Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 50
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ١ؕ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۠   ۧ
اَفَحُكْمَ : کیا حکم الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَبْغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَمَنْ : اور کس اَحْسَنُ : بہترین مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ حُكْمًا : حکم لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّوْقِنُوْنَ : یقین رکھتے ہیں
پھر کیا جاہلیت کے عہد کا سا حکم چاہتے ہیں ؟ اور ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھنے والے ہیں اللہ سے بہتر حکم دینے والا کون ہوسکتا ہے ؟
کیا اللہ سے بہتر حکم دینے والا بھی کوئی موجود ہے ؟ : 149: فطرت انسانی تو یہ ہے کہ انسان ” بہ “ سے ” بہتر “ اور ” بہتر سے بہترین “ کی طرف بڑھے لیکن جو قوم من حیث القوم اپنی انسانی فطرت ہی کو بھول چکی ہے اور ” بہتر “ سے کمتر “ کی طرف لوٹنے کی کوشش کرے اور اصول خداوندی بھی یہ موجود ہے کہ ” جو یندہ یا بندہ “ ہوتا ہے وہ ” بہتر “ سے ” بہترین “ کی طرف کب موڑ سکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ خدا کی اتاری ہوئی شریعت کے مقابلہ میں انسانوں کی بنائی ہوئی شریعت کبھی ” بہتر “ نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ہمیشہ ” کمتر “ ہی ہوگی اور شریعت الٰہی کو چھوڑ کر جو لوگ کہیں سے اور فیصلے چاہتے ہیں تو اس کے معنی کیا ہیں ؟ یہی کہ وہ خدا کی شریعت پر جاہلیت کے قانون کو ترجیح دیتے ہیں اور پھر کسی مدعی شریعت گروہ کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ جو لوگ اللہ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ان کے لئے اللہ کے قانون اور اللہ کے فیصلے سے بڑھ کر کس کا قانون اور کس کا فیصلہ ہو سکتا ہے اگر ان کے نزدیک کوئی اور قانون اللہ کے قانون سے بڑھ کر ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اللہ اور آخرت کی کسی چیز پر بھی یقین نہیں ۔ اس جگہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِیَّةِ کا لفظ ” بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ “ کے بالمقابل استعمال ہوا ہے جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ ہر وہ قانون جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے خلاف ہے وہ جاہلیت کا قانون ہے خواہ وہ قرون مظلمہ کی تاریکی میں وجود پذیر ہوا ہو یا بیسیوں صدی کی روشنی میں۔ اس لئے کہ ” اللہ کے قانون کے خلاف ہر قانون قانون جاہلیت ہے۔ “
Top