Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 28
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَ١ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ : البتہ اگر تو بڑھائے گا اِلَيَّ : میری طرف يَدَكَ : اپنا ہاتھ لِتَقْتُلَنِيْ : کہ مجھے قتل کرے مَآ اَنَا : میں نہیں بِبَاسِطٍ : بڑھانے والا يَّدِيَ : اپنا ہاتھ اِلَيْكَ : تیری طرف لِاَقْتُلَكَ : کہ تجھے قتل کروں اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ رَبَّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے کبھی ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا ، میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام دنیا کا پروردگار ہے
قتل کرنے والے کو قتل نہ کرنا ” اپنے دفاع کو مانع نہیں ہوتا “ 99: اپنے قتل کی دھمکی سن کر بھی اس اللہ کے بندے نے قطعاً گرمی نہیں کھائی حالانکہ مظلوم ہو کر ظالم کے حق میں منہ سے کسی بات کا نکل جانا بالکل ایک فطری امر ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی اجازت دی ہے کہ ” تعین اشخاص کے ساتھ برائی کا اظہار صرف مظلوم کے لئے جائز ہے دوسروں کے لئے اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔ “ (النساء 4 : 148) ” بسطید “ کے معنی ہاتھ بڑھانے اور دست درازی کرنے کے ہیں اور اس جگہ بار ادہ قتل ہاتھ بڑھانے کا ذکر ہے اس لئے یہاں اس کے معنی ” اقدام قتل “ کے ہوں گے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم جس طرح میرے قتل کرنے کا اقدام کرنا چاہتے ہو تو میں یہ فرض کرکے کہ تم مجھے قتل کرنے پر تل گئے ہو تمہارے قتل کرنے کے لئے پہل کرنے والا نہیں اور پھر یہ بھی نہیں کہ میرے پاس اتنی جسمانی طاقت نہیں جتنی کہ تمہارے پاس ہے ، نہیں نہیں ! ایسی بات نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ میں رب العالمین سے ڈرتا ہوں جس نے ہم کو انسان بنایا اور ہمارے لئے قوانیں مرتب کردیئے اور بتادیا کہ کسی کو قتل کر کے اپنے آپ کو دوزخ کی آگ کا ایندھن بنادینا ہے اس لئے جو شخص چاہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس سلگائی ہوئی آگ سے اپنے آپ کو بچائے رکھے اس کو کسی شخص کے ناحق قتل سے بچا لینالوازمات شریعت میں سے ہے اس لئے میرا ہاتھ اس نیت کے ساتھ آپ کی طرف بالکل نہیں بڑھے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے آگے بڑھے گا تو میں ہاتھ باندھ کر تیرے سامنے قتل ہونے کے لئے کھڑا ہوجاؤں گا نہیں بلکہ بیٹھ جاؤں گا کہ تو مجھے آرام سے قتل کرسکے اور کسی قسم کی مدافعت نہیں کروں گا۔ بلکہ اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ تو میرے قتل کے درپے ہوتا ہے تو ہوتا رہے میں تیرے قتل کے درپے نہیں ہوں گا۔ تو میرے قتل کی تدبیر میں لگنا چاہے تو تجھے اختیار ہے لیکن میں یہ جاننے کے بعد بھی کہ تو مجھے قتل کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے یہ کوشش نہ کروں گا کہ پہلے ہی میں تجھے قتل کردوں۔ نہیں ایسا ارادہ میں کبھی نہیں کرسکتا کہ تیرے قتل کی تدبیریں میں بھی کرنا شروع کردوں۔ ہاں ! مدافعت کا حق اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا حق ہے اور اس کا استعمال کرنے کا کوئی جرم نہیں اور نہ اس کو کبھی نیکی کہا جاسکتا ہے کہ کوئی قتل کرنے کے لئے تل جائے تو اسکے اس اقدام کی روک تھام ہی نہ کی جائے نہیں جب وہ حملہ آور ہوگا توا س کے حملے کو بہادارنہ انداز میں روکا جائے گا اس لئے کہ اس کا نام مدافعت ہے ، اقدام قتل یا ارادہ قتل نہیں۔ ہاں ! اگر مسلمان ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہوں اور دونوں ہتھیاروں سے لیس ہو کر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لئے ایک دوسرے کی طرف بڑھیں اور پھر ان دونوں میں سے ایک قتل ہوجائے تو اسلام کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق دونوں جہنم رسید ہوں گے قاتل بھی اور مقتول بھی اس لئے کہ ان دونوں کا ایک دوسرے کو قتل کردینے کا ارادہ تھا اور دونوں ہی ایک دوسرے پر حملہ آور تھے یہ دوسری بات ہے کہ ایک وار چل گیا اور دوسرا بچ گیا اس لئے نبی اعظم وآخر ﷺ کا بھی ارشاد گرامی ہے کہ : إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْهِمَا ، ‏‏‏‏‏‏فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِی النَّارِ ، جب دہ مسلمان ایک دوسرے پر تلوار چلانے کے لئے آگے بڑھیں پھر ایک قتل ہوجائے تو اس طرح قاتل اور مقتول دونوں آگ کے مستحق ہوں گے۔ کیوں ؟ اسلئے کہ : ‏‏‏‏ إِنَّهُ کَانَ حَرِیصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِکہ وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کے ارادے سے آگے بڑھا تھا۔ “ اور یہ اصول آج شریعت محمدی (علیہ السلام) ہی میں نہیں بلکہ سارے انبیاء کرام کے دین کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے جو سب انسانوں کے درمیان ایک ہی حیثیت رکھتا ہے اس اللہ کے نیک بندے نے زبان کی پوری قوت سے یہ بات دو ٹوک سنا دی کہ میں اقدام قتل کے لئے کبھی سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس سے مجھے میرے دین نے روک دیا ہوا ہے اور میں وہ کام کرنے کے لئے تیار نہیں جس سے شریعت مانع ہو۔ ہاں ! میں اس کوشش میں ہوں اور رہوں گا کہ اقدام قتل آپ کی طرف سے ہو تو ہو میری طرف سے بالکل نہ ہو نہ ظاہراً اور نہ باطناً اور رہی مدافعت تو وقت پر ہوگی۔
Top