Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 62
وَ تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَتَرٰى : اور تو دیکھے گا كَثِيْرًا : بہت مِّنْهُمْ : ان سے يُسَارِعُوْنَ : وہ جلدی کرتے ہیں فِي : میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور سرکشی وَاَكْلِهِمُ : اور ان کا کھانا السُّحْتَ : حرام لَبِئْسَ : برا ہے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کر رہے ہیں
اور تم ان میں سے بہتوں کو دیکھو گے کہ وہ گناہ ، ظلم اور مال حرام کھانے میں تیزگام ہیں ، کیا ہی برے کام ہیں جو وہ کر رہے ہیں
یہود کے اس مخصوص گروہ کے دعوئے ایمان کی پردہ دری : 170: اگرچہ عام طور پر یہود کا یہی حال تھا جو اوپر مذکور ہوا لیکن چونکہ ان میں کچھ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ان اوصاف کے حامل نہیں تھے اگرچہ وہ آٹے میں نمک کے برابر یا اس سے بھی کم ہوں تاہم قرآن کریم نے اس کا لحاظ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : ” کَثِیْرًا “ اور اسی طرح کچھ لوگوں کو اس سے مستثنیٰ کردیا کہ ان میں سے اکثر کی حالت یہ ہے اور بہت تھوڑے ہیں جو انسانی اوصاف کے حامل ہیں ۔ پھر ظلم وتعدی اور حرام خوری دونوں اگرچہ لفظ ” اثم “ میں داخل ہیں لیکن ان دونوں قسم کے گناہوں کی تباہ کاری اور ان کی وجہ سے پورے امن و اطمینان کی بربادی واضح کرنے کے لئے خصوصیت کے ساتھ ان کا علیحدہ ذکر کردیا۔ (بحر محیط) پھر ان لوگوں کے متعلق دوڑ دوڑ کر گناہوں پر گرنے کا عنوان اختیار کرکے قرآن کریم نے اسکی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ لوگ ان بری خصلتوں کے عادی مجرم ہیں اور یہ برے اعمال ان کے ملکات راسخہ بن کر ان کی رگ و پے میں اس طرح پیوست ہوگئے ہیں کہ بلا ارادہ بھی یہ لوگ اسی طرف چلتے تھے اور زنگ لگ لگ کر ان کے دلوں کی یہ کیفیت ہوچکی ہے کہ حق بات ان پر کوئی اثر نہیں کرتی۔ حرام ان کی گھٹی میں داخل ہوچکا ہے کیونکہ یہ نئے مجرم نہیں بلکہ پرانے مجرموں کی اولاد در اولاد ہیں اور کوئی حرام ان کو حرام نظر نہیں آتا بلکہ یہ اس کو صرف حلال ہی نہیں جانتے متبرک بھی سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ نیک عمل ہو یا بد جب کوئی انسان اس کو بکثرت کرتا ہے تو رفتہ رفتہ وہ ایک ملکہ راسخہ اور عادت بن جاتی ہے پھر اس کے کرنے میں کرنے والے کو کوئی مشقت اور تکلف باقی نہیں رہتا۔ قرآن کریم یہی بتا رہا ہے کہ بری خصلتوں میں یہودی اس حد پر پہنچے ہوئے تھے کہ وہ ” ظلم کرنے اور حرام مال کھانے میں تیز گام ہوچکے تھے ۔ “ یعنی ظلم کرنے اور حرام مال کھانے میں وہ پیش پیش تھے اور بہت جلدی کرتے تھے گویا وہی ان کے لئے مرغوب اور ترلقمہ تھا اور برائی ان کی نظروں میں بالکل برائی نہیں رہی تھی۔ مختصر یہ کہ قرآن کریم کی اس آیت میں یہ اشارہ نکلتا ہے کہ انسان میں کچھ ملکات ہوتے ہیں جو طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں یہ ملکات خیر اور بھلائی کے ہوں تو نیک عمل خود بخود ہونے لگتے ہیں اور اس طرح اگر ملکات برے ہیں تو برے اعمال کی طرف انسان خود بخود دوڑنے لگتا ہے اس لئے مکمل اصلاح کے لئے ان ملکات کی اصلاح ضروری ہے مثلاً کسی کے دل میں مال دنیا کی حرص کا غلبہ ہے اس لئے وہ رشوت لیتا ہے ، سود کھاتا ہے ، موقع ملے تو چوری اور ڈاکہ تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے ۔ ان سارے برے افعال کی اصل اور ملکہ کیا ہے ؟ ” مال دنیا کی حرص “ تو ایسے لوگوں کیلئے دنیا کی ناپائیداری اور اس کی عیش و عشرت کے زہر آلود ہونے کا مسلسل بیان اور باربار تلقین بلکہ اس کی حفاظت کرنے سے اگر اللہ چاہے تو اس کے ملکہ کو بدلا جاسکتا ہے یا یوں سمجھئے کہ یہ کوشش اس کے لئے مفید ہو سکتی ہے۔ اس طرح کسی کے دل میں تکبر و غرور ہے یا وہ غصہ سے مغلوب ہے اور دوسروں کی تحقیر و توہین کرتا ہے ، دوستوں اور پڑوسیوں سے لڑتا ہے تو ” فکرآخرت “ کا ملکہ پیدا کرنا اس کے لئے نفع مند ہو سکتا ہے اگر اس کو اپنے ملک حقیقی کے سامنے جواب وہ ہونے کا یقین ہوجائے تو وہ اس بیماری سے بچ سکتا ہے جو اس کو لاحق ہوچکی ہے۔
Top