Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 114
قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَ١ۚ وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ
قَالَ : کہا عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم اللّٰهُمَّ : اے اللہ رَبَّنَآ : ہمارے رب اَنْزِلْ : اتار عَلَيْنَا : ہم پر مَآئِدَةً : خوان مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان تَكُوْنُ : ہو لَنَا : ہمارے لیے عِيْدًا : عید لِّاَوَّلِنَا : ہمارے پہلوں کے لیے وَاٰخِرِنَا : اور ہمارے پچھلے وَاٰيَةً : اور نشان مِّنْكَ : تجھ سے وَارْزُقْنَا : اور ہمیں روزی دے وَاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الرّٰزِقِيْنَ : روزی دینے والا
اس پر مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک خوان بھیج دے کہ اس کا آنا ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو ، ہمیں روزی دے تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے
نزول مائدہ کے متعلق عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا بارگاہ قاضی الحاجات : 261: سمجھ لینا چاہئے کہ ” مائدہ “ اصل میں چیز کیا ہے ؟ مائدہ اس خوان کو کہتے ہیں جس پر کھانے رکھے جاتے ہیں اور اس کھانے کو بھی جو دستر خوان پر رکھا گیا ہو۔ (راغب) اس جگہ (مائدہ) سے مراد وہ کھانا ہی لیا گیا ہے جو کھانے کے لیے دستر خوان پر رکھا گیا ہو۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں کے سوال پر پہلے تو ان کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تنبیہہ فرمائی لیکن جب انہوں نے اپنی بھوک کو مٹانے کے لئے اور اطمینان قلب کا ذریعہ بننے کا ذکر کیا اور نبوت کی صداقت کے طور پر ” نشان نبوت ‘ ‘ بھی کہا اور دوسروں کے لئے راہ ہدایت کی طرف دعوت دینے کا طریقہ بھی بتایا تو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ خداوندی میں التجا عرض کردیا کہ ” اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک خوان بھیج دے کہ اس کا آنا ہمارے لئے اور ہمارے پہلوں اور پچھلوں کے لئے عید قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو۔ “ مطلب یہ تھا کہ جو اس مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے ایمان لا چکے اور جو بعد میں ایمان لائیں گے یہ سب کے لئے فرحت و شادمانی کا موجب ہوگا۔ ” عید “ کا لفظ ” عود “ سے ہے جس کے معنی دوبارہ لوٹ کر آنے کے ہیں یعنی یہ دن ہماری اس خوشی کے دن کی یاد تازہ کرتا رہے گا اور بطور ” نشان نبوت “ قرار پائے گا۔ انبیائے کرام نے ہمیشہ قوم کی راہنمائی کے لئے آسان سے آسان اختیار کیا تاکہ ہدایت کی بات اس کے دلوں میں بیٹھ جائے ہر انسان اپنی عقل و فکر کے مطابق بات کرتا ہے اور پھر جب تک اس کی عقل کے مطابق اس کو جواب نہ دیا جائے اس کے لئے قابل قبول نہیں ہوتا اور بغیر دلیل کے زور سے منوائی ہوئی بات کبھی دل کی گہرائیوں میں نہیں اترتی اسلئے اللہ تعالیٰ نے بھی جبرو اکراہ سے منوانے کو منع فرمایا ہے۔ دیکھوموسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے مطالبہ کیا تھا کہ ” ارنا اللہ جھرۃ “ ہم اللہ کو ظاہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) پہلے ہی اس بات کا مشاہدہ کرچکے ہیں کہ ” اللہ جہر دیکھنے کی چیز نہیں اور نہ ہی وہ دیکھا جاسکتا ہے۔ “ لیکن اس کے باوجود ان کو مقام مشاہدہ تک لے جاتے ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ اللہ کو وہ دیکھ تو نہیں سکتے لیکن جب تک ان کی عقل و فکر میں یہ بات نہ بیٹھے گی اور وہ براہ راست معلوم نہ کرلیں گے کہ اللہ نہیں دیکھا جاسکتا اس وقت تک یہ لوگ ماننے والے نہیں اور جب ان کو ایک خاص مقام تک لے جاتا گیا اور وہاں ان پر ” صاعقہ “ اور ” رجفہ “ کی پکڑ آئی تو فوراً رام ہوگئے تفصیل کے لئے دیکھو عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة البقرہ آیت 5 عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة النساء آیت 153 مزید بیان اس کا سورة الاعراف آیت 155 میں آئے گا۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ ! یہ روزی طلب کرتے ہیں ” ہمیں روزی دے تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے ۔ “ یہ روزی جس کی طلب کی جا رہی ہے وہی خوان ہے جس کے لئے حواریوں نے درخواست کی تھی اور ان کی درخواست عیسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ قاضی الحاجات عرض کردی تاکہ جو جواب وہاں سے آئے وہ قوم کے ان درخواست گزاروں تک پہنچا دیا جائے۔ زیر نظر آیت میں ” عید “ کا لفظ آیا اور چونکہ عید مطلق خوشی اور سرور کے دن کو کہتے ہیں اس لئے بات سے بات نکالنے والوں نے اس مقام سے ” عید میلادالنبی “ کو قرآن کریم سے اخذ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے چناچہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رقم طراز ہیں کہ ” اس سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں منانا ، عبادتیں کرنا ، شکر الٰہی بجالانا طریقہ صالحین ہے اور کچھ شک نہیں کہ سیدعالم ﷺ کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لئے حضور ﷺ کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الٰہی بجا لانا اور اظہار فرح و سرور کرنا مستحسن ومحمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔ “ (تفسیر خزائن العرفان ص 184) بات اس جگہ دراصل روٹی مانگنے کی تھی اور وہ بھی اس طرح کہ بغیر ہاتھ پیر ہلائے اور محنت کئے ملنے کی خواہش اس لئے جناب مراد آبادی صاحب کے منہ میں پانی آگیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کو ” مائدہ “ ملایا نہیں کیونکہ ” نزول مائدہ “ کا سوال اللہ تعالیٰ سے تھا ۔ ہم اپنی روحانی ” قوم کے لئے مائدہ “ کی ایک شکل تشکیل کرلیتے ہیں اس لئے انہوں نے ” پکی پکائی “ کھانے کا ایک حیلہ نکال لیا اور ان کو یہ بات یاد نہ رہی کہ نبی اعظم وآخر ﷺ کا اپنا ارشاد گرامی یہ ہے کہ ” ہم مسلمانوں کے لئے صرف دو عیدیں ہیں ایک عید الفطر اور دوسری عدح الضحیٰ “ اور اس طرح ایک تیسری عید ایجاد کر کے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی جان بوجھ کر مخالفت کردی۔ ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کا جواب ان کو سناتے ہیں جو اس جگہ خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ ” اللہ ان کنتم مؤمنین “ اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ (مائدہ 5 : 112) پیٹ کیا ہے ؟ ایک اللہ تعالیٰ کی آزمائش ہے جو ہر انسان کے ساتھ لگا دی گئی ہے ۔ اس میں کچھ نہ کچھ ڈالنے کے لئے ہر انسان مجبور محض ہے خواہ وہ کوئی ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے اسکو بھرنے کے لئے کائنات ارضی میں وافر سامان پیدا فرما کر کسی کو حلال اور کسی کو حرام قرار دے دیا اور انسان کو حلال وطیب کھانے کی ہدایت کی اور حرام و خبیث کے کھانے سے منع فرمایا پھر انبیائے کرام کو بھیج کر اس حلال و حرام ، طیب اور خبیث کی اچھی طرح نشاندہی کردی اور سارے انبیائے کرام نے ہاتھ سے محنت و مشقت کر کے اس حلال و طیب کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی سکھا دیا لیکن نہ معلوم کچھ لوگوں کو یہ طریقہ کیوں پسند نہیں آتا اور وہ بغیر محنت و مشقت کئے ” پکی پکائی “ کھانے کا شوق رکھتے ہیں اور جانوروں کی طرح وہ ان کو جہاں سے ملے اور جیسا ملے کھا جاتے ہیں اور اس کا شوق رکھتے ہیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے تو کم از کم پھر بھی اللہ سے طلب کرنے کی خواہش کی تھی اور یہ لوگ انسانوں سے طلب کرنے اور ان سے مانگنے کے حیلے بہانے تراشتے ہیں اور محنت و مشقت سے کما کر کھانا حرام سمجھتے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
Top