Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 14
وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰۤى اَخَذْنَا مِیْثَاقَهُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ١۪ فَاَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ سَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
وَمِنَ : اور سے الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : جن لوگوں نے کہا اِنَّا : ہم نَصٰرٰٓى : نصاری اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِيْثَاقَهُمْ : ان کا عہد فَنَسُوْا : پھر وہ بھول گئے حَظًّا : ایک بڑا حصہ مِّمَّا : اس سے جو ذُكِّرُوْا بِهٖ : جس کی نصیحت کی گئی تھی فَاَغْرَيْنَا : تو ہم نے لگا دی بَيْنَهُمُ : ان کے درمیان الْعَدَاوَةَ : عداوت وَالْبَغْضَآءَ : اور بغض اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت وَسَوْفَ : اور جلد يُنَبِّئُهُمُ : انہیں جتا دے گا اللّٰهُ : اللہ بِمَا كَانُوْا : جو وہ يَصْنَعُوْنَ : کرتے تھے
اور جو لوگ اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں ان سے بھی ہم نے عہد لیا تھا پھر ایسا ہوا کہ جس بات کی نصیحت کی گئی تھی اس سے کچھ بھی فائدہ اٹھانا ان کے حصے میں نہ آیا اسے بالکل فراموش کر بیٹھے ، پس ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے دشمنی اور کینے کی آگ بھڑکا دی اور وہ وقت دور نہیں کہ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اللہ اس کی حقیقت انہیں بتا دے گا
پہلے بنی اسرائیل کی شاخ یہود سے خطاب تھا اور اب نصاریٰ سے خطاب ہے : 72: اس سے پہلی آیت یعنی آیت نمبر 13 میں اہل کتاب کی قوم یہود کو مخاطب کیا گیا تھا اور اب نصاریٰ کی طرف کلام کا رخ پھیرا جا رہا ہے کہ نصاریٰ سے ہم نے عہد لیا تھا لیکن انہوں نے بھی یہود کی طرح اس کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور ہم نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو بد عہد قوموں کے ساتھ کرنے کا ہم اعلان کرچکے تھے اور پھر یہ بات بھی ان لوگوں کی بیان کی جا رہی ہے جو صحیح معنوں میں عیسائی تھے لیکن اپنے آپ کو عیسائی کہنے کے باوجود وہ اپنے اندر مختلف گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور یہ بیماری بہت پرانی ہے کوئی قوم بھی اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دی جاسکتی۔ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ عیسائیوں کے تین بڑے گروہ تھے جن میں سے ایک گروہ کو ” سطوریہ “ کہا جاتا تھا جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے۔ دوسرا ” یعقوبیہ “ جو خود عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کے ساتھ متحد مانتے تھے اور تیسرا ” مکلائیہ “ جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی تین خداؤں میں سے ایک تسلیم کرتے تھے جن کے خیال میں دوسرا جبرئیل (علیہ السلام) اور تیسرا اللہ تھا لیکن ان تینوں کے اتحاد کا نام اللہ خیال کرتے تھے۔ تینوں گروہ اپنے آپ کو عیسائی کہتے تھے لیکن ایک دوسرے کو گمراہ سمجھتے اور کہتے تھے ۔ لیکن یہود کے مقابلہ میں تینوں متحد تھے اور سب مل کر یہودیت کو گہری نظر د سے دیکھتے اور ان کے دین پر طعن وتشنیع کرتے تھے اور اس طرح یہود بھی مختلف فرقوں میں تقسیم ہونے کے باوجود عیسائیوں کے معاملہ میں مل کر ان کا مقابلہ کرتے اور ان کے دین پر پھبتیاں کستے تھے اور سارے کے سارے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبی تو درکنار ایک صحیح النسب انسان بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ پھر جب بانی اسلام محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تو یہود و نصاریٰ نے اسلام کے خلاف اتحاد کرلیا اور مل کر اسلام کے خلاف کام کرنے لگے اور اس کے خلاف اپنا سارا زور لگا دیا اور بد قسمتی سے آج مسلمانوں کے اندر گروہی مذہب اور گروہی سیاست نے یہود ونصاریٰ دونوں کے کان کاٹ دیئے اور ان سے بہت آگے بڑھ گئے اور کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ جو کام کر کے پہلے گمراہ ہوچکے ہیں وہی کام کرکے ہم کیسے ہدایت پا سکتے ہیں ؟ کاش کہ اہل اسلام اپنی اس گمراہی پر دھیان دیتے تو ان کے علماء کہلانے والا گروہ ان کو اس دلدل سے نکلنے کی کوئی صورت کرتا لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ علماء قوم دلدل سے نکالنے کی بجائے مزید پھنساتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کی طرح پہلے بڑے بڑے گروہوں میں تقسیم ہوئے اور پھر ہر گروہ مزید کئی کئی پاڑئیوں میں تقسیم ہوتا گیا حالانکہ ہر برے گروہ میں علمائے کرام کی کثرت موجود تھی اور پھر ہر گروہ کی ضمنی پارٹیوں میں علماء کہلانے والے موجود ہیں پھر لطف یہ ہے کہ سارے کے سارے اسلام ہی کا نام لیتے ہیں اور اپنے اسلام کو سچا اور دوسرے کے اسلام کو گمراہی خیال کرتے ہیں اس طرح جو کچھ پہلوں نے کیا تھا وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلتے جا رہے ہیں۔ نہ پہلوں نے اس غلطی کو تسلیم کیا اور نہ ہی آج ہم اس غلطی کو غلطی تسلمے کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس کے برعکس یہ سمجھنا کہ جن آیات میں یہود کو مخاطب کیا گیا ہے یا نصاریٰ سے کچھ کہا گیا ہے ان سے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کچھ کہنا تفسیر بالرائے ہے سر اسر جہالت ہے یا جان بوجھ کر قرآنی مفہوم سے انکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اہل کتاب کو مخاطب کر کے کچھ نہیں کہتا وہ دراصل مخاطب تو اہل اسلام ہی کو کرتا ہے ہاں ! اہل کتاب کی بداعتدالیوں کا نام بنام ذکر کر کے مسلمان کو یہ ضرور بتاتا ہے کہ اہل کتاب نے یہ بداعتدالی کی اور ان کی اس بداعتدالی کی یہ سزا پائی کیوں ؟ اس لئے کہ اے اہل اسلام ! اگر تم نے ایسی بداعتدالی کی تو تم کو ایس ہی سزا دی جائے گی اس لئے کہ ہمارے ہاں اصول کبھی نہیں بدلتے کہ اہل کتاب کو جناعمال کے بدلے سزا دی جات رہی تم کو ویسے ہی اعمال کے بدلے انعامات دیئے جائیں ایسا ممکن نہیں کیونکہ یہ سراسر ظلم ہے اور اللہ ظلم سے پاک ہے۔ زیر نظر آیت میں یہ بھی بتایا گیا کہ قرآن کریم کا یہ عجیب سے عجیب تر معجزہ ہے کہ آج جو صحیفے انجیلوں کے نام سے مسیحیوں کے ہاتھوں میں موجود ہیں وہ صد گونہ تحریفات کے باوجود بھی بشارات محمدی (علیہ السلام) نہیں چناچہ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے سلسلہ میں ہے کہ ” جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لادی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے ؟ تو اس نے انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں۔ انہوں نے اس سے پوچھا تو کون ہے ؟ کیا تو ایلیا ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں کیا تو وہ نبی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں ۔ بس انہوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟ (یوحنا 1 : 19 تا 22) ” انہوں نے اس سے سوال کیا کہ اگر تو نہ مسیح ہے نہ ایلیا ، نہ وہ نبی تو پھر تو پشمہ کیوں دیتا ہے ؟ (یوحنا 1 : 25) یہ ” النبی “ یقینا مسیح سے الگ کوئی تھے جیسا کہ اوپر کے سوالات سے ظاہر ہے یہ یہود تھے اور آگے چلئے مسیح (علیہ السلام) سے پوچھئے وہ بتا تے ہیں کہ اگر کوئی پیاسا ہو تو میرے پاس آکر زندگی کا پانی پئے۔ ” بس بھیڑ میں بعض نے یہ باتیں سن کر کہا بیشک یہی وہ نبی ہے ، اوروں نے کہ یہ مسیح ہے۔ “ (یوحنا 7 : 40) پھر حضرت مسیح دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے شاگردوں کو تسلی دیتے ہیں کہ : ” اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخش دے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔ “ (یوحنا 14 : 16) پھر ” مددگار کے لفظ پر اردو انجیل میں یہ نسخہ دیا گیا ہے “ وکیل یا شفیع “ اب یہ ابد تک ساتھ رہنے والا ” ’ مددگار “ یا ” شفیع یا وکیل “ اب بجز نبی ” خاتم النّبیین “ کے اور کون ہے ؟ اس کی تائید ایک بار حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زبان سے مزید ملاحظہ کریں۔ ” میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار ( وکیل یا شفیع) تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر میں جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارہ میں قصور وار ٹھہرائے گا۔ “ (یوحنا 16 : 7 ، 8) فرمایا جا رہا ہے کہ اچھا ان ساری باتوں کے باوجود اگر تم نہیں مانتے تو تمہاری مرضی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ تم سے پوچھ لیا جائے گا یعنی روز قیامت پھر تم اقرار کروگے لیکن اس وقت کا اقرار تمہارے لئے حسرت و افسوس کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
Top