Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 100
قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : کہدیجئے لَّا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْخَبِيْثُ : ناپاک وَالطَّيِّبُ : اور پاک وَلَوْ : خواہ اَعْجَبَكَ : تمہیں اچھی لگے كَثْرَةُ : کثرت الْخَبِيْثِ : ناپاک فَاتَّقُوا : سو ڈرو اللّٰهَ : اللہ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
(اے پیغمبر اسلام ! ) کہہ دو پاکیزہ اور گندی چیزیں برابر نہیں ہو سکتیں اگرچہ تمہیں گندی چیز کا بہت ہونا اچھا لگے ، پس اے ارباب عقل و دانش ! اللہ سے ڈرو تاکہ فلاح پاؤ
ناپاک اور پاک کبھی برابر نہیں ہوسکتے ناپاک کی کثرت بھی بری ہے : 233: عربی زبان میں طیب اور خبیث دو متقابل لفظ ہیں۔ طیب ہرچیز کے عمدہ ، جید اور حلال کو کہتے ہیں اور خبیث ہرچیز کے ردی ، خراب اور حرام ہونے کو کہا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے بار بار قرآن کریم میں جہاں یہ لفظ آیا یہ بات کہی ہے کہ ہر طیب کے لئے حلال ہونا لازمی شرط ہے اور ہر خبیث کے لئے حرام ہونا بھی لازم و ضروری ہے لیکن ہر حلال چیز طیب نہیں ہوئی اور اس طرح ہر حرام چیز خبیث بھی نہیں ہوتی گویا طیب حلال سے بھی اوپر ہے اور اس طرح خبیث حرام سے اوپر۔ طیب اللہ کے ہاں محبوب ومحمود ہے اور خبیث اللہ کے ہاں مبغوض و مردود ہے پھر تم ہی بتاؤ کہ کیا یہ دونوں کسی حال میں بھی برابر ہو سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ ” عالم روحانیت میں جو چیزیں گندی یا خبیث ہیں وہ عالم جسمانیات میں بڑی مقدار والی اور بڑی لذت والی دکھائی دیتی ہیں لیکن ان کی یہ ظاہری تعداد اور لذات دائمی اور سرمدی لذتوں سے ہمیشہ کیلئے محروم کردینے والی ہیں اس لئے ان کا اور ان کا مقابلہ ہی کیا ؟ ) رازی) فرمایا کہ اس بات پر حیرت نہ کرو کہ جب نافرمان اور نافرمانی اس قدر مبغوض ہیں تو پھر ان کی کثرت و فراوانی کیوں ؟ یہ ترقی یقینا دلیل مقبولیت نہیں۔ اس کی بناء کچھ دوسری ہی تکوینی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں اور کڑوی بیل کو ہمیشہ پھل زیادہ لگتا ہے ۔ اس لئے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اہل حق کے مقابلہ میں اہل باطل اور اہل رسوم کی کثرت سے دھوکانہ کھانا چاہئے۔ ایک تولہ کستوری دس من گندگی سے ہزار بار بہتر ہے اگرچہ وزن میں ان کی کوئی نسبت ہی آپس میں نہ ملتی ہو۔ اہل مغرب نے اہل مشرق کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈالا ہے اور ان کی ناک اس طرح بند کردی ہے کہ اب یہ ہاتھوں سے ٹٹول کر فیصلہ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں ان کی آنکھیں اس لئے نہ کھلی رہنے دی گئیں کہ کہیں یہ دیکھ کر نہ پہچان لیں اور ناک اس لئے بند کردی کہ ان کی بدبو اور خوشبو کی پہچان جاتی رہے ۔ ہمیں افسوس ہے کہ وہ ایسا کرنے میں اس وقت مکمل طور پر کامیاب ہیں اور مسلمان قوم کو اپنی آنکھوں اور اپنے دلوں کا کبھی خیال تک نہیں آیا کہ وہ قلت اور کثرت کو ہاتھوں سے ٹٹول کر معلوم کرسکتے ہیں اور اس خوش فہمی نے ان کو برملا کہہ دیا کہ آنکھوں کو مت کھولنا کہ دھول پڑنے کا امکان ہے اور ناک کو خوب اچھی طرح بند رکھنا کی گندی ہوا پھیپھڑوں کو سخت نقصان پہنچائے گی تاکہ ” نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری “ حالانکہ قرآن کریم نے فلاح کا نسخہ یہ بتایا تھا کہ ” اے ارباب و دانش ! اللہ سے ڈرو تاکہ فلاح پاؤ ۔ “
Top