Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 115
قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مُنَزِّلُهَا عَلَیْكُمْ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّیْۤ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُهٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ اِنِّىْ : بیشک میں مُنَزِّلُهَا : وہ اتاروں گا عَلَيْكُمْ : تم پر فَمَنْ : پھر جو يَّكْفُرْ : ناشکری کریگا بَعْدُ : بعد مِنْكُمْ : تم سے فَاِنِّىْٓ : تو میں اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا : اسے عذاب دوں گا ایسا عذاب لَّآ : نہ اُعَذِّبُهٗٓ : عذاب دوں گا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اللہ نے فرمایا میں تمہارے لیے خوان بھیجوں گا لیکن جو شخص اس کے بعد بھی انکار کرے گا تو میں اسے عذاب دوں گا ایسا عذاب کہ تمام دنیا میں کسی آدمی کو بھی ویسا عذاب نہیں دیا ہو گا
عیسیٰ (علیہ السلام) کی ” نزول مائدہ “ کی دعا کا جواب خداوندی : 262: اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کا جواب کیا دیا ؟ جواب یہ دیا گیا کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) مریم کے بیٹے تیرے حواریوں نے خوان کو بطور ” نشان نبوت “ طلب کیا اور ہم اس خوان کو بطور ” نشان نبوت “ یعنی ان کے طلب کے مطابق بھیج دیں گے ” لیکن جو شخص اس کے بعد بھی انکار کرے گا تو میں اسے عذاب دوں گا ایسا عذاب کہ تمام دنیا میں کسی آدمی کو بھی ویسا عذاب نہیں دیا گیا ہوگا۔ “ کیونکہ خوان تو ہم نے بچھا ہی دیا ہے اور اس کی طلب کا طریقہ بھی ان کی فطرت میں رکھ دیا ہے لیکن جب وہ خوان حاصل کرنے کی غیر فطری خواہش رکھتے ہیں تو ہمارے پاس ایسی غیر فطری خواہشیں رکھنے والوں کے لئے بھی ایک قانون مقرر ہے اور وہ یہ ہے کہ ( نشان نبوت) دینے کے بعد نافرمانی کے مرتکبین کو وہ عذاب دیتے ہیں جو ایسے لوگوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو نہیں دیا جاتا جو انجام کار نشان طلب کرنے والوں کی ہلاکت کا باعث ہوتا ہے اور اس پر تمام انبیائے کرام کے واقعات بطور دلیل موجود ہیں جو اے عیسیٰ (علیہ السلام) آپ سے پہلے گزر چکے۔ مائدہ آسمان سے نازل ہوا تھا یا نہیں ؟ اس کے متعلق قرآن کریم میں کچھ ذکر نہیں اور مفسرین حضرات کا اختلاف موجود ہے اکثریت مائدہ کے نزول کو تسلیم کرتی ہے لیکن صاحب کبیر اور صاحب کشاف نے بہت سے لوگوں کا ذکر کیا ہے کہ وہ ” نزول مائدہ “ یعنی مائدہ اتارے جانے کو تسلیم نہیں کرتے اس لئے کہ جب حواریوں نے عذاب کی شرط سنی تو وہ ڈر گئے اور مان گئے کہ ہم ایسا خوان طلب نہیں کرتے جو ہماری ہلاکت کا باعث بھی ہو سکتا ہے چناچہ کشاف میں لکھا ہے کہ حضرت حسن بصری ؓ نے کہا : ” واللہ مانزلت “۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ” مائدہ “ نازل ہوا پھر انہوں نے اس کے کھانے بھی گنوائے کہ اس میں کیا کیا تھا ؟ نزول کی مدت بھی بتائی کہ کب تک وہ اڑتا رہا ؟ لیکن اس مائدہ میں کچھ لوگوں نے خیانت کی۔ وہ خیانت کیا تھی ؟ جواب دیا گیا کہ ان کو منع کیا گیا تھا کہ کل کے لئے نہ رکھنا لیکن انہوں نے اس ممانعت کے باوجود کل کے لئے محفوظ کرلیا اور پھر وہ لوگ جنہوں نے اس کو محفوظ کیا تھا بندر اور سور بنا دیئے گئے اور پھر تین دن تک انہی شکلوں میں ادھر ادھر دھکے کھانے کے بعد مر گئے۔ لیکن یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن کو من گھڑت قصوں کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ ساری بےسروپا ہیں۔ جب آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ اس طرح کی ساری کہانیاں من گھڑت اور بےسروپا ہیں تو ان میں سے ایک کو سن لو اور خود فیصلہ کرو کہ اس میں سچائی کہاں نظر آتی ہے چناچہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب ” حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تو وہ ایک سرخ رنگ کا خوان لوگوں کی نظروں کے سامنے اوپر سے اترنے لگا ابر کا ایک ٹکڑا خوان سے اوپر تھا اور ایک نیچے ۔ خوان آکر لوگوں کے سامنے گر پڑا۔ یہ منظر دیکھ کر عیسیٰ (علیہ السلام) رونے لگے اور عرض کیا اے اللہ ! مجھے شکر گزاروں میں سے کر دے اس کو رحمت بنا دے عذاب نہ بنا۔ یہودی یہ چیزیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے جن کی نظیر انہوں نے کبھی نہیں دیکھی تھی اور خوان میں سے نکلتی ہوئی ایسی خوشبو محسوس کر رہے تھے جس کی مثل کبھی کوئی خوشبو نہیں پائی تھی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ نے فرمایا تم میں سے جو سب سے زیادہ نیک اعمال ہو وہ کھڑا ہو اور بسم اللہ کر کے سرپوش کھولے۔ حواریوں کے سردار شمعون نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول آپ ہی اس کے زیادہ مستحق ہیں۔ حضرت عیسیٰ کھڑے ہوئے اور وضو کر کے ایک لمبی نماز پڑھی اور خوب روئے پھر بسم اللہ کہہ کر اس کا سرپوش ہٹایا اور فرمایا ” بسم اللہ خیر الرازقین “ خوان میں ایک بریاں مچھلی تھی جس پر نہ کوئی سنا تھا نہ کانٹا۔ مچھلی سے روغن بہہ رہا تھا ۔ اس کے سر کی طرف نمک رکھا تھا اور دم کے پاس سرکہ اور چاروں طرف رنگا رنگ ترکاریاں رکھی تھیں لیکن گندنا نہیں تھا پانچ روٹیاں بھی تھیں۔ ایک پر زیتون ، دوسری پر شہد ، تیسری پر گھی ، چوتھی پر پنیر اور پانچویں پر گوشت کے ٹکڑے رکھے تھے ۔ شمعون نے عرض کیا یا روح اللہ ! کیا یہ دنیوی کھانا ہے یا اخروی ۔ فرمایا تمہارے سامنے جو کھانا ہے وہ نہ دنیوی کھانے کی نوع کا ہے اور نہ آخرت کے کھانے کی قسم کا۔ تم نے مانگا تھا اب اس کو کھاؤ اللہ تمہاری مدد کرے گا اور اپنے فضل سے تم کو مزید عطا فرمائے گا۔ حواریوں نے عرض کیا یا روح اللہ ! آپ ہی سب سے پہلے کھانا شروع کجئے ا ۔ فرمایا میں اس کو کھانے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ جس نے اس کی درخواست کی تھی وہی کھائے یہ سن کر حواریوں کو کھانے سے ڈرلگا اس لئے انہوں نے کھانے پر ہاتھ نہ ڈالا ۔ حضرت عیسیٰ نے کھانے کے لئے فاقہ زدہ فقیروں ، بیماروں ، کوڑھ اور برص والوں اور لنگڑے ، لنجے اپاہجوں کو بلوایا اور فرمایا اللہ کا بھیجا ہوا رزق کھاؤ ۔ یہ تمہارے کئے مبارک ہے اور دوسروں کے لئے مصیبت ۔ چناچہ ان سب نے کھایا ایک ہزار تین سو نادار ، بیمار اپاہج اور دکھی مردوں اور عورتوں نے شکم سیر ہو کر کھایا لیکن مچھلی اترنے کے وقت جیسی تھی ویسی ہی رہی اسکے بعد خوان اٹھ گیا اور لوگوں کی نظروں کے سامنے اوپر چڑھتا چلا گیا اور آخر نگاہ سے غائب ہوگیا جس بیمار اور اپاہج نے اس میں سے کھایا وہ تندرست ہوگیا اور جس فقیر نے وہ کھایا وہ غنی ہوگیا۔ یہ دیکھ کر نہ کھانے والوں کو پشیمانی ہوئی ۔ خون اترنے کا یہ سلسلہ چالیس روز تک چاشت کے وقت قائم رہا۔ مالدار ، چھوٹے ، بڑے ، مرد ، عورت سب ہی خوان کے نزول کے وقت جمع ہوجاتے۔ خوان سب کی نظروں کے سامنے اترتا اور لوگ کھاتے جب سب لوگ کھا کر ہٹ جاتے تو خوان سب کی نظروں کے سامنے اٹھ جاتا اور اوپر کو چڑھتا جاتا اور آخر کار آنکھوں سے غائب ہوجاتا ۔ پھر اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) پر وحی بھیجی کہ اب اس خوان سے صرف فقراء ہی کھا سکتے ہیں امراء نہیں کھا سکتے۔ یہ حکم مالداروں پر بہت شاق گزرا اور وہ اس خوان پر مشکوک ہوگئے اور انہوں نے دوسرے لوگوں کو بھی شک میں ڈالا۔ اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) پر پھر وحی بھیجی اور فرمایا کہ دیکھو میں نے شرط لگا دی تھی کہ خوان نازل ہونے کے بعد جو کفر کرے گا میں اس کو ایسا عذاب دوں گا کہ سارے جہانوں میں ایسوں کے سوا کسی کونہ دیا جائے گا اب انہوں نے کفر کیا ہے اسلئے وہ عذاب کے مستحق ہوگئے ہیں۔ الغرض ان میں سے 333 آدمیوں کی صورتیں مسخ کردی گئیں وہ رات کو سوئے تو صبح کو سوروں کی شکل میں اٹھے۔ انہیں شکلوں میں تین دن تک ادھر ادھر دکھے کھاتے رہے بول نہیں سکتے تھے اور اس حالت میں تین دن کے بعد وہ مر گئے۔ “ (قاضی محمد ثناء اللہ عثمانی مجددی پانی پتی ؓ آیت 109 سے آیت 115 تک کی آیتوں کا مفہوم : مذکور سات آیات میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی ” آیات بینات “ جن کو ” نشانات نبوت “ سے بھی موسوم کیا جاتا ہے بیان کی گئی ہیں یہ ” آیات بینات “ قرآن کریم میں تین چار بار مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہیں اور ہر جگہ تمثیلات واستعارات کے طور پر ایک ہی جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور سوائے آگے پیچھے ہونے کے ان میں کوئی فرق نہیں کیا گیا تاکہ مفہوم متعین کرنے میں غلطی کا امکان نہ رہے لیکن یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے ہمیشہ ایسے پاک نفوس پیدا ہوتے رہے جنہوں نے اپنی زبان اور اپنے عمل سے ان کو حق و صداقت کا سیدھا راستہ دکھایا لیکن انسانوں کی اکثریت نے ان کے احسان کا بدلہ ظلم ہی کی شکل میں ان کو دیا پھر یہ ظلم صرف ان کے مخالفوں ہی نے نہیں کئے کہ ان کے پیغام سے بےرخی برتی ، ان کی صداقت سے انکار کیا ، ان کی دعوت کو رد کیا اور ان کو تکلیفیں دے کر راہ حق سے پھیرنے کی کوشش کی بلکہ ان پر ظلم ان کے عقیدت مندوں نے بھی کیا کہ ان کے بعد ان کی تعلیمات کو مسخ کیا۔ ان کی ہدایتوں کو بدل ڈالا۔ ان کی لائی ہوئی کتابوں میں تحریف کی اور خود ان کی شخصیتوں کو اپنی عجائب پسندی کا کھلونا بنا کر الوہیت اور خدائی کا رنگ دے دیا۔ پہلی قسم کا ظلم تو ان نفوس قدسیہ کی زندگی تک یا حد سے حد اس کے چند سال بعد تک ہی محدود رہا مگر یہ دوسری قسم کا ظلم ان کے بعد صدیوں تک ہوتا رہا اور بہت سے بزرگوں کے ساتھ اب تک ہوتا آرہا ہے۔ غور کرو کہ دنیا میں آج تک جتنے داعیان حق مبعوث ہوئے ہیں سب نے اپنی زندگی ان جھوٹے خداؤں کی خدائی ختم کرنے میں صرف کی ہے جنہیں انسانوں نے خدائے واحد کو چھوڑ کر اپنا خدا بنا لیا تھا لیکن ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ ان کے پیروں نے جاہلانہ عقیدت کی بناء پر خود انہیں کو خدایا خدائی میں خدا کا شریک بنا لیا اور وہ بھی ان بتوں میں شامل کر لئے گئے جنہیں توڑنے میں انہوں نے اپنی تمام عمر کی محنتیں صرف کردی تھیں۔ یہ نفوس کون تھے ؟ ظاہر ہے کہ انبیائے کرام اور رسل عظام ہی تھے کہ انہوں نے جب کبھی اپنے آپ کو خدا کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کیا تو ان کے ہم جنسوں نے پہلے تو یہ دیکھ کر کہ یہ بھی ہماری طرح گوشت پوست کے انسان ہیں انہیں اللہ کے رسول ماننے سے انکار کیا اور بالا خر جب ان کی ذات میں غیر معمولی محاسن کا جلوہ دیکھا تو سر جھکا دیا اور انجام کار ان کو انسان ماننے سے انکار کردیا کہ ایسے لوگ انسان نہیں ہو سکتے چونکہ انہیں انبیائے کرام ہی میں سے ایک نبی و رسول عیسیٰ (علیہ السلام) بھی تھے ان کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا کہ ان کے ماننے والوں نے انہیں خدا بنایا ، خدا کا بیٹا مانا اور کبھی خدا کا تیسرا حصہ تسلیم کرلیا اور اس طرح ہوتے ہوتے آج ہم یہ بھی معلوم نہیں کرسکتے کہ ان کی اصل تعلیم کیا تھی اور وہ خود درحقیقت کیا تھے ؟ اس لئے کہ ان کی پیدائش میں اعجو بگی ، ان کی طفولیت میں اعجو بگی۔ ان کی جوانی اور بڑھاپے میں اعجوبگی اور ان کی زندگی کی ہر بات میں اعجوبگی حتیٰ کہ ان کی موت تک میں اعجوبگی۔ غرض ابتداء سے لے کر انتہاء تک وہ ایک افسانہ ہی افسانہ نظر آتے ہیں اور ان کو اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ یا تو وہ خدا تھے یا خدا کے بیٹے یا پھر خدا ان میں حلول کر گیا تھا یا کم از کم وہ خدائی میں کسی حد تک شرک وسہیم ضرور تھے۔ ان آیات کا مفہوم بیان کرتے وقت ہمارے مفسرین کی اکثریت نے ظاہری الفاظ کے پیش نظر وہ دور ازکار تھے جن کا کوئی دور کا بھی واسطہ ان ” آیات بینات “ کے ساتھ نہ تھا اپنی تفاسیر میں نقل کردیئے جن پڑھ کر وہی بات نظر آتی ہے جو اوپر کے پیروں میں ہم نے بیان کی ہے ۔ پھر جب ان کو پڑھ کر کوئی اللہ کا بندوہ مفہوم بیان کرتا ہے جو انبیائے کرام اور رسل عظام کی شخصیتوں اور ان کے کاموں کے مطابق ہے اور قرآن کریم کی دوسری آیات کریمات بھی اس کی موید اور معاون نظر آتی ہیں تو بہت سے علمائے کرام کے سر میں درد شروع ہوجاتی ہے اور وہ الزام دینے لگتے ہیں کہ پہلے بزرگوں نے یہ لکھا ہے ، فلاں مفسر نے یہ کہا ہے اور فلاں نے یہ بیان کیا ہے اور آپ نے ان کا خلاف کر کے معتزلیوں ، نیچریوں اور وہریوں کی پیروی کی ہے اور یہ سب لوگ خدا اور رسول کے منکر تھے اور ایسے ویسے تھے اور پھر جو ان کے منہ میں آتا ہے وہ کہہ دیتے ہیں۔ جب ان سے گزارش کی جاتی ہے کہ ہم کو گالیاں دینے کی بجائے زیادہ بہتر ہوتا کہ آپ قرآن کریم کی آیات پر تصریفہ آیات کے ذریعہ غور کرتے اس لئے کہ قرآن کریم کی محکمات میں سے یہ ہے کہ اس میں اختلاف نہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ کی باتوں میں تضاد ممکن نہیں ۔ پھر یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے کام کسی انسان کے سپرد نہیں کرتا بلکہ انسان کے کام کا تعین کرتا ہے کہ اس قدر تیرے کرنے کا کام ہے اس کو تو ہی نے کرنا ہے اور اس حد سے آگے تیرا کام نہیں اور وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ حدود سے تجاوز کرنے والے ظالم لوگ ہوتے ہیں ۔ مثلاً اس نے فرمایا کہ اے انسان امنا تیرا کام ہے اور میں نے تیرے ذمہ یہ ڈالا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق ڈالا ہے اب امنا تو کرے گا لیکن تخلیق تیرا کام نہیں وہ میرا کام ہے۔ تو اپنا کام کر لیکن میرے کام میں دخل اندازی مت کر۔ یہ مضمون قرآن کریم کی ان گنت آیات میں بیان ہوا ہے مثلاً ( سورة الحجر 15 : 26) (الفرقان 25 : 54) (المومنون 23 : 13 ، 14) ( الم السجدہ 32 : 7 ، 9) (فاطر 35 : 11) (الروم 30 : 21 ، 22) الحجرات 49 : 13) (الدھر 72 : 1 ، 2) النجم 53 : 45) (القیامہ 75 : 39) (الطارق 86 : 5 تا 7) ۔ عربی زبان چونکہ ایک نہایت وسیع زبان ہے اس لئے ایک لفظ کے کئی کئی معنی اور مفہوم بیان ہوئے ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ اگر ” خلق “ کا فعل کسی غیر اللہ کی طرف نسبت دیا جائے گا تو اس کا مفہوم ” تخلیق “ یعنی پیدا کرنا نہیں ہو سکتا اس لئے کہ مخلوق کا کام ” خلق “ مطلق نہیں۔ رہی بات ” باذن اللہ “ کی تو یہ بات طے ہے کہ سوائے اذن الٰہی کوئی کام ممکن ہی نہیں خواہ وہ کام اچھا ہو یا برا اس لئے کہ خالق خیر و شر بھی وہی ذات اقدس ہے اس کے سوا کوئی دوسرا خالق نہیں ہو سکتا ۔ ہم نے اصول تفسیر بیان کرتے وقت اس کی تشریح ضبط کردی ہے۔ اسی طرح زندگی اور موت دونوں کام اللہ کے اخیالر اور اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اس کے سوا نہ کوئی زندہ کرسکتا ہے اور نہ ہی موت دے سکتا ہے ۔ حتی کہ کسی شخص کو کوئی دوسرا قتل کردے تو بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے سوائے اذن الٰہی قتل کردیا ہے بلکہ ہم یہی کہیں گے کہ اگر اذن الٰہی نہ ہوتا تو وہ کبھی قتل نہ کرسکتا اور یہ اذن الٰہی تکوینی ہے جس کے لئے اللہ نے اپنا خاص قانون مقرر فرما دیا ہے جس کا خلاف ممکن نہیں اس لئے ” حیات “ دینے کی نسبت جب بھی کسی غیر اللہ کی طرف ہوگی تو اس کا معنی مردہ کو زندہ کرنا ہی نہیں ہو سکتے بلکہ عرفی طور پر ان الفاظ کا اطلاق کسی اور وجہ سے ہوگا۔ جیسا کہ قرآن کریم نے مومن کو ” زندہ “ اور کافر کو ” مردہ “ قرار دیا ہے ۔ اب کافر اگر کوئی تعلیم و تبلیغ سے مومن ہوجائے گا تو اس کو ” مردہ کو زندہ کرنے سے موسوم کرسکتے ہیں ۔ “ لیکن اس سے مراد وہ اصل اور حقیقی زندگی نہیں ہو سکتی جیسا کہ سورة فاطر کی آیت 22 ، 23 میں بیان ہوا اور سورة النحل کی آیت 80 ، 81 میں بیان ہوا ہے اور یہی بات بہروں ، گونگوں ، اندھوں اور کوڑھیوں کو درست کرنے کے متعلق ہو سکتی ہے چونکہ یہ ساری قومی بیماریاں ہیں جن کو ان الفاظ سے شناخت کرایا گیا ہے اور اس لئے کرایا گیا ہے ، انہی بیماریوں کے باعث انہی عارضوں میں مبتلا لوگوں کی طرح ہیں کہ وہ سنی ان سنی کردیتے ہیں اور سمجھی ناسمجھی بنا دیتے ہیں جہاں سننے کی ضرورت ہوتی ہے بالکل نہیں سنتے اور جہاں خاموش رہنے کا حکم ہوتا ہے وہاں دھڑادھڑبولتے ہیں اس طرح جن کاموں کے کرنے کا تاکیدی حکم ہوتا ہے ان کے نزدیک نہیں جاتے تو گویا کسی مرض نے ان کو کوڑھی کردیا ہے اور جن سے روکا گیا ہے ان کے کرنے پر شیر ہوجاتے ہیں اس لئے ان کو انہی صفات سے متصف کر کے بیان کیا جاتا ہے حالانکہ اس سے مراد حقیقی اندھے ، بہرے اور کوڑھی نہیں ہوتے اور ان عرفی بیماریوں سے بچانے کے لئے انبیائے کرام بھیجے جاتے تھے اور وہ ان کا موں کو ” باذن اللہ “ ہی کرسکتے تھے کہ ان کی تعلیم سے جن کے لئے بچائے جانے کا فیصلہ الٰہی ہوتا وہ بچ جاتاجس کے لئے ہلاکت کا فیصلہ ہوتا وہ ہلاک ہوجاتا اور یہی سارے کام سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذمہ بھی تھے اور دوسرے انبیاء کرام کی طرح انہوں نے بھی ان کو بحسن خوبی انجام دیا اور یہی ذکر قرآن کریم میں پایا جاتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ بعض منہ زور لوگ جنہوں نے قرآن کریم کو سمجھ کر نہ پڑھنے کی قسم کھالی ہے وہ ضرور ان بیانات پر ہم کو گالیاں دیں گے ان کو گالیاں دینے دیں وہ ہم کو یقیناً نہیں لگیں گیں آپ قرآن کریم کی آیات پر تصریف آیات کے تحت خود توجہ دیں ، عقل و فکر سے کام لیں ان شاء اللہ قرآن کریم اپنا اثر دکھائے گا اور رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی روشنی آپ کو کام دے گی ان چیونٹیوں کی لائن پر نظر نہ رکھیں یہ جہاں جاتی ہیں جانے دیں کیونکہ ان کے پاس سونگھنے کی قوت ضرور ہے لیکن بصارت و بصیرت سے یہ بالکل محروم ہیں۔ شامہ کا تعلق صرف پیٹ بھرنے تک ہے ان پیٹ کے پجاریوں کو پیٹ ہی کے دھندے سے غرض ہے اس لئے کہ ان کی ساری تک و دو اسی کی خاطر ہے آپ ان کے شور پر کان نہ دھریں۔ قرآن کریم کا براہ راست مطالعہ کریں یہ آپ کا فطری حق ہے جس کو آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اس تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ بگوش ہوش سے کام لیں اور سنیں اور اچھی طرح یاد رکھیں کہ جن بزرگوں کی نبوت معلوم و مسلم ہے ان میں سب سے بڑھ کر ظلم سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر کیا گیا ہے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ویسے ہی ایک انسان تھے جیسے سب انسان ہوا کرتے ہیں بشریت کی تمام خصوصیتیں ان میں بھی اسی طرح موجود تھیں جس طرح ہر انسان میں ہوتی ہیں فرق صرف اتنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت و حکمت اور اعجاز کی قوتیں عطا فرمائی تھیں اور ایک بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کے لئے معمور فرمایا تھا لیکن اول تو ان کو لوگوں نے جھٹلایا اور پورے تیس سال بھی ان کے وجود مسعود کو برداشت نہ کرسکی یہاں تک کہ عین عالم شباب میں انہیں قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا اگرچہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوئی۔ پھر جب وہ ان کے بعد ان کی عظمت کی قائل ہوئی تو اس قدر حد سے تجاوز کرگئی کہ ان کو خدا کا بیٹا بلکہ عین خدا بنا دیا اور انہی باتوں کا اثر آج مسلمان قوم نے بھی ان کے متعلق کسی حد تک محفوظ کرلیا ہاں ! ذات کے لحاظ سے نہیں تو صفات کے لحاظ سے سہی۔ اللہ سے دعا ہے کہ اے اللہ ! قوم مسلم اور خصوصاً علمائے اسلام کو سمجھ کی توفیق عطا فرما اے رب کریم ! ہماری دعاقبول فرما۔
Top