Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 109
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
يَوْمَ : دن يَجْمَعُ : جمع کرے گا اللّٰهُ : اللہ الرُّسُلَ : رسول (جمع) فَيَقُوْلُ : پھر کہے گا مَاذَآ : کیا اُجِبْتُمْ : تمہیں جواب ملا قَالُوْا : وہ کہیں گے لَا عِلْمَ : نہیں خبر لَنَا : ہمیں اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو عَلَّامُ : جاننے والا الْغُيُوْبِ : چھپی باتیں
وہ دن کہ اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا اور پھر پوچھے گا تمہیں کیا جواب ملا ؟ وہ کہیں گے ہمیں تو کچھ علم نہیں ، یہ تو تیری ہی ہستی ہے جو غیب کی باتیں جاننے والی ہے
قیامت کے روز انبیائے کرام سے سوال کہ تمہاری قوموں نے تم کو کیا جواب دیا ؟ : 249: ایسے مکالمہ کا اصل مطلب ان نافرمانوں کو متوجہ کرنا اور ان کو اپنے کئے کا نتیجہ بتانا ہوتا ہے جس طرح اس جگہ مکالمہ ہوا۔ جس بات کا علم ہو اس کے متعلق سوال کرنا بھی بہت معنی خیز ہوتا ہے۔ جس کے متعلق سوال ہو اس کے سامنے دوسرے سے سوال کرنا بھی اپنے اندر ایک خاص مفہوم رکھتا ہے ۔ اب غور کرو اس جگہ قیامت کے روز انبیائے کرام سے سوال کیا جا رہا ہے اور سوال کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اور جن کے متعلق سوال ہے وہ بھی موجود ہیں یعنی انبیائے کرام کی امتیں اس سارے مجمع سے جب سوال انبیاء کرام سے ہوگا تو پوری مخلوق دیکھ لے گی کہ آج کے دن کوئی حساب اور سوال و جواب سے مستثنیٰ نہیں۔ پھر رسولوں سے جو سوال کیا جائے گا وہ ہے ” ماذا اجبتم “ یعنی جب تم لوگوں نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے دین حق کی طرف بلایاتو ان لوگوں نے آپ کو کیا جواب دیا تھا ؟ کیا انہوں نے آپ کو بتلائے ہوئے احکام پر عمل کیا ؟ یا انکار ومخالفت کی ؟ معلوم ہوا کہ مخاطب اگرچہ انبیاء کرام (علیہ السلام) ہوں گے لیکن دراصل سنانا ان کے امتیوں کو مقصود ہوگا تاکہ انہوں نے جو نیک و بد کیا اس پر سب سے پہلی شہارت ان کے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی ہوجائے ۔ یہ وقت اس طرح اس طرح امتیوں پر بہت نازک ہوجائے گا کیونکہ وہ تو اس ہوش و حواس اڑادینے والے وقت میں انبیائے کرام سے شفاعت کے متوقع ہوں گے اور جب انبیائے کرام ہی سے ان کے متعلق یہ سوال ہوگیا تو ان پر کیا گزرے گی ؟ خصوصاً ان لوگوں کا حال کیا ہوا گا جو مجرم اور گنہگارہوں گے جس کا سفارشی ہی اس پر گواہ بنا دیا جائے اور پھر شہادتی بھی ایسا جو کبھی غلط شہادت نہ دے سکے اس سفارش کرنے والے کا جو ہوتا ہے وہی اس وقت ان کا ہوگا۔ اب انبیائے کرام جو اس کا جواب دیں گے وہ بھی سن لو فرمایا وہ کہیں گے ” لا علم لنا ان انت علام الغیوب “ ہمیں ان کے ایمان و عمل کا کوئی علم نہیں آپ خود ہی توغیب کی ساری باتوں کو جاننے والے ہیں۔ ظاہر ہے کہ رسول کی امت کے وہ لوگ جو ان کے وفات کے بعد پیدا ہوئے ان کے بارے میں توانبیائے کرام (علیہ السلام) کا یہ جواب بالکل صحیح اور صاف ہے کہ ان کے ایمان وعمل سے وہ باخبر ہی نہیں کیونکہ غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے لیکن ایک بہت بڑی تعداد امت میں ان لوگوں کی بھی تو ہے جو خود انبیائے کرام کی دعوتوں کو قبول کرنے والے تھے اور انکی بھی کچھ کمی نہیں ہوگی جو پیش پیش تھے اور براہ راست انبیائے کرام کی دعوتوں کو جھٹلا چکے تھے ان کے متعلق یہ کہنا کیسے صحیح ہوگا کہ ہمیں ان کے ایمان و عمل کا علم نہیں ؟ امام رازی ؓ نے اسکا جواب خوب دے دیا کہ ” علم “ کے معنی یقین کامل کے بھی ہیں اور ” ظن “ اور ” غلبہ گمان “ کے بھی اور ظاہر ہے کہ علم الٰہی کے سامنے ایک انسان کا علم ” ظن “ اور ” غلبہ گمان “ ہی کا رکھتا ہے کیونکہ کسی انسان کو دوسرے انسان کے متعلق جو علم ہوتا ہے وہ ” ظن “ اور ” غلبہ گمان “ کا درجہ رکھتا ہے اس لئے دلوں کے راز اور حقیقی ایمان جس کا تعلق دل سے ہے وہ تو یقینی طور پر بغیر وحی کے کیٰ انسان کو نہیں ہو سکتا اور انبیائے کرام کو بھی ہر انسان کے اعمال و ایمان کے متعلق تو وحی نہیں ہوئی اس لئے ان کا علم بھی اپنے امتیوں کے متعلق ” ظن “ اور ” غلبہ گمان “ ہی کے درجہ میں رہا جیسا کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کا فرمان ہے کہ : ” نحن نحکم بالظواھر واللہ متولی السرائر “ یعنی ہم تو ظاہر اعمال پر حکم جاری کرتے ہیں دلوں کے مخفی رازوں کا متولی خود اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ اس ضابطہ کے مطابق دنیا کے سارے کام تو چونکہ ظاہری اعمال پر حکم دینے سے چلتے رہے لیکن اب معاملہ آخرت کا ہے جس کو مدار ” ظن “ اور ” غلبہ گمان “ پر نہیں یہ تو وہ وقت ہے کہ ہر ایک کا معاملہ بالکل آشکارا کردیا جائے گا اور ذرہ ذرہ کا معاملہ کھل کر سامنے آجائے گا اور اس عالم کا کوئی حکم محض ظن وتخمین پر نہیں چلے گا بلکہ علم ویقین پر ہرچیز کا مدار ہوگا اس لئے کتنا واضح اور صحیح جواب ہے جو انبیائے کرام دیں گے کیونکہ یہ سوال دنیا کی زندگی میں نہیں ہو رہا بلکہ قیامت کے روز ہوگا اس لئے ان کا یہ جواب قیامت کے روز کی نسبت بالکل صحیح اور درست ہے ۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ سفارش کا حق بھی محفوظ رہا جس کی انبیائے کرام کو اجازت دی گئی ہے ۔ اس طرح امتیوں پر نظر شفقت اور خالق و مخلوق کے فرق کے لحاظ سے مخلوق نے خالق کا ادب و تعظیم کا حق بھی ادا کردیا کہ سوال کرنے والا خالق اور جن سے سوال کیا گیا ہے وہ انبیائے کرام سارے کے سارے مخلوق ہی تھے۔ انبیاء کرام کی صف میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ہوں گے جن کو ان کے ماننے والوں نے افراط سے کام لیتے ہوئے ” اللہ “ ” اللہ کا بیٹا “ اور ” اللہ کا تیسرا جز “ تسلیم کیا اور ان کی وہ امت اجابت بھی وہاں موجود ہوگی اس سارے انبیائے کرام میں سے ان کے معاملہ کی وضاحت فرمادی اور ان کی ” بےبسی وبے چارگی “ کا سارا حال ان کی امت کے سامنے کھول کردیا جس نے ان کو ” الہ “ اور معبود “ بنا رکھا تھا جس کا ذکر آگے آرہا ہے ۔ وہی عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخالفین و معاندین امت یہود بھی ہوگی جس نے آپ کو صحیح النسب انسان تسلیم کرنے سے بھی گریز کیا۔ آپ سے سوال کا سلسلہ مزید بڑھا کر ان کو بھی بتادیا گیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ویسے ہی رسول تھے جیسے موسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے رسول تمہارے پاس آئے۔
Top