Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 77
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لَا تَغْلُوْا : غلو (مبالغہ) نہ کرو فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : اپنا دین غَيْرَ الْحَقِّ : ناحق وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْٓا : نہ پیروی کرو اَهْوَآءَ : خواہشات قَوْمٍ : وہ لوگ قَدْ ضَلُّوْا : گمراہ ہوچکے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاَضَلُّوْا : اور انہوں نے گمراہ کیا كَثِيْرًا : بہت سے وَّضَلُّوْا : اور بھٹک گئے عَنْ : سے سَوَآءِ : سیدھا السَّبِيْلِ : راستہ
تم کہہ دو اے اہل کتاب ! اپنے دین میں حقیقت کے خلاف غلو نہ کرو اور اس گروہ کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو تم سے پہلے گمراہ ہوچکا ہے اور بہتوں کو گمراہ کرچکا ہے اور سیدھی راہ اس پر گم ہوگئی ہے
اہل کتاب کو تنبیہ کہ دین میں غلونہ کرو اور گمراہوں کی راہ کو چھوڑ دو : 198: زیر نظر آیت میں ” الکتب “ سے مراد انجیل اور ” اہل کتاب “ سے مراد مسیحی ہیں اور ” قل “ کا خطاب نبی اعظم و آخر ﷺ کو اور آپ ﷺ کی وساطت سے پوری امت کے ہر فرد کو ہے۔ یعنی آپ مسیحیوں کو کہہ دیں کہ اور آپ ﷺ کی امت کا ہر جاننے والا فرد اپنے اپنے وقت کے مسیحیوں کو کہہ دے کہ ” اپنے دین میں حقیقت کے خلاف غلو نہ کرو “ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ کے الفاظ سورة النساء کی آیت 171 میں گزر چکے ہیں اس کی تفسیر کے لئے عروۃ الو ثقیٰ جلد دوم میں سورة النساء کی آیت 171 ملاحظہ فرمالیں۔ یاد رہے کہ ” غلو “ حد سے تجاوز کو کہتے ہیں خواہ وہ کمی میں ہو یا بیشی میں اگر وہ کسی چیز کی قیمت میں ہو تو ” غلا “ کہلاتا ہے اور قدرومنزلت میں ہو تو ” غلو “ کہلاتا ہے۔ زیر نظر آیت میں مسیح (علیہ السلام) کی قدر ومنزلت میں جو غلو کیا گیا اس سے منع کیا گیا ہے کہ اہل کتاب ! یعنی عیسائیو ! ایک انسان کو خدا بنانا پہلی گمراہ قوموں کی پیروی ہے اور تمہارے پاس تو اللہ کی دی ہوئی کتاب انجیل موجود ہے تم اس گمراہی میں کہاں ڈوب رہے ہو۔ یہ الزام جو قرآن کریم نے عیسائیوں کو دیا اس کی صداقت کا اعتراف آج خود عیسائی کہلانے والے لوگوں کو بھی ہے۔ ” پہلے بت پرستوں نے بھی اس قسم کا مذہب بنایا ہوا تھا کہ وہ اپنے دیوتاؤں کو خدا اور خدا کے بیٹے کہتے تھے اور پولوس نے محض یونانی بت پرستی کی تقدیس میں یہ مذہب گھڑا۔ “ (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا) جو لوگ مسیحیت کی ابتدائی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں اور خود فرنگیوں کی موجودہ (biblical criticism) سے پوری طرح واقف ہیں وہ قرآن کریم کے اس بیان پر یقینا عش عش کر اٹھیں گے کہ چھٹی صدی عیسوی کا ایک عرب آدمی لاکھ ذہین و باخبر ہو ان اہم تاریخی حقائق پر نظر رکھ ہی کیسے سکتا تھا تاوقتیکہ ” عالم الغیب والشہاوۃ “ براہ راست اسے تعلیم نہیں دے رہا تھا ۔ مصری شرک یونایوں میں پوری طرح حلول کر آیا تھا اور بڑے بڑے یونانی فلاسفر اسکندریہ کے مرکز ” عقلیت “ اور ” روشن خیالی “ سے مرعوب ومتاثر تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم جب شروع میں پھیلی تو انہی یونانیوں میں اکابر یہود فایلو وغیرہ پہلے ہی سے یونانیوں کے آگے گردن ڈال چکے اور ان (logos) وغیرہ کے عقائد اخذ کرچکے تھے تو مسیحیوں نے ان تعلیمات کو بلا تامل قبول کرلیا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ یونانی ان سے زیادہ طاقتور اور مذہب کا پر چار کرنے والے تھے ۔ پولوس نے تو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مذہب اور تعلیمات کو تمام تر مسخ کر کے اسے یونانی شرک کی ایک شاخ ہی بنا دیا اور آخر رہی سہی کسر رومیوں کے مشرکانہ عقائد اور خرافات نے پوری کردی ۔ موجودہ مسیحی قوم کے عقائد و رسوم کثرت سے مصریٰ ، یونانی اور رومی شرک ہی کی صدائے باز گشت ہیں اور علاوہ ازیں کچھ نہیں ۔ عیسائی قوم نے جو خود تراشیدہ عقائد اختیار کئے تھے ان سے جان تو نہ چھڑا سکے لیکن انہوں نے من حیث القوم مل کر آپس میں ایک قومی فیصلہ کرلیا وہ یہ کہ مذہب اور سیاست کا آپس میں کوئی تعلق نہیں مذہب ان رسومات کا نام ہے جو ” مذہبی رسومات “ کے نام سے معروف ہوچکی ہیں یعنی یہ کہ ” مسیح خدا کا بیٹا ہے۔ “ ” خدا تین اقنوم سے مل کر مکمل ہوا ہے۔ “ ” صلیب قومی نشان ہے “ اور کفارہ مذہب کی جان ہے۔ “ ” گناہوں کو معاف کرنے کا پوپ کو اختیار ہے۔ “ ” پوپ عیسائیت کا وہ مذہبی راہنما ہے جس کی زبان ہی کا نام مذہب ہے۔ “ اسی طرح پوپ اپنے معاملات میں اختیار رکھتا ہے چاہے جو کرے اور وقت کا حاکم سیاسی اختیار رکھتا ہے جو حکومت کا نظام چلانے کے لئے چاہے منصوبہ بندی کرے اسی طرح الگ الگ ہو کر عیسائیت کے ایک گروہ یعنی سیاسی گروہ نے دین سے بالکل آزاد ہو کر دنیا کے معاملات ، انتظامات اور ایجادات کی طرف توجہ دی اور ان کو دنیاوی لحاظ سے بام عروج تک پہنچایا اور اس طرح مادی ترقی حاصل کر کے اقوام دنیا پر چھا گیا۔ اب جب ان لوگوں کو دنیاوی طاقت حاصل ہوگئی تو انہوں نے مذہب کے سلسلے میں وہی نسخہ مسلمانوں پر اسعما ال کرنا شروع کردیا جو ان پر من حیث القوم آزمایا جا چکا تھا۔ اس کے اثرات اسلام پر بھی اسی طرح برے پڑے جس طرح خود ان پر پڑچکے تھے لیکن قوم مسلم کے علماء نے سر دھڑ کی بازی لگا کر ایک مدت اس نظریہ کو عام نہ ہونے دیا کہ سیاست اور مذہب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ بلحاظ الفاظ تو یہ نظریات ابھی بھی شاید کسی کو قبول نہ ہوں لیکن بلحاظ عمل آج قوم مسلم نے اس کو مکمل طور پر اپنا رکھا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ” مذہب “ بھی افراتفری کا شکار ہے اور ” سیاست بھی “ اور اب ہماری حالت یہ ہے کہ ” نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم “ اسی طرح جو قرآن کریم دنیا کی قوموں کی اصلاح کے لئے آیا تھا اس کے ماننے والوں نے اسے اپنے مردوں کے لئے وقف کردیا اور اب اس سے زیادہ تر یہی کام لیا جارہا ہے کہ مردوں کی بخشش کے لئے اسکی تلاوت کی جاتی ہے اور یہ وہ جال ہے جس کو عیسائیت کا پوپ بھی نہ پھیلا سکا۔ اس لئے کہ مچھلی چھوٹی ہو یا بڑی سیاسی ہو یا مذہبی لیکن ہر ایک اس کی زد میں ہے۔
Top