Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 48
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مُهَیْمِنًا عَلَیْهِ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّ١ؕ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَۙ
وَاَنْزَلْنَآ : اور ہم نے نازل کی اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : سچائی کے ساتھ مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالی لِّمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے مِنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب وَمُهَيْمِنًا : اور نگہبان و محافظ عَلَيْهِ : اس پر فَاحْكُمْ : سو فیصلہ کریں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِمَآ : اس سے جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ وَ : اور لَا تَتَّبِعْ : نہ پیروی کریں اَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشات عَمَّا : اس سے جَآءَكَ : تمہارے پاس آگیا مِنَ : سے الْحَقِّ : حق لِكُلٍّ : ہر ایک کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا ہے مِنْكُمْ : تم میں سے شِرْعَةً : دستور وَّمِنْهَاجًا : اور راستہ وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہتا لَجَعَلَكُمْ : تو تمہیں کردیتا اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : واحدہ (ایک) وَّلٰكِنْ : اور لیکن لِّيَبْلُوَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے فِيْ : میں مَآ : جو اٰتٰىكُمْ : اس نے تمہیں دیا فَاسْتَبِقُوا : پس سبقت کرو الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا جَمِيْعًا : سب کو فَيُنَبِّئُكُمْ : وہ تمہیں بتلا دے گا بِمَا : جو كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : اس میں تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
اور ہم نے تمہاری طرف کتاب بھیجی ان کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو پہلے سے موجود ہیں اور ان پر نگہبان ، اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اور لوگوں کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو (سچائی تمہارے پاس آ چکی ہے) تم میں سے ہر ایک گروہ کے لیے ہم نے ایک { شرع } اور { منہاج } ٹھہرا دی ہے اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا تاکہ جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے اس میں تمہیں آزمائے ، پس نیکی کی راہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ نکلنے کی کوشش کرو ، تم سب کو بالآخر اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں بتلا دے گا جن باتوں میں باہم دگر اختلاف کرتے رہے تھے ان کی حقیقت کیا تھی ؟
پیغمبر اسلام ﷺ اور آپ ﷺ پر نازل شدہ ہدایات کا ذکر کیا جاتا ہے : 141: تورایت انجیل کے بعد اب ذکر قرآن کریم کا شروع کیا جاتا ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! ہم نے آپ ﷺ پر سچائی کے ساتھ کتاب اتاری ہے جو ان کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پیشتر نازل ہوچکی ہیں بلکہ آپ ﷺ پر اتاری گئی کتاب ان سب پر محافظ و نگہبان ہے کہ ان کتابوں کی سچائیاں بھی اس کے اندر محفوظ کردی گئی ہے ۔ یاد رہے کہ اس تصدیق سے ان کتابوں کی تحریفات وتصحیفات کی تصدیق ہرگز لازم نہیں آتی ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس کتاب میں قرآن کریم کو مُهَیْمِنًا کہا گیا ہے جس کے لفظی معنی ہیں حفظ ونگہبانی کرنے والی چیز کی جو اس کے دائرہ کے اندر ہو جس سے یہ لازم آتا ہے کہ اس کتاب قرآن کریم نے جو پہلی کتابوں کی ہدایات بیان کی ہیں اور جس انداز میں سابق قصے بیان کئے ہیں وہ بالکل حق اور سچ ہیں لیکن جو ان میں تحریف و تصحیف تھی اس کو اس کتاب میں جگہ نہیں مل سکی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں جتنے قصص انبیاء کرام کے بیان ہوئے ہیں ان میں وہ ساری چیزیں ایک ایک کر کے نکال دی گئیں جو اہل کتاب نے اپنے پاس سے ان میں داخل کی تھیں اور قرآن کریم نے ان کو چھوا تک نہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے مفسرین نے وہ ساری دور از کار باتیں وہاں سے لے کر بطور تفسیر قرآن کریم میں بھردی ہیں۔ یہ بات اس لئے عرض کی جارہی ہے تاکہ اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ ان کی ذمہ داری قرآن کریم نے ہرگز نہیں لی تھی اس لئے ان کو چھیڑا تک نہیں گیا تاکہ وہ جن کے ذمہ کی بات ہے وہ انہی کے سر رہے۔ ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں ” مُهَیْمِنًا “ کے معنی ” حاکم “ ” امین “ ” شہید “ اور ” موتمن “ وغیرہ متعدد کئے ہیں اور یہ سب معنی قریب المعنی بھی ہیں اور ” مُهَیْمِنًا “ کا مفہوم بھی ان سب پر شامل ہے اور قرآن کریم سب کتابوں کا خاتم اور سب سے اکمل و اعظم و اشمل ہے۔ بعض مفسرین نے نقل کیا ہے کہ ” مُهَیْمِنًا “ سے مراد محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہے اور ” علیہ “ میں ضمیر قرآن کریم کی طرف ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ قرآن کریم پر بطور ” مُهَیْمِنًا “ کے ہیں لیکن امام ابن جریر (رح) رقمطراز ہیں کہ معنی قواعد عربیت کے لحاظ سے صحیح نہیں اور یہ روایات بھی ثقہ نہیں وہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ مراد ہوتی تو مصدقا اور مھیمنا کے درمیان واؤ عطف نہ ہوتا۔ عطف کے بعد تو دونوں صفتیں ایک ہی موصوف قرآن کریم کی ہو سکتی ہیں۔ ( ابن جریر) قرآن کریم کی دو صفتیں پہلے بیان ہوچکی ہیں ایک یہ کہ وہ بذات خود صحیح اور سچا ہے دوسری یہ کہ وہ اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے یعنی پہلی کتابوں کے سارے مضامین جو تحریف تصحیف سے پاک تھے وہ اس میں آچکے ہیں اور اس کے اندر جمع ہو کر محفوظ ہوچکے ہیں ۔ اب ان مضامین کے علاوہ جو کچھ پہلی کتابوں میں موجود ہے ان کی کوئی ذمہ داری نہیں دی جاسکتی کہ ان میں جو کچھ ہے وہ کس انداز اور کھاتے کا ہے ۔ ہاں ! جو کچھ قرآن کریم میں محفوظ ہے وہ اب ان کے لئے معیار کا کام بھی دے گا جو اس کے مطابق ہوگا وہ لے لیا جائے گا اور جو اس کے مطابق نہیں ہوگا اس کو چھوڑ دیا جائے گا ۔ کاش کہ اس معیار کو علمائے اسلام بھی قبول کرتے تو آج کتنی بیماریوں سے مسلمان محفوظ ہوتے اور اہل کتاب سے مناکحت اور ان کے طعام وذبیحہ سے جو غلط مفہوم لیا گیا ہے اس کا آج نام و نشان بھی نہ ہوتا اور ان راستوں سے جو خرابیاں اسلام کے اندر پھیلیں اور جو بیماریاں من حیث القوم پھوٹیں اور ان سے جو تباہیاں ہوئیں بلکہ ہو رہی ہیں ان سب سے مسلمان محفوظ رہتے۔ قرآن کریم کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کی تاکید الٰہی : 142: اہل تورات کو تورات کے مطابق اور اہل انجیل کو انجیل کے مطابق فیصلے دینے کی ہدایات کے بعد اب اہل قرآن کو قرآن کریم کے مطابق فیصلے دینے کی تاکید کی جا رہی ہے بَیْنَهُمْ یعنی اہل کتاب کے درمیان جب کہ ان کے معاملات آپ ﷺ کے سامنے پیش ہوں اور اہل اسلام کے درمیان جب کوئی مناقشہ پیدا ہوجائے۔ اس جگہ ارشاد ہی سے کام لیا گیا ہے ’ کیوں ؟ اس لئے کہ اس تشریح اور سورة النساء میں مکمل گزر چکی ہے ملاحظہ ہو تفسیر عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة النساء کی آیات 59 سے 65 اور آیت 80 ، 81۔ زیر نظر آیت میں آپ ﷺ کو وہی حکم دیا گیا جو اہل تورات اور اہل انجیل کو دیا گیا تھا کہ آپ ﷺ کے احکام اور فیصلے سب اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق ہونے چاہئیں اور یہ جو لوگ آپ ﷺ سے اپنی خواہشات کے مطابق فیصلہ کرانا چاہتے ہیں ان کے فریب میں نہ آئیں اس جگہ اس حکم کی ایک خاص وجہ یہ ہوئی کہ یہود کے چند علما نبی اعظم وآخر ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ ﷺ جانتے ہیں کہ ہم یہود کے علماء و پیشوا ہیں اگر ہم مسلمان ہوگئے تو ہماری قوم کے سب لوگ بھی مسلمان ہوجائیں گے لیکن ہماری ایک شرط ہے ؟ وہ یہ کہ ہمارا ایک مقدمہ آپ ﷺ کی قوم کے ساتھ ہے ہم یہ مقدمہ آپ ﷺ کی قوم کے ساتھ ہے ہم یہ مقدمہ آپ ﷺ کے پاس لائیں گے آپ ﷺ اس میں فیصلہ ہمارے موافق فرما دیں تو ہم مسلمان ہوجائیں گے۔ اگرچہ ان کے کہنے سے ان کی بات پر عمل کرنے کا کوئی امکان موجود نہ تھا نہ ہی ایسا ہونا ممکن تھا تاہم رسول اللہ ﷺ کو متنبہ کر کے امت مسلمہ کو بتا دیا کہ ایسے حالات میں ان کو کیا کرنا ہے ۔ فرمایا آپ ﷺ ان لوگوں کے مسلمان ہوجانے کے پیش نظر عدل و انصاف اور اللہ کے نازل کردہ قانون کے خلاف فیصلہ ہرگز ہرگز نہ دیں اور اس کی پروانہ کریں کہ یہ مسلمان ہوں گے یا نہیں۔ دوسری طرف قرآن کریم نے یہ بھی بتا دیا کہ یہ لوگ یعنی یہود کے علماء اتنے ڈھیٹ ہیں کہ ان کو اس طرح کی سکیمیں بناتے ہوئے ذرا شرم نہیں آتی اور ان کو اپنے منصب کا بھی خیال نہیں رہتا کہ اس طرح کہ ہتھکنڈے استعمال کرکے ہم قوم کے پیشوا اور راہنما کس طرح کہلا سکتے ہیں۔ شرائع انبیاء میں جزوی اختلاف اور اس کی حکمتیں : 143: پیچھے سارے انبیاء کرام کا ایک ہی ” دین “ ہونے کا ذکر گزر چکا ہے جس سے قدرتی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تمام بانیان مذاہب نے ایک ہی اصل اور قانون کی تعلیم دی ہے تو پھر مذہب میں اختلاف کیوں ہوا ؟ کیوں تمام مذاہب میں ایک ہی طرح کے احکام ، ایک ہی طرح کے اعمال ، ایک ہی طرح کی رسوم و ظواہر نہ ہوئے ؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ مذہب کا اختلاف دو طرح کا ہے ایک اختلاف تو وہ ہے جو پیروان مذاہب نے مذہب کی حقیقی تعلیم سے منحرف ہو کر پیدا کرلیا ہے ظاہر ہے کہ یہ اختلاف مذاہب کا اختلاف نہیں ہے بلکہ پیروان مذاہب کی گمراہی کا نتیجہ ہے۔ دوسرا اختلاف وہ ہے جو فی الحقیقت مذاہب کے احکام و اعمال میں پایا جاتا ہے وہ ناگزیر تھا کیوں ؟ اس کی مثال کو سمجھنے کے لئے یوں سمجھو کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے انسان ہی کہلاتا ہے پھر انسانی زندگی میں کتنی منازل ہیں کہ وہ بچہ ہے کبھی اٹھتی جوانی میں اور پھر مکمل جو ان اور کبھی بوڑھا پھر غور کرو کہ جب اس کی حالت ہی تغیر پزیر ہے تو وہ ایک جیسے اعمال و احکام کا متحمل کیسے ہو سکتا ہے بالکل اس طرح مذاہب کی حالت ہے ایک دور ابھی انسانی زندگی کے بچپنے کا تھا کبھی جوانی کا اور کبھی بڑھاپے کا پھر انسان زندگی کے مختلف ادوار میں ایک جیسے اعمال و احکام کیسے ہو سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان میں اختلاف ناگزیر تھا بالکل اسی طرح مذاہب کا اختلاف ہے اور یہی کچھ ہوا یہی وجہ ہے کہ یہ اختلاف اصل و حقیقت کا اختلاف نہیں ہے محض فروع وظواہر کا اختلاف ہے اور ضروری تھا کہ یہ ظہور میں آتا۔ اس بات کو وہ زور دے کر کہتا ہے کہ مذہب کی تعلیم دو قسم کی باتوں سے مرکب ہے ایک قسم تو وہ ہے جو ان کی روح و حقیقت ہے۔ دوسری وہ جن سے ان کی ظاہری شکل و صورت آراستہ کی گئی ہے پہلی چیز اصل ہے دوسری فرع ہے پہلی چیز کو وہ ” دین “ سے تعبیر کرتا ہے اور دوسری کو ” شرع “ ” منہاج “ اور ” نسک “ سے اور یہ سب انسانی زندگی کے مختلف ادوار کے طور طریقے ہیں اور یہ کیسے ممکن تھا کہ انسانی زندگی کے ادوار تو مختلف ہوں لیکن طور طریقے مختلف نہ ہوں۔ قرآن کریم بار بار تعلیم دیتا اور تلقین کرتا ہے کہ مذاہب میں جس قدر بھی اختلاف ان کا اصل اختلاف ہے وہ ” دین “ کا اختلاف نہیں محض شرع و منہاج کا اختلاف ہے ۔ یعنی اصل کا نہیں فرع کا ہے۔ حقیقت کا نہیں ظواہر کا ہے ۔ روح کا نہیں ہے صورت کا ہے اور ضروری تھا کہ یہ اختلاف ظہور میں آتا۔ مقصود مذہب انسانی جمعیت کی سعادت واصلاح ہے لیکن انسانی جمعیت کے احوال و ظروف ہر عہد اور ہر ملک میں یکساں نہیں رہے ہیں اور نہ یکساں رہ سکتے تھے ۔ کسی زمانہ کی معاشرتی اور ذہنی استعداد ایک خاص طرح کی نوعیت رکھتی تھی ، کسی زمانہ میں ایک خاص طرح کی کسی ملک کے حالات ایک خاص طرح کی معیشت چاہتے تھے کسی دوسرے ملک کے حالات دوسری طرح کے۔ پس جب مذہب کا ظہور جیسے زمانہ میں اور جیسی استعداد طبیعت کے لوگوں میں ہوا اس کے مطابق شرع و منہاج کی صورت بھی اختیار کی گئی۔ جس عہد اور جس ملک میں جو صورت اختیار کی گئی وہی اس کے موزوں تھی اس لئے ہر صورت اپنی جگہ بہتر اور حق ہے اور یہ اختلاف اس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا جتنی اہمیت نوع بشری کے تمام معاشرتی اور طبعی اختلافات کو دی جاسکتی ہے۔ اس سلسلہ کی وضاحت پیچھے سورة بقرہ میں بھی گزر چکی ہے تفصیل دیکھنا ہو تو عروۃ الو ثقیٰ جلد اول تفسیر سورة بقرہ کی آیات 145 تا 148 اور آیت 177 ملاحظہ فرمائیں۔ اگر تمہیں مجبور کر کے ایک امت بنایا جاتا تو تمہاری آزمائش کیسے ممکن ہوتی ؟ 144: ” اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا تاکہ جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے اس میں تمہیں آزمائے۔ “ آیت کے اس حصہ پر سرسری نظر ڈال کر آگے نہ بڑھ جاؤ بلکہ اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرو۔ عربی عبارت کو متن سے پڑھو اور ترجمہ پر باربار نگاہ ڈالو تم سمجھ جاؤ گے کہ قرآن کریم جب نازل ہوا تو دنیا کا کیا حال تھا یہی ناکہ تمام پیروان مذاہب مذہب کو صرف اس کے ظواہر و رسوم ہی میں دیکھتے تھے اور مذہبی اعتقاد کا تمام جوش و خروش اسی طرح کی باتوں میں سمٹ آیا تھا ۔ ہر گروہ یقین کرتا تھا کہ دوسرا گروہ نجات سے محروم ہے کیونکہ وہ دیکھتا تھا کہ دوسرے کے اعمال و رسوم ویسے نہیں ہیں جیسے خود اس نے اختیار کر رکھے ہیں۔ لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ نہیں ، یہ اعمال و رسول نہ تو دین کی اصل و حقیقت ہیں اور نہ ان کا اختلاف حق و باطل کا اختلاف ہے ۔ وہ پوچھتا ہے کہ تم بتاؤ اصل دین کیا ہے ؟ پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ ایک اللہ کی پرستش اور نیک عمل کی زندگی پھر وہ کہتا ہے کہ تم دیکھ رہے ہو کہ یہ جو اصل دین ہے کسی ایک گروہ کی میراث نہیں ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے انسان کونہ ملی ہو بلکہ یہ تمام مذاہب میں یکساں طور پر موجود ہے اور چونکہ یہ اصل دین ہے اس لئے نہ تو اس میں تغیر ہوا اور نہ ہی کسی طرح کا اختلاف رونما ہوا۔ دوسری رسوم اس کی فرح ہیں اس لئے ہر زمانے اور ہر ملک کی حالت کے مطابق وہ بدلتی رہی ہیں اور جس قدر بھی اختلاف ہوا صرف اور صرف انہیں میں ہوا۔ قرآن کریم بار بار اعلان کرتا ہے کہ تم میں سے ہر جماعت کے لئے اللہ نے ایک ” شرح “ اور ” منہاج “ ٹھہرادی یہ نہیں کہا کہ ہر جماعت کے لئے الگ الگ ” دین “ ٹھہرا دیا کیونکہ ” دین “ تو سب کے لئے ایک ہی ہے اسیں تعدد اور تنوع ممکن نہیں البتہ (شرع) و (منہاج) سب کے لیے یکساں نہیں ہو سکتے تھے ضروری تھا کہ وہ ہر عہد اور ہر ملک کے احوال و ظروف کے مطابق مختلف ہوتے پس مذاہب کا اختلاف اصل کا اختلاف نہیں ہوا محض فرع کا اختلاف ہوا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جہاں کہیں قرآن کریم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ” اگر اللہ چاہتا تو تمام انسان ایک ہی راہ پر جمع ہوجاتے “ یا ” ایک ہی قوم وملت بن جاتے “ جیسا کہ زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا گیا تو ان سب سے مقصود اسی حقیقت کا اظہار ہے وہ چاہتا ہے کہ یہ بات لوگوں کے دلوں میں اتار دے کہ فکر و عمل کا اختلاف طبیعت بشری کا قدرتی خاصہ ہے اور جس طرح وہ ہر گوشے میں موجود ہے اسی طرح مذہب کے معاملہ میں بھی موجود ہے پس اس اختلاف کو حق و باطل کا معیار نہیں سمجھنا چاہئے ۔ وہ کہتا ہے جب اللہ نے انسان کی طبیعت ہی ایسی بنائی ہے کہ ہر انسان ، ہر قوم ، ہر عہد اپنی اپنی سمجھ ، اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا طور طریقہ رکھتا ہے اور ممکن نہیں کہ کسی ایک چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی تمام انسانوں کی طبیعت ایک طرح کی ہوجائے تو پھر کیونکر ممکن تھا کہ انسان سے یہ فطری چیز ہی سلب کرلی جائے اور فرض کیجئے کہ گرسلب کر ہی لی جائے تو وہ آخر انسان کیونکر ہوا کہ جس اختیار نے اسکو انسان بنایا تھا اور مکلف کیا تھا وہی اس سے سلب کرلیا گیا اور پھر وہ مکلف بھی رہایہ ممکن نہیں ہے تو پھر کیونکر ممکن تھا کہ مذہبی اعمال و رسوم کی راہیں مختلف نہ ہوتیں اور سب ایک ہی طرح کی وضع و حالت اختیار کرلیتے ؟ دوسری ساری حالتوں کی طرح یہاں بھی اختلاف ہونا تھا اور اختلاف ہوا پھر تم نے اس اختلاف کو ضد اور عناد میں کیوں بدل دیا ؟ اور کیوں اس کو برداشت نہ کیا ؟ کیوں ایک گروہ دوسرے گروہ کو جھٹلائے ؟ اور کیوں مذہبی سچائی کسی ایک ہی نسل و گروہ کی میراث سمجھ لی جائے ؟ کیوں یہ نہ کہا جائے کہ سچائی جہاں بھی ہوگی وہ سچائی ہوگی اور جھوٹ جہاں بھی ہوگا جھوٹ ہی ہوگا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ شریعتوں کے اس اختلاف ہی کے لیئے نہیں بلکہ فکر و عمل کے ہر اختلاف کے لئے رواداری اور وسعت نظر کی تعلیم دیتا ہے یہاں تک کہ جو لوگ اس کی دعوت کے خلاف جبر وتشدد کام میں لا رہے تھے ان کی طرف سے بھی اسے معذرت کرنے میں تامل نہیں۔ چناچہ ایک موقعہ پر خود پیغمبر ﷺ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ تم جوش دعوت میں چاہتے ہو کہ ہر انسان کو راہ حقیقت دکھا دو لیکن آپ ﷺ کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اختلاف فکر وعمل طبیعت انسانی کا قدرتی خاصہ ہے تم بجبر کسی کے اندر ایک بار نہیں اتار سکتے۔ فرمایا : وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّهُمْ جَمِیْعًا 1ؕ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ 0099 (یونس 10 : 99) اور اگر تمہارا رب چاہتا تو زمین میں جتنے انسان ہیں سب ایمان لے آتے پھر کیا تم چاہتے ہو کہ لوگوں کو مجبور کر دو کہ وہ مومن ہوجائیں ؟ مطلب کیا ہوا ؟ یہ کہ جب تم دیکھ رہے ہو کہ اس کی حکمت و مشیت کا فیصلہ یہی ہوا کہ ہر انسان اپنی اپنی سمجھ اور اپنی اپنی راہ چلے یعنی خود سمجھ سوچ کر چاہے تو ہدایت کو قبول کرے اور چاہے تو ٹھکرا دے کیونکہ اس آزمائش کے لئے یہ ناگزیر تھا تو پھر تم اس کو ایمان پر مجبور کی سے کرسکتے ہو ؟ اور اگر کرو گے بھی تو اس کا نتیجہ کیا رہے گا ؟ یہ کہ وہ اس کے حق میں ایمان نہیں رہے گا بلکہ ظلم ہوجائے گا۔ اس لئے کہ جس طرح تمہاری نظر میں سب سے بہتر راہ تمہاری ہے ٹھیک اس طرح دوسروں کی نظر میں سب بہتر راہ ان کی ہے پس اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس بارہ میں تحمل اور رواداری اپنے اندر پیدا کرو اور یہی آزمائش میں پورا اترنا ہے ۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد ہوا کہ : ” اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسری ہستیوں کو پکارتے ہیں تم ان کے معبودوں کو گالیاں نہ دو کہ پھر وہ بھی حق سے متجاوز ہو کر بےسمجھے بوجھے اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں گے ہم نے اس طرح ہر قوم کے لیے اس کے کاموں کو خوشنما کردیا ہے پھر بالآخر سب کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے اس وقت وہ ان سب پر ان کے کاموں کی حقیقت کھول دے گا جو وہ کرتے رہے ہیں۔ “ (الانعام 6 : 108) غور طلب بات یہ ہے کہ جب سب مذاہب کی اصل ایک ہے تو پھر قرآن کریم کی ضرورت کیا ؟ : 145: جب تمام مذاہب کا اصل مقصد ایک ہی ہے تو پھر قرآن کریم کے ظہور کی ضرورت کیا تھی ؟ اس سوال کا جواب قرآن کریم نے اتنی بار دیا ہے کہ شاید ہی کوئی بات اتنی بار بیان کی ہو وہ کہتا ہے قرآن کریم کی ضرورت اس لئے تھی کہ اگرچہ تمام مذاہب سچے ہیں کیونکہ ان کی اصل ایک ہے لیکن تمام مذاہب کے پیرو سچائی سے منحرف ہوگئے ہیں اس لئے ضروری ہوا کہ سب کو ان کی اپنی ہی گم شدہ سچائی پر از سر نو جمع ہونے کی دعوت دی جائے۔ یاد رہے کہ دعوت دینا اور مجبور کرنا اپنے اندر ایک واضح فرق رکھتا ہے۔ اس سلسلہ میں اس نے پیروان مذاہب کی تمام گمراہیاں ایک ایک کر کے گنائی ہیں جو اعتقادی اور عملی دونوں طرح کی ہیں من جملہ ان کی ایک سب سے بڑی گمراہی جس پر جابجا زور دیتا ہے وہ ہے جسے اس نے ” تشیع اور تخرب “ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے ۔ عربی زبان میں ” تشیع اور تخرب “ کے معنی یہ ہیں کہ الگ الگ جتھے بنا لینا اور ان میں ایسی روح کا پیدا ہوجانا جسے اردو میں گروہ پرستی کی روح سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ چناچہ دوسری جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ 1ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ 00159 ( الانعام 6 : 159) ” جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور الگ الگ گروہ بن گئے تمہیں ان سے کچھ سروکار نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ، پھر وہی بتلائے گا کہ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے ؟ “ ایک جگہ ارشاد ہوا کہ : فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ زُبُرًا 1ؕ کُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ 0053 (المومنون 23 : 53) ” لیکن لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کٹ کر الگ ہوگئے اور اپنا دین الگ کرلیا ، اب جو جس کے پلے پڑگیا ہے اس میں مگن ہے۔ “ دین کی راہ ایک تھی اور ایک ہی ہونی چاہئے تھی لیکن لوگوں نے اس کو بیشمار جتھوں اور ٹولیوں میں تقسیم کردیا اور پھر ہر جتھا ایک ہی طریقہ پر اپنی سچائی کا مدعی ہے اور ایک ہی طریقہ پر دوسروں کو جھٹلارہا ہے تو اب اس بات کا فیصلہ کیونکر ہو کہ فی الحقیقت سچائی ہے کہاں ؟ قرآن کریم کہتا ہے سچائی اصلاً سب کے پاس تھی مگر عملاً سب نے کھو دی ہے ۔ سب کو ایک ہی دین کی تعلیم دی گئی تھی اور سب کے لئے ایک ہی عالمگیر قانون ہدایت تھا لیکن سب نے اصل حقیقت ضائع کردی اور ” الدین “ پر قائم رہنے کی جگہ الگ الگ گروہ بندیاں قائم کرلیں۔ اب ہر گروہ دوسرے گروہ سے لڑرہا ہے اور سمجھتا ہے کہ دین کی سعادت اور نجات صرف اسی کے ورثہ میں آتی ہے دوسروں کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ آج قرآن کریم کی اس ہدایت کو قوم مسلم نے بھلا کر وہی گمراہی کی راہ اپنا لی جو قرآن کریم کی آمد سے پہلے دنیا کے لوگ اپنا چکے تھے اور نتجہد یہ ہوا کہ آج ہم مسلمان اس دلدل میں پھنس کر رہ گئے جس سے نکالنے کے لئے قرآن کریم آیا تھا اور افسوس پر مزید افسوس یہ ہے کہ آج ہم اس گمراہی کو گمراہی کہنے کے لئے بھی تیار نہیں بلکہ ہم نے اس کا نام ” ہدایت “ رکھ دیا ہے۔ مزید تفصیل دیکھنی چاہتے ہوں تو عروۃ الوثقیٰ جلد اول تفسیر سورة البقرہ آیت 106 ، 1113 ، 114 اور جلد دوم سورة آل عمران آیت 58 ، 74 اور سورة النساء آیت 12 کی تفسیر ملاحظہ کریں۔ زیر نظر آیت کے اس حصہ میں ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اے مسلمانو ! ” نیکی کی راہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ نکلنے کی کوشش کرو تم سب کو بلاخر اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے پس وہ تمہیں بتلائے گا کہ جن باتوں میں باہم دگر اختلاف کرتے رہے تھے ان کی حقیقت کیا تھی ؟ “ لیکن اس وقت کا معلوم ہوا کچھ فائدہ نہیں دے گا بلکہ الٹا نقصان ہی ہوگا کہ تاسف وافسوس اور قلق کو مزید بڑھادے گا۔
Top