Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 266
یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْ١ؕ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُ١ۙ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ١٘ فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ وَ اذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں مَاذَآ : کیا اُحِلَّ : حلال کیا گیا لَهُمْ : ان کے لیے قُلْ : کہ دیں اُحِلَّ : حلال کی گئیں لَكُمُ : تمہارے لیے الطَّيِّبٰتُ : پاک چیزیں وَمَا : اور جو عَلَّمْتُمْ : تم سدھاؤ مِّنَ : سے الْجَوَارِحِ : شکاری جانور مُكَلِّبِيْنَ : شکار پر دوڑائے ہوئے تُعَلِّمُوْنَهُنَّ : تم انہیں سکھاتے ہو مِمَّا : اس سے جو عَلَّمَكُمُ : تمہیں سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِمَّآ : اس سے جو اَمْسَكْنَ : وہ پکڑ رکھیں عَلَيْكُمْ : تمہارے لیے وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو (لو) اسْمَ : نام اللّٰهِ : اللہ عَلَيْهِ : اس پر وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَرِيْعُ : جلد لینے والا الْحِسَابِ : حساب
لوگ آپ ﷺ سے پوچھتے ہیں کہ کیا کیا چیزیں ان کے لیے حلال ہیں ؟ آپ ﷺ کہہ دیجئے جتنی اچھی چیزیں ہیں سب تم پر حلال کردی گئی ہیں اور شکاری جانور جو تم نے شکار کے لیے سدھار رکھے ہیں اور وہ طریقہ جیسا کچھ اللہ نے تمہیں سکھا دیا ہے انہیں سکھا دو ، تو جو کچھ وہ شکار کر کے تمہارے لیے بچا رکھیں تم اسے بھی بےکھٹکے کھا سکتے ہو مگر چاہیے کہ اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو ، یاد رکھو کہ اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے
آپ (علیہ السلام) سے حلال چیزوں کے متعلق دریافت کرتے ہی کہہ ساری طیب چیزیں حلال ہیں : 32: ” اے پیغمبراسلام ! کچھ لوگ آپ (علیہ السلام) سے پوچھتے ہیں کہ کیا کیا چیزیں ان کے لئے حلال ہیں ؟ “ جب حرام چیزوں کا ذکر ہوچکا تو بعض صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ نو ہوئیں حرام چیزیں ۔ اب فرمایئے کہ حلال کیا کیا چیزیں ہیں ؟ چیزیں سو ہوں یا ہزار جب ان میں سے حرام کو جو تھوڑی تعداد میں تھیں بیان کردیا تو یہ بات خود بخود واضح ہوگئی کہ علاوہ ازیں سب حلال ہیں۔ گویا سوال کوئی زیادہ معقول نہیں تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام) کو معقول جواب سنا دیا کہ تم کہہ دو ” کہ جتنی چیزیں ہیں سب کی سب حلال ہیں۔ طیب کیا ہے ؟ یاد رہے کہ طیب کا درجہ حلال سے کہیں بڑھ کر ہے اس لئے کہ ہر طیب چیز حلال ہوتی ہے لیکن ہر حلال چیز طین نہیں ہوتی ۔ مثلاً باسی روٹی ، باسی سالن یقینا حرام نہیں ہوگا لیکن اپنی بوباس سے وہ طیب نہیں رہا ہوگا کہ طبیعت اس کی طرف رغبت نہیں کرتی۔ گلے سڑے پھل یقینا ان کو حرام نہیں کہا جاسکتا تاہم یہ طیب بھی نہیں کہلا سکتے کیوں ؟ اس لئے کہ کسی دل کو نہیں بھاتے۔ ایک چیز ذائقہ میں اچھی ہے لیکن خوش رنگ نہیں لیکن اس کے مقابلہ میں دوسری چیز خوش ذائقہ بھی ہے اور خوش رنگ بھی تو ظاہر ہے کہ پہلی مقابلہ میں دوسری زیادہ پا کیزہ اور طیب ہے۔ اگرچہ ناپاک و حرام پہلی بھی نہیں۔ ان کو ایک اصولی جواب سنا دیا گیا ہے کہ ” جتنی اچھی چیزیں ہیں سب تم پر حلال کردی گئی ہیں ۔ “ ان کے سوال کا اصولی جواب بھی ہے اور ان کو روحانی تعلیم بھی اس جواب میں دے دی گئی ہے وہ یہ کہ خوب سمجھ لیں کہ جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ کسی حال میں بھی اچھی نہیں تھی نہ جسمانی لحاظ سے نہ روحانی لحاظ سے یعنی ان سے انسانی جسم بھی خراب ہوتا ہے اور روح بھی بگڑتی ہے اور طیب و حلال چیزوں سے انسان جسم کو فائدہ پہنچتا ہے اور روح بھی اپنی غذا حاصل کرتی ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی آمد کا مقصد ہی قرآن کریم نے یہ قرار دیا ہے کہ وہ طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا کہ : یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىِٕثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْهِمْ 1ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ1ۙ اُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (رح) 00157 (الاعراف 7 : 157) ” وہ انہیں نیکی کا حکم دے گا ، برائی سے روکے گا ، پسندیدہ چیزیں حلال کرے گا ، گندی چیزیں حرام ٹھہرائے گا ، اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے نیچے دبے ہوں گے ، ان پھندوں سے نکالے گا جن میں وہ گرفتار ہوں گے ، تو ہو لوگ اس پر ایمان لائے اس کے مخالفوں کے لئے روک ہوئے ، راہ حق میں اس کی مدد کی اور اس روشنی کے پیچھے ہو لئے جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے ، سو وہی ہیں جو کامیابی پانے والے ہیں۔ “ اس عمومی جواب پر ایک بار پھر نظر ڈالو تم دیکھو گے کسی ایک چیز کا نام بھی نہیں لیا جو حلال و طیب تھی۔ کھانے کی چیزوں میں ابدی محرمات کو بیان کر کے باقی سب کے لئے ایک اصول مقرر فرمادیا کہ ہر طیب چیز حلال و پاک ہے اور اس کو کھا لینے کی اجازت ہے۔ اگر حرام چیزوں کو بیان نہ کیا ہوتا تو یہ اصول مبہم ٹھہرتا اس ابہام کو کلی طور پر حرام چیزوں کی فہرست دے کر واضح فرما دیا ذرا غور کرو کہ درنوں کو کوئی طبع سلیم پسند کرتی ہے کہ وہ ان کو اپنی غذا کے طور پر استعمال کرے ۔ قرآن کریم کا کمال دیکھو کہ ” السبع “ کا ایک ہی لفظ بول کر سارے درندوں کی درندگی سے ان کی پوری پوری وضاحت فرما دی اور ان میں سے کسی ایک کا نام بھی نہیں لیا ۔ جو چیرنے پھاڑنے والا ہے وہ ” السَّبُعُ “ میں داخل ہے اور ” بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ “ کے انعام کے ساتھ ان جیسے اوصاف والے جانوروں یعنی چرندوں کو بھی داخل کردیا اور پھر کسی ایک کا نام بھی نہیں لیا۔ جس جانور کو دیکھو یا وہ ” بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ “ میں ہوگا یا ” السَّبُعُ “ میں شمار کیا جائے گا ۔ اگر ” بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ “ میں شمار ہے تو بغیر کسی حیل و حجت کے حلال ہے مگر ہاں کس کو مستثنیٰ کردیا گیا اور اگر ” السَّبُعُ “ میں شمار ہوتا ہے تو وہ بغیر کسی مزید تشریح کے درندوں کی صف میں داخل ہو کر حرام ہے اور اس کو بطور غذا استعمال کرنا قطعا ممنوع ہے۔ پھر مزید تشریح فرمادی کہ ” بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ “ میں سے اگر کوئی جانور طبعی موت مر جائے یا اس کو مار دیا جائے تو وہ ذبح نہ ہونے کی وجہ سے حرام قرار دیا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جو جانور ” السَّبُعُ “ میں شمار ہوتے ہیں وہ تو کسی صورت میں بھی حلال نہیں ہو سکتے کہ وہ طیب نہیں ہیں اس لئے ان کے ذبیح کا تو سوال ہی ختم ہوگیا ہاں جو ” بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ “ میں داخل ہو کر حلال ہیں ان کو بھی ذبح کئے بغیر کھایا نہیں جاسکتا کہ ان کے جسم میں ” دم مسفوح “ ہے اس کا نکالنا ضروری ہے۔ پھر سور جس کو قرآن کریم نے خزیر کے لفظ سے بیان کیا ہے ” بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ “ میں داخل ہے یا ” السَّبُعُ “ میں ۔ آپ جس صف میں بھی اس کو شمار کریں بہرحال یہ بات طے ہے کہ وہ حرام اور ناپاک ہے۔ اس کو کھایا نہیں جاسکتا ۔ پھر آپ نے درندہ جانور کی نشانی بھی بڑی وضاحت سے بیان فرمادی کہ جس کے بعد کوئی بات مبہم نہیں رہ سکتی آپ دنیا کا کوئی جانور دیکھیں ذرا اس کی عادات واطوار پر غور کریں تو آپ کو خود بخود معلوم ہوجائے گا کہ وہ حرام ہے یا حلال ہے ؟ چناچہ حدیث ہے کہ : ” عن ابن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ عن کل ذی ناب من السباع وکل ذی مخلب من الطیر “ یعنی نبی اعظم وآخر ﷺ نے فرمایا کہ ہرچیز پھاڑ کر کھاجانے والے درندہ اور ہر پنجہ سے پکڑ کر کھانے والے پرندہ کو حرام فرمایا۔ اب زیر نظر آیت میں اس کی مزید و ضاحت اس طرح فرما دی کہ ہر طیب چیز حلال و پاک ہے اور اس کو بطور غذا اپنے عرف کے مطابق استعمال کرنے میں کچھ ممانعت نہیں اور عرف سے میری مراد اس کو پکانے ، کھانے کا طریقہ ہے اور وہ قوموں اور علاقوں کے رواج میں مختلف ہو سکتا ہے اور ہوتا جو طریقہ تمہارے ہاں استعمال کیا جاتا ہے جس طرح تم کو اس کو کھانا پسند کرتے ہیں بس اس کو کھالو ۔ یہ ان کے سوال کا مختصر اور عمومی جواب تھا۔ شکاری جانوروں کو اگر تم سدھا لو تو ان کا کیا ہوا شکار بھی تم کھا سکتے ہو : 33: سوال کرنے والوں کو اب خصوصی جواب بھی دیا جارہا ہے کہ تمہارے سوال کا اصل و مطلب شکار سے ہے تو بھی اچھی طرح سن لو کہ اگر شکاری جانوروں کو تم سکھا لو اور جب وہ شکار کرنا سیکھ لیں تو ان کا شکار کیا ہوا جانور تمہارے لئے حلال و طیب ہے ۔ ان شکاری جانوروں میں سے بھی کسی کا نام نہیں لیا لیکن ظاہر ہے کہ اس طرح شکار وہی جانور کرے گا جو ” البساع “ یا ” ذی مخلب “ میں شمار ہوگا یعنی وہ درندہ ہوگا یاپنجوں میں پکڑ کر کھانے والا پرندہ ہوگا چناچہ وہ ” البساع “ یا ” ذی مخلب “ سے اس کو اس جگہ جوارح کے نام سے بیان کیا گیا کیوں ؟ اس لئے کہ جوارح زخمی کرنے والے جانوروں کو کہا جاتا ہے اور یہی شکاری جانور کہلاتے ہیں خواہ وہ درندوں میں سے ہوں جیسے کتا اور خواہ پرندوں میں سے جیسے شکر اور باز وغیرہ ۔ کلب کتے کو کہتے ہیں اس نکلیب ہے جس کے معنی کتے کو ٹریننگ دینے کے ہیں لیکن اس سے مراد ہر شکاری جانور بھی لیا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ عدی بن حاتم اور زید الخیر نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم کتے اور باز کے ذریعہ شکار کرتے ہیں کیا یہ ہمارے لئے حلال ہیں ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ شکاری درندوں اور شکاری پرندوں کا ایک ہی حکم ہے۔ فرمایا ” شکاری جانور جو تم نے شکار کے لئے سدھا رکھے ہیں اور شکار کا طریقہ جیسا کچھ اللہ نے تم کو سکھا دیا انہیں سکھاد۔ “ اللہ نے کیا طریقہ سکھایا ہے ؟ ظاہر ہے کہ تمہارا پیدا کرنے والا اللہ ہے اور تمہیں عقل ودیعت کرنے والا اللہ پھر اس عقل سے کام لے کر ان شکاری جانوروں کو جو کچھ اور جس طرح ان کو سکھاؤ گے وہ اللہ تعالیٰ ہی کا سکھانا ہوگا اور یہی اس جگہ مراد ہے خواہ یہ فن کسی استاذ سے سیکھا ہو یا صرف اور صرف اپنی ہی عقلی صلاحیتوں سے اس کو سکھایا ہو بہر حال اس سکھانے کی نسبت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہوگی اس کا یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ ہر تربیت میں مربی کے ذوق ، اس کی پسند اور ناپسند اور اس کے مقصد تربیت کی جھلک ہوتی ہے اور اس چیز کو جس طرح زیر تربیت انسان اپناتا ہے اسی طرح جبلی استعداد کی حد تک حیوانات بھی اپناتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو سدھائے ہوئے جانوروں کو دوسرے جانوروں سے بالکل الگ کردیتی ہے وہ شکل و صورت کے لحاظ سے تو اپنی جنس کے جانوروں سے مشابہ ہوگا لیکن اپنی عادات واطوار کے لحاظ سے ان سے بالکل الگ ہوگا یہی وجہ ہے کہ ایک عام کتے کے شکار اور ایک سدھائے ہوئے کتے کے شکار میں فرق ایک فطری اور طبعی بات ہے بلکہ ایک مسلمان کے تربیت کردہ کتے اور ایک غیر مسلم کے تربیت کردہ کتے کے میلان و سلیقہ میں بھی یقینا فرق ہوگا۔ ہاں ! اس میں شرط یہ ہے کہ وہ صحیح سیکھا ہوا ہو اور اس سلسلہ میں وہ جانور آزمائش شدہ بھی ہو۔ شکاری جانور کے سیکھا ہوا ہونے کی علامت کیا ہے ؟ 34: شکاری جانور کے تربیت یافتہ ہونے کی علامت خود قرآن کریم نے بتادی ہے اور وہ یہ ہے کہ ” جو کچھ وہ وہ شکار کرکے تمہارے لئے بچا رکھیں تم اسے بےکھٹکے کھا سکتے ہیں ۔ “ بات واضح ہوگئی کہ شکاری جانور تربیت یافتہ وہ کہلائے گا جو شکار کرنے کے بعد شکار کو اپنے مالک کے لئے روک رکھے یعنی اس میں سے کچھ کھائے نہیں بلکہ جب وہ سمجھ جائے کہ اب شکار کیا ہوا جانور بھاگنے کے قابل نہیں رہا توا س کو پکڑ کر مالک پہنچا دے یا اس جگہ رکھ کر مالک انتظار کرے۔ اس طرح جب اس جانور جس کو تربیت کیا گیا ہے جب آزمائش میں پورا اترے تو وہ شکار کرنے کے قابل ہے اب بہتر یہی ہے کہ اس جانور کو شکار پر چھوڑتے ہوئے بسم الہ ، اللہ اکبر کہہ کر چھوڑ دیا جائے پھر جب وہ شکار کو پکڑے گا اگر وہ ضرب شدید کی وجہ سے بالکل مر بھی گیا تو ذبح شدہ ہی سمجھا جائے گا اس لئے کہ وہ گویا تیز دھار آلہ ہی تھا جس سے وہ مجروح ہوا اور اس طرح اس کا ” دم مسفوح “ بھی خارج ہوگیا ہاں ! اگر شکار کا جانور زندہ ہی شکاری جانور سے حاصل کرلیا گیا تو اس کو ذبح کرنا لازمی و ضروری ہو گالہٰذا اس کو ذبح کر کے ہی کھایا جاسکتا ہے۔ پہلی بات اتفاقی ہے کہ شکار کا جانور اتنا کمزور یا بزدل ہو کہ اس کے قابو آتے ہی ڈر کی وجہ سے اس کی جان نکل گئی یا شکاری درندہ یا پرندہ نے اس کو اس قدر نوچ لیا کہ وہ زیادہ دیر نہ نکال سکا۔ اس طرح اگر شکاری بندوق وغیرہ سے شکار کرے تو خود شکاری کی آزمائش کرنا ضروری ہے کہ اگر اس کا نشانہ پختہ ہے اور وہ خطا نہیں ہوتا تو ایسا شکاری اس بندوق کا بٹن دباتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر دبائے پھر جب شکاری جانور کر اہنے لگے اور زندہ مل جائے تو اس کو ذبح کرلے اور اگر وہ شکاری کے وہاں پہنچنے تک مر گیا تو بھی یقینا وہ ذبح ہوگیا چھری سے نہیں تو بندوق کی گولی سے سہی۔ شکار اس وقت عرب میں محض ایک شوقیہ تفریح نہیں تھا بلکہ اس کو ان کے بام معاش کے ایک اہم ذریعہ کی حیثیت حاصل تھی کیونکہ ان کی معاش کا انحصار تین چیزوں پر تھا۔ گلہ بانی ، تجارت اور شکار اور اسی معاشی اہمیت کے سبب سے ان کے ہاں شکاری جانوروں کی تربیت کا فن بھی اپنے عروج پر تھا۔ اس وقت کے شاعر جب اپنی کتیوں کی تعریف بیان کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتیا کا ذکر نہیں بلکہ شعلہ صفت پر فن قتالہ کا ذکر خیر ہے اور آج بھی یہ بادیہ نشین قوموں میں شکار کا رواج خاض ضرورت کے تحت ہے کہ ان کے کاروبار کی حالت ہی ایسی ہے کہ شکار ان کی ایک اہم ضرورت ہے ۔ قرآن کریم نے ان قوموں اور ان کے ایسے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی اس معاشی ضرورت کا خاص خیال رکھا ہے اور بڑی وضاحت سے بات ان کو سمجھا دی ہے تاکہ کسی طرح کا کوئی ابہام باقی نہ رہے ۔ جن باتوں کی وضاحت کی گئی ان کی مختصر اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ : 1۔ شکار صرف انہی جانوروں کا ہوگا جو ” بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ “ میں شامل ہوں گے اگر وہ چار پائے ہیں اور اگر پرندے ہیں تو پنجوں میں پکڑ کر کھانے والے نہ ہوں۔ 2۔ شکاری جانور تربیت یافتہ ہو اور وہ شکار میں سے خود بخود کو کچھ نہ کھائے جب تک کہ مالک اس کو کھانے کے لئے نہ دے اور یہ بھی کہ وہ صحیح طور پر سیکھا ہوا ہو اور مسلمان اس کو شکار پر چھوڑے۔ 3۔ شکاری جانوروں نے شکار کو زخمی کر کے مارا ہو وہ بغیر زخم کے دم گھٹ کر نہ مر گیا ہو۔ 4۔ شکاری جانور بسم اللہ اکبر کہہ کر چھوڑا گیا ہو تاہم اگر شکار زندہ مل جائے تو اس کو باقاعدہ ذبح کیا جائے۔ 5۔ باقاعدہ ذبح کرنا یہ ہوگا جس میں ” بسم اللہ اللہ اکبر “ کے الفاظ کہے گئے ہوں اور تیز دھار آلہ سے اس کی گردن تنی کاٹی جائے کہ حلقوم اور مری کٹ جائیں۔ 6۔ ذابح مسلمان ہو خواہ مرد یا عورت۔ بندوق سے شکار کرنے والا ذابح کے حکم میں ہے۔ اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کی قرآنی کی تاکید : 35: جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے شکار کے جلال ہونے کی شرائط میں سے یہ شرط ہے کہ شکار پر شکاری جانور چھوڑتے وقت ” بسم اللہ اللہ اکبر “ کے الفاظ جو کسی بھی حلال جانور کو ذبح کرتے وقت زبان سے ادا کرنا ضروری ہیں اور اسی طرح شر ط نے ذابح کا مسلمان ہونا بھی ضروری ٹھہرایا۔ اگر شکاری جانور تعلیم یافتہ ہے تو اس کے شکار کو زخمی کرنے سے شکار کا وہ جانور زخمی ہونے کے باعث مر بھی گیا تو حلال ہوگا کیونکہ تعلیم یافتہ شکاری جانور کا زخم دینا قائم مقام اس آلہ کے ہے جس سے ذبح کیا جانا تھا اور اللہ کا ذکر یعنی ” بسم اللہ اللہ اکبر “ کے الفاظ شکار کرنے والے شکاری جانور کو چھوڑتے وقت ادا کردیئے جو قائم مقام ذابح کے ہے لیکن ان ساری شرائط کے باوجود اگر شکار کیا گیا جانور زندہ شکاری کو دستیاب ہوجائے تو باقاعدہ ذبح کرے اور ذبح کرتے وقت بسم اللہ کا نام لے یعنی ” بسم اللہ اللہ اکبر “ کہے۔ اللہ کا نام لینے کی قرآنی تاکید کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ عربوں میں رواج تھا کہ وہ ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لیتے تھے اسی طرح شکاری جانور کو شکار کرتے وقت بھی وہ غیر اللہ کی صدا بلند کرتے تھے جیسا کہ آج کل بھی جہلا میں یہ عادت موجود ہے کہ وہ یا سے جذباتی اوقات میں غیر اللہ کے ناموں کو زور سے پکارتے ہیں جس سے ان کے جذبات میں مزید پیدا ہوتا ہے ۔ اس لئے تاکید فرما دی کہ شکاری جانور کو چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا کرو اور حدیث شریف میں اللہ کے نام کی وضاحت خود نبی اعظم وآخر ﷺ نے فرمایا دی کہ اللہ کے نام سے مراد ” بسم اللہ اللہ اکبر “ کے الفاظ ہیں اور یہ بھی کہ ہر ذبیحہ کو ذبح کرتے وقت ذابح ان الفاظ کو ادا کرے چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ بھول چوک کا معاملہ دوسرا ہے اور ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام بلند کرنے سے ویسے ہی ذبیحہ حرام ہوجائے گا۔ ” واذ کروا اسم اللہ علیہ “ کے الفاظ سے جو تاکید فرمائی گئی اس میں یہ بھی شامل ہے کہ شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت ” بسم اللہ اللہ اکبر “ کہو پھر شکار زندہ ہاتھ لگ جائے تو اس کو باقاعدہ ذبح کرتے وقت بھی ” بسم اللہ اللہ اکبر “ کے الفاظ سے آلہ چلاؤ ۔ ازیں بعد جب شکار کو کھانے کے مطابق بنا لو توا س کو ” بسم اللہ “ کہہ کر کھاؤ اور دل میں کسی قسم کا شک و شبہ مت رکھو اور سارے وہموں کا ازالہ ” بسم اللہ “ کو سمجھ لو۔ قانو الٰہی کی گرفت میں آنے سے بچتے رہو کہ اللہ کو حساب لیتے ذرا دیر نہیں لگتی : 36: شکار کرنے والے کے لئے خصوص ہدایت کہ شکاری جب شکاری کرے گا تو وہاں شہادتیں اور گواہیاں تو ساتھ ساتھ رکھی نہیں جا سکتیں کہ شکاری جانور صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ ہے یا نہیں ؟ شکاری جانور کو چھوڑتے وقت شکاری نے اللہ کا نام ذکر کیا تھا یا نہیں ؟ شکاری کو شکار کا جانور زندہ دستیاب ہوا یا نہیں ؟ اگر شکاری جانور زندہ دستیاب ہوا ہے تو اس کو زندہ حالت ہی میں شکاری نے ذبح کیا ہے یا نہیں ؟ یہ اور اسی طرح کی بہت سے باتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے یا وہ جانتا ہے جس نے شکار کیا ان میں سے اگر کوئی شرط ایسی پائی گئی جس کو شکاری نے جان بوجھ کر غلط کو صحیح یا صحیح کو غلط کردیا تو یہ معاملہ اللہ اور اس شکاری کا ہے۔ شکاری کو یہ یاد رکھنا ہے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کوئی چیز باہر نہیں اور وہ دلوں کے رازوں تک کو جانتا اور سمجھتا ہے اس لئے اس کے قانون کو جان بوجھ کر ہاتھ مت ڈالو بلکہ دائرہ قانون کے اندر رہ کر کام کرو۔ کہیں حرام کو حلال نہ بناؤ کہ اس کا وبال تمہارے سر ہوگا اور قانون الٰہی کی گر فت میں آگئے تو کوئی ایسا نہیں جو اس کی گرفت سے بچا سکتا ہو اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے اس کو حساب لیتے ذرا دیر نہیں لگتی آنکھ جھپکنے میں وہ کچھ سے کچھ کردیتا ہے ۔ شکار کے متعلق اس وقت تک جو کچھ بیان ہوا وہ سب کا سب بری شکار کے متعلق ہے ۔ بحری شکار کی نوعیت بالکل اس سے الگ ہے۔ ” وَ اتَّقُوا اللّٰهَ 1ؕ “ کے الفاظ نے ایسے وقت میں بھی چونکا دیا کہ ذرا موقع کی تصوریر چشم تصور میں لے آیئے کہ خوب بھوک لگی ہے کوئی چیز کھانے کی موجود نہیں ایسے وقت میں بڑے لذیذ گوشء کا جانور شکرا یا کتا پکڑ کر لایا ہے۔ شوق بےقرار ہے کہ جلد سے جلد اس کے کباب لگیں اور بھنے ہوئے شکار سے جی بھر کر لذت حاصل کی جائے اب کون اس موقعہ پر یاد دلائے کہ شرائط حلت ذرا مستخصر کرلیجئے غور کرو کہ بجز تقویٰ کے اور کس میں اس وقت یہ یاد دلانے کی قوت ہے ؟ فرمایا ” اللہ کو حساب چکاتے ذرا دیر نہیں لگتی “ ان الفاظ سے آخرت کی یاد بھی دلا دی کہ بھوک تو لگی ہے لیکن بھوک مٹاتے مٹاتے کہیں قدم پھسل نہ جائے کہ دھڑام سے کہیں کے کہیں جاگرو پھر خیال کرو کہ دشواری کو آسان بنا دینے کا اور ہر پتھر کو پانی کو دینے کا نسخہ اس سے بڑھ کر کوئی اور بھی ہو سکتا ہے ؟
Top