Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 113
قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا وَ تَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَكُوْنَ عَلَیْهَا مِنَ الشّٰهِدِیْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا نُرِيْدُ : ہم چاہتے ہیں اَنْ : کہ نَّاْكُلَ : ہم کھائیں مِنْهَا : اس سے وَتَطْمَئِنَّ : اور مطمئن ہوں قُلُوْبُنَا : ہمارے دل وَنَعْلَمَ : اور ہم جان لیں اَنْ : کہ قَدْ صَدَقْتَنَا : تم نے ہم سے سچ کہا وَنَكُوْنَ : اور ہم رہیں عَلَيْهَا : اس پر مِنَ : سے الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل آرام پائیں اور ہم جان لیں کہ تو نے جو کچھ بتلایا وہ سچ تھا اور اس پر ہم گواہ ہو جائیں
انہوں نے کہا ہم نے راحت و آرام اور تیری باتوں کی تصدیق کے لئے یہ عرض کیا ہے : 260: ” انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل آرام پائیں۔ ” مطلب بالکل صاف ہے کہ حواریوں نے جب دیکھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہمارے سوال سے رنجیدہ خاطر ہوئے ہیں کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے سوال کے جواب میں فرمایا تھا ” اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ “ تو انہوں نے اپنے سوال کی وجہ بتانی شروع کردی کہ اس سوال سے ہماری منشاء کیا ہے ؟ ہم چاہتے ہیں یعنی ہمارا شوق ہے کہ ہم اس میں سے کچھ کھائیں اس دیکھ کر اور کھا کر ہمارے دل مطمئن ہوں۔ اس طرح آپ کی صداقت کی ایک قوی دلیل ہم کو مل جائے اور اس آنکھوں سے دیکھی بات کو دوسروں تک پہنچائیں تاکہ وہ بھی ایمان لائیں۔ حواریوں کے اس بیان سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے مہد و کہل میں باتیں کرنے ، پرندوں کو پھونک لگا کر زندہ کرنے ، اندھوں اور کوڑھیوں کو درست کرنے اور مردوں کو زندہ کرنے کا مفہوم یہ لوگ بھی وہ نہ سمجھتے تھے جو ہمارے علمائے کرام کی اکثریت نے سمجھا بلکہ وہ ان سب باتوں کو تمیثلات و استعارات ہی سمجھتے تھے ورنہ ان میں سے ہر کام ” نزول مائدہ “ سے ہزار بار زیادہ وزنی تھا جس کا انہوں نے مطالبہ کیا تھا۔ ایک شخص چار من وزن اٹھا کر دکھا دے اور سب لوگوں کے سامنے اٹھائے تو کیا اس سے کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ صاحب کیا آپ ایک من وزن اٹھا سکتے ہیں ؟ تاہم اگر کوئی یہ مطالبہ کر ہی دے تو لوگ اس کو کیا کہیں گے اور جس سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ اسے کیا سمجھے گا ؟ آج بھی جب آپ کسی سے یہ بات کہیں گے تو آپ کو فوراً جواب ملے گا اجی یہ سارے کام عیسیٰ (علیہ السلام) خود نہیں کرتے تھے بلکہ ” باذن اللہ “ کرتے تھے ۔ تو حواریوں کے سوال میں بھی عیسیٰ (علیہ السلام) سے براہ راست ” نزول مائدہ “ کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کا سوال بھی یہی تھا کہ ” کیا تمہارا رب ایسا کرسکتا ہے۔ “ اور یہ بات بھی اپنی جگہ حق ہے کہ اللہ کے اذن کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اس کی تفصیل دیکھنا ہو تو عروۃ الوثقیٰ جلد دوم تفسیر آل عمران آیت 49 ص 204 سے ملاحظہ کریں۔
Top