Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 26
قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً١ۚ یَتِیْهُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا فَاِنَّهَا : پس یہ مُحَرَّمَةٌ : حرام کردی گئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَرْبَعِيْنَ : چالیس سَنَةً : سال يَتِيْھُوْنَ : بھٹکتے پھریں گے فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَلَا تَاْسَ : تو افسوس نہ کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
اللہ کا حکم ہوا کہ اب چالیس برس تک وہ سرزمین ان پر حرام کردی گئی یہ اس بیابان میں (مجبور و لاچار ہو کر) سرگرداں رہیں گے سو تم نافرمان لوگوں کی حالت پر غمگین نہ ہو
فیصلہ الٰہی صادر ہوگیا کہ اس مردہ قوم سے زندہ قوم پیدا کرنے کے لئے وقت درکار ہے : 94: موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے ہاں جو علیحدگی کی درخواست دی تھی دراصل وہ قوم سے بیزاری کا نتیجہ تھی لیکن دربار الٰہی میں وہ منظور نہ ہوئی۔ کیوں ؟ اس لئے کہ پیغمبر قوم کے لئے بمنزلہ روح ہوتا ہے قوم سے اس کی علیحدگی اور وہ بھی اعلان برات کے ساتھ پوری قوم کے لئے پیغام ہلاکت ہوتی ہے اور اس قوم کو اس کی نافرمانی کے باوجود ابیئ ہلاک کرنا خلاف قانون تھی کیوں ؟ اس لئے کہ ان کی ہلاکت کا وقت ابھی نہیں آیا تھا جو قانون الٰہی میں طے ہوچکا تھا۔ اس لئے کہ اس مردہ قوم سے اس حی قیوم خدا کو ایک زندہ قوم پیدا کرنی تھی جیسا کہ وہ مردوں سے زندہ پیدا کرتا آیا ہے اور پیدا کرتا رہے گا ۔ اگر انہیں اس وقت فنا کردیا جاتا تو قانون الٰہی غلط ٹھہرتا اور یہ محال ہے اس لئے ان مردوں سے زندوں کو پیدا کرنے کے لئے ان کی نشوں کو باقی رکھا اور یہی وہ انبیاء کرام کا معجزہ ہے جو ہمیشہ تحدی کے ساتھ پورا ہوتا رہا کہ وہ مردوں سے زندہ پیدا کرتے ہیں اگرچہ یہ کام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے چونکہ ان سے اعلان کرایا جاتا ہے اس لئے ان کاموں کو ان کی طرف منسوب کردیتے ہیں اور اسکو ” باذن اللہ “ سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ جو کام اللہ کا تھا اس نے کیا لیکن اپنے نبی سے اعلان کرایا تھا اور پھر نبی کے اعلان کے بعد جب ایسا ہوا تو اس کی ایک نسبت نبی سے بھی جائز تھی۔ مختصر یہ کہ بنی اسرائیل کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) سے بطور تحدی یہ اعلان کرادیا گیا کہ اس نافرمانی کے باعث اب بنی اسرائیل قوم جو میدان تہیہ میں موجود ہے اور جس کو ملک شام داخل ہونے کے لئے کہا گیا ہے ” اب چالیس برس تک وہ سر زمین ان پر حرام کردی گئی ۔ یہ اس بیابان میں سر گرداں رہیں گے سو تم نافرمان لوگوں کی حالت پر غمگین نہ ہو۔ “ تاریخ عالم گواہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے ان کی نافرمانی کی سزا میں جو اس طرح اعلان کرایا گیا تھا وہ حرف یہ حرف پورا ہو ، موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) دونوں کی وفات اسی مدت کے اندر ہوگئی اور جب تک چالیس سال کی مدت پوری نہ ہوئی وہ اس عذاب کی زد سے باہر نہ آئے یہی اسلام کی زبان میں معجزہ کہلاتا ہے اور دنیا والے اس کو ” جادو وہ جو سر چڑھ بولے “ کے محاورہ سے ادا کرتے ہیں۔ اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قوم بنی اسرائیل اور موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ واقع جو اس جگہ آیت 20 سے آیت 26 تک سات آیتوں میں بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ درج کردیا جائے شاید میرے جیسے ناخواندہ لوگوں کو کچھ فائدہ پہنچ جائے۔
Top