Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 103
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآئِبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ١ۙ وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
مَا جَعَلَ : نہیں بنایا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ : بحیرہ وَّلَا : اور نہ سَآئِبَةٍ : سائبہ وَّلَا : اور نہ وَصِيْلَةٍ : وصیلہ وَّلَا حَامٍ : اور نہ حام وَّلٰكِنَّ : اور لیکن الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا يَفْتَرُوْنَ : وہ بہتان باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹے وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : نہیں رکھتے عقل
{ بحیرۃ ، (٭) سائبۃ ، وصیلۃ } اور { حام } میں سے کوئی چیز بھی اللہ نے نہیں ٹھہرائی ہے لیکن جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی وہ اللہ پر افتراء کرتے ہیں اور ان میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ سے محروم ہیں
” بحیرہ “ ” سائبہ “ ” وصیلہ “ اور ” حام “ کیا ہیں ؟ 237: زیر نظر آیت میں عربوں اور خصوصاً قریش کی بعض رسومات کا بیان ہے جو انہوں نے جانوروں یعنی چوپایوں کے متعلق بنا رکھی تھیں۔ چونکہ ان سب سے شرک کی بودباس آتی تھی اس لئے قرآن کریم نے ان کو ان رسومات سے باز رہنے کا حکم دیا ۔ لیکن وہ ان رسومات میں اس قدر گم ہوچکے تھے کہ انہوں نے یعنی ان کے علماء نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان باتوں کا حکم ہم کو اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے اور یہ ان کی جہالت کی کھلی دلیل تھی کہ جو چیزیں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد انہوں نے ایجاد کرلی تھیں ان کو خواہ مخواہ ان کے ناموں کے ساتھ منسوب کرتے تھے ۔ انہی میں سے یہ رسومات بھی تھیں جن پر وہ بطور حکم پابندی کے ساتھ عمل کرتے تھے ۔ ان کی اصل کیا ہے ؟ اس کی تفصیل اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ : ! ان کو کوئی اونٹنی ، بھیڑیا بکری یا پانچ دفعہ پے درپے مادہ بچہ جنتی تھی تو اس کے کان کاٹ کر چھوڑ دیتے تھے اور اس کو چھوڑنا لازم قرار دیتے تھے اور اس کا دودھ پینا اور گوشت کھانا ان کے لئے منع تھا اور ایسے آزاد کردہ جانور یعنی مادہ کو وہ ” بحیرہ “ کہتے تھے۔ " کسی کام کے ہوجانے پر اونٹوں کو بطور سانڈ کے چھوڑ دینے کی منت مانتے تھے اور جب وہ کام ہوجاتا تھا تو اونٹ کو بطور سانڈ چھوڑ دیتے تھے اور وہ جہاں چاہتا پھرا کرتا تھا اور ایسے اونٹ کو وہ ” سائبہ “ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ # جو اونٹنی مسلسل دس مادہ بچے دے چکتی تھی اور بکری سات مادہ بچے مسلسل پیدا کردیتی تو اس اونٹنی اور بکری کو اپنے بتوں کے نام سے آزاد کردیتے اور ایسے مادہ جانور کو ” وصیلہ “ کا نام دیا جاتا تھا۔ $ جو اونٹ کہ دس بچوں کا باپ ہوجاتا تھا وہ بھی اپنے بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا اس کو کوئی کچھ نہ کہہ سکتا تھا اور ایسے اونٹ کو وہ ” حام “ کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں زیر نظر آیت کی تفسیر میں سعید بن المسیب سے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ : ” قال البحیرۃ التی یمنع درھا للطوا غیت فلا یجلبھا احد من الناس “ یعنی ” بحیرہ “ وہ دودھ دینے والا جانور ہے جس کا دودھ بتوں کے نام پر روک لیا جائے اور کوئی اس کا دودھ نہ دو ہے۔ ” والسائبۃ کا نوا یسیبونھا لا لھتھم لا یحمل علیھا شئی “ یعنی ” سائبہ “ وہ جانور ہے جس کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور اس پر کوئی بوجھ نہ لادتا اور نہ سواری کرتا۔ ” والو صیلۃ الناقۃ البکر تب کرنیاول نناج الابل ثم نثنی بعد بانثی وکانوا یسیبونھا لطوا غیتھم ان وصلت احدھا بالا خری لیس بینھما ذکر “ اور ” وصیلہ “ وہ بن بیاہی اونٹنی ہے جو پہلے پہل اونٹنی جنے اور پھر دوسری بار بھی اونٹنی ہی جنے اور ان دونوں کے درمیان کوئی نر بچہ نہ جنے ایسی اونٹنی کو بھی وہ اپنے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے کیونکہ اس نے یکے بعد دیگرے دو مادہ جنیں اور ان کے درمیان کوئی نر نہ جنا۔ ” والحام فحل الابل یضرب الضراب المعدود فاذ اقضیٰ ضرابہ ووعدہ للطوا غیت واعفوہ من الحمل فلم یحمل علیہ شی وسموہ الحامی “ اور ” حام “ وہ نر اونٹ ہے جو مادہ پر شمار کی گئی جتیں کرتا اور ان کے شمار کے برابر جستیں کر چکتا اور اس کے نطفعہ سے ان کے شمار کے برابر بچے پیدا ہوجاتے تو اسی کو اپنے بتوں کے نام پر آزاد کردیتے ہیں اور اس پر نہ بوجھ لادتے اور نہ سواری کرتے اور اس کا نام ” مام “ رکھتے تھے۔ (بخاری جلد دوم کتاب التفسیر پارہ 18 تفسیر سورة المائدہ) فرمایا کسی چیز کو حلال یا حرام کرنے کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور وہ اپنے رسول کی زبان سے اس کا اعلان کرادیتا ہے ۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کرتا ہے تو وہ تشریع اور قانون سازی کا حق اپنے ہاتھ میں لے رہا ہے اور حقوق ربانی میں مداخلت کرنے کا مجرم بن رہا ہے ۔ اس آیت میں کفار کی ایسی مداخلت کا تفصیل سے ذکر فرمادیا کہ جن جانوروں کا گوشت اور دوھ اللہ تعالیٰ نے حلال کال۔ ان جانوروں سے خدمت لینے اور ان پر سواری کرنے اور بوجھ لادنے کی اجازت بخشی یہ لوگ اپنی من گھڑت تجویزوں سے اپنے اوپر حرام کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے حالانکہ یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔ جن جانوروں کو مشرکین اپنے اوپر مختلف طریقوں سے حرام کردیا کرتے تھے ان کا نام بنام ذکر اوپر کردیا گیا۔ ایسی باتوں کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنا جھوٹ کے سوا کیا ہو سکتا ہے ؟ : 238: اہل شرک اپنے عقائد اور دوسرے مسائل کی طرح رسوم کے متعلق بھی اللہ پر جھوٹ باندھ کر ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں اور یہ کام مشرکین کے خواص اور اکابرہی کرسکتے ہیں کیونکہ وہ بزعم خویش زمرہ علماء میں شامل ہوتے ہیں۔ فرمایا یہ رسوم تو ان کی من گھڑت ہیں لیکن نسبت ان کی اللہ تعالیٰ کی طرف کردیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہرگز ہرگز یہ حکم نہیں دیا بلکہ اس نے تو ان جانوروں کو پیدا ہی اس لئے فرمایا ہے کہ انسان ان کو کھائیں ، ان کا دودھ پئیں ، ان پر سوری کریں اور ان پر اپنا سامان وغیرہ لادیں۔ آج بھی ایسے لوگوں کی کوئی کمی موجود نہیں جو اپنی اختراعی رسومات کی پیروی کرنے میں اتنے سخت ہیں کہ ان رسومات کی نسبت اللہ تعالیٰ سے جوڑ دیتے ہیں لیکن وہ بتوں کی بجائے قبروں میں پڑے ہوئے بزرگوں کے نام کی منتیں مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ تو بتوں پر چڑھاوے چڑھاتے تھے اسلئے کافر تھے ہم تو اولیائے کرام اور انبیائے اسلام کو واسطہ ووسیلہ بناتے اور ان کی نذر و نیاز دیتے ہیں ۔ لیکن غور سے دیکھا جائے تو جن لوگوں کے انہوں نے بت تراشے وہ وہی تھے جن کو وہ اولیائے کرام اور اللہ کے نیک بندے سمجھتے تھے فرق یہ ہوا کہ انہوں نے بت بنائے تاکہ منت ماننے والے کے ساتھ کوئی دکھائی دینے والی چیز تو رہے اور آج کے مشرکوں نے بتوں کی بجائے اپنے بزرگوں کی قبروں کو سامنے رکھا تاکہ سامنے کوئی چیز تو نظر آتی رہے خواہ وہ مٹی کا ایک قبہ ہی ہو۔ منت چڑھاوا تو دونوں نے اپنے اپنے بزرگوں ہی کو دیا پھر دونوں میں فرق کیا ہوا ؟ آج بھی لوگ پیروں ، بزرگوں اور دلیوں کے نام سے درختوں ، جانوروں اور زمین کی پیداوار میں سے بیسواں اور اکیسواں حصہ کو بڑی باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ پیر کے نام کی بیری کو کاٹنا اور اس سے کسی قسم کا فائدہ حاصل کرنا جرم عظیم جانتے ہیں۔ بیلوں ، بکریوں ، چھتروں کو پیروں اور بزرگوں کے نام پر چھوڑتے ہیں اور ان کی خانفا ہوں پر بطور چڑھاوا چڑھاتے ہیں پھر ” بحیرہ “ ” سائبہ “ ” وصیلہ “ اور ” حام “ کی رسم ادا کرنے والوں کو کافر جانتے ہیں اور اپنے ان سارے کاموں کو اسلام کے اہم کام سمجھ کر نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ سے بھی زیادہ پابندی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے ؟ فرمایا اس لئے کہ ” ان میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ سے محروم ہیں۔ “ اور ان کو تہ عقلوں کے لیے نام نہاد علماء نے یہ نسخہ بھی تجویز کردیا ہے کہ دین کے معاملات میں عقل سے کام نہیں لیا جاتا۔
Top