Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 78
لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ
لُعِنَ : لعنت کیے گئے (ملعون ہوئے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا مِنْ : سے بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل عَلٰي : پر لِسَانِ : زبان دَاوٗدَ : داود وَعِيْسَى : اور عیسیٰ ابْنِ مَرْيَمَ : ابن مریم ذٰلِكَ : یہ بِمَا : اس لیے عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّكَانُوْا : اور وہ تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھتے
بنی اسرائیل میں سے جو لوگ منکر ہوئے تھے وہ داؤد اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کی زبانی لعنت کیے گئے اور یہ اس لیے ہوا کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور وہ حد سے گزر گئے تھے
بنی اسرائیل کے کفار داؤد (علیہ السلام) اور مسیح (علیہ السلام) کی زبان سے ملعون قرار پائے : 199: قرآن کریم کی زیر نظر آیت نے بنی اسرائیل کے ان لوگوں کا ہاتھ پکڑا جو سیدنا داؤد (علیہ السلام) اور سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی زبان سے ملعون قرار دیئے جا چکے تھے اور انکی انگلی ان مقام پر رکھ دی جس مقام کے انکار سے وہ ملعون قرار پاتے تھے ۔ پھر بزبان حال ان سے کہا کہ یہ ہیں وہ عزیر (علیہ السلام) اور یہ ہیں وہ مسیح (علیہ السلام) جو اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول تھے لیکن تم نے ان کی رسالت کو بدل کر اللہ کے ” بندوں “ کی بجائے اللہ کے ” بیٹے “ بنا لیا۔ عہد نامہ عتیق میں زبور نامی کتاب کی نسبت داؤد (علیہ السلام) ہی کی طرف کی گئی ہے چناچہ اس میں ہے کہ ” اے خدا ! امانت دار لوگ بنی آدم میں سے ہٹ گئے۔ وہ اپنے ہمسائے سے جھوٹ بولتے ہیں ۔ وہ خوشامدی لبوں سے دو رنگی باتیں کرتے ہیں۔ خدا وند ! سب خوشامدیوں کو اور بڑے بول بولنے والی زبانوں کو کاٹ دے۔ “ (زبور 12= 2 تا 4) ” مجھے ان شریروں اور بد کرداروں کے ساتھ گھسیٹ نہ لے جا جو اپنے ہمسایوں سے صلح کی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے دلوں میں بدی ہے۔ ان کے افعال و اعمال کے موافق ان کو بدلہ دے۔ (زبور 28 3 ، 5) ” لیکن خدا شریر سے کہتا ہے۔ تجھے میرے آئین بیان کرنے سے کیا واسطہ۔ اور تو میرے ہمسر کو اپنی زبان پر کیوں لاتا ہے ؟ جب تجھے تربیت سے عداوت ہے اور میری باتوں کو پیٹھ پیچھے پھینک دیتا ہے۔ تو چور کو دیکھ کر اس سے مل گیا اور زانیوں کا شریک رہا ہے۔ تیرے منہ سے بدی نکلتی ہے اور تیری زبان فریب گھڑتی ہے ۔ تو بیٹھا بیٹھا اپنے بھائی کی غیبت کرتا ہے اور اپنی ماں کے بیٹے پر تہمت لگاتا ہے۔ تو نے یہ کام کئے اور میں خاموش رہا۔ تو نے گمان کیا کہ میں بالکل تجھ ہی سا ہوں۔ لیکن میں تجھے ملامت کر کے ان کو تیری آنکھوں کے سامنے تربیت دوں گا۔ اب اے خدا کو بھولنے والو ! اسے سوچ لو۔ ایسا نہ ہو کہ میں تم کو پھاڑ ڈالوں اور کوئی چھڑانے والا نہ ہو۔ (زبور 50= 17 ، 32) بالکل اسی طرح سیدنا مسیح (علیہ السلام) نے بھی ان پر لعنت کی جس کی مثالیں انجیلیوں میں موجود ہیں آپ ایک مثالدیکھتے چلئے۔ وہ بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں۔ ” اے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس ! تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھے ہو اور دکھاوے کیلئے نماز کو طول دیتے ہو کہ ایک کو مرید کرنے کیلئے تیری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو اور جب وہ مرید ہو چکتا ہے تو اپنے سے دونا جہنم کا فرزند بنا دیتے ہو۔ اے اندھے راہ بتانے والو ! تم پر افسوس جو کہتے ہو کہ اگر کوئی مقدس کی قسم کھائے تو کچھ بات نہیں لیکن اگر مقدس کے سونے کی قسم اٹھائے تو اس کا پابند ہوگا۔ اے احمقو اور اندھو ! کون سابڑا ہے سونا یا مقدس جس نے سونے کو مقدس کیا اور پھر کہتے ہو کہ اگر کوئی قربان گاہ کی قسم کھائے تو کچھ بات نہیں لیکن جو نذر اس پر چڑھی ہو اگر اس کی قسم کھائے تو اس کا پابند ہوگا۔ اے اندھو ! کون سی چیز بڑی ہے نذر یا قربان گاہ جو نذر کو مقدس کرتی ہے۔ “ (متی 23= 14 تا 19) ان انبیاء کرام (علیہ السلام) کی زبان سے اپنی قوم کے متعلق ایسے الفاظ کیوں نکلے فرمایا ” اس لئے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے گزر گئے تھے۔ “ اور انبیاء کرام کی موجودگی میں ان کو نبی ماننے کے باوجود ان کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔
Top