Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 32
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ١ؔۛۚ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ١٘ ثُمَّ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ
مِنْ : سے اَجْلِ : وجہ ذٰلِكَ : اس كَتَبْنَا : ہم نے لکھدیا عَلٰي : پر بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَنَّهٗ : کہ جو۔ جس مَنْ قَتَلَ : کوئی قتل کرے نَفْسًۢا : کوئی جان بِغَيْرِ نَفْسٍ : کسی جان کے بغیر اَوْ فَسَادٍ : یا فساد کرنا فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَكَاَنَّمَا : تو گویا قَتَلَ : اس نے قتل کیا النَّاسَ : لوگ جَمِيْعًا : تمام وَمَنْ : اور جو۔ جس اَحْيَاهَا : اس کو زندہ رکھا فَكَاَنَّمَآ : تو گویا اَحْيَا : اس نے زندہ رکھا النَّاسَ : لوگ جَمِيْعًا : تمام وَ : اور لَقَدْ جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آچکے رُسُلُنَا : ہمارے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : روشن دلائل کے ساتھ ثُمَّ : پھر اِنَّ : بیشک كَثِيْرًا : اکثر مِّنْهُمْ : ان میں سے بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں لَمُسْرِفُوْنَ : حد سے بڑھنے والے
اس وقت سے ہم نے بنی اسرائیل کے لیے حکم لکھ دیا تھا کہ جس کسی نے سوا اس حالت کے قصاص میں لینا ہو یا ملک میں لوٹ مار مچانے والوں کو سزا دینی ہو کسی جان کو قتل کر ڈالا تو گویا اس نے تمام انسانوں کا خون کیا اور جس کسی نے کسی کی زندگی بچا لی تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی دے دی اور ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آتے رہے لیکن اس پر بھی ان میں سے اکثر ایسے نکلے جو ملک میں زیادتیاں کرنے والے تھے
ہر برائی بنی اسرائیل کے لئے بھی برائی ہی تھی وہ اس سے مستثنیٰ نہیں تھے : 104: اس تمثیل سے جو آیت 27 سے 31 تک پانچ آیات میں بیان کی گئی پہلے بھی بنی اسرائیل کا ذکر تھا اور اس کے بعد بھی بنی اسرائیل ہی کا ذکر شروع ہوگیا جس سے یہ بات خود بخود واضح ہوگئی کہ اس اصول سے کوئی قوم مستثنیٰ نہیں کہ جو برائی کرتا ہے وہ برا ہے اور ہر برا اپنی برائی کا وبال اٹھاتا تھا اٹھاتا ہے اور اٹھاتا رہے گا۔ گویا اس میں قوم بنی اسرائیل کے اس گھمنڈ کا جواب دے دیا گیا کہ ” ہم چوما دیگرے نیست “ دوسری وجہ اس تمثیل کے بیان کی یہ تھی کہ قوم بنی اسرائیل کے اندر وہ ساری صفات پائی جاتی تھیں جو اس قاتل میں بیان ہوئیں جس کا نام قابیل بتایا گیا ہے کہ وہ خود گناہ گار تھا لیکن دوسروں کو گناہ گار سمجھتا تھا ۔ جس وقت ان کو یہ تمثیل سنائی گئی اس وقت ان کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ (علیہ السلام) کے متبعین تھے۔ جس طرح قابیل نے اپنے بھائی کے قتل ناحق کے لئے بہانہ تلاش کیا بالکل اسی طرح قوم بنی اسرائیل نے من حیث القوم اپنے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل سے ہونے والے نبی محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کو قتل کرنے کا بہانہ تلاش کیا۔ جس طرح ہابیل نے اپنے بھائی قابیل کو اس برے اقدام سے بچنے کی تلقین کی اور اپنی طرف سے پہل نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ بالکل پیغمبر (علیہ السلام) نے بھی اسی طرح قوم بنی اسرائیل کو ان کے برے عزائم سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اپنی طرف سے معاہدہ کر کے ان کو یقین دہانی کرائی کہ اسلام تم کو کسی حال میں مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کرے گا صرف امن بحال رکھنے کے لئے تمہاری حفاظت اپنا فرض سمجھتا ہے بشرط کہ تم بھی بدامنی نہ پھیلاؤ ۔ جس طرح قابیل میں سر کشی ، نخوت اور تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا گیا تھا بالکل اسی طرح قوم بنی اسرائیل میں بھی یہ سارے عیوب و نقائض بدرجہ اتم موجود تھے لیکن وہ اپنے کسی جرم اور کسی نقص کو جرم یا نقص ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ جس طرح قابیل نے اپنے ارادہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مذموم قدم اٹھایا اسی طرح بنی اسرائیل نے بھی اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مذموم حرکت کی اور نبی کریم ﷺ اللہ کے رسول تھے آپ (علیہ السلام) کو فوراً مطلع کردیا گیا جس کی اطلاع پا کر آپ (علیہ السلام) وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اس طرح ان کی سکیم فیل ہوگئی ۔ قابیل اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر کے پریشان و پشیمان ہوا کہ وہ قتل عمد کی سزا میں قید یا ملک بدر کردیا گیا اس طرح بنی اسرائیل کو ان کی بستیوں سے نکال باہر کردیا گیا کہ فرد جرم ان کی بھی وہی تھی جو قابیل کی تھی اور اقدام قتل ہمیشہ قتل ہی کی سزا میں آتا ہے اگرچہ اس کا قصاص نہیں ہوتا۔ ” اس وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا “ کے الفاظ پر غور کرو کہ وہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا قانون الٰہی میں اعلاناً موجود تھا جو دوسری اقوام عالم کے لئے تھا ۔ جب ان کو فضیلت دی گئی تو وہ محض اس وجہ سے تھی کہ ان میں ابیق اس طرح کے لوگ موجود تھے جو ان کو ان کے ارادوں میں کامیاب ہونے سے باز رکھ رہے تھے اور کسی غلط کام کا ارادہ کرنا پھر اس سے باز آجانا بجائے خود ایک نیکی ہے اس لئے وہ اس سے مستفید ہوتے رہے لیکن جونہی قابلب کی طرح انہوں نے اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنا لیا تو وہ تمام جہانوں میں فضیلت قرار دیئے گئے خائب و خاسر اور ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” دنیا میں جب بھی کوئی ظلم سے قتل ہوتا ہے تو اس کا گناہ اس ابن آدم کی گردن پر بھی پڑتا ہے جس نے ابتداً ظلم سے قتل کرنے کی سنت جاری کی۔ “ (بخاری ، مسلم ، ترمذ ، نسائی ، ابن ماجہ ، ابن خزیمہ ، ابن منذر کے حوالہ سے درمشور میں عبد اللہ بن مسعود سے مرفوعاً روایت ہے) صرف قتل کے لئے یہ مخصوص نہیں بلکہ عام اصول خداوندی ہے کہ ہر ضلالت جس کو کسی نے جنم دیا یعنی اس کی ابتداء ً کی جوں جوں وہ ضلالت پھیلتی جاتی ہے تو اسکی ابتداء ً کرنے والے کو بھی اس میں سے مکمل حصہ ملتا رہتا ہے اور اس اصول کے مطابق جب کوئی شخص کسی ہدایت کا سبب بنتا ہے تو جب تک اس ہدایت کے کام پر عمل ہوتا رہتا ہے اس ہدایت کرنے والے کو بھی اس کا اجر ملتا رہتا ہے اور اس کا اعلان بھی خود نبی اعظم و آخر ﷺ کی زبان اقدس سے ہوچکا ہے فرمایا : ( مَنْ دَعَا إِلَی ہُدًی کَانَ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْئًا وَمَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَةٍ کَانَ عَلَیْهِ مِنْ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِهِمْ شَیْئًا ۔ ) ( مشکوٰۃ المصابیح بحوالہ صحیح مسلم ح : 2303) ( مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَیِّئَةً کَانَ عَلَیْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَیْئٌ) ( صحیح مسلم ج اول ص 227) مَنْ أَحْیَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِی قَدْ أُمُیتَ بَعْدِی فَإِنَّ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلَ اُجُوۡرَمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْئًا وَمَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لَا یُرۡ فِیھَا اللَّهَ وَرَسُولَهُ کَانَ عَلَیْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَیْئًا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح بحوالہ ترمذی ح : 588) اسی طرح یہ ارشادات نبی اعظم و آخر ﷺ کے بیان ہوئے اور ان کی مثل کتب احادیث میں بہت وارد ہوئے ہیں یہ دراصل قرآن کریم کی آیات کریمات ہی کی تشریحات اور تفسیر ہیں۔ آپ (علیہ السلام) نے جو کچھ فرمایا ہے وہ : ” وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ؕ003 “ کے اصول کے بالکل مطابق ہے چناچہ قرآن کریم میں ہے کہ : وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْٞ وَ لَیُسْـَٔلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ (رح) 0013 (العنکبوت 29 : 13) ” اور وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت سے بوجھ بھی اور قیامت کے روز یقیناً ان سے ان افتراء پردازیوں کی باز پرس ہوگی جو وہ کرتے رہے ہیں۔ “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : لِیَحْمِلُوْۤا اَوْزَارَهُمْ کَامِلَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ 1ۙ وَ مِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ 1ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ (رح) 0025 (النحل 16 : 25) ” وہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی میرے اوپر اٹھائیں گے اور ساتھ ساتھ کچھ ان لوگوں کے بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں وہ اپنی جہالت کے باعث گمراہ کرتے رہے تھے ۔ غور کرو کتنی سخت ذمہ داری ہے جس کو انہوں نے بخوشی اٹھا لیا ہے۔ ازالہ وہم ان احادیث اور آیات کریمات سے کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ قرآن کریم میں جب یہ اصول بیان کردیا گیا تھا کہ : اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۙ0038 (النجم 53 : 38) ” کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا “ تو اب یہ کس طرح کہہ دیا گیا کہ ” وہ اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے لہب سے بوجھ بھی اٹھائیں گے۔ “ یہ بالکل صحیح کہا گیا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ” یہ دوسرے بوجھ “ یا ” دوسروں کے بوجھ “ بھی دراصل ان کے اپنے ہی بوجھ ہیں کیونکہ وہ خود غلط راستہ پر جا رہے تھے لیکن انہوں نے دھوکا و فریب سے دوسروں کو صحیح راستہ باور کرا کر اس راستہ پر لگالیا اس طرح ظاہر ہے کہ وہ دو ہرے جرم کے مرتکب ہوئے خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کی گمراہی کا باعث بھی ہوئے۔ سزا یقیناً دونوں کو ملے گی لیکن جو سزا پہلوں کی وہ پچھلوں سے دو گنی ہوگی کیونکہ انہوں نے اپنے کندھوں پر دوسروں کا بوجھ بھی خود ہی لاد لیا تھا۔ اس کو اس طرح سمجھ لو کہ ایک شخص خود بھی چوری کرتا ہے اور کسی دوسرے شخص کو بھی کہہ کہلا کر اپنے ساتھ شریک کرلیتا ہے اور یہ دونوں پکڑے جاتے ہیں تو کوئی عدالت بھی اس دوسرے چور کو اس بناء پر نہ چھوڑدے گی کہ اس نے دوسرے کے کہنے پر جرم کیا ہے۔ چوری کی سزا تو بہر حال اسے ملے گی اور کسی اصول انصاف کی رو سے بھی یہ درست نہ ہوگا کہ اسے چھوڑ کر اس کے بدلے کی سزا اس پہلے چور کو دے دی جائے جس نے اسے کہہ کہلا کر چوری پر لگایا تھا لیکن وہ پہلا چور اپنے جرم کے ساتھ اس جرم کی سزا بھی پائے گا کہ اس نے خودچوری کی لیکن دوسرے کو بھی اپنے ساتھ چور بنا ڈالا۔ قانون الٰہی میں ناحق کسی جان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے : 105: ناحق قتل کی تشریح تو خود آیت کے اندر کردی گئی کہ وہ کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ ” جو کوئی کسی کو کسی جان کے عوض کے یا زمین پر فساد کے عوض کے بغیر مار ڈالے۔ “ وہ قتل قتل ناحق ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں ہے : مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ اور اس کو ہم نے اس طرح بیان کیا کہ ” جس کسی نے سوا اس حالت کے کہ قصاص لیتا ہو یا املک میں لوٹ مارمچانے والوں کو سزا دینی ہو کسی جان کو قتل کر دالا تو گویا اس نے تمام انسانوں کا خون کیا۔ “ یہ قانون کی بات نہیں بلکہ احترام انسانیت کا مسئلہ ہے اور ناحق قتل کے جرم کی وضاحت ہے۔ ” جان کے بدلے جان “ کا مسئلہ تورات میں بھی موجود ہے اس جگہ مقصود یہود کی شرارت و شقاوت کو نمایاں کرنا ہے اس قانون قصاص کا اصل فلسفہ بیان کردیا تاکہ یہود پر قتل نفس کی سنگینی واضح ہوجائے جو قتل ناحق میں اتنے بےباک ہیں کہ عام انسان تو کجا انہوں نے انبیائے کرام کو معاف نہیں کیا جو ان کی خیر خواہی کے لئے بھیجے گئے تھے ان کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لئے کوشاں تھے ان کی دینوی زندگی کی کامیابی کے گر سکھاتے تھے وہ ان کو قتل کرنے سے باز نہ آئے تھے ان کو انسانیت کا احترام سکھانے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ حدیث میں ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” جو شخص مر گیا گویا اس کی قیامت بپا ہوگئی “ کیوں اس لئے کہ وہ مر گیا تو اس دار فانی سے رخصت ہوگیا اور پھر کبھی وہ اس دنیا میں نہیں آئے گا اس لئے اس کی قیامت تو بپا ہوگئی۔ اس اصول کے مطابق یہ بات بھی ہے کہ جو شخص خود قتل ہوگیا اب اس کیلئے باقی اس دنیا میں کیا رہ گیا یقیناً اس کے لئے تو پوری دنیا کا نظام ختم ہوگیا اور جس نے اس کو قتل کیا اس نے ایک ہی کو قتل نہ کیا بلکہ پوری انسانیت کو قتل کردیا۔ قانون الٰہی میں قتل ناحق سے کسی کو بچا لینا پوری انسانیت کو بچا لینا ہے : 106: ” اَحْیَاہَا “ اَحْیَاکے معنی اس جگہ زندہ کرنے کے نہیں بلکہ موت سے بچا لینے کے ہیں یا اسباب ہلاکت سے دور رکھنے کے۔ فرمایا جس طرح قتل ناحق کا جرم اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کا مرتکب ایک قتل کا مرکتب کیا ہوا اس نے تو ساری انسانیت کا خاتمہ کردیا بالکل اسی طرح کسی کو قتل ناحق سے بچا لینے کے اجر وثواب کو اتنا بڑا اجر وثواب قرار دیا کہ اس نے ایک انسان کو ناحق قتل ہونے سے کیا بچایا اس نے تو ساری دنیا کو قتل ناحق ہونے سے بچالیا۔ جس طرح قتل ناحق کرنا اتنا بڑا جرم تھا اس طرح قتل ناحق سے کسی کو بچانا اتنا بڑا اجر کا موجب ہوگیا۔ اس لئے کہ : 1۔ ناحق قتل کا حادثہ اگر معرض وجود میں آجاتا تو پوری قوم میں ہل چل مچ جاتی اور پھر جب تک اس کا قصاص نہ لے لیا جاتا ، پوری قوم بےچین رہتی اس لئے کہ ایک ناحق قتل کرنے والے کو دوسرا ناحق قتل کرنا زیادہ آسان ہوجاتا اس کی دلیری بڑھ جاتی اور پوری قوم میں خوف وہراس پھیلتا جس طرح آج کل اس ناحق قتل کے باعث پھیل چکا ہے اور پوری قوم کا امن غارت ہو کر رہ گیا۔ 2۔ اگر یہ ناحق قتل ہوجاتا تو ناحق قتل کرنے والے کو مقتول کے ورثاء قتل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے اور پھر اس طرح یہ لاتمناہی سلسلہ قتل شروع ہوجاتا جیسا کہ آج کل سیاسی پاڑتیوں کی کش مکش میں ہو رہا ہے جس کے نتیجہ میں پور قوم بےچین ہے اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کس وقت کیا ہوگا ؟ 3۔ ناحق قتل سے بچا کر اس نے صرف ناحق قتل ہونے والے ہی پر احسان نہیں کیا بلکہ ناحق قتل کرنے والے پر بھی احسان کیا ہے کہ اگر وہ ناحق قتل کردیتا تو خود بھی اسکی پاداش میں قتل کیا جاتا یا ساری زندگی اس کی دربدر دھکے کھاتے گزرتی اور بےچینی کے عالم سے وہ ساری زندگی نہ نکل سکتا۔ یہ سارا کچھ قوم یہود کو سمجھانے کے لئے بیان کیا گیا تھا تاکہ وہ ان باتوں کو سمجھ کر اسلام کے اصولوں اور اسلامی تعلیمات کے قریب آئیں اور آہستہ آہستہ اس کی برکات سے مستفید ہو کر مکمل طور پر اسلام میں داخل ہونے کیلئے تیار ہوجائیں کہ جس اسلام کے اصول اتنے سنہری اور اتنے شاندار ہیں اس کو اپنا لینا گویا دین و دنیا کی کامیابی حاصل کرلینا ہے اور امن و آشتی کے گہوارہ میں بیٹھ کر اپنے آپ کو ہر طرف سے محفوظ کرلینا ہے ۔ لیکن آج قرآن کریم کی انہی تعلیمات کی حامل قوم مسلم کس قدر بدامنی ، بےاطمینانی ، بےیقینی ، بدنظمی اور بدعتدالی کی شکار ہے ؟ اس کا جواب اپنے دل سے لے لیں وہی ہمارا جواب ہوگا۔ اس آیت کے الگ الگ حصوں کا مفہوم آپ نے سن لیا لیکن آیت نمبر 31 کی مجموعی صورت سے بھی استفادہ کرتے چلیں ۔ سلیمان بن علی کا قول ہے کہ میں نے حسن بصری (رح) سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا کہ ابو سعید (رح) ! کیا یہ آیت ہمارے متعلق بھی ہے یا صرف بنی اسرائیل کے لئے ہی تھی۔ فرمایا بلاشبہ ہمارے لئے بھی ہے قسم ہے وحدہ لاشریک کی بنی اسرائیل کے خون اللہ کی نظر میں ہمارے خونوں سے زیادہ عزت والے نہیں تھے۔ (مظہری) حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کعبہ کا طواف کر رہے تھے اور ” فرما رہے تھے “ تو کیسا پاکیزہ ہے “ ” تیری خوشبو کتنی اچھی ہے “ ” تیری عظمت کس قدر بڑی ہے “ ” تیری عزت کتنی عظیم ہے “ لیکن قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مومن کے مال و خون کی عزت و حرمت تیری حرمت سے بھی بڑھ کر ہے۔ “ (ابن ماجہ) اہل کتاب نے جن کو رسول مانا ان کی باتوں سے انحراف کیا : 107: فرمایا جارہا ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! اہل کتاب کی اکثریت نے آپ (علیہ السلام) کو ابھی تک رسول تسلیم ہی نہیں کیا اگر وہ آپ (علیہ السلام) کی تعلیمات سے گریزاں ہیں تو انہوں نے اپنی قوم کے انبیاء (علیہم السلام) کو جب نبی مانا تھا تو ان کو نبی مان لینے کے بعد بھی وہ ان کی تعلیمات سے منحرف ہی رہے تھے انہوں نے ان کی تعلیمات کو دل سے کب تسلیم کیا تھا ؟ زکریا (علیہ السلام) کو انہوں نے نبی مانا ۔ یحییٰ (علیہ السلام) کو وہ نبی مانتے تھے ۔ سعیا (علیہ السلام) کو نبی تسلیم کرتے تھے آپ (علیہ السلام) کو ان سب کی داستانیں سنائی گئیں اور بہت سے وہ ہیں جن کی داستانوں کو تم نہیں جانتے قوم یہود نے خصوصاً ان سب کو نبی تسلیم کرنے کے بعد قتل کردیا۔ زمین میں فساد بپا کرنا اور حدود الٰہی سے تجاوز کرنا ، احکام الٰہی کی پروانہ کرنا اور حد اعتدال سے ہٹ جانا ان کا معمول زندگی ہے۔ ان کے انہی اعمال کی پاداش میں ایک سے زیادہ بار پکڑا گیا ، سزاؤں پر سزائیں دی گئیں لیکن ان کو جب ہوش آیا انہوں نے وہی کیا جو ان کے آباؤ اجداد کرتے آرہے تھے۔ یہود کی پرانی تاریخ کے بعد انکی نئی تاریخ پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے جو وہ خود نبی اعظم و آخر ﷺ کے دور میں دہرا رہے تھے اور جس کا تجربہ ان آیات کے نزول کے زمانہ میں مسلسل مسلمانوں کو یہود کی طرف سے ہو رہا تھا۔ یہود کے متعدد قبائل مثلاً بنو نضیر ، بنو قریظہ اور بنو قینقاع مدینہ کے مصافات میں آباد تھے انہوں نے یوں تو مسلمانوں کے ساتھ امن وصلح کے معاہد کر رکھے تھے لیکن ایک دن بھی انہوں نے ان معاہدوں کا احترام نہ کیا بلکہ ان کو جب موقع ملا مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی سر توڑ کوشش کی۔ قریش مکہ نے مسلمانوں پر جتنے حملے کئے ان میں یہود مدینہ درپردہ ان کے ساتھ تھے۔ انصار ومہاجرین کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی انہوں نے ہر ممکن کوشش کی۔ صحابہ کرام ؓ اور خود الزمان ﷺ کے قتل کی متعدد بار تدبیرین سوچیں۔ عورتوں اور بچوں کے اغوا اور قتل میں نہایت سنگدل تھے۔ مسلمانوں کو ہر وقت ان کی طرف سے کھٹکا لگا رہتا تھا باقی سب باتوں کو چھوڑ کر ان کی بددیانتی کا یہ عالم تھا کہ جن مسلمانوں کو وہ کسی قضیے کے طے کرانے اور کسی قومی معاملہ پر گفتگو کرنے کے لئے گھر بلاتے تھے ان کے ہلاک کرنے کی بھی سازشیں پہلے سے وہ تیار کرتے تھے اور ان باتوں میں وہ متعدد بار پکڑے گئے۔ اس صورت حال کی طرف یہاں اشارات کئے گئے ہیں۔
Top