Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 21
یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَرْتَدُّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم ادْخُلُوا : داخل ہو الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ : ارضِ مقدس (اس پاک سرزمین) الَّتِيْ : جو كَتَبَ اللّٰهُ : اللہ نے لکھ دی لَكُمْ : تمہارے لیے وَلَا تَرْتَدُّوْا : اور نہ لوٹو عَلٰٓي : پر اَدْبَارِكُمْ : اپنی پیٹھ فَتَنْقَلِبُوْا : ورنہ تم جا پڑوگے خٰسِرِيْنَ : نقصان میں
اے میری قوم کے لوگو ! مقدس سرزمین میں جسے اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے داخل ہوجاؤ اور الٹے پاؤں پیچھے کی طرف نہ ہٹو کہ نقصان و تباہی میں پڑ جاؤ
موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو مقدس سر زمین کے دوبارہ حاصل کرنے کی تجویزدی : 89: جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) بلاشبہ اللہ کے نبی تھے لیکن ساتھ ہی قوم بنی اسرائیل کے سیاسی راہنما بھی تھے اس لئے کہ ہر نبی نے اپنی خدا داد صلاحیتوں اور پیغام الٰہی کی روشنی میں قوم کو اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو دوبارہ حاصل کرنے کی ترغیب دی اس طرح گویا یہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی تقریر کا دوسرا جزاء ہے اور اس تقریر کا اصل موضوع یہ ہے کہ جب فرعون اور اس کا لشکر دریا میں غرق ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم بنی اسرائیل فرعون کی غلامی سے نجات پا کر حکومت مصر کے مالک بن گئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنا مزید انعام اور ان کے آبائی وطن ملک شام کو بھی ان کے قبضہ میں واپس دلانے کے لئے بذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) ان کو یہ حکم دیا کہ وہ جہاد کی نیت سے ارض مقدس یعنی شام میں داخل ہوں اور ساتھ ہی ان کو یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ اس جہاد میں فتح ان کی ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس مقدس سرزمین کو ان کے حصے میں لکھ دیا ہے وہ ضرور ان کو مل کر رہے گی کیونکہ یہ فطری بات بھی ہے کہ کوئی قوم جب ایک بار کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہے تو اس کے لئے مزید کئی راہیں کھل جاتی ہیں اور اس طرح جب کوئی قوم میدان میں شکست سے دوچار ہوتی ہے تو اس کو ہزیمت و شکست کی پریشانی کے علاوہ مزید بہت سی پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم سے فرمایا کہ ایک بار فاتحانہ قدم اٹھاؤ اور اس طرح کہ آگے بڑھ کر قدم پیچھے کونہ ہٹیں اور بلند ہمتی کے ساتھ اللہ کی راہ میں لڑو اور یاد رکھو کہ اگر تم نے بزدلی سے کام نہ لیا تو کامیابی تمہارے قدم چومے گی لیکن اس کے برعکس اگر تم ہی ہمت مار گئے اور اللہ تعالیٰ پر پختہ یقین کا مظاہرہ نہ کیا بلکہ الٹے پاؤں پھرگئے توسنت اللہ یہی ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کا جو اتنے بےہمت ہوں کبھی ساتھ نہیں دیتا۔ ” ہمت مرداں مدد خدا “ کا اصول یا درکھو اور اس طرح آگے بڑھو کہ اٹھایا گیا قدم پیچھے کونہ ہٹے بلکہ آگے ہی بڑھتا چلا جائے۔ ہاں ! اگر تم نے قدم پیچھے ہٹا لئے تو گویا تم نے موت کو گلے لگا لیا اور موت کو بھاگ کر پکڑنے والوں کا اللہ کبھی حامی و مددگار نہیں ہوتا۔ لیکن بنی اسرائیل اپنی طبعی خصوصیات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے انعامات ، غرق فرعون اور فتح مصروغیرہ کا آنکھوں سے مشاہدہ کرلینے کے باوجود یہاں بھی اس عہد میثاق پر پورے نہ اترے اور جہاد شام کے اس حکم الٰہی کے خلاف ضد کر کے بیٹھ گئے خیال رہے کہ اس وقت فلسطین (کنعان) اس ملک شام میں تھا اور تورات میں بھی ان وعدوں کی صراحتیں موجود ہیں ۔ چناچہ تحریر ہے کہ : ” دیکھو میں نے یہ زمین جو تمہارے آگے ہے تمہیں عنایت کی ، اس میں داخل ہو اور اس زمین میں جس کی بابت خداوند نے تمہارے باپ دادوں ، ابراہیم (ابرام) اور اضحاق (اسحاق) اور یعقوب سے قسم کی کہ تم کو اور تمہارے بعد نسل کردوں گا۔ “ (استثناء 1 : 8) ” تو اس سر زمین میں جس کی بابت خداوند نے تیرے باپ دادوں ابرہام اور اضحاق اور یعقوب سے قسم کھا کے کہا کہ اسے میں تمہیں دوں گا ، سکونت کرے۔ “ (استثناء 43 : 20) ” مضبوط ہوجاؤ اور دل اور ہو ، خوف نہ کھاؤ اور ان سے مت ڈرو کیونکہ خداوند تیرا خدا ہی ہے جو تیرے ساتھ جاتا ہے وہ تجھ سے غافل نہ ہوگا اور تجھ کونہ چھوڑے گا۔ “ (استثناء 31 : 6)
Top