Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 43
وَ كَیْفَ یُحَكِّمُوْنَكَ وَ عِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِیْهَا حُكْمُ اللّٰهِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے يُحَكِّمُوْنَكَ : وہ آپ کو منصف بنائیں گے وَعِنْدَهُمُ : جبکہ ان کے پاس التَّوْرٰىةُ : توریت فِيْهَا : اس میں حُكْمُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ثُمَّ : پھر يَتَوَلَّوْنَ : پھرجاتے ہیں مِنْۢ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس وَمَآ : اور نہیں اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ بِالْمُؤْمِنِيْنَ : ماننے والے
اور پھر یہ لوگ کس طرح تمہیں منصف [ بناتے ہیں جب توراۃ ان کے پاس موجود ہے اور اللہ کا حکم بھی توراۃ میں موجود ہے کیا پھر توراۃ رکھنے پر بھی اس سے روگردانی کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان نہیں رکھتے
تورات کا مرتبہ قرآن کریم کی نظر میں : 132: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا واضح طور پر ارشاد آج بھی موجود ہے کہ ” بلاشبہ ہم نے تورات نازل کی اس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ “ مطلب بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اتارا ہے لیکن کچھ لوگوں کے بازیچہ اطفال بنانے کے لئے نہیں بلکہ زندگی کی اعلیٰ اقدار کے تحفظ کے لئے ظاہر ہے کہ تورات سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی اور موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) اور دونوں پیغمبروں کے بعد بھی بنی اسرائیل قوم میں ان گنت نبی اس کے مطابق قوم یہود کو حکم دیتے رہے اور اللہ تعالیٰ کی اسی کتاب میں جو یہود نا مسعود نے چالاکیاں کیں ان کی نشاندہی بھی کرتے رہے جیسے یوشع بن نون (علیہ السلام) ، حزقیل (علیہ السلام) ، الیاس (علیہ السلام) ، الیسع (علیہ السلام) ، شمویل (علیہ السلام) ، داؤد (علیہ السلام) ، سلیمان (علیہ السلام) ، ایوب (علیہ السلام) ، یونس (علیہ السلام) ، ذوالکفل (علیہ السلام) ، عزیز (علیہ السلام) ، زکریا (علیہ السلام) ، یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جنکا ذکر قرآن کریں اور صحیح احادیث میں آج بھی نام بنانے موجود ہے اور تورات کی بیشمار ہدایات قرآن کریم میں من و عن اس وقت بھی موجود ہیں جو اقوام عالم کی عموماً اور قوم مسلم کی خصوصاً راہنمائی کر رہی ہیں شرط صرف یہ ہے کہ ان سے کوئی راہنمائی حاصل کرنے والا بھی ہو۔ حاملین تورات میں جب مخلص لوگ تھے وہ ان احکام پر کار بند رہے : 133: قرآن کریم نے ان مخلصین میں سے دو اقسام کا ذکر واضح فرمایا ہے پہلے ربانیون اور دوسرے احبار اس ربانیون سے زبانی ہے جو رب کی طرف منسوب ہے جس کے معنی ہیں ” اللہ والا “ اور ’ احبار “ کی جمع ہے اور قوم یہود علماء کو ” احبار “ کہتی تھی اور یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ جو اللہ والا ہوگا ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ضروری احکام کا علم بھی ضرور رکھتا ہوگا ورنہ بغیر علم کے عمل نہیں ہو سکتا تاہم یہ بات بھی حق ہے کہ علم اور عمل جس قد لازم وملزوم ہیں اسی قدر ہر دور میں ان سے تغافل ہوا ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ جو عامل ہوئے یا عامل کہلائے ان کے حصے میں علم بہت کم آیا اور جو عالم تھے یا عالم کہلائے ان کے حصے میں عمل بہت کم آیا اور یہی معاملہ آج تک جاری ہے اگر دوسری اقوام عالم میں ایس اہوا تو قوم مسلم بھی اس معاملہ میں دوسری قوموں سے پیچھے نہیں رہی اور خصوصاً اگر قوم یہود ہی سے مقابلہ کیا جائے جن کا ذکر اس جگہ چل رہا ہے تو بھی قوم مسلم ان سے اس وقت بہت آگے جا چکی ہے ۔ جن لوگوں کو ” عامل “ کہا جاتا ہے وہ ” علم “ سے بالکل کورے ہیں اور جن لوگوں کو ” عالم “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ عمل سے بالکل تہی دست ہیں۔ الاماشاء اللہ تاہم سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکا گیا اور نہ اب ہانکا جانا مناسب ہے اس وقت بھی کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو صحیح معنوں میں ” رب والے “ بھی تھے اور ” علم والے “ بھی جن کے متعلق قرآن کریم نے یہ شہادت دی ہے کہ کس طرح اللہ کے فرمانبردار نبیوں اور مخلص علماء وفقہاء نے خود کتاب وسنت کی اطاعت کی اور اس کے قوانین و احکام کے مطابق وہ قوم و یہود کے معاملات ومقدمات کے فیصلے کرتے رہے اور اپنے اندر برابر احساس ذمہ داری کو زندہ رکھا کہ وہ اللہ کی طرف سے اس کے امین ومحافظ اور اس کے گواہ بنائے گئے ہیں ۔ اس وجہ سے نہ تو اس میں ان کے لئے کوئی خیانت جائز ہے اور نہ اس کے اظہار واعلان میں کوئی کوتاہی روا ہے یہ اللہ کا عہد ومیثاق ہے جوہر حال میں انہیں پورا کرنا ہے۔ یہ آئندہ وقت کے یہود کے سامنے ایک طرف اس غرض سے دکھایا گیا تھا کہ وہ اس میں دیکھیں کہ تورات سے متعلق ان پر کیا ذمہ داریاں عائد تھیں اور ان کے صالح اسلاف نے ان ذمہ داریوں کو کس طرح نبھایا اور اب انہوں نے کس طرح اس عہد الٰہی کو بچوں کا کھیل بنا رکھا ہے اور دوسری طرف قوم مسلم کو بھی خبردار کردیا کہ اس آئینہ سے تم بھی اپنا منہ دیکھتے رہنا تاکہ اس کے داغ دیکھ کر تم کو یقین آجائے کہ یہ داغ ہمارے ہی منہ کے ہیں اور برامنہ ہمیشہ برا ہی نظر آتا ہے اور صرف کسی قوم کی طرف نسبت دینے سے کبھی اچھا نہیں ہوجاتا۔ اس بات کی نصیحت کہ لوگوں سے ڈرنے کی بجائے اللہ کا ڈراختیار کرو : 134: مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے خلاف فیصلے کیوں کئے جاتے ہیں ؟ اس لئے کہ قوم کے و ڈیرے اس وقت ہی خوش رہ سکتے ہیں جب ان کے اور قوم کے ضعفاء کمزور لوگوں کے درمیان کوئی خط امتیاز قائم ہو اگر اس کا لحاظ نہ رکھا جائے تو قوم کے و ڈیرے کبھی خوش نہیں رہ سکتے اور ان کے ناخوش ہونے کو نام کے علمائے قوم کبھی برداشت نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے علم کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے والا یہی ایک طبقہ ہے جو صحیح معنوں میں انکی آؤ بھگت کرسکتا ہے۔ عوام کے پاس ایسے وسائل کم ہی ہوتے ہیں۔ اس جگہ قرآن کریم ان کو بتا رہا ہے کہ تم اپنے علم کی قدر کرو عم کا یہ مقام نہیں کہ وہ دوسروں پر نگاہ رکھے اور غیروں سے وہ خوشنودی کا خواہش مند ہو نہیں بلکہ علم والوں کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کے سوا ساری دنیا سے بےخوف ہوجائیں اور ان کے دل میں اگر کوئی ڈر باقی ہو تو وہ صرف اور صرف ایک ہی ذات الٰہی کا ہو باقی مخلوق سے وہ بالکل بےنیاز ہوجائیں۔ پھر پوری پوری وضاحت فرمادی کہ جس دل میں اللہ کے سوا دوسروں کا خوف سمایا ہو تو وہ پیٹ کا پجاری ہے خواہ کسی قوم اور کسی ملت سے بھی اس کا تعلق ہو ۔ فرمایا یہ لوگ اپنے علم سے سوائے اس کے کچھ فائدہ حاصل نہیں کر کتے کہ وہ الٰہی آیات کو سستے داموں فروخت کریں اور دینوی زندگی کی خوش حالیاں حاصل کرلیں اور کلام الٰہی کو زیادہ سے زیادہ مردے بخشوانے کا وسیلہ سمجھ سکتے ہیں اس کے علاوہ زندگی کے معاملات و مسائل سے نہ صرف یہ کہ اس کا کوئی تعلق باقی ہ رہے بلکہ مردوں سے اٹھا کر زندوں کی طرف اس کلام کی نسبت کرنا ان کے نزدیک کلام الٰہی سے مذاق کرنے کے مترادف ہے اور یہی وہ بات ہے جو ہمیشہ قوم و ڈیروں کے دلوں کو بھاتی ہے کیوں ؟ اس لئے کہ ایک طرف تو وہ دنیا میں جو چاہیں کرسکتے ہیں ان پر کوئی گرفت باقی نہیں رہتی اور دوسری طرف وہ اپنے مرنے والوں کی بخشش کا سامان کرکے دنیا داروں میں بزعم خویش خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مرنے والوں کو اللہ کے عذاب سے بچانے کا سامان کرلیا ہے اس کو کہتے ہیں کہ ’ رند کے رند بھی رہے اور جنت بھی ہاتھ سے نہ گئی “ وہاں کیا ہوگا اور کیا نہیں ان کی بلا سے وہ تو صرف لوگوں کے اس خوف سے ڈرتے ہیں کہ ہم نے یہ کام جو ہمارے رواج میں بخشش کے لئے کیا جاتا ہے اگر اس کو نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے ؟ اور جب اس رسم کو انہوں نے خوب اچھی طرح نباہ دیا تو گویا انہوں نے لوگوں سے داد تحسین حاصل کرلی اور یہی اس کا اصل مطلوب ہے۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فلہ ل نہیں کرتے وہی حقیقی کافر ہیں : 135: مطلب بالکل صاف اور واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن کو شریعت کا امین اور گواہ بنایا ہے اگر انہیں کے معاملات کے فیصلے شریعت کے مطابق نہ ہوئے تو آخر اور کون لوگ ہوں گے جو شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے ؟ یعنی جن کو اللہ نے اپنی شریعت اور کتاب کی تعلیم دی اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا اور اس راہ کے سارے خطرات سے ان کو متنبہ کیا لیکن اس سارے اہتمام کے بعد بھی وہ راہ حق سے بھٹک گئے انہوں نے گویا پورے دن کی روشنی میں ٹھو کر کھائی اس وجہ سے یہ تمام اندھوں سے بڑھ کر اندھے ٹھہرے اور جان بوجھ کر انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ کفر کیا پھر ان کے کفر میں کسی طرح کا شک کرنا بجائے خود کفر ہوا کیونکہ یہی لوگ تو وہ ہیں جو حقیقت میں کافر ہیں۔ اس آیت نے یہود کو اس طرح کی کھلی وارننگ دے کر مسلمانوں کو بھی مطلع کردیا کہ ایسا جرم اگر مسلمانوں کے کسی گروہ سے صادر ہو کہ وہ پوری آزادی اور اختیار رکھنے کے باوجود اپنے معاملات کو الٰہی احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں اور دوسروں کے قانون پر انحصار رکھیں اور علی الاعلان اس قانون الٰہی سے انحراف اختیار کریں تو ان کے لئے بھی یہی حکم ہوگا اور مزید وضاحت اس کی آگے آرہی ہے اور سوہ البقرہ کی آیت 41 میں بھی اس کی وضاحت گزر چکی ہے ملاحظہ فرمائیں عروۃ الوثقیٰ جلد اول حاشیہ 91 تا 93 ص 268 ، 269۔
Top