Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 108
ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِالشَّهَادَةِ عَلٰى وَجْهِهَاۤ اَوْ یَخَافُوْۤا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌۢ بَعْدَ اَیْمَانِهِمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓي : زیادہ قریب اَنْ : کہ يَّاْتُوْا : وہ لائیں (ادا کریں) بِالشَّهَادَةِ : گواہی عَلٰي : پر وَجْهِهَآ : اس کا رخ (صحیح طریقہ) اَوْ : یا يَخَافُوْٓا : وہ ڈریں اَنْ تُرَدَّ : کہ رد کردی جائے گی اَيْمَانٌ : قسم بَعْدَ : بعد اَيْمَانِهِمْ : ان کی قسم وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : نہیں ہدایت دیتا الْقَوْمَ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان (جمع
اس طرح کی قسم سے زیادہ امید کی جاسکتی ہے کہ گواہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے یا اس بات کا انہیں اندیشہ رہے گا کہ ہماری قسمیں فریق ثانی کی قسموں کے بعد رد نہ کردی جائیں ، اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کا حکم سنو اور اللہ ظلم کرنے والوں پر راہ نہیں کھولتا
اس طرح قسم پر قسم لینے کے قانون کا قانونی فائدہ کیا ہوا ؟ : 247: حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ برائی کو بیخ وبن سے اکھاڑ کر دور پھینک دیا جائے اس طرح کہ وہ دوبارہ جنم نہ لے سکے۔ وہ کفر کے قانون کی طرح برائی کی آبیاری نہیں کرتا کہ برائی اندر ہی اندر پھیلتی رہے اور پھر اس اندر ہی اندر رہ کر پھیلنے والی برائی کو کوئی برائی بھی نہ کہہ سکے۔ یہی کام اس نے یہاں بھی کیا۔ فرمایا اس قانون کے اعلان کا فائدہ یہ ہوا کہ پہلے گواہ جن کو ورثاء نے پابند کیا تھا وہ دل میں اس بات کا کھٹکا محسوس کرتے رہیں کہ اگر انہوں نے کسی لالچ یا دغا و فریب سے کام لے کر غلط قسم اٹھالی تو ان کی غلط قسم اٹھائی ہوئی کو دلیل کے ساتھ رد کیا جاسکتا ہے اور وہ اس ڈر اور خوف کی وجہ سے پہلے ہی محتاط رہیں گے اور اس طرح وہ نفس کے دھوکہ میں نہیں آئیں گے اور یہی غرض قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے فرمایا ” اس طرح کی قسم سے زیادہ امید کی جاسکتی ہے کہ گواہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے یا اس بات کا انہیں اندیشہ رہے گا کہ ہماری قسمیں فریق ثانی کی قسموں کے بعد رد نہ کردی جائیں۔ “ اسلئے اس طرح کی قسم پر قسم لینے کا قانون گواہی دینے والوں کے لئے مفید رہے گا اور یہ حقیقت بعد میں معرض وجود میں آنے والے وقعات سے زیادہ کھل کر سامنے آجاتی ہے جو خود نبی اعظم و آخر ﷺ کے وقت پر پیش آئے اور آج بھی اس کے فائدہ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کیونکہ آج کل جو ایک قسم دوسرے سے لی جاتی ہے اس کا بھی یہی فائدہ ہے اور اس قسم کے لئے یہی وجہ جواز ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بگوش ہوش سننے کی تاکید تاکہ عمل میں آسانی ہو : 248: اس جگہ اس تیسری آیت کا اختتام ہے جن تین آیتوں میں مرنے والوں کی وصیت اور وصیوں اور وارثوں کے اختلاف اور پھر اس اختلاف کے ختم کرانے کی صورتوں پر بحث تھی۔ اس لئے اس طرح کے ایک واقعہ کا ذکر کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جو ان آیات کے شان نزول کے طور پر بیان کیا جاتا ہے یا جس طرح کے واقعات کا فیصلہ ان آیات میں بیان ہوا ہے واقعہ یہ ہے کہ ” بدیل نامی ایک مسلمان دو عیسائیوں تمیم اور عدی کے ہمراہ ملک شام میں تجارت کی غرض سے ملک شام میں گئے۔ جب بدیل شام پہنچے تو اچانک بیمار ہوگئے اور انہوں نے اپنے سامان کی فہرست لکھ کر سامان میں رکھ دی اور اپنے ساتھیوں کو اس کی اطلاع نہ دی ۔ جب ان کی حالت نازک ہوگئی تو انہوں نے اپنے دونوں ساتھیوں کو بلا کر وصیت کی کہ میرا سامان میرے گھر پہنچا دینا۔ چناچہ ان کا انتقال ہوگیا توتمیم اور عدی نے ان کا سامان سنبھالا۔ اس میں ایک چاندی کا پاتلہ تھا جس پر سنہری نقش ونگار تھے۔ وہ ان کو پسند آگیا اس لئے انہوں نے اس کو نکال لیا۔ مدینہ واپس پہنچ کر انہوں نے بدیل کا سامان ان کے گھر پہنچا دیا۔ گھر والوں کو سامان کی وہ فہرست مل گئی۔ جب سامان کو اس فہرست کے مطابق کیا گیا تو اس میں پیالہ موجود ہی نہ پایا۔ ان دونوں سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بیخبر ی کا اظہار کیا ۔ چناچہ یہ واقعہ نبی اعظم و اخر ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے نماز عصر کے بعد ان دونوں کو بلایا اور ان سے قسم لی۔ اس جگہ بھی انہوں نے قسم اٹھالی اس طرح اس وقت گویا اس کا فیصلہ ہوگیا لیکن اتفاق دیکھئے کہ کچھ عرصہ بعد وہ پیالہ ایک سنار کے پاس پایا گیا۔ اس سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ پیالہ اس کو تمیم اور عدی نے ایک ہزار درہم کے بدلہ فروخت کیا۔ اس طرح یہ مقدمہ دوبارہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپ نے تمیم وعدی سے پوچھا تو انہوں نے اپنی غلطی کو تسلیم نہ کیا اور اس پیالہ کی لاعلمی کا اظہار کیا۔ آپ (علیہ السلام) نے اس وقت بدیل کے ورثاء سے قسم لی کہ یہ پیالہ بدیل کا ہے اس نے فروخت نہیں کیا بلکہ عدی اور تمیم نے خیانت کی چناچہ ان دونوں کے خلاف فیصلہ صادر ہوا اور ان سے ہزار درہم لے کر بدیل کے وارثوں کو دیا گیا۔ “ یہ واقعہ کا اختصار ہے اصل حائق وہی تھے جو اس وقت فریقین کے درمیان اور خود نبی کریم ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے اور جن واقعات کی بناء پر آپ (علیہ السلام) نے یہ فیصلہ دیا ۔ گزشتہ واقعات صرف موضوع کی تفہیم کے لئے بیان کئے جاتے ہیں ان میں میخ میم نکالنا درست نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ واقعات مشاہدہ کے نہیں ہوتے یہ ایک اصولی بات ہے جو کسی واقعہ کو ذکر کرنے یا اس کو مطالعہ کرنے کے وقت واعظین ، سامعین اور قارئین کے ذہن نشین ہونی چاہئے تاکہ وہ جرح و قدح میں وقت ضائع نہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ذہن میں رکھیں کہ بعد میں دونوں وصی یعنی تمیم اور عدی مسلمان ہوگئے ان سے جو گناہ سرزد ہو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی برکت سے وہ معاف کردیا اور کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ معافی ہو چکنے کے بعد ایسے واقعات سے دل میں کسی طرح کی کوئی کدورت رکھے اور گناہ سرزد ہونے کے بعد معافی طلب کرنے والا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے گناہ نہ کرنے والا بلکہ بعض اوقات معافی طلب کرلینے والا گناہ نہ کرنے والے سے بھی بازی لے جاتا ہے۔ فاسق کون ہے ؟ وہی جو گناہ کرنے کے بعد معافی طلب نہیں کرتا یا جو معافی طلب کرلینے والے کو حقارت کی نگاہ سے دے دیکھتا ہے۔
Top