Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 58
وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّ لَعِبًا١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ
وَاِذَا : اور جب نَادَيْتُمْ : تم پکارتے ہو اِلَى : طرف (لیے) الصَّلٰوةِ : نماز اتَّخَذُوْهَا : وہ اسے ٹھہراتے ہیں هُزُوًا : ایک مذاق وَّلَعِبًا : اور کھیل ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ وہ قَوْمٌ : لوگ لَّا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے ہیں (بےعقل)
اور جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو تو یہ اسے تماشا بناتے ہیں اور ہنسی اڑاتے ہیں یہ ایک ایسا گروہ ہے جو سمجھ بوجھ سے یک قلم بےبہرہ ہے
جب تم نماز کی دعوت دیتے ہوتویہ لوگ اس کا بھی مذاق اڑاتے ہیں : 165: نماز کی دعوت کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ وہ اذان ہی ہے۔ اذان کے کلمات چونکہ بآواز بلند پکارے جاتے تھے اس لئے جب موذن اذان کو پکارتا تو یہ لوگ اس کی نقلیں اتارتے اور مذاق اڑاتے کہ دیکھو ابھی تو یہ آدمی اچھا بھلا سلجھا اور منجھا ہوا نظر آرہا تھا اور ابھی اس نے حال و پکار شروع کردی اس سے پوچھو کہ تم کو کیا ہوا ہے کیا کوئی جن یا بھوت اس پر آگیا ہے ؟ ان کو کیا معلوم کہ اس صدا میں کیا شیرینی ہے اور اس نماز کا ماحصل کیا ہے جس کی طرف یہ دعوت دے رہا ہے ؟ یہ ایک نظم کے ساتھ اوپر نیچے ہونا اور کبھی اوندھے ہو کر منہ کر بل زمین پر گرنے میں کیا حکمت ہے ؟ یہ لوگ صرف ظاہری حرکات و سکنات کو دیکھتے ہیں اور ان حرکات و سکنات کے اندر جو روح نماز ہے اس سے یہ خود بےبہرہ ہیں اس لئے ان کو ہنسی آتی ہے کہ یہ لوگ کس ترتیب کے ساتھ ان بےمعنی حرکات کو ادا کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کو راضی کر رہے ہیں ۔ ان کو خدا راضی کرنا ہوتا تو پہلے خود خوشی کے عالم میں ناچتے گاتے تالیاں لگاتے سیٹیاں بجاتے پھر منہ سے کچھ ہو ہوا بھی نکالتے تو ہم سمجھتے کہ یہ رب کو راضی کر رہے ہیں ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ خود یہ سارے کام کرتے تھے اور دوسری قوموں کو اس طرح کرتے دیکھتے تھے اور ظاہر ہے کہ جو سب لوگ کرتے ہیں ۔ اس کی سند کیلئے اتنی ہی بات کافی ہوتی ہے کہ یہ کام اور اس طرح کی حرکات و سکنات یہ تو سب کرتے ہیں۔ یہ نیا طریقہ انہوں نے رب کو راضی کرنے اور اس کی عبادت بجالانے کا کہاں سے نکال لیا جس کے لئے باقاعدہ وضو اور پھر ایک خاص نظم و ضبط کے ساتھ اوپر نیچے کی حرکات و سکنات۔ اس میں جب خوشی کی کوئی بات ہی نہیں تو خدا خوش کیونکر ہوگا۔ اذان اللہ کی بندگی کی دعوت ہے اس کا مذاق اڑانا بالخصوص ان لوگوں کی طرف سے جو کتاب الٰہی کے حامل ہونے کے خود بھی دعویدار ہوں ، خود خدا کی تحقیر اور اس کا مذاق اڑانے کے ہم معنی ہے ایسے لوگ یقینا اس لائق نہیں ہیں کہ کوئی مسلمان ان سے دوستی رکھے۔ اگر کوئی شخص ان سے دوستی رکھتا ہے اور اس کے باوجود وہ ایمان کا مدعی بھی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ غیرت ایمانی سے بالکل خالی ہے اور غیرت ایمانی سے خالی شخص اپنے ایمان کی کبھی حفاظت نہیں کرسکتا اس لئے کہ وہ ایمان نام کی کوئی شے کس طرح تسلیم کرے گا جب کہ ایمان کسی گھوڑے ، گدھے کا نام نہیں کہ جس کو وہ دیکھ کر تسلیم کرلے۔ اگر کوئی شخص اس کو ٹھٹھا مذاق سمجھے گا تو وہ صرف ایمان جیسی دولت سے ہی خالی نہیں سمجھا جائے گا بلکہ وہ عقل سے محروم ہوگا اور اگر کوئی بیوقوف ہے تو پھر وہ چاہے جو کچھ کرے اور چاہے جو کچھ سمجھے۔ اذان کا آغاز ملت اسلامی میں کس طرح ہوا ؟ احادیث و روایات میں اسکی تفصیل موجود ہے اور کلمات میں کسی طرح کے اختلاف سے بھی صرف نظر کیا جاسکتا ہے لیکن اس امر میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ جس شکل میں وہ موجود ہے اس میں کسی قسم کی ترمیم کی گنجائش موجود ہوحاشا کلام ہرگز نہیں اس کو امت کے تواتر قولی و فعلی کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کی تصدیق وتصویب بھی حاصل ہے ۔ پھر شعائر کا معاملہ دین میں بذاتہ ایک بہت اہم معاملہ ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اذان شعائر الٰہی میں سے ایک شعائر ہے۔
Top