Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 76
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا١ؕ وَ اللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
قُلْ : کہ دیں اَتَعْبُدُوْنَ : کیا تم پوجتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَا يَمْلِكُ : مالک نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے ضَرًّا : نقصان وَّلَا نَفْعًا : اور نہ نفع وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہی السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
تم کہو کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی ہستیوں کی بندگی کرتے ہو جن کے اختیار میں نہ تو تمہارا نقصان ہے نہ نفع اور اللہ تو سننے والا علم رکھنے والا ہے
اللہ کے سوا عبادت و پرستش کے قابل اور کون ہے ؟ : 197: ” اے پیغمبر اسلام ! تم کہو کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی ہستیوں کی بندگی کرتے ہو جن کے اختیار میں نہ تمہارا نفع ہے اور نہ نقصان ، اللہ تو سننے والا علم رکھنے والا ہے ۔ غور کرو کہ یہ سارا خطاب کس سے ہے ؟ صاف اور سیدھا جواب تویہی ہے کہ مسیحیوں کو ہے۔ ہاں ! بلاشبہ مسیحیوں ہی کو ہے۔ پھر تم ہی بتاؤ کہ ان مسیحیوں پر اللہ نے مشرک ہونے کی مہر لگائی ہے یا نہیں ؟ کیا میحہ اپنے اس شرک سے باز آئے ؟ بالکل نہیں بلکہ مسیحیوں کی مشہور ومعروف اور مستند کتاب انسائیکلوپیڈیا آف ریلی جینس اینڈ ایتھکس میں فخریہ انداز میں یہ درج ہے کہ کلب نے اپنی طویل تاریخ میں ” کبھی ایسا نہیں کیا کہ خدا کے ساتھ ساتھ مسیح سے بھی دعا نہ کی ہو۔ “ (جلد اول ص 104) اب غور کرو کہ مسیحیوں کا شرک کیا تھا ؟ یہی کہ انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کو ” اللہ ، اللہ کا بیٹا اور اللہ کا جزء “ قرار دیا ۔ مسیح (علیہ السلام) جو اللہ کے نبی تھے ان کو مشکل کشا اور حاجت روا جانا اور اپنے نفع ونقصان کا مالک سمجھا۔ مسیح عیہہ السلام کون تھے ؟ اللہ کے رسول تھے۔ پھر اللہ کے رسول کو مشکل کشا ، حاجت روا اور نفع و نقصان کا مالک سمجھنا کیا ہوا ؟ شرک ہی تو ہوا۔ اچھا عیسائی اللہ کے رسول کو مشکل کشا ، حاجت روا اور نفع ونقصان کا مالک سمجھیں تو مشرک اور اگر مسلمان اپنے پیارے رسول نبی اعظم و آخر ﷺ کے متعلق یہی عقیدہ رکھیں تو ” عاشقان رسول “ ” غلامان رسول “ اور ” محبان رسول “ قرار پائیں گے۔ سچی بات اور حقیقت تویہی ہے کہ ایسے نظریات رکھنے والے وہی کچھ ہیں جو مسیحیوں کے متعلق کہا گیا اور کسی اندھے کو ” نور عالم “ کہیں تو اس کو اس طرح کہنے سے یقینا وہ عالم کا نور نہیں بن جائے گا بلکہ اندھے کا اندھا ہی رہے گا آپ زیادہ سے زیادہ “ اندھا نور عالم “ ہی کہہ سکتے ہیں اور جان سکتے ہیں اور یہی حقیقت ہے۔ فرمایا ” اللہ تو سننے والا علم رکھنے والا ہے۔ “ اور مسیح (علیہ السلام) نے صاف صاف لفظوں میں اعلان فرما دیا کہ ” جب تک میں ان میں کا نگران ہال تھا یعنی مشاہدہ کرنا تھا کہ وہ کیا کچھ کہہ رہے ہیں جب تو نے میرے وقت پورا کردیا تو پھر تو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہی ہے کہ غیب کی ساری باتیں جانتا ہے اور تو ہی ہے کہ میرے دل کی باتیں جانتا ہے لیکن مجھے تیرے ضمیر کا علم نہیں۔ “ (المائدہ 5 : 117) زیر نظر آیت سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جس طرح بتوں ، درختوں ، جانوروں ، چاند ، سورج اور ستاروں کی پرستش کرنے والے ان چیزوں میں سے کسی کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے والے مشرک ہیں بالکل اسی طرح پیروں ، مرشدوں ، دلیوں ، فرشتوں ، جنوں ، اور نبیوں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے والے بھی یقینا مشرک ہیں بلکہ یہ مشرک ان مشرکوں سے زیادہ بدتر ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ پہلی قسم کی چیزوں نے خود کسی کو اپنی پرستش اور اس طرح کے نظریات رکھنے والوں کو روکا نہیں تھا لیکن دوسری قسم کے سارے اللہ کے بندوں نے اپنی اپنی زندگیوں میں ان کو یقینا ایسے نظریات سے روکا بلکہ سختی سے منع فرمایا اس کے باوجود ان کے بعد ان کے ماننے والوں نے ان کو اپنے مشکل کشا اور حاجت روا اور نفع و نقصان کے مالک بنا لیا یہی وجہ ہے کہ وہ عند اللہ زیادہ برے ٹھہرے۔
Top