Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 117
مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْ١ۚ وَ كُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ١ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ
مَا قُلْتُ : میں نے نہیں کہا لَهُمْ : انہیں اِلَّا : مگر مَآ اَمَرْتَنِيْ : جو تونے مجھے حکم دیا بِهٖٓ : اس کا اَنِ : کہ اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ رَبِّىۡ : میرا رب وَرَبَّكُمْ : اور تمہارا رب وَكُنْتُ : اور میں تھا عَلَيْهِمْ : ان پر شَهِيْدًا : خبردار مَّا دُمْتُ : جب تک میں رہا فِيْهِمْ : ان میں فَلَمَّا : پھر جب تَوَفَّيْتَنِيْ : تونے مجھے اٹھا لیا كُنْتَ : تو تھا اَنْتَ : تو الرَّقِيْبَ : نگران عَلَيْهِمْ : ان پر واَنْتَ : اور تو عَلٰي : پر۔ سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے شَهِيْدٌ : باخبر
میں نے ان کو صرف وہی بات کہی جس کے کہنے کا تو نے مجھے حکم دیا تھا یہ کہ اللہ کی بندگی کرو ، میرا اور تمہارا سب کا پروردگار وہی ہے جب تک میں ان میں رہا ان کا نگران حال تھا ، جب تو نے میرا وقت پورا کردیا تو پھر تو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہرچیز کو دیکھنے والا اور اور اس کی نگہبانی کرنے والا ہے
میں نے ان کو یعنی بنی اسرائیل کو وہی کچھ کہا جو کچھ کہنے کا تو نے مجھے حکم دیا : 266: سبحان اللہ ! کیا شان ہے بارگاہ خداوندی میں ادب و تعظیم کی اور اللہ کے رسول عیسیٰ (علیہ السلام) کی کسر نفسی کی۔ عرض کرتے ہیں میرے خدا ! میں نے تو انہیں وہی کچھ کہا جس کے کہنے کا تو نے مجھے حکم فرمایا۔ میں نے تو انہیں صاف صاف اور باربار کہا تھا کہ تم صرف رب العزت کی عبادت کرو جو میرا بھی مالک و پروردگار ہے اور تمہارا بھی۔ تو احکم الحاکمین ہے اب تو ہی بتا کہ تو نے مجھے یہی کچھ کہنے کا حکم نہیں دیا تھا ؟ موجودہ انجیلیں بھی باوجود اپنے تثلیثی شرک کے جو ان کے شارحین نے ان میں بھر دیا اس توحید تعلیم کو مٹا نہ سکیں۔ لکھا ہے کہ ” یسوع اس کے پاس سے چلا گیا اور دیکھو فرشتے آکر اس کی خدمت کرنے لگے۔ “ (متی 4 : 10 ، 11) ” یسوع نے اس سے جواب میں کہا ، لکھا ہے کہ تو خدا وند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر۔ “ (لوقا 4 : 8) اور قرآن کریم میں بھی آپ کا یہ کلام آپ کی کمال عبدیت اور انتہائی عبددیت پر دلالت کر رہا ہے اور آپ نے کتنی وضاحت سے یہ ارشاد فرما دیا کہ خدایا ! یہ پیام توحید بھی میری اپنی طرف سے نہ تھا تیرے ہی ارشاد کی تعمیل یہ ہی تھی کیونکہ تیرے بغیر بتائے میں جانتا ہی کب تھا ؟ اللہ کا ایک رسول جو قوم بنی اسرائیل کے سلسلہ کا آخری رسول تھا جس کے بعد اس قوم میں کوئی رسول نہ آیا اپنے بندہ ہونے کی کتنی دلیل دے رہا ہے لیکن ان ساری دلیلوں کو پیٹھ پیچھے پھینک کر قوم نے اس کو الہٰ و معبود بنا لیا اور اس کے باوجود ان کو اپنا یہ کھلا شرک نظر نہ آیا اور بدقسمتی سے یہی کچھ قوم مسلم کی اکثریت آج کر رہی ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہیں جو بنی اسرائیل نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کا بیان کہ میری وفات سے بعد کے حالات کو تو ہی بہتر جانتا ہے : 267: یہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس جواب کا حصہ ہے جو ان کو بارگا رب العزت میں اپنی قوم کے اور ساری دنیا کے انسانوں کے سامنے دینا ہے جس کا حکائی رنگ ان آیات کریمات میں بیان کیا گیا ہے ۔ فرمایا اے میرے اللہ ! ” جب تک میں ان میں رہا ان کا نگران حال تھا جب تو نے میرا وقت پورا کردیا تو پھر تو ہی ان کا نگہبان تھا۔ “ اس جگہ جو لفظ قرآن کریم نے استعمال کیا ہے وہ ہے ” فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ “ جس کے معنی ہیں ” جب تو نے میرا وقت پورا کیا۔ “ ” جب تو نے مجھے اٹھالیا “ ” جب تو نے مجھے نیند دی “ ” جب تو نے مجھے وفات “ ، ” تَوَفَّیْتَنِیْ “ کا مادہ ” وف ی “ ہے اور یہ مادہ خود ان مختلف معنوں پر محیط ہے اور اس دنیا کے کسی انسان کو کوئی اختلاف نہیں اور اس کے ہر جگہ ایک معنی مراد لئے جاسکتے ہیں اور حقیقت سب جگہ موجود رہتی ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ اپنے مشتقات میں بیسیوں بار استعمال ہوا ہے بلکہ ساری جگہوں کا شمار کیا جائے تو وہ 88 جگہیں ہیں جہاں یہ لفظ استعمال ہوا۔ اس مادہ سے بنائے گئے کل الفاظ یعنی مشتقات قرآن کریم میں استعمال ہوئے وہ 37 ہیں۔ جیسے اوفی ، وفی ، وفاہ ، اوفوا ، یسترفون وغیرہ اس لئے اس مادہ کا جو اصل مفہوم و مطلب ہے وہ ہر جگہ برابر موجود ہے اور وہ ہے ” پورا پورا “ یعنی مکمل وفات کو بھی اسی لئے وفات کہتے ہیں کہ انسان کی ” زندگی پوری “ ہوجاتی ہے اور موت طاری ہوجاتی ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ یہ معنی مجازی ہی ہو سکتے ہیں کہ ” تو نے مجھے وفات دی “ کیوں ؟ اس لئے کہ ” توفی “ کا حقیقی معنی ” مارنا “ نہیں بلکہ کسی چیز کو پوری طرح اپنے قبضے میں لینے کے ہیں ۔ ہاں ! بلاشبہ یہ لفظ بطریق مجاز موت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ زیر نظر آیت میں ” تَوَفَّیْتَنِیْ “ کے لفظ سے لوگوں نے یہ بحث شروع کردی کہ آیا عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات مراد ہے یا رفع آسمانی کہ وہ زندہ آسمان پر اٹھا لے گئے۔ حقیقت رفع آسمانی کی کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں ” رافعک “ کا لفظ سورة آل عمران کی آیت 55 میں اور ” رفعہ اللہ الیہ “ کے الفاظ سورة النساء کی آیت 158 میں بیان ہوئے جن سے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا ” رفع “ یقیناً ثابت ہوتا ہے اور اس سے پوری امت میں بلکہ دنیا کے سارے انسانوں میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ یہ اہل زبان کا مسئلہ ہے اور ” رفع “ کے معنی ” اٹھانے “ کے آتے ہیں ” اللہ نے اپنی طرف اس کو اٹھا لیا “ چونکہ لوگوں کا یہ تصور چلا آرہا ہے کہ اللہ آسمانوں پر ہے بس اس تصور نے ” آسمان “ کا لفظ مفہوم میں داخل کردیا اور پھر مضمون کو مزید زیر بحث لا کر ” زندہ “ کے لفظ کا اضافہ کیا اور اب ” زندہ آسمانوں “ کے لفظ نے اسکے مفہوم کو اس طرح بنایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمانوں میں اپنے پاس اٹھا لیا۔ “ اصل مسئلہ بنی اسرائیل کی شاخ نصاریٰ جن کو عیسائی کہا جاتا ہے ان کا اور اسلام کا تھا بلکہ پوری قوم بنی اسرائیل اور اسلام کا اس لئے کہ بنی اسرائیل میں یہود عیسیٰ علیہ اسلام کی پیدائش ہی کے وقت سے آپ کے قتل کرنے کے درپے تھے اور آپ جب تک اس دنیا میں حیات رہے وہ یہ کوشش کرتے رہے کہ کسی نہ کسی طرح ان کو قتل کردیا جائے ان کی بعثت سے پہلے ان کو مختلف جگہوں پر رکھ ان کے والدین نے ان کی حفاظت و پرورش کی اور جب نبوت کا اعلان انہوں نے کردیا اسی وقت سے یہود نے اپنی تحریک ” قتل عیسیٰ “ کو مزید تیز کردیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے حواریوں کی ایک جماعت اتنی مضبوط بنا دی کہ وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ ازیں بعد انہوں نے عدالتوں کی طرف رجوع کیا لیکن منہ کی کھائی ۔ سنت اللہ کے مطابق آخر کار وہ مرحلہ آیا جس میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھا لیا گیا تو یہود نے ” قتل قتل “ کا شور مچادیا۔ ایک عرصہ گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل میں سے ” آخری نبی “ نبی اعظم و آخر ﷺ کو مبعوث فرمایا تو آپ ﷺ کی زبان سے اعلان کرا دیا کہ یہود سراسر جھوٹے ہیں اور ان کے اس شور کی کوئی حقیقت نہیں ” وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاۙ00157 “ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو یقیناً قتل نہ کرسکے ” بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِ 1ؕ“ بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ یہ تو یہود کا حال تھا لیکن قوم نصاریٰ یعنی عیسائی جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے تھے وہ جب یہود کے اس شور کا جواب نہ دے سکے تھے انہوں نے عیسیٰ علیہ اسلام کا صلیب پر چڑھایا جانا تسلیم کرلیا تھا اور پھر اس کی یہ تاویل کی کہ یہود نے صلیب پر چڑھایا لیکن ابھی ان کی موت واقع نہ ہوئی تھی کہ صلیب پر سے اتار لئے گئے اور اس معاملہ سے بھی جب وہ یہود سے مار کھا گئے تو انہوں نے تسلیم کرلیا کہ ہاں صلیب پر لٹکائے گئے تھے ان کی موت واقع ہوئی اور وہ دفن کئے گئے تھے لیکن تیسرے روزہ بعد زندہ کر کے آسمانوں کی طرف اٹھا لئے گئے اور اب وہ دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے کے پہلو میں آسمان پر موجود ہیں۔ گروہ نصاریٰ نے اس عقیدہ کو پکا کرنے کے لئے اس کی تائید میں کتنے عقیدے گھڑے ان کی داستان بہت لمبی ہے مختصر یہ کہ ان عقیدوں میں سے ان کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ وہ صلیب اس لئے دیئے گئے تاکہ بنی آدم کے گناہوں کا کفارہ ہو اور اب بنی نوع انسان میں سے جو شخص آپ کے صلیب دیئے جانے کو تسلیم کرلے اور یہ عقیدہ بھی رکھے کہ وہ بنی آدم کے گناہوں کے کفارہ میں صلیب دیئے گئے تھے اس کی نجات ہوجائے گی۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کا رد بھی دو ٹوک لفظوں میں کردیا اور ان کے اس عقیدہ کو باطل عقیدہ قرار دیتے ہوئے اعلان فرمایا : ” وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ “ انہوں نے نہ اس کو قتل کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا ۔ اب سوال باقی یہ رہتا تھا کہ آخر وہ گئے کہاں تو اس کا ان کو جواب دے دیا گیا ” وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ 1ؕ “ اصل معاملہ ان کے لئے مشتبہ ہوگیا اور اس کی وضاحت اس لئے نہ کی گئی کہ یہ بحث نہ ختم ہونے والی تھی۔ سو بار ان کو صحیح جواب سنا دیا جاتا لیکن وہ جاننے والے کب تھے وہ تو اس پر نئے سے نئے سوال اٹھاتے رہتے اور اس طرح سوالوں کا ایک ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا جس سے اپنا وقت بھی ضائع ہوتا اور دوسروں کا بھی اور قرآن کریم ایسی بحثوں میں بالکل نہیں الجھتا صرف یہ ایک مقام نہیں بلکہ قرآن کریں میں بیسیویں مقامات ایسے ہیں جہاں اس نے یہی طریقہ اپنایا اور یہی طریقہ حق اور درست بھی ہے کہ اپنی مسکت دلیل بیان کردی جائے اور الجھنے والوں کے ساتھ مطلق نہ الجھا جائے یہی انبیائے کرام کا معاملہ اپنی قوموں کے ساتھ ہوا۔ یہ اس معاملہ کی اصل حقیقت تھی جو اللہ تعالیٰ نے بتائی اس میں جزم اور صراحت کے ساتھ جو چیز بتائی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے میں یہود کامیاب نہیں ہوئے اور عیسائیوں نے یہ عقیدہ اپنے پاس سے گھڑا جس کی کوئی اصلیت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھالیا۔ رہی یہ بات کہ اٹھالینے کی کیا حقیقت تھی تو اس کے متعلق قرآن کریم نے کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ قرآن کریم نہ تو اس بات کی تصریح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جسم و روح کے ساتھ کرہ زمین سے اٹھا کر آسمانوں پر کہیں لے گیا اور نہ یہ کہتا ہے کہ انہوں نے فلاں مقام پر طبعی موت پائی۔ مزید تفصیل کے لئے عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 55 اور سورة النساء کی آیت 157 کو دیکھ لیا جائے۔ رہا سورة المائدہ کی زیر نظر آیت 117 کے لفظ ” تو فیتنی “ کا مفہوم و مطلب تو یہ معاملہ پہلے ہی صاف ہے بشرطیکہ دیانت موجود ہو کیونکہ یہ سوال سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے قیامت کے روز رب العزت بنفسہ کریں گے جس کا جواب اس جگہ مسیح (علیہ السلام) سے دلوایاجا رہا ہے تاکہ امت محمد رسول اللہ ﷺ جس کو ساری امتوں پر گواہی دینے کے لئے کہا جائے گا اور ان کو یہ گواہی دینا ہوگی وہ معاملہ کی اصل نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے کیا جانے والا سوال اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے دیا جانے والا جواب وہ قوم سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے روز کریں گے وہ اپنی طبعی موت مرنے کے بعد زندہ ہو کر ہی کریں گے اور وہ کون ہوگا جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس طبعی موت سے منکر ہوگا ؟ ہمیں معلوم ہے کہ ” مرزاجی “ نے اس مادہ وی پر کس طرح بحث اٹھائی اور پھر کیا کیا قیود اس پر لگائیں۔ علمائے اسلام کو کیسے چلنج کیا اور علمائے کرام کی طرف سے ان کو کیا کیا جواب دیئے گئے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ” مرزاجی “ نے یہ بحث کیوں اٹھائی ؟ اور انہوں نے یہ نظریہ کہاں سے لیا ؟ اور اس کا کیسے استعمال کیا ؟ الحمد للہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ” مرزاجی “ کے بیٹے ” خلیفہ ثانی “ کہلانے والے نے اس میں کیا کیا اضافہ کیا اور علمائے اسلام کو اس معاملہ میں الجھائے رکھنے کی سر توڑ کوشش کر کے اس ملک میں اس نے کیا کچھ کر دکھانے کی سیکم لڑائی ۔ اس کو کن لوگوں کا سامنا رہا اور خصوصاً اس لفظ ” توفی “ پر نئے سرے سے کسی چیز کی بنیاد رکھی اور عیسائیوں کی نقالی میں ایک نیا نظام تشکیل دے کر پورے ملک پاکستان کو چت کرنے کی داغ بیل ڈالی۔ بلاشبہ وہ مر گیا لیکن اس کا تشکیل کیا گیا نظام مسلسل جاری رہا حتی کہ وہ وقت آیا جب یہ نظام جاری رکھنے والوں نے پورے ملک کے بازوؤں میں باز و ڈال دیئے اور پہلے ہی حملہ میں وہ چت ہوگئے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس ملک کے ہر مکتبہ فکر کی طرف سے یہ اعلان ہوئے ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے کہ مرزائیوں کو ہم نے ” چت کیا “ لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ مرزائیوں کو اتنا لمبا وقت جو علمائے کرام کی کوتاہیوں ہی کے نتیجہ میں ملا اور جب وہ ساری حدود کو پھلانک گئے اور بازوتان کر کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے خاص ہاتھ نے ایسی ضرب لگائی کہ وہ صاف چت ہوگئے اور ان شاء اللہ اب وہ قیامت تک نہیں اٹھ پائیں گے خواہ وہ کتنا ہی زور لگا لیں کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ جس کو اللہ کی مار پڑی وہ دوبارہ نہیں اٹھ سکا۔ ہم پورے وثوق سے یہ کہتے ہیں کہ مرزائی حضرات ذرا عقل پر زور دے کر یہ سوچیں کہ آخر وہ کیوں مرزائی ہیں ؟ تو یقیناً وہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ محض اس لیے کہ ان کے باپ مرزائی تھے یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ ان کے دادا مرزائی تھے اور جس طرح ایک عیسائی کا بچہ عیسائی ہوتا ہے اس طرح ایک مرزائی کا بچہ مرزائی ہے ۔ بلاشبہ عیسائی قوم بہت سمجھ دار ہے لیکن کوئی عیسائی یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کیوں عیسائی ہے سوائے اس کے کہ اس کا باپ عیسائی تھا اس لئے وہ عیسائی ہے ! کیوں ؟ اس لئے کہ ان کا یہ طے شدہ مذہبی مسئلہ ہے کہ ” مذہب میں عقل کو دخل نہیں ” لہٰذا انہوں نے کبھی عقل سے یہ بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ وہ کیوں عیسائی ہیں اور نہ ہی وہ کبھی اس بات کو سوچ سکتے ہیں ؟ جو یہ بات سوچے گا وہ آخر عیسائی کیسے ہوگا۔ کیا مرزائیوں کے ہاں بھی یہی اصول ہے ؟ اگر نہیں تو کم از کم ان کو تو یہ سوچنا چاہتے کہ وہ کیوں مرزائی ہیں ؟ معذرت خواہ ہوں کہ ہم اصل موضوع سے ذرا دور ہوگئے ذکر تھا سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس سوال و جواب کا جو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول عیسیٰ (علیہ السلام) پر کریں گے اور پھر جو جواب سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے بارگاہ رب العزت میں پیش کیا جائے گا اور قرآن کریم میں اس کا اس طرح ذکر فرمایا گیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے اللہ ! ” جب تک میں ان میں رہا ان کا نگران حال تھا جب تو نے میرا وقت پورا کردیا تو پھر تو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہرچیز کو دیکھنے والا اور اس کی نگہبانی کرنے والا ہے۔ “ اور اس سے ” حیات مسیح “ کا مسئلہ نکالا گیا اور ” وفات مسیح “ کی بحث چھڑ گئی اور پھر اس پر سوال و جواب شروع ہوگئے جن کا لامتناہی سلسلہ اب تک جاری ہے اور اسی سے ” حیات النبی “ کا ایک نیا موضوع نکل آیا اور اس ” حیات النبی “ سے مراد محمد رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ ہے۔ پھر یہی ” حیات النبی “ کبھی ” حیات الانبیاء “ کا موضوع اختیار کرتی نظر آتی ہے اور کبھی ” حیات النبی “ کی بحث کی طرف لوٹ آتی ہے ۔ گویا ” یک نہ شد دو شد “ والی بات ہوگئی اور اس طرح نبی اعظم و آخر ﷺ کے متعلق واضح الفاظ میں تحریر ہوا کہ : ” حضور ﷺ کی زندگی اور وفات میں کوئی فرق نہیں ۔ اپنی امت کو دیکھتے ہیں ان کے حالات و واقعات اور ارادے اور دل کی باتوں کو جانتے ہیں۔ یہ آپ ﷺ پر بالکل ظاہر ہیں ان میں سے کوئی بات آپ ﷺ پر پوشیدہ نہیں۔ (جاء الحق ص 15) نبی اکرم ﷺ اپنے جسم مبارک اور روح قدس کے ساتھ زندہ ہیں اور بیشک حضور ﷺ اطراف زمین اور ملکوت اعلیٰ میں جہاں چاہتے ہیں سیر اور تفریح فرماتے ہیں اورحضور ﷺ اپنی اس ہیئت مبارکہ کے ساتھ ہیں جس پر وفات سے پہلے تھے اور حضور ﷺ کی کوئی چیز بدلی نہیں ہے بیشک نبی کریم ﷺ ظاہری آنکھوں سے غائب کردیئے گئے ہیں جس طرح ملائکہ غائب کردیئے گئے ہیں حالانکہ وہ سب اپنے جسموں کے ساتھ زندہ ہیں جب اللہ اپنے کسی بندے کو حضور ﷺ کا جمال دکھا کر عزت و بزرگی عطا فرمانا چاہتے ہیں تو اس سے حجاب دور کردیتے ہیں اور وہ مقرب بندہ حضور ﷺ کو اس ہیئت پر دیکھتا ہے جس پر حضور ﷺ واقع ہیں ۔ اس رؤیت سے کوئی چیز مانع نہیں اور رویت مثال کی طرف کوئی امرداعی نہیں۔ “ (تسکین الخواطر ص 18) ” انبیائے کرام علیہم والصلوٰۃ والسلام کی حیات حقیقی حسی دنیاوی ہے۔ ان پر تصدیق وعدہ الہیہ کے لئے محض ایک آن کی آن موت طاری ہوتی ہے پھر فوراً ان کو ویسے ہی حیات فرما دی جاتی ہے اس حیات پر وہی احکام دنیویہ ہیں۔ ان کا ترکہ بانٹانہ جائے گا ان کی ازواج کا نکاح حرام نیز ازواج مطہرات پر موت نہیں۔ وہ اپنی قبور میں کھاتے پیتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں۔ “ (ملفوظات للبریلوی جز 3 ص 527) ” انبیائے کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ۔ وہ چلتے پھرتے ہیں ۔ نمازیں پڑھتے ہیں اور کلام کرتے ہیں اور مخلوق کے معاملات میں تصرف فرماتے ہیں۔ “ ( حیات النبی ص 103) ” قبر شریف میں اتارتے وقت حضور ﷺ ” امتی ، امتی “ فرما رہے ہیں۔ “ (للبریلویہ) یہ تو انبیائے کرام اور خصوصاً نبی اعظم و آخر ﷺ کے متعلق ایک گروہ کثیر کا عقیدہ ہے ، اب اولیائے کرام کے متعلق سن لیجئے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ” اللہ کے ولی کبھی مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہوتے ہیں ۔ ان کی ارواح صرف ایک آن کے لئے خروج کرتی ہیں پھر اسی طرح جسم میں ہوتی ہیں جس طرح پہلے تھیں۔ “ (فتاویٰ نعیمیہ ص 245) ” اولیاء ما بعد الوصال زندہ اور ان کے تصرفات و کرمات پائندہ اور ان کے فیض بدستور جاری اور ہم غلاموں ، خادموں ، محبوں ، متقدیوں کے ساتھ وہی امداداعانت ساری۔ “ (فتاویٰ رضویہ ج 4 ص 236) ” اولیاء کرام اپنی قبروں میں میں پہلے سے زیادہ سمع وبصر رکھتے ہیں۔ “ (حکایات رضویہ ص 4) جب کوئی قوم من حیث القوم کوئی عقیدہ اختیار کرلیتی ہے تو اس کے لئے اس کا چھوڑنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا کہ کسی پہاڑ کا اپنی جگہ سے ٹل جانا اور جوں جوں ان اختراعی عقیدوں پر وقت گزرتا جاتا ہے تو وہ ناسور کی طرح پختہ ہوتے جاتے ہیں ان پر کوئی نشتر بھی کارگر نہیں ہوتا۔ بات یہود و نصاریٰ کے عقائد کی تھی اور اسی طرف لوٹائی جاتی ہے یہ تو جملہ معترضہ کے طور پر تم کو ایک بات بتائی گئی اگر تم نے یاد رکھی تو کام آئے گی۔
Top