Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 105
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ١ۚ لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے عَلَيْكُمْ : تم پر اَنْفُسَكُمْ : اپنی جانیں لَا يَضُرُّكُمْ : نہ نقصان پہنچائے گا مَّنْ : جو ضَلَّ : گمراہ ہوا اِذَا : جب اهْتَدَيْتُمْ : ہدایت پر ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا ہے جَمِيْعًا : سب فَيُنَبِّئُكُمْ : پھر وہ تمہیں جتلا دے گا بِمَا : جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اے مسلمانو ! تم پر فقط تمہاری جانوں کی ذمہ داری ہے ، اگر تم سیدھے راستے پر قائم ہو تو کسی کا گمراہ ہونا تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا ، تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے ، وہ بتا دے گا کہ تمہارے کام کیسے کچھ رہے ہیں
ایمان والو ! اپنے نفسوں کی نگرانی اپنے پر لازم کرلو اسی میں تمہاری خیر ہے : 241: مخالفین و معاندین اسلام کا کفر پر اصرار دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بہت کبیدہ خاطر ہوتے تھے۔ اگرچہ نیک فطرت لوگوں کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ دوسروں کا نقصان برداشت نہیں کرسکتے بلکہ وہ ان کے اپنے نقصان سے بھی ان کو زیادہ تکلیف وہ نظر آتا ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی اور کہا کہ تم اپنی اصلاح اور سلامت روی کے ذمہ دار ہو۔ اگر تم راہ راست پر ثابت قدم رہے تو کسی دوسرے کی گمراہی تمہیں ضرر نہیں پہنچائے گی ۔ ہر شخص اپنے اعمال کی جزاء و سزاء خود بھگتے گا۔ مقدم فکر اپنی ہے اپنے مطالبات دین ادا کئے جاؤ ۔ تم پر دوسروں کی ذمہ داری نہیں ۔ تم سے پرسش تمہارے ہی اعمال کی ہوگی اور آج کل کے حالات میں یہ حکم خداوندی ان لوگوں کے رد میں ہے جو انفرادیت کو اجماعیت میں گم کردینا چاہتے ہیں اور اجتماع کی خرابی کے باعث اپنی خرانی کی اصلاح نہیں کرنا چاہتے۔ مقصود اس آیت کا دوسروں کی اصلاح کے کام سے روکنا نہیں صرف اس کے مبالغہ آمیز تخیل میں اعتدال پیدا کرنا ہے ، یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کو اچھی بری بات نہ بتاٖ بلکہ یہ ہے کہ دوسروں کی عیب چینی اور کھوج میں نہ پڑے ہو ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تو بجائے خود ایک انفرادی بلکہ اجتماع فریضہ ہے اس کا سقوط مقصود نہیں۔ ہاں ! انسان جب یہ دیکھ لے کہ وعظ و پند مطلق کا رگر نہیں ہوتا بلکہ الٹا اس پر استہزاء اور مذاق ہوتا ہے تو ایسے موقع پر چاہئے کہ سکوت سے کام لے اور اپنے ذاتی اعمال کی فکر اپنے پر لازم رکھے۔ اس لئے کہ ہم سب انسانوں کو ” انجام کار اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے وہ یقینا بتا دے گا کہ تمہارے کام کیسے کچھ رہے ہیں ۔ “ حداعتدال سے تجاوز کسی صورت بھی اچھے نتائج نہیں رکھتا۔ نماز قائم کرنا اور روزہ رکھنا فرائض میں سے ہے لیکن جب کوئی شخص مسلسل روزے رکھے اور ساری ساری رات قیام میں رہے اس کو اعتدال پر لانے کے لئے ضرور کہا جائے گا کہ تمہارا یہ کام صحیح نہیں اب اس کا کوئی یہ مطلب لے لے کہ نماز سے روکا گیا ہے کہ اس کو مت پڑھو ، روزہ سے منع کیا گیا ہے کہ روزہ مت رکھو تو یہ حد سے تجاوز ہوگا۔ یہی صورت اس جگہ بیان کی گئی ہے ورنہ برائی سے خود رکنا اور دوسروں کو روکنا تو ضروریات دین میں سے ہے بلکہ ان لوگوں کے لئے وعید آئی ہے جو خود تو برائی سے رک جائیں لیکن دوسروں کو برائی کرتے دیکھ کر ٹس سے مس نہ ہو۔ حضرت صدیق اکبر ؓ نے اس غلط فہمی کا اس وقت ہی ازالہ فرمادیا تھا جب کہ آپ ایک روز خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو حمد و ثنا کے بعد فرمایا تم یہ آیت : ” عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ 1ۚ....“ پڑھتے ہو یا د رکھو کہ اس کا غلط مفہوم اپنے ذہن میں مت رکھو میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ ” لوگ جس وقت برائی کو دیکھیں اور پھر اس کو درست کرنے کی کوشش نہ کریں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب کی گرفت میں لیلے۔ “
Top