Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 79
كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ : ایک دوسرے کو نہ روکتے تھے عَنْ : سے مُّنْكَرٍ : برے کام فَعَلُوْهُ : وہ کرتے تھے لَبِئْسَ : البتہ برا ہے مَا كَانُوْا : جو وہ تھے يَفْعَلُوْنَ : کرتے
وہ برائیوں میں پڑجاتے تو پھر ان سے باز نہیں آتے تھے البتہ یہ بڑی ہی برائی تھی جو وہ کیا کرتے تھے
برائی برائی ہی ہے چھوٹی ہو یا بڑی اس لئے کہ جو چھوٹی برائی کرتا ہے وہ بڑی بھی کرسکتا ہے : 200: ” وہ برائیوں میں پڑجاتے تو پھر ان سے باز نہیں آتے تھے “ ان کے جرائم کو آیت کے اس ٹکڑے نے واضح کردیا اور یہ بھی بتا دیا کہ جس کو برائی کی چاٹ لگ جاتی ہے وہ روز وبروز ترقی کرسکتا ہے لیکن برائی سے باز نہیں آتا۔ ان لوگوں کو اللہ کے فرستادوں نے براہ راست روکنے کی کوشش کی لکنن انہوں نے ان کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے بلکہ ان کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے سے بھی باز نہ آئے ۔ ان راہ دکھانے والوں کے دشمن بن گئے تو ظاہر ہے کہ کسی قوم کی اخلاقی و ایمانی تباہی کی یہی وہ حد ہے جس پر پہنچ کر وہ سنت اللہ کے مطابق اللہ کی لعنت کے مستحق ٹھہرے۔ برائی تو چھوٹی ہو پھر بھی وہ برائی ہی ہوتی ہے لیکن اس طرح وہ بار بار برائیاں کر کے عادی مجرم ہوگئے اور یہ بذاتہ اتنی بڑی برائی تھی کہ اس سے بڑی برائی اور کیا ہو سکتی تھی ؟ اس بات پر زمانہ گواہ ہے اور روز مرہ یہ بات مشاہدہ میں آتی ہے کہ کوئی شخص بھی جب ایک چھوٹی سی برائی کرتا ہے اور اس کی سرزنش نہیں ہوتی اس کو چھوٹ دی جاتی ہے وہ پہلے سے بڑی اور بری غلطی کرتا ہے اور پھر وہ بڑھتے بڑھتے ایک روز اتنا بڑا جرم کرلیتا ہے جس کو سن کر پہاڑ بھی کانپ جاتے ہیں اس لئے برائی پر قابو پانے کیلئے ” گربہ کشتن را روز اول “ کے اصول کو نظر انداز کرنا ساری غلطیوں کی جڑ اور بنیاد ہے۔ کاش کہ یہ اصول جو اسلام نے دوسری قوموں کے سامنے رکھا تھا آج اپنی قوم بھی اس کو یاد رکھتی تو آج ہمارے معاشرے کی حالت یقینا اس سے مختلف ہوتی۔ پھر ” لا یتنا ھون “ میں خود برائیوں سے باز رہنا اور دوسروں کو ان سے باز رکھنا بھی شامل ہے بلکہ دوسروں کو باز رکھنے کی ذمہ داری کا پاس رکھنے کے لئے خود برائیوں سے بچنا ضروری قرار پاتا ہے لیکن ” وہ ایک دوسرے کو منع بھی نہیں کرتے تھے “ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ سارے ہی کسی نہ کسی برائی میں مبتلا تھے اور اس بات سے ڈرتے تھے کہ دوسرے کو منع کریں گے تو وہ ہماری برائی منہ پر مارے گا اسلئے خاموش رہنے میں عافیت سمجھتے حالانکہ یہ عافیت نہیں بلکہ ہر لحاظ سے معصیت تھی ۔ اسی لئے اس کا وہی نتیجہ نکالا جو معصیت کا نکلنا فطری بات ہے۔
Top