Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 80
تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ
تَرٰى : آپ دیکھیں گے كَثِيْرًا : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے يَتَوَلَّوْنَ : دوستی کرتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَبِئْسَ : البتہ برا ہے مَا قَدَّمَتْ : جو آگے بھیجا لَهُمْ : اپنے لیے اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں اَنْ : کہ سَخِطَ : غضب ناک ہوا اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان پر وَ : اور فِي الْعَذَابِ : عذاب میں هُمْ : وہ خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہنے والے
ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کفر کرنے والوں سے مدد ورفاقت رکھتے ہیں کیا ہی بری تیاری ہے جو ان کے نفسوں نے اس کے لیے مہیا کردی کہ ان پر اللہ کا غضب ہوا اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں
کفر کرنے والوں کے ساتھ دوستی رکھنا ان کی عادت ثانیہ ہوچکی ہے : 201: تاریخ اسلام میں اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں اور بیسیوں واقعات قرآن کریم کے صفحات میں درج ہیں کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی مخالفت وعناد ہی میں ان لوگوں نے اسلام کی عمارت کو منہدم کرنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی اور ایسی سازشیں کیں جو ایک سے ایک بڑھ کر تھیں۔ تعجب یہ ہے کہ یہود ایک طرف تو اپنی برگزیدگی پر اتنے نازاں تھے کہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے دوسری طرف ان کی ذہنی پستی کا یہ عالم تھا کہ مشرکین مکہ تک سے دوستی واعتماد کے نہایت گہرے تعلقات رکھتے تھے اور ان کو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ قرار دیتے تھے تفصیل اس کی عروہ الو ثقیٰ جلد دوم تفسیر سورة النساء کی آیت 52 کے تحت گزر چکی وہاں سے ملاحظہ فرمائیں۔ اس وقت اہل کتاب کو مشرکین کے ساتھ جو دوستی تھی اس پر ان کی سرزنش کی جا رہی ہے اور ان کو شرم دلائی جا رہی ہے کہ تم عجیب لوگ ہو کہ تمہارا قرب تو اہل کتاب ہونے کے ناطے سے اسلام کے ساتھ ہونا چاہئے تھا کہ تم بھی آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور مسلمانوں کو بھی آسمانی کتب پر عمل کرنے کی ہدایات دی جا رہی ہیں اور پھر ان سب کتابوں کا سرچشمہ ہدایت ایک ہے تم اس قرب کا پاس بھی نہیں کرتے اور مشرک قوموں کے ساتھ دوستی رکھتے ہو جن کے ساتھ قدرتی اور فطرتی بعد تمہارا موجود ہے لیکن اس وقت مسلمانوں کو کیا کہا جائے کہ یہ سب کے سب انہی اہل کتاب کی دوستی کے خواہاں ہیں بلکہ صرف دوستی ہی کے نہیں ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور اپنے قومی راز ان کے سامنے رکھ کر ان سے شاباش حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور ان سے روابط اتنے پختہ ہیں کہ ان سے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں اور قومی یکجہتی رکھنے والوں کے ساتھ بول چال تک موجود نہیں بلکہ ان کے ساتھ لڑنے مرنے پر تلے ہوئے ہیں حالانکہ قرآن کریم کی ہدایت ان کو دہائیاں دے رہی ہے کہ ” کفر کرنے والوں سے مددو رفاقت کا رشتہ رکھنا ان کا کتنا ہی براعمل ہے جس پر ان کے نفسوں نے ان کو آمادہ کردیا ہے۔ “ آج مسلمان قوم نے وہ سبق خود ہی بھلا دیا جو دوسروں کو یاد کرانے کے لئے ان کو ازبر کرایا گیا تھا ۔ ان کی عملی کوتاہیوں کا یہ عالم ہے کہ اس وقت ان کے پاس اپنی کوئی شے بھی موجود نہیں بلکہ وہ دشمنوں ہی سے تعلقات کو اصل سرمایہ حیات سمجھ بیٹھے ہیں ان کے دیئے ہوئے پانی کو دوھ ، ان کے دیئے ہوئے چھان کو اصل جنس اور ان کی دی گئی خیرات کو حاصل کر کے شاداں وفرحاں ہیں اور پھولے نہیں سماتے اور اسکو ایڈ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ اس ضمیر فروشی پر ان کو اس قدر ناز ہے کہ دن رات ان کے گیت گاتے ہیں اور مناقب بیان کرتے نہیں تھکتے۔ اپنوں کی چغلی اور غیبت ان کی زندگی کا بہترین مشغلہ ہے۔ اپنے ملک میں تخریب کاری ، قتل و غارت ، دھوکا و فریب ، چوری اور ڈاکہ زنی ہر طرح کا دنگا فساد کر کے امن حاصل کرنے کے لئے ان سے پناہ طلب کرتے ہیں جس کو سیاسی پناہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سارے کام جو اوپر ذکر کئے گئے کون پوچھتے کہ یہ کس سیاست کا حصہ ہیں ؟ کیا ایسے لوگوں کو پناہ دینا بذات خود تخریب کاری نہیں تو اور کیا ہے ؟ جن لوگوں کو ایسے گھناؤ نے جرم کی سزا میں قتل کردینا لازم تھا ان کو سیاسی راہنماؤں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہی لوگ اس وقت قوم کے راہنما ہیں اور سیاسی رسہ گیر ہیں اور ملک وملت ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو غضب الٰہی کے مستحق قرار پائے اور قیامت کے روزیہ روسیاہ ہوں گے : 202: کفار کی دوستی کیا ہے ؟ اللہ کے غضب کو دعوت ہی تو ہے اور آج دیکھو اور غور کرو گے کہ دنیا کے نقشہ پر وہ کون ہے جس کے ماتھے پر ان کی دوستی کا گہرانشان موجود ہے اور وہ دور ہی سے پہچانے جا رہے ہیں ۔ ہائے بد نصیبی ! کہ یہ لوگ قوم مسلم کے افراد کس طرح قرار پاگئے ؟ نہیں نہیں یہ لوگ قوم مسلم کے عام افراد تو نہیں بلکہ یہ سارے کے سارے تو مذہبی راہنما ہیں اور سیاسی لیڈر ہیں جن کے ہاتھ میں ملک کا نظام حکومت ہے اور اس ملک کے وہ کرتا دھرتا ہیں۔ چاہیں پیچ دیں ، چاہیں پٹہ پر لکھ دیں ، چاہیں حصے بخرے کر کے اپنااپنا حصہ تقسیم کرلیں۔ آخر ان کو پوچھنے والا کون ہے ؟ فرمایا پوچھنے والا وہی ہے جس نے ان سب کو پیدا کر کے ان کے ہاتھ میں اختیار کی باگ تھمادی تاکہ وہ خوب بداعتدالیاں کرلیں اور وہ وقت دور نہیں جب اللہ کے عذاب میں مبتلا کر کے رکھ دیئے جائیں گے پھر ان کو ہوش آئے گا لیکن اس وقت پانی سر سے نکل چکا ہوگا اور جن کو روسیاہ رہنا ہے ان کے چہروں پر دیکھتے ہی دیکھتے سیاہی پھیل جائے گی۔ ایسا کیوں ہوگا ؟ فرمایا اس لئے کہ ان کے اعمال کا نتیجہ یہی کچھ ہوگا اور بات واضح ہے کہ اعمال سے نتیجہ کبھی جدا نہیں ہوتا۔
Top