا گروہ ہے۔ (المائدۃ 5 : 51) 33: مسلمانو ! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا تو قریب ہے کہ اللہ ایک ایسا گروہ پیدا کر دے جنہیں اللہ دوست رکھتا ہو اور وہ بھی اللہ کو دوست رکھنے والے ہوں ، مومنوں کے مقابلہ میں نہایت نرم اور جھکے ہوئے لیکن دشمنوں کے مقابلہ میں نہایت سخت ، اللہ کی راہ میں جان لڑادیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے ، یہ اللہ کا فضل ہے جس گروہ کو چاہے عطا فرما دے اور وہ بڑی ہی وسعت رکھنے والا اور جاننے والا ہے۔ (المائدہ 5 : 54) 34: اے مسلمانو ! یہود و نصاریٰ اور کفار میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے (اور اس کی تحقیر و تذلیل کی ہے) تم انہیں اپنا مددگار و رفیق نہ بناؤ اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو اگر فی الحقیقت تم ایمان رکھنے والے ہو۔ (المائدہ 5 : 57) 35: اے مسلمانو ! اللہ نے جو چیزیں تم پر حلال کردی ہیں انہیں اپنے اوپر حرام نہ کرو اور (اس طرح کی روک ٹوک میں) حد سے نہ گزرو اللہ حد سے گزرجانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (المائدہ 5 : 87) 36: اے مسلمانو ! بلاشبہ شراب ، جوا ، معبودان باطل کے نشان اور پانسے شیطانی کاموں کی گندگی ہے تم ان سے اجتناب کرو (اور اس گندگی کے قریب مت جاؤ ) تاکہ تم کامیاب ہو۔ (المائدہ 5 : 90) 37: اے مسلمانو ! جب تم احرام کی حالت میں ہو شکار کے جانور نہ مارو ۔ (المائدہ 5 : 95) 38: مسلمانو ! ان چیزوں کو نسبت سوالات نہ کرو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں اگر ان چیزوں کی نسبت سوال کرو گے جب کہ قرآن کریم نازل ہو رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی ، اللہ نے یہ بات معاف کردی اور اللہ بخشنے والا اور بہت ہی بردبار ہے۔ (المائدہ 5 : 101) 39: اے مسلمانو ! تم پر فقط تمہاری جانوں کی ذمہ داری ہے ، اگر تم سیدھے راستے پر قائم ہو تو کسی کا گمراہ ہونا تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا ، تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے ، وہ بتا دے گا کہ تمہارے کام کیسے کچھ رہے ہیں۔ (المائدہ 5 : 105) 40: اے مسلمانو ! جب تم میں کسی کے سامنے موت آ کھڑی ہو تو وصیت کے وقت گواہی کے لیے تم میں سے دو معتبر آدمی گواہ ہونے چاہیں ، اگر ایسا ہو کہ تم سفر میں ہو اور موت کی مصیبت پیش آجائے اور اپنے گواہ نہ مل سکیں تو اپنے گواہوں کی جگہ غیر گواہ بھی گواہ ہو سکتے ہیں ، پھر اگر تمہیں ان کی سچائی میں کسی طرح کا شبہ پڑجائے تو انہیں نماز کے بعد روک لو وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں ہم نے اپنی قسم کسی معاوضہ کے بدلے فروخت نہیں کی ہے ، ہمارا قریب و عزیز کیوں نہ ہو ہم اللہ کے لیے سچی گواہی کبھی نہیں چھپائیں گے ، اگر ایسا کریں تو ہم گنہگاروں میں سے ہوں۔ (المائد 5 : 106) تفصیل کے لیے عروۃ الوثقیٰ جلد سوم کی نشان کردہ آیات کا مطالعہ کریں۔ سورة الانعام و الاعراف میں کوئی حکم مسلمانوں کو مخاطب کر کے نہیں دیا گیا۔ 41: مسلمانو ! جب کافروں کے لشکر سے تمہارا آمنا سامنا ہوجائے (وہ تم پر چڑھ دوڑیں) تو انہیں پیٹھ نہ دکھاؤ ۔ (الانفال 8 : 15) 42: مسلمانو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ، اس سے روگردانی نہ کرو اور تم سن رہے ہو۔ (الانفال 8 : 20) 43: اے مسلمانو ! اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو جب وہ پکارے تاکہ تمہیں (رُوحانی موت سے نکال کر) زندہ کر دے اور جان لو کہ (بسا اوقات) اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور جان لو کہ اسی کے حضور جمع کیے جاؤ گے۔ (الانفال 8 : 24) 44: اے مسلمانو ! ایسا نہ کرو کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت کرو اور نہ یہ کہ آپس کی امانتوں میں خیانت کرو اور تم اس بات سے ناواقف نہیں ہو۔ (الانفال 8 : 27) 45: اے مسلمانو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو تو وہ تمہارے لیے امتیاز کرنے والی ایک قوت پیدا کر دے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور بخش دے گا اللہ تو بہت بڑا فضل کرنے والا ہے۔ (الانفال 8 : 29) 46: اے مسلمانو ! جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تو لڑائی میں ثابت قدم رہو اور زیادہ سے زیادہ اللہ کو یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔ (الانفال 8 : 45) 47: اے مسلمانو ! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلہ میں کفر کو عزیز رکھیں وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائیں) تو انہیں اپنا رفیق و مددگار نہ بناؤ اور جو کوئی بنائے گا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو (اپنے آپ پر خود) ظلم کرنے والے ہیں۔ (التوبہ 9 : 23) 48: اے مسلمانو ! حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ یہ مشرک نجس ہیں (گویا شرک نے ان کے دلوں کی پاکیزگی صلب کرلی ہے) پس چاہیے کہ اس برس کے بعد وہ مسجد حرام کے نزدیک نہ آئیں اور اگر تم کو فقر و فاقہ کا اندیشہ ہو تو گھبراؤ نہیں اللہ چاہے گا تو عنقریب تمہیں اپنے فضل سے تونگر کر دے گا اللہ سب کچھ جاننے والا ، حکمت رکھنے والا ہے۔ (التوبہ 9 : 28) 49: اے مسلمانو ! یاد رکھو کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے علماء اور مشائخ میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو لوگوں کا مال ناحق ناروا کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے انہیں روکتے ہیں اور جو لوگ چاندی سونا اپنے ذخیروں میں ڈھیر کرتے رہتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو عذاب دردناک کی خوشخبری سنا دو ۔ (التوبہ 9 : 34) 50: اے مسلمانو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں قدم اٹھاؤ تو تمہا رے پاؤں بوجھل ہو کر زمین پکڑ لیتے ہیں کیا آخرت چھوڑ کر صرف دنیا کی زندگی ہی پر ریجھ گئے ہو ؟ دنیا کی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہے مگر بہت تھوڑی۔ (التوبہ 9 : 38) 51: اے مسلمانو ! اللہ کے خوف سے بےپروار نہ ہوجاؤ اور چاہیے کہ سچوں کے ساتھی بنو (کہ یہ سچائی ہی تھی جو ان لوگوں کی بخشش کا وسیلہ ہوئی) ۔ (التوبہ 9 : 119) 52: اے مسلمانو ! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے آس پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہاری سختی محسوس کریں کہ بغیر اس کے جنگ جنگ نہیں) اور یاد رکھو اللہ ان کا ساتھی ہے جو متقی ہیں۔ (التوبہ 9 : 123) تفصیل کے لیے عروۃ الوثقیٰ جلد چہارم کی نشان زدہ آیات کا مطالعہ کرو۔ سورة یونس سے الانبیاء تک مسلمانوں کو مخاطب کر کے کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ 53: اے مسلمانو ! رکوع میں جھکو ، سجدے میں گرو ، اپنے پروردگار کی بندگی کرو ، جو کچھ کرو ، نیکی کی بات کرو ، عجب نہیں کہ اس طرح بامراد ہوجاؤ ۔ (الحج 22 : 77) 54: اے ایمان والو ! تم شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلنے لگو (محتاط رہو اور بےپر کی نہ اڑایا کرو) اور جو شخص شیطان کی پیروی کرے گا تو وہ تو اس کو بےحیائی اور بیہودگی ہی کا حکم دے گا اور اگر اللہ کا تم پر فضل اور رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے ایک شخص بھی کبھی پاکباز نہ ہو سکتا ، لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے (اپنے خاص فضل سے) پاکبازبنا دیتا ہے اور اللہ بہت سننے ولا اور جاننے والا ہے۔ (النور 24 : 21) 55: اے ایمان والو ! اپنے گھر کے علاوہ دوسرے گھروں میں مت داخل ہو جب تک اجازت نہ لے لو اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے تاکہ تم نصتحس پکڑو۔ (النور 24 : 27) 56: اے ایمان والو ! تمہارے باندی غلام اور وہ بچے جو سن بلوغ کو نہیں پہنچے انہیں تین وقتوں میں تم سے اجازت لینی چاہیے فجر کی نماز سے قبل اور دوپہر میں اور عشاء کی نماز کے بعد جب تم اپنے (بعض) کپڑے اتار دیا کرتے ہو یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں (اس لیے مذکورہ اوقات میں اجازت لیے بغیر جانا حرام ہے) ان اوقات کے علاوہ تم پر اور کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ تمہارے پاس اور تم ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہو اس طرح اللہ اپنے احکامات کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ سب کچھ جانتا اور بڑی حکمت والا ہے۔ (النور 24 : 85) 57: اے ایمان والو ! اپنے اوپر اللہ کا وہ احسان یاد کرو جب تم پر فوجیں چڑھ آئی تھیں پھر ہم نے ان (فوجوں) پر ایک ہوا بھیجی اور ایسے لشکر جن کو تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کرتے تھے اللہ اسے دیکھ رہا تھا۔ (الاحزاب 33 : 9) 58: اے ایمان والو ! اللہ کو بہت زیادہ یاد کیا کرو (یہی ذریعہ نجات ہے) ۔ (الاحزاب 33 : 41) 59: اے ایمان والو ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور اس سے پہلے کہ تم نے ان سے تعلق خاص پیدا کیا ہو (کسی وجہ سے طلاق کی نوبت آجائے) ان کو طلاق دے دو تو تمہاری ان پر کوئی عدت نہیں کہ تم اس کو شمار کرنے لگو ، ان کو کچھ دے دلا کر حسن و خوبی سے رخصت کر دو ۔ (الاحزاب 33 : 49) 60: اے ایمان والو ! تم نبی (کریم (a) کے گھروں میں (بغیر اجازت) داخل نہ ہوا کرو بجز اس کے کہ تم کو کھا نے کے لیے مدعو کیا جائے اور نہ ہی کھانا پکنے کے انتظار میں (وہاں) بیٹھ رہا کرو لیکن جب تم کو (کھانے کے لیے) بلایا جائے تو داخل ہو پھر جب تم کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور باتوں میں دل لگائے نہ بیٹھے رہا کرو ، بلاشبہ رسول اللہ (a) کو تکلیف پہنچتی ہے (اس کے باوجود) وہ تمہارا لحاظ کرتا ہے اور اللہ کو صاف اور سیدھی بات کہنے میں کوئی حجاب نہیں اور جب تم ان سے (رسول (a) کی اہل بیت سے) کوئی چیز مانگو تو ان سے پردہ میں رہ کر مانگو یہ تمہارے اور ان کے (دونوں کے) لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور (پھر سن لو) یہ تمہارے لیے زیبا نہیں کہ تم اللہ کے رسول (a) کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ اس (نبی کریم (a) کی بیویوں سے کبھی اس (کی وفات) کے بعد نکاح کرو بلاشبہ اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی (گناہ کی) بات ہے۔ (الاحزاب 33 : 53) 61: اے ایمان والو ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ستایا تھا پھر اللہ نے ان (کی تہمت) سے اس کو بری ثابت کردیا اور اللہ کے نزدیک وہ بڑا ہی باوقار (عزت والا) تھا۔ (الاحزاب 33 : 69) 62: اے ایمان والو ! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے (تو) وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا (محمد 47 : 7) 63: اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور (اپنی بیوقوفی سے) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔ (محمد 47 : 33) 64: اے ایمان والو ! اپنی آوازوں کو پیغمبر (a) کی آواز سے بلند نہ کرو اور آپ (a) سے اس طرح زور سے نہ بولا کرو جیسے آپس میں بولتے ہو کہیں تمہارے اعمال ضائع نہ ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ (الحجرات 49 : 2) 65: اے ایمان والو ! اپنی آوازوں کو پیغمبر (a) کی آواز سے بلند نہ کرو اور آپ (a) سے اس طرح زور سے نہ بولا کرو جیسے آپس میں بولتے ہو کہیں تمہارے اعمال ضائع نہ ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ (الحجرات 49 : 2) 66: اے ایمان والو ! اگر کوئی جلد باز تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو (ایسا نہ ہو کہ) کہیں تم کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کیے پر پچھتانا پڑے ؟ (الحجرات 49 : 6) 67: اے ایمان والو ! (تم میں سے) ایک جماعت دوسری جماعت کا مذاق نہ اڑایا کرے ممکن ہے کہ وہ اس سے بہتر ہو اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑایا کریں ممکن ہے کہ وہ عورتیں ان سے بہتر ہوں اور نہ اپنے لوگوں پر عیب لگاؤ اور نہ برے القاب دے کر ایک دوسرے کو بدنام کرو ، ایمان لانے کے بعد (کسی کا) برا نام رکھنا گناہ ہے اور جو کوئی (ایسی حرکتوں سے) توبہ نہ کرے تو یہی لوگ ظالم کہلائیں گے۔ (الحجرات 49 : 11) 68: اے ایمان والو ! بیشتر بدگمانیوں سے بچتے رہو بلاشبہ بعض بدگمانیاں گناہ ہوتی ہیں اور کسی کے کھوج میں نہ لگے رہا کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو ، تم میں سے کسی کو یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ سو اسکو تو تم بہت ناگوار سمجھتے ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو بلاشبہ اللہ معاف کرنے والا پیار کرنے والا ہے۔ (الحجرات 49 : 12) 69: اے ایمان والو ! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ تم کو اپنی خاص رحمت سے دو حصے عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے ایک نور پیدا کرے گا تم اس کی روشنی میں چلو گے اور وہ تم کو بخش دے گا اور اللہ تو بڑا ہی بخشنے والا بہت ہی پیار کرنے والا ہے۔ (الحدید 57 : 28) 70: اے ایمان والو ! جب تم کان میں بات کرو (یعنی سرگوشی کرو) تو گناہ ، ظلم اور رسول کی نافرمانی کے متعلق نہ کرو بلکہ نیکی اور ادب کی بات کام میں کہو (اگر آداب مجلس کے خلاف نہ ہو) اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس تم کو جمع ہونا ہے۔ (المجادلہ 58 : 9) 71: اے ایمان والو ! (آداب مجلس کو اچھی طرح سمجھ لو اور) جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں کھل کر بٹھوی تو کھل کر بیٹھا کرو اللہ تم کو کشادگی عطا فرمائے گا اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو کھڑے ہوجایا کرو اور اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان لوگوں کے جن کو علم عطا کیا گیا ہے درجات بلند کرے گا اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (المجادلہ 58 : 11) 72: ایمان والو ! جب تم رسول اللہ (a) کے کان میں کوئی بات کہو تو اپنی اس سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ و خیرات کرلیا کرو یہ تمہارے لیے بہت بہتر اور پاکیزہ بات ہے پھر ہاں ! اگر تم مقدور نہ رکھتے ہو تو (مضائقہ نہیں) اللہ بڑا ہی بخشنے والا پیار کرنے والا ہے۔ (المجادلہ 58 : 12) 73: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو چاہیے کہ دیکھ لے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو بلاشبہ اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (الحشر 59 : 18) 74: سوائے اس کے نہیں کہ اللہ تم کو ان لوگوں سے دوستی سے منع کرتا ہے جو دین کے بارے میں تم سے لڑتے ہوں اور انہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہو اور تمہارے نکالے جانے میں دوسروں کے شریک ہوئے ہوں اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ (الممتحنہ 60 : 9) 75: اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کو جانچ لیا کرو۔ (الممتحنہ 60 : 10) 76: اے ایمان والو ! ان لوگوں سے دوستی مت کرو جن پر اللہ نے غضب نازل کیا ہے ، وہ تو آخرت سے مایوس ہوچکے ہیں ویسے ہی جیسے کافر قبروں والوں سے ناامید ہیں۔ (الممتحنہ 60 : 13) 77: اے ایمان والو ! تم (ایسی باتیں زبان سے) کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو ؟ (یہ سراسر بد اخلاقی ہے) ۔ (الصف 61 : 2) 78: اے ایمان والو ! کیا میں تم کو ایک ایسی تجارت بتاؤں جو تم کو دردناک عذاب سے بچا لے ؟ (الصف 61 : 10) 79: اے ایمان والو ! تم اللہ کے (دین کے) مددگار ہوجاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے اپنے حواریوں سے کہا تھا کہ کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنتا ہے ؟ حواریوں نے جواب دیا ہم اللہ کے معاون (اور مددگار) ہیں پھر بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور (ہم نے بھی ایمان لانے والوں کی حوصلہ افزائی کی) ایک گروہ کافر رہا پھر ہم نے ایمان والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی بالآخر وہ (ایمان والے ہی) غا لب رہے۔ (الصف 61 : 14) 80: اے ایمان والو ! جب جمعہ کے دن نماز (جمعہ) کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کی یاد کی طرف مستعدی کے ساتھ چل دو اور خرید وفروخت ترک کر دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم کو سمجھ ہے۔ (الجمعہ 63 : 9) 81: اے ایمان والو ! (سن لو اور یاد رکھو) تم کو تمہارے مال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دے اور جو کوئی ایسا کرے گا تو وہی لوگ خود نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (المنافقون 63 : 9) 82: اے ایمان والو ! تمہاری بیویوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں پس ان سے احتیاط برتو اور اگر ان کو معاف کر دو اور درگزر کرو اور بخش دو تو اللہ بڑا ہی بخشنے والا پیار کرنے والا ہے۔ (التغابن 64 : 14) 83: اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ، اس پر بڑے سخت مزاج اور زبردست فرشتے (محافظ بنائے گئے) ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو بھی حکم دیا جائے اسے (فوراً ) بجا لاتے ہیں۔ (التحریم 66 : 6) 84: اے ایمان والو ! اللہ کے آگے سچے دل سے تو بہ کرلو امید ہے کہ تمہارا رب (معاف کر دے گا) تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تم کو جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، جس دن اللہ اپنے نبی کریم (a) کو اور ان لوگوں کو جو آپ کے ساتھ ایمان لائے رسوا نہ کرے گا ، ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دا ہنی طرف دوڑتا چلا جاتا ہوگا وہ دعا کرتے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل فرما دے اور ہم کو بخش دے اور بلاشبہ تو ہر بات پر قادر ہے۔ (التحریم 66 : 8) تفصیل کے لئے عروۃ الوثقیٰ کی نشان کردہ سورتوں کی آیات موجودہ سورتوں کی تفسیر سے ملاحظہ فرمالیں۔ ایمان والوں کو اپنے وعدے پورے کرنے کی ہدایت خاص : بلکہ اس طرح باندھ دینا کہ دونوں کا الگ الگ ہونامشکل ہوجائے ۔ اس لئے معاہدہ نکاح کو بھی عقد کہا جاتا ہے ۔ پھر ہر طرح کے قول وقرار پر استعمال ہونے لگاحتیٰ کہ ہر طرح کے معاہدہ پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ معاہدے فطری ہوں تو ان پر بھی اس کو بولا جاتا ہے۔ امام جصاص نے کہا کہ اس کا اطلاق ہر ایسے معاملہ پر ہوتا ہے جس میں دو فریقوں نے آئندہ زمانے میں کوئی کام کرنے یا چھوڑنے کی پابندی ایک دوسرے پر ڈالی ہو اور دونوں متفق ہو کر اس کے پابند ہوگئے ہوں۔ چونکہ عرف عام میں اس کا نام معاہدہ ہے اس لئے اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ باہمی معاہدات کو پورا کرنا لازمی و ضروری ہے۔ رہی یہ بات کہ ان معاہدات سے کون سے معاہدے مراد ہیں ؟ صحیح یہ ہے کہ ہر قسم کے معاہدات خواہ وہ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ایمان و اطاعت کے متعلق لئے ہیں یا وہ معاہدات جو اللہ نے اپنے نازل کئے ہوئے احکام حلال و حرام سے متعلق اپنے بندوں سے وعدے لئے ہیں یا وہ لوگ آپس میں عمدوپیمان کرتے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے سے باہمی امداد کے لئے لیا کرتے تھے اور ان میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیں کیونکہ اس سے یہ سارے قسم کے معاہدے مراد لئے جاسکتے ہیں اور ہر طرح کی امانتیں وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی معاہدہ شکنی کو بھی قرار دیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عمر سے روایت بیان کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں معاہدہ نکاح پر ” عقدہ “ کا لفظ بولا گیا ہے چناچہ سورة البقرہ کی آیت نمبر 235 ، 237 میں ” عُقْدَةَ النِّكَاحِ “ کا لفظ انہی معنوں پر بولا گیا ہے اور اس لفظ کو فصیح اللسان ہونے کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے جیسے کہ سورة طہٰ میں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی فصیح اللسانی کی دعا میں اس کو استعمال کیا ہے ۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ ” وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ0027 “ اے اللہ مجھے فصیح اللسان بنا دے۔ قرآن کریم میں ان گرہوں پر بھی اس لفظ کا استعمال ہوا ہے جو پھونک لگانے والیاں اپنے خاص مقصد کے لئے تاگا میں گرہ لگاتی ہیں اور یہ گویا دھوکہ کا ایک طریقہ ہے جس کو عموام کی زبان میں ” جادو “ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس طرح تاگا میں گہ لگاتے ہوئے اس گرہ پر پھونک لگا کر یہ تاثر قائم کرتی ہیں کہ اس گرہ میں اس پھونک کو باندھ دیا گیا ہے تاکہ اس تاگاکو مطلوبہ آدمی پر بندھوا کر اس کا مقصد پورا کرایا جائے جیسا کہ سورة الفلق میں ارشاد الٰہی ہے کہ ” النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِۙ00 “ گروہوں میں پھونک لگانے والوں کے شر سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٖ نے مسلمانوں کو دعا سکھائی ہے۔ اسی طرح قسم کے پکا کرنے میں بھی اس لفظ کا استعمال کیا گیا ہے چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : (النساء 4 : 33) ” جن لوگوں سے تمہارے عہد و پیمان ہوں “ اور (المائدہ 55 : 89) ” لیکن جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو ان پر ضرور تم سے اللہ تعالیٰ مواخذہ کرے گا۔ “ ان چوپایوں کا بیان جو اللہ تعالیٰ نے کھانے کے لئے حلال ٹھہرائے ہیں : 3: کیا ہے ؟ تفاسیر میں بہیمہ کے بہت سے معنی کئے گئے ہیں ماحصل سب کا یہ ہے کہ وہ وچار پائے جو قوت تمیز نہیں رکھتے اور عرف عام میں وہ درندے بھی نہ ہوں یعنی چیز پھاڑ کر کھانے والے بلکہ چرنے اور چگنے والے ہوں۔ انعام مویشی کا لفظ عربی زبان میں اونٹ ، گائے اور بھیڑ بکری پر بولا جاتا ہے اور ” بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ “ کے لفظ نے مفہوم میں وسعت پیدا کردی ہے ۔ چناچہ ” بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ “ وہ بہام جو انعام کی طرح ہوتے ہیں یعنی چارہ چرنے والے سارے جان ور خواہ وہ جیگلے ہوں جیسے ہرن اور نیل گائے وغیرہ کہ یہ بھی چارہ چرنے والے اور جگالی کرنے والے ہیں۔ مطلب بالکل واضح ہوگیا کہ وہ جانور جو کچلیاں نہ رکھتے ہوں اور حیوانی غذا کی بجائے نباتی غذا کھاتے ہوں اور وہ جانور جو کچلیاں رکھتے ہوں اور حیوانی غذا کھاتے ہوں یعنی دوسرے جانور کو مار کر کھاتے ہوں وہ حلال نہیں ہیں۔ یہ بات خود نبی اعظم و آخر ﷺ نے ارشادفرمائی ہے : کل دی ناب من السباع ” وہ درندے جو دوسرے جانوروں کو مار کر کھا جاتے ہوں “ اور اسی طرح آپ کا ارشاد ہے کہ : کل ذی مخلب من الطیر “ وہ پرندے بھی حرام ہیں جو پہنچے رکھتے ہوں اور شکار کر کے کھا جاتے ہوں۔ “ مگر ہاں ! ان چرنے والوں جانوروں میں جو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرادیئے ہیں : 4: ان مستثنیٰ جانور کا ذکر آگے آیت نمبر 3 میں آرہا ہے جہاں خود قرآن کریم نے ان کی وضاحت کردی ہے اور اس سے وہ سارے حرمت بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے اور صحیح حدیث سے ثابت ہے اور صحیح احادیث سے یہ بھی درست ہوچکا ہو اس کا کھانا بھی جائز ہے کیونکہ اس کی ماں جس کے پیٹ سے وہ برآمد ہوا ہے اس کو ذبح کیا گیا ہے اس لئے اس مادہ کا ذبیحہ اس کے بچے کا بھی ذبیحہ ہے۔ چناچہ احادیث میں ہے کہ صحابہ کرام (رح) نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ اونٹنی ، گائے ، بکری ذبح کی جاتی ہے ان کے پیٹ میں سے بچہ نکلتا ہے تو ہم اسے کھالیں یا پھینک دیں ؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا اگر چاہو تو کھا سکتے ہو اس کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذبیحہ ہے ۔ بعض لوگوں نے انڈے کی حرمت اور کراہت میں بات کی ہے ان کو اس ارشاد نبوی (علیہ السلام) پر غور کرنا چاہئے شاید اس میں ان کے لئے موجود ہو تاہم یہ استدلال واستنباط ہے اور انہوں نے بھی جو کچھ کہا ہے وہ استدلال ہی کیا ہے کوئی واضح بات تو ان کے پاس بھی موجود نہیں ہے اور ذبیحہ کے پیٹ کے بچہ میں بعض لوگوں نے اختلاف کیا ہے اور اس کا کھانا ذبح کے اگر وہ زندہ برآمد ہو جائز نہیں بتایا۔ جن جانوروں کا شکار جائز ہے ان کو شکار کرنا بھی حالت احرام میں جائز نہیں : 5: حج کے لئے جب احرام باندھ لیا جاتا ہے جو شعائر اللہ میں سے ایک شعار ہے تو احرام کی حالت میں جہاں اور بہت سی چیزیں محرم کے لئے حرام کردی جاتی ہیں وہاں ان جانوروں کا شکار بھی ہے جو جانور بری ہوں اور اسلام کے عرف عام میں ان کا شکار جائز ہو احرام کی وجہ سے اس کی ممانعت کردی گئی ہے کہ محرم شکار نہیں کرسکتا اور نہ ہی شکار کرنے والے کی کسی طرح کی مدد کرسکتا ہے اور نہ شکار کی طرف اشارہ کرسکتا ہے یعنی کسی کو شکار کے جانور کی طرف کسی طرح کی راہنمائی بھی نہیں کرسکتا۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ شکار و حشی اور جنگلی جانوروں کا کیا جاتا ہے جو پالتونہ ہوں اور کوئی ان کا مالک بھی نہ ہو اور پالتو جانور جے س بھیڑ ، بکری ، گائے اور اونٹ وغیرہ جو عادتاً بھی شکار کر کے نہیں لائے جاتے ۔ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ 1ؕسے مراد حالت احرام میں ہو یا حدود حرم میں کیونکہ شکار حالت احرام میں بھی ناجائز ہے اور حدود حرم میں بھی ناجائز ہے اور جب شکار حدود حرم میں ہوگا تو غیر محرم کے لئے بھی اس کا شکار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا حکم کسی سے صلاح و مشورہ پر مبنی نہیں ، تاہم وہ مصلحت سے خالی بھی نہیں : 6: للہ تعالیٰ کا حکم ہمیشہ عین مطابق مصلحت ہوتا ہے ۔ ارادہ الٰہی سے بالاتر کوئی قانون نہیں جس کے وہ ماتحت ہو وہ جاتا ہے تو وہ یقیناً مصلحت سے خالی نہیں ہوتیں کہ جو چیزیں حلال و طیب ہیں ان کو جب خاص خاص اوقات میں منع کیا جاتا ہے تو وہ یقیناً مصلحت سے خالی نہیں ہوتیں تاہم اس تلاش میں پڑنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کی مصلحت ہر آدمی کی سمجھ میں آیے۔ ممانعت کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہی سب کو کفایت کرتا ہے جب یہ بات معلوم ہوگئی اس کام کے کرنے سے منع کیا گیا ہے تو اس کام کی تلاش کی کوئی ضرورت نہیں بس اس سے پرہیز لازم و ضروری ہے ۔ محرم کو جب شکار سے منع کیا گیا ہے تو بلاشبہ وہ مصلحت سے خالی نہیں وہ منع ہونا ہی تراشتا پھرے۔ پس اللہ تعالیٰ کی حرمت کو حرام سمجھے اور احرام کی حالت میں شکار نہ کرے اور نہ ہی حرم کے اندر شکار کرنے کی کوشش کرے کہ ان کی حرمت کا حکم الٰہی آچکا ہے۔
Top