Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے لَا تَسْئَلُوْا : نہ پوچھو عَنْ : سے۔ متعلق اَشْيَآءَ : چیزیں اِنْ تُبْدَ : جو ظاہر کی جائیں لَكُمْ : تمہارے لیے تَسُؤْكُمْ : تمہیں بری لگیں وَاِنْ : اور اگر تَسْئَلُوْا : تم پوچھوگے عَنْهَا : ان کے متعلق حِيْنَ : جب يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ : نازل کیا جارہا ہے قرآن تُبْدَ لَكُمْ : ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے درگزر کی عَنْهَا : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
مسلمانو ! ان چیزوں کو نسبت سوالات نہ کرو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں اگر ان چیزوں کی نسبت سوال کرو گے جب کہ قرآن کریم نازل ہو رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی ، اللہ نے یہ بات معاف کردی اور اللہ بخشنے والا اور بہت ہی بردبار ہے
رسول اللہ ﷺ سے بےت کے سوال پوچھنے کی ممانعت : 234: جن سوالوں میں کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ نہ ہو ان کو بےت کے سوال ہی کہا جاتا ہے اور اسی مضمون کو ” لا یعنی “ کے الفاظ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جس بات کی کوئی ضرورت نہ ہو اس کے متعلق سوال کر کے اپنا اور دوسرے کا وقت برباد کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن ذہنی عیاشی کے عادی ایسے ایسے سوالات کر کے اپنی ذہنی عیاشی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہی رہتے ہیں۔ یہ ایک عالم سے سوال کریں گے اور پھر وہی سوال دوسرے کے سامنے دہرائیں گے۔ ذرا اختلاف پایا جس کا امکان موجود ہے تو دونوں عالموں کو تیار کر کے مناظرہ کا بازار گرم کردیں گے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ اس سے ذہنی عیاشی پوری کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وہ ان دونوں مولویوں کو بیٹروں اور مرغوں کی طرح لڑانہ دیں۔ حق کی ان کو تلاش نہیں ورنہ دونوں طرف سے سوال پوچھ کر اور ان کے دلائل سن کر حق کو یہ لوگ خود پا سکتے تھے لیکن جو شور غوغا انکو درکار تھا وہ دونوں طرف سے دلائل سن کر ان کو کیسے میسر آسکتا تھا۔ نبی اعظم و اخر ﷺ ان سوالات سے کبیدہ خاطر ہو کر ایک روز منبر پر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ ” آج تم جس چیز کے متعلق مجھ سے دریافت کروگے وہ ہی تمہیں بتاؤں گا۔ اکثر و بیشتر صحابہ کرام ؓ کے سر جھکے ہوئے تھے اور زار و قطار رو رہے تھے اور کسی میں ہمت نہ تھی کہ کوئی بات کہہ سکے اس وقت ایک صحابی عبد اللہ بن حزافہ جس کی نسبت لوگ طرح طرح کی چہ مگوئیاں کرتے تھے اٹھے اور عرض کی ” من ابی یارسول اللہ “ یا رسول اللہ ﷺ میرا باپ کون ہے ؟ نبی کریم ﷺ کو فوراً اطلاع دی گئی اور آپ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ ” ابوک حذافۃ “ تیرا باپ حزافہ ہے۔ ان کی والدہ اپنے لڑکے کے اس سوال پر کانپ اٹھی اور کہنے لگی اے عبد اللہ ! تجھ سے زیادہ نافرمان بھی کسی کا بیٹا ہو سکتا ہے تو تو مجھے برسر مجلس رسوا کرنا چاہتا تھا۔ حج کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیا ہر سال حج فرض ہے۔ آپ (علیہ السلام) خاموش رہے انہوں نے اپنا سوال تین با ردہرایا تو نبی اعظم و آخر ﷺ کی زبان اقدس گویا ہوئی ، نہیں اور ساتھ ہی ان سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ اللہ کے بندے اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر کیا آفت پڑتی۔ مطلب آپ (علیہ السلام) کا یہ تھا کہ ایسے سوالات مفید ہونے کی بجائے تکلیف اور مشقت کا باعث بن سکتے ہیں اس لئے ایسے سوالوں سے باز رہو اور یہ ایک طریقہ ہے بات کو ذہن نشین کرانے کا ورنہ رسول اللہ ﷺ ہاں کو نہیں یا نہیں کو ہاں نہیں فرما سکتے تھے اور نہ ہی اس کا کوئی امکان تھا۔ انہی باتوں کے پیش نظر آپ (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے کچھ فرض مقرر کئے ہیں ان کو ضائع نہ کرو ، بعض چیزوں کو حرام کردیا ہے ان کی پر وہ داری نہ کرو اور بعض حدیں مقرر کردی ہیں ان کو مت توڑو اور بعض چیزوں کے متعلق دانستہ سکوت فرمایا ہے ان کے متعلق بحث نہ کرو۔ “ اس عالم الغیب نے وہ بات پہلے ہی فرما دی جس سے دھوکا ہونے کا خطرہ تھا : 235: بات چونکہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھنے کی تھی اس لئے بعض لوگوں کو یہ دھوکا ہو سکتا تھا کہ دیکھو رسول غیب جانتا تھا یا نہیں ؟ اس علام الغیوب نے پہلے ہی اس کا بندوبست فرما دیا اور ان سب کو ساتھ ہی حکم سنا دیا کہ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ” کہ تم ایسے سوالات پوچھو گے جب کہ ابھی قرآن کریم نازل ہو رہا ہے تو اس نزول میں تمہارے ان سوالوں کا جواب سنا دیا جائے گا کیونکہ رسول تویقینا غیب نہیں جانتا لیکن رسول اللہ کا رابطہ اس ذات سے قائم ہے جو دلوں تک کے رازوں کو جانتا ہے۔ “ اللہ نے تم کو معاف کردیا اور اس قسم کے جو سوالات تم نے کردیئے تھے اس سے درگزر فرمایا اور آئندہ محتاط رہنے کی تم کو ہدایت کی جاتی ہے اور یاد رکھو کہ ” اللہ بخشنے والا اور بہت ہی بردبار ہے۔ “ اس کی بردباری کا تقاضا یہی تھا کہ تم پر اس وقت گرفت نہ کرتی بلکہ تم کو متنبہ کیا جاتا سو اس نے ایسا ہی کیا۔
Top