Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 31
فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِ١ؕ قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْ١ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ٤ۚۛۙ
فَبَعَثَ : پھر بھیجا اللّٰهُ : اللہ غُرَابًا : ایک کوا يَّبْحَثُ : کریدتا تھا فِي الْاَرْضِ : زمین میں لِيُرِيَهٗ : تاکہ اسے دکھائے كَيْفَ : کیسے يُوَارِيْ : وہ چھپائے سَوْءَةَ : لاش اَخِيْهِ : اپنا بھائی قَالَ : اس نے کہا يٰوَيْلَتٰٓى : ہائے افسوس مجھ پر اَعَجَزْتُ : مجھ سے نہ ہوسکا اَنْ اَكُوْنَ : کہ میں ہوجاؤں مِثْلَ : جیسا هٰذَا : اس۔ یہ الْغُرَابِ : کوا فَاُوَارِيَ : پھر چھپاؤں سَوْءَةَ : لاش اَخِيْ : اپنا بھائی فَاَصْبَحَ : پس وہ ہوگیا مِنَ : سے النّٰدِمِيْنَ : نادم ہونے والے
اس کے بعد اللہ نے ایک کوّا بھیجا وہ زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کا عیب کیونکر چھپانا چاہیے تھا ، وہ بول اٹھا کہ افسوس مجھ پر ! میں اس کوّے کی طرح بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کے عیب کو چھپا دیتا غرض کہ وہ بہت ہی پشیمان ہوا
ہابیل نے ابدی نیند سو کر قابیل کی عارضی زندگی کو دکھوں کا گھر بنا دیا : 102: دنیا کا کئی بھی مجرم جب کہ اس میں کچھ بھی انسانیت باقی ہو جرم کرلینے کے بعد کف افسوس ملنے پر مجبور ہوجاتا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ ایک تو اس کی وہ آتش غضب بجھ جاتی ہے جس سے اندھا ہو کر اس نے وہ اخلاقی جرم کیا ہوتا ہے اور اس کو اس جرم کی سزا بھی چونکا دینا شروع کردیتی ہے جو اس دنیا میں اس کے سامنے آموجود ہوتی ہے۔ یہی کچھ قابیل کے ساتھ بھی ہوا ہابیل کو ابدی نیند سلا کر اس کی آتش غضب بجھ گئی اور قتل کر چکنے کے بعد اب اس نے اپنے انجام قتل کے متعلق سوچنا شروع کیا کہ اب کیا ہوگا ؟ قتل کے بدلے میں قتل یا قید و بند کی سزا اور اس طرح کی سوچ و بچار کہ میں نے مقتول کے سارے دکھوں کا دروازہ بند کر کے اپنے لئے دکھوں کا دروازہ کھول لیا۔ وہ اس طرح کی سوچ و بچار ہی میں تھا کہ اس کو مشیت ایزدی کا بھیجا ہوا کو انظر آیا جو زمین کو کرید کر کوئی چیز اس میں چھپانے میں مصروف تھا۔ کو ّے اور کتے کی فطرت میں یہ داخل ہے کہ وہ کھانے کی چیز کو جہاں تک طلب ہو کھا لیتا ہے اور باقی اگر اس کا بس چلے تو کسی دور مقام پر لے جا کر زمین کرید کر اس میں چھپا دیتا ہے اور جب پھر اس کو اشتہا ہوتی ہے تو وہاں سے نکال کر کھا جاتا ہے ۔ آسمان و زمین کی ہرچیز اللہ تعالیٰ کے تکوینی احکام کے مطابق کام کرتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس تکوینی حکم کے پابند کوے کو بھیجا جو اس کے قریب ہی بیٹھ کر اپنے کھانے کی چیز کو زمین کرید کر دبانے لگا۔ اس طرح کوے کا وہ فطری عمل اس کے لئے درس عبرت بن گیا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کسی وجہ سے غضبناک ہوتا ہے تو اس پر کوئی نصیحت بھی اثر نہیں کرتی لیکن جب اس کی آتش غضب بجھ جاتی ہے تو اس کے لئے تنکے اور درختوں کے پتے بھی واعظ بن جاتے ہیں اور وہ دل ہی دل میں ہرچیز سے سبق لینا شروع کردیتا ہے۔ یہی بات یہاں ہوئی کہ کوے کی کرید کے اس عمل نے اس کے دل میں القاء کردیا کہ ہائے افسوس کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں اس کوے کی طرح اپنے بھائی کے اس گناہ کو جو میرے تصور میں اس کا گناہ تھا ڈھانپ دیتا جس سے نہ قتل کا مرتکب ہوتا نہ اس سزا کا منتظر جو اب میرا مقدر بن چکی ہے شومٔی قسمت کہ میں کیا تھا اور کیا بن گیا۔ آج میرے سے بہتر تو یہ کوا ہے جو اپنی مرضی کے مطابق اڑتا اور اپنی مرضی سے بیٹھتا اور کھاتا پیتا ہے وہ کوا ہو کر آزاد ہے اور میں انسان ہو کر قید کو ٹھری میں بند ہوں۔ قابیل کے تصور میں ہابیل کا کیا گناہ تھا ؟ یہی کہ جو اس نے فرض کرلیا تھا کہ ” صدقہ وصول کرنیوالوں سے اس نے میری شکایت کی ہے “ اور ” میرے عیب و نقائض بیان کئے ہیں کہ میں متقی و پرہیز گار نہیں۔ “ لوگوں کے سامنے اس نے میری برائی کی ہے۔ “ غور کیجئے کہ ایک وہ وقت تھا کہ اس پر ہابیل جیسے بردبار ، عقل مند ، متقی و پرہیز گار اور اپنی سوچ و سمجھ میں مجھے ہوئے بھائی کی نصیحت بھی اثر پذیر نہیں ہو رہی تھی اور ایک وقت یہ ہے کہ کوے جیسا شرارتی اور بےزبان جانور اس کے لئے تفراط و سقراط اور افلاطون کی نصیحتوں سے بھی بڑھ کرنا صح بن گیا ہے معلوم ہے کیوں ؟ اس لئے کہ اب ہابیل سامنے موجود نہیں اور سامنے آنے کا کوئی امکان بھی نہیں۔ اپنے دل کو ٹٹولو ، اپنے اردگرد دیکھو کتنے بھائی ہیں جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آتے تھے لیکن ایک کے مر جانے کے بعد دوسرا اس کے گیت گاتا نظر آتا ہے اس کے مناقب بیان کرتا تھکتا ہی نہیں۔ اس لئے کہ اب اس کے آنے کا کوئی امکان نہیں۔ قابیل کے دل کی بات اب اس کی زبان پر جاری ہوگئی اور وہ بےساختہ بول اٹھا : 103: اس کوّے کی فطری حرکت اس کے دل کی گہراہیوں تک پہنچ چکی تھی اس لئے جو اس کی آنکھوں نے دیکھ کر دل تک پہنچا یا تھا اس کا دل اس قدر لبریز ہوا کہ اس کی زبان پر بےساختہ جاری ہوگیا کہ ” افسوس مجھ پر ! میں اس کوے کی طرح بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کے عیب چھپا دیتا اور اس طرح وہ بہت پشیمان ہوا۔ “ اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔ “ اس میں تفہیم یہ کرانا مقصود ہے کہ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اگر وہ وقت پر ہو تو خوبی ہے اور بےوقت ہو تو عیب قابیل کے سنبھلنے کا ایک وقت تھا کہ وہ اپنے بھائی کے ناکردہ گناہ کو گناہ ہی سمجھ کر برداشت کرجاتا تو بھی اس کے حق میں اچھا ہوتا لیکن اب جب کہ اس کا وقت نکل گیا تو اس کا افسوس اور پشیمانی بھی اس کی خوبی کی بجائے اس کا عیب ہی ثابت ہوئی۔ کتنے پچھتانے والوں کا ذکر قرآن کریم نے کیا لیکن وقت نکل جانے کی وجہ سے ان کو اس سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ کیا فرعون نہیں پچھتایا تھا ؟ کیوں نہیں وہ یقیناً پچھتا یا تھا اور اس نے پکار پکار کر کہا تھا کہ ” میں یقین رکھتا ہوں کہ اس ہستی کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنو اسرائیل ایمان رکھتے ہیں اور میں بھی اس کے فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ “ یہ بات کتنی سچی تھی لیکن اس نے کب کہی ؟ قرآن کریم کہتا ہے اس وقت کہی جب حتی اذا اتر کہ الغرق فرعون سمندر میں غرق ہونے لگا ۔ اس کو اس سچی بات کہنے کا کوئی فائدہ ہوا ؟ نہیں بلکہ الٹا نقصان ہوگیا کہ اس کی نعش کو محفوظ رکھ کر رہتی دنیا تک کے لئے ایک عبرت بنا دیا کہ متکبرین و مفسدین کا ایسا انجام ہوتا ہے جو فرعون کا ہوا۔ (یونس 10 : 89 ، 90) ساری زندگی ضد اور عناد میں گزارنے والوں کا حال بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ” ان میں سے کسی کے سرہانے موت آکھڑی ہوگی تو اس وقت وہ کہنے لگا ” خدا یا ! مجھے پھر لوٹا دے کہ زندگی میں جو مواقع میں نے کھودیئے ہیں شاید ان میں نیک کام کرسکوں۔ “ حکم ہوگا ہرگز نہیں یہ محض ایک کہنے کی بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اب ایسا ہونے والا نہیں۔ “ (المومنون 23 : 99) اس طرح اب جب کہ جو کچھ ہونا تھا وہ ہوگیا قابیل کے دل کی گہراہیوں میں اترنے والی کوے کی بات اس کے لئے کیسے فائدہ مند ہو سکتی ہے ہاں ! توبہ و استغفار کا مقام اپنا ہے اور اس کا طریقہ بھی معین و مقرر ہے اگر اللہ کسی کو توفیق عطا فرمادے۔ انسانی فطرت کا یہ پہلو بھی اس سے اجاگر ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایک ہی انسان جب ظلم کرنے پر تل جاتا ہے تو ظلم کی انتہا کردیتا ہے اور اگر رحم ولی پر آتا ہے تو اس کی نرم دلی کی حالت بھی بڑی عجیب ہوتی ہے مثلاً ظلم کرنے پر آیا تو سینکڑوں انسانوں کو تہ تیغ کردیا ، فصلیں برباد کیں ، باغات کو تہس نہس کردیا اور بربریت کی حد کردی پھر اگر پکڑا گیا اور جیل بھیج دیا گیا تو اب چڑیوں اور کو وں کو نہیں بلکہ چیوٹیوں تک کے بلوں کو تلاش کر کے ان کو خوراک پہنچائی اور ان پر رحم کھایا۔ دل چاہا انسانوں کے حقوق غصب کئے ان کا مال کھایا۔ رشوتیں لیں۔ مزدروں کی مزدوری دبائی۔ لوگوں کی روز مرہ اشیاء میں ملاوٹ کی۔ کم تولا۔ کم ماپا لینے کے باٹ الگ اور دینے کے الگ رکھے۔ سود کھایا۔ کتنے لوگوں کی جائیدادیں ہضم کر گیا۔ کتنوں کی زمینیں ہتھیائیں۔ عدالتوں میں جھوٹی شہادتیں دیں لیکن جب رحم پر آیا تو کتوں کو حلوا کر کے کھلایا۔ ان کے لئے سپیشل روٹیاں پکوائیں۔ ان کی نگرانی کے لئے تنخواہ دار مقرر کئے ، محرم میں سبیلیں لگوائیں اور دیگیں پکا کر تقسیم کیں۔ واہ رے انسان تیرا کردار بھی بڑا ہی عجیب ہے کہ ایک طرف ہابیل جیسے متقی اور پرہیز گار انسان کا وعظ دل نشین بھی تجھ پر موثر نہ ہوسکا اور تیرے دل کی لوح پر اس کا ذرا اثر نہ ہوا اور دوسری طرف تو نصیحت حاصل کرنے لگا تو کوے کے فطری طور پر زمین کریدنے سے حاصل کرلی اور تو پکار اٹھا کہ ” افسوس مجھ پر میں اس کوے کی طرح بھی نہ ہوسکا۔ “ اللہ تعالیٰ کی اس نصیحت بھری مثال سے انسان کو سبق حاصل کرنا چاہئے اور ہر آن اپنا تجزیہ کر کے دیکھتے رہناچاہئے کہ اس وقت وہ کونسا کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس جگہ ان آیات کی تفسیر تو اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ ” قابیل نے جب ہابیل کو مار ڈالا تو اب معلوم نہ تھا کہ وہ کیا کرے اور کس طرح اس کو چھپائے کیونکہ دنیا میں یہ پہلا قتل تھا اور پہلی موت تھی۔ سال بھر تک تو قابیل اپنے بھائی کی لاش اپنے کندھے پر لادے پھرتا رہا اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ کیا کرے تو اللہ نے دو کوے بھیجے وہ دونوں بھی آپس میں بھائی بھائی تھے۔ یہ اس کے سامنے لڑنے لگے یہاں تک کہ ایک نے دوسرے کو مارا ڈالا پھر ایک گڑھا کھود کر اس میں اس کی لاش کو رکھ کر اوپر مٹی ڈال دی۔ یہ دیکھ کر قابیل کی سمجھ میں آگیا اور اس نے بھی ایسا ہی کیا۔ “ پیچھے انہی مفسرین کی تفسیر میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ ” آدم اور حوا (علیہما السلام) دنیا میں آئے اور توالد و تناسل کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر ایک حمل سے ان کے دو بچے توام پیدا ہوئے ایک لڑکا اور دوسری لڑکی۔۔۔۔۔ شریعت آدم (علیہ السلام) میں یہ خصوصی حکم اللہ نے جاری کیا کہ ایک حمل سے جو لڑکا اور لڑکی پیدا ہوں وہ بہن بھائی ہیں۔۔۔۔ لیکن دوسرے حمل سے پیدا ہونے والے لڑکے کے لئے پہلے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی حقیقی بہن بھائی کے حکم میں نہیں ہوگی اور ان کے درمیان رشتہ ازواج ومناکحت جائز ہوگا۔ “ فرض کیا کہ قابیل پہلے ہی حمل کا لڑکا تھا تو دوسرے حمل کا لڑکا ہابیل ہوا۔ ان کے جوان ہونے تک پہنچنے کے عرصہ میں آدم و حوا کے ہاں کتنے جوڑے پیدا ہوچکے ہوں گے۔ مفسرین نے دو حملوں کی درمیانی مدت مختلف بتائی اور جو سب سے زیادہ ہے وہ ایک سال ہے تو اس طرح سولہ اٹھارہ سال تک کی مدت جو بلوغت کی تمام مدت ہے اس جگہ اس خاندان میں 34 یا 38 لوگ کم از کم ہوئے۔ اتنے انسانوں ہی سے قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا تو اب فطری طور پر ہابیل کی لاش کی فکر قاتل کو ہونا چاہئے تھی یا باقی ورثاء کو ، اصل ورثاء کا کردار کیا ہوا ؟ اس طرح ایک سال تک قابیل کی لاش کندھے پر رکھ کر پھرتے رہنا ۔ دو کو وں کا آنا۔ ان کا آپس میں لڑنا پھر ایک دوسرے کو ماردینا۔ پھر مارنے والے کوے کا مرنے والے کوے کی لاش کو دبانا ساری باتیں ایسی ہیں جن کا قرآن کریم اور احادیث نبوی (علیہ السلام) میں ذکرتک موجود نہیں اور یہ سب باتیں فرض کی گئی ہیں۔ ان فرض کی گئی باتوں سے ہماری زندگی کے لئے کیا سبق نکلا ؟ ظلم کرو اور ظلم کا پتہ نہ چلنے دو کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے۔ ایسے ظالموں کا اللہ مدد گار ہوتا ہے اور انکے ظلم کو ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے تکوینی قانون کے مطابق ایسے ظالموں کی مدد پرندوں تک سے کرادیتا ہے تاکہ وہ مزید ظلم کرسکیں ۔ خاکم بدہن کہ ایسا تصور بھی کوئی مسلمان کرسکے۔ قابیل کا ہابیل کی لاش چھپانے کا تصور کہاں سے پیدا ہوا ؟ یہ بات تو یقینی ہے کہ تورات میں ہابیل کے لاشہ کی تدفین کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا کہ وہ کیسے ہوئی اور کس نے مل کر کی یا کسی ایک نے کی۔ ہاں ! شارحین تورات نے ایک پرند کا ذکر کیا اگر وہ کوا نہیں پھر اس پر ند کو آدم وحوا نے ایسا کرتے دیکھ کر ہابیل کا لاشہ زمین میں و دفن کردیا۔ ملاحظہ ہو جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد اول ص 49۔ لیکن مفسرین اسلام میں سے جن مفسرین نے یہ کہانی بیان کی وہ قرآن کریم کے درج ذیل الفاظ کے تحت بیان کی اور وہ الفاظ یہ ہیں : لِیُرِیَهٗ کَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِ 1ؕ: ” تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔ “ یعنی کوے نے زمین کرید کر قابیل کو یہ تعلیم دی کہ وہ اپنے بھائی کی لاش اس طرح چھپادے۔ “ ہم نے ان الفاظ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ” تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کا عیب اسے کیسے چھپانا چاہئے تھا ۔ “ اب دونوں ترجموں کا تجزیہ کر کے دیکھو کہ ماحصل کیا ہوا۔ 1۔ دونوں ترجموں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ قابیل قتل کرلینے کے بعد پریشان ہوگیا۔ 2۔ پہلے ترجمہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قابیل کی پریشانی و پشیمانی یہ تھی کہ وہ لاش کا کیا کرے۔ 3۔ دوسرے معنوں سے یہ معلوم ہوا کہ قابیل کی پریشانی و پشیمانی یہ تھی کہ اس نے قتل کر کے اپنے آپ کو مشکلات میں پھنسالیا ہے۔ 4۔ پہلے ترجمہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کوا بھیج کر قابیل کی راہنمائی فرمائی کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو اس طرح زمین کرید کر زمین کے اندر دفن کردے۔ 5۔ دوسرے ترجمہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے تکوینی قانون کے مطابق کوا بھیج کر قابیل کو یہ بتایا کہ تیرے لئے بہتر ہوتا کہ تو اپنے بھائی کے عیب پر اس طرح مٹی ڈال دیتا تو تجھے اس پریشانی و پشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ کیونکہ پشیمانی کے عالم میں انسان کا اپنا فطری فعل بھی ہے کہ وہ زمین کریدتا ہے۔ اب سمجھنا یہ ہے کہ جس لفظ کا ترجمہ ہمارے مترجمین نے ” لاش “ کیا ہم نے اس کا ترجمہ ” عیب “ کیسے کردیا ؟ قرآن کریم کا وہ لفظ جس کے ترجمہ میں یہ تفاوت ہوئی وہ ہے ” سوء ۃ “ دیکھنا یہ ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم نے کیا دوسری جگہ پر بھی استعمال کیا ہے یا نہیں ؟ قرآن کریم میں یہ لفظ دوسری جگہ آدم اور حوا (علیہما السلام) ہی کے متعلق استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ : فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا (الاعراف 7 : 20) ” پھر شیطان نے ان کو بہکایا تاکہ ان کی ” شرم گاہیں “ جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں ان کے سامنے کھول دے۔ “ اور ایک جگہ ارشاد ہے۔ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا (الاعراف 7 : 22) ” آخر کار جب ان دونون نے اس درخت کا مزہ چکھا تو ان کے ” ستر “ ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے۔ “ ایک جگہ بنی آدم کا ذکر کر کے فرمایا : یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا 1ؕ (الاعراف 7 : 26) ” اولاد آدم ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے ” قابل شرم حصوں “ کو ڈھانکے اور تمہارے لیے زینت کا ذریعہ بھی ہو۔ “ ان تینوں مقامات پر ترجمہ مختلف ہے تاہم اس کا مفہوم ایک ہے یعنی ” شرم گاہیں “ ” ستر “ ” قابل شرم حصے “ اور اسی مادہ ہے سۃ ۔ سیاتکم ۔ سئاتنا۔ سیئاتہ ۔ سئاتھم قرآن کریم میں بہت جگہ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ ان کا ترجمہ ” برائی اور عیب “ ہی کیا جاتا ہے کیونکہ ہر برائی عیب ہے۔ چناچہ لغات القرآن میں ہے کہ : سو وئ ، سآئ ، یسوء ، سوء وسوۃ وسیئا و سیئۃ ۔ بدعت ساویۃ ای نقائصہ ومعائبہ ۔ ا سکے نقائص و عیوب ظاہر ہوگئے۔ (مصباح المنیر) اسوء ۃ فی الاصیل الفرج ثم نقل الی کل ما یستحیا منہ اذا ظھر من قول او فعل اسوء ہ ۔ اصل میں ” شرم گاہ “ کو کہتے ہیں لیکن اسکا استعمال اس قول اور فعل پر ہوتا ہے جس سے انسان کو شرم آئے۔ (نہایہ ابن الاثیر) سوء اے قبح نقیض حسن۔۔۔۔۔ یکن من الفرج بالسوئۃ سوء ، کا لفظ حسن کا مخالف ہے ہر برا کام یا کلام جو شرم گاہ سے کنایہ ہے یعنی کنایتاً شرم گاہ کو بھی کہتے ہیں ۔ (مفردات امام راغب) اس سے ثابت ہوگیا کہ سوئۃ کے اصل معنی ” برائی “ ” عیب “ اور ” نقص “ کے ہیں اور ویسے بھی ہر برائی عیب بھی ہے اور نقص بھی ۔ ہر عیب برائی بھی ہے اور نقص بھی اور ہر نقص عیب بھی ہے اور برائی بھی اور اس لفظ سوئۃ سے ” شرم گاہ “ ” ستر “ قابل شرم حصہ “ اور ” لاش “ مراد لئے جاسکتے ہیں کیونکہ ہر مرنے والے کا ستر کھل جاتا ہے اور وہ خود اس کو ڈھانپ نہیں سکتا۔ اس لئے ہم نے سوئۃ کا ترجمہ ” عیب ‘ ‘ کیا ہے اور ہم سے میری مراد وہ سب لوگ ہیں جن لوگوں نے سوء ۃ کا ترجمہ ” برائی “ اور ” عیب “ اور ” نقص “ کیا ہے اردو مترجمین نے زیادہ تر اس کے معنی ” لاش “ کے کئے ہیں۔ قارئین کرام کو اختیار ہے وہ ان معنوں میں سے جب کو چاہیں اختیا کریں ۔ جہاں وسعت موجود ہے ہم اس میں تنگی ڈالنے والے کون ہیں۔
Top