Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 83
وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ١ۚ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ
وَاِذَا : اور جب سَمِعُوْا : سنتے ہیں مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَى : طرف الرَّسُوْلِ : رسول تَرٰٓي : تو دیکھے اَعْيُنَهُمْ : ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ پڑتی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو مِمَّا : اس (وجہ سے) عَرَفُوْا : انہوں نے پہچان لیا مِنَ : سے۔ کو الْحَقِّ : حق يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے فَاكْتُبْنَا : پس ہمیں لکھ لے مَعَ : ساتھ الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
اور جب یہ لوگ وہ کلام سنتے ہیں جو اللہ کے رسول پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھیں جوش گریہ سے بہنے لگتی ہیں کیونکہ انہوں نے اس کی سچائی پہچان لی ہے ، وہ بول اٹھتے ہیں اے اللہ ! ہم اس کلام پر ایمان لائے پس ہمیں بھی انہیں میں سے لکھ جو تیری گواہی دینے والے ہیں
نصاریٰ بنسبت یہود کی علم و حلم اور عقل و فکر میں بہت آگے ہیں : 207: قرآن کریم کی آیات پر جتنا غور و فکر کرو گے یہ بات صاف ہوتی جائے گی کہ یہی وہ کلام ہے جس میں صداقت کے سوا کچھ نہیں۔ وہ ہر سچ کو سچ اور ہر جھوٹ کو جھوٹ کہنے میں ذرا توقف نہیں کرتا۔ اس نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کہنے والا کون ہے ؟ اور یہی اس کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ کاش کہ ہمارے مذہبی راہنما بھی اس بات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے اور جو بات سچ ہے اس کو سچ کہتے اس کے کرنے والا خو اہ کوئی ہوتا۔ اس جگہ نصاریٰ کے تسیسین اور رہبان کی تعریف کی جارہی ہے کہ ان علماء اور زاہدوں کی ایسی جماعت موجود ہے جو باوجود بنی اسرائیل کی قوم میں ہونے کے اپنے اندر تکبر اور بڑائی نہیں رکھتے اور اپنی جماعت نصاریٰ کو بھی اس برائی سے روکتے اور باز رکھتے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ یہود اپنے مذہبی راہنماؤں کو ” ربی “ اور ” احبار “ کہتے تھے اور نصاریٰ تسیسین اور رہبان کے الفاظ سے ان کو یاد کرتے تھے ۔ یہ الفاظ اہل کتاب ہی کی وساطت سے عربی زبان میں آئے اور قرآن کریم نے بھی ان کو انہی ناموں سے یاد کیا جو خود استعمال کرتے تھے۔ اسی سے ان سارے سوالوں کا جواب سمجھ لیں جو قرآن کریم کے دوسرے ناموں پر کیا جاتا ہے کہ یونس (علیہ السلام) کو ” صاحب حوت “ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” ابن مریم “ جبرئیل (علیہ السلام) کو ” روح یا ” روح القدس “ کیوں کہتے ہیں اس لئے کہ ان کے یہ نام اسلام کی آمد سے پہلے معروف تھے اور اسلام میں ان کو انہی ناموں سے بلایا گیا جن سے وہ پہچانے جاتے تھے اور ان کی شناخت کے لئے جو نام رکھے جا چکے تھے اور یہ نام زمانہ کے ساتھ ساتھ بدلتے بھی رہتے ہیں ۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے زمانہ میں ان کے پیروؤں کو ” نصاریٰ “ کہا جاتا تھا اور اسی نسبت کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں مسیح ناصرہ بستی کے رہنے والے تھے اس لئے وہ ناصری کہلائے اور ان کی طرف جن لوگوں نے اپنی نسبت پسند کی ان کو نصاریٰ کہا گیا اور دوسری وجہ یہ کہ مسیح (علیہ السلام) نے حواریوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ” من انصاری الی اللہ “ اور انہوں نے جواب دیا کہ ” نحن انصار اللہ “ اور اس سے وہ نصاریٰ معروف ہوگئے بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قوم نصاریٰ نے جو مسیح (علیہ السلام) کو اللہ ، اللہ کا بیٹا اور اللہ کا تیسرا جزء قرار دے لیا۔ اب ان کو ” نصاریٰ “ کے لفظ بھی اچھے نہ لگے اور انہوں نے اپنا نام ” مسیحی “ پسند کیا۔ (بائیل ہسٹری ولیم بلی کی 397) ” تس “ کے لفظی معنی عربی زبان میں رات کو کسی شے کے طلب کرتے رہنے کے ہیں اور علماء نصاریٰ چونکہ عابد و شب بیدار ہوتے تھے اس لئے لوگ نہیں ” قسیس “ کہنے لگے وجہ بہر حال کچھ اس جگہ ان کے الفاظ بطور مدح استعمال کئے گئے ہیں اور انکے وصف کو پسند کیا گیا ہے اگرچہ وہ مخالف قوم کے راہنما ہیں لیکن ان کی اچھی صفات کی کتنی تعریف کی گئی ہے اس لئے کہ سچائی جہاں بھی جائے سچائی ہی ہوتی ہے اور اس کو سچائی ہی کہنا چاہئے۔ اگرچہ آج کل ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں رہا۔ ہماری اکثریت نے یہود کی نقالی میں دوسروں کی سچائی کو کبھی سچائی تسلیم نہیں کیا اور اب یہ مرض اتنا بڑھ چکا ہے کہ کوئی ایک گروہ بھی دوسرے گروہ کی سچائی کو سچائی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ ہر گروہ نے اپنی گروہ بندی کا نام ” سچائی “ رکھ لیا ہے اور یہ وہی بیماری ہے جس میں قوم یہود مبتلا تھی۔ کاش کہ اس کا کوئی حل نکل آئے اور اہل اسلام کے مذہبی راہنما اس حقیقت کو تسلیم کرلیں جس کو قرآن کریم کے صفحات میں باربار بیان کیا گیا ہے۔ نصاریٰ کے اس گروہ کی تعریف جو فی الواقع تعریف کے قابل تھا وہ حق کی پہچان رکھتا تھا : 208: (1) یہ تعریف دراصل ان علمائے نصاریٰ کی ہے جو قسیسین و رہبان کے ناموں سے یاد کئے جاتے تھے اور حق کی پہچان رکھتے تھے اور جہاں حق پاتے اس کو حق تسلیم کرتے تھے ان میں ایک شاہ حبش بھی تھا۔ جس نے قرآن کریم کو سنتے ہی اس کے حق میں ہونے کی تصدیق کردی۔ احادیث میں آتا کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کے غریب ساتھیوں کو خصوصاً اور متوسط لوگوں کو عموماً کفار مکہ نے جب ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور لوگوں نے اپنی دکھ بھری کہانیاں اپنے رسول ﷺ کے سامنے بیان کیں تو آپ (علیہ السلام) نے ان کو ملک حبش کی طرف نکل جانے کا حکم دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہاں کا بادشاہ نیک ہے ۔ نہ وہ ظلم کرتا ہے نہ اس کے پاس پہنچنے کے بعد کسی پر ظلم کیا جاتا ہے۔ تم لوگ وہاں چلے جاؤ ۔ جب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لئے آسانیاں پیدا فرمادے گا تو پھر دیکھا جائے ۔ شاہ حبشہ سے مراد نجاشی تھا اس لئے کہ حبشہ کے بادشاہوں کا ” نجاشی “ لقب تھا جس طرح شام روم کا لقب قیصر اور شاہ ایران کا لقب کسریٰ تھا۔ نجاشی نام نہیں ہے جس طرح ” قیصر “ اور ” کسریٰ “ بھی نام نہیں۔ اسی طرح مصر کے تخت نشین کو ” فرعون “ کہا جاتا تھا۔ بہرحال اس بادشاہ نجاشی کا نام ” اصمحہ “ تھا۔ آپ کی اجازت سے پہلا قافلہ جس نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اس میں گیارہ مرد اور چار عورتیں تھیں جن کے مبارک نام آج تک محفوظ ہیں ۔ یہ وہ پہلی ہجرت ہے جو مکہ سے حبشہ کی طرف کی گئی اور آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ قریش مکہ نے یہ دیکھ کر وہاں ان کو لوگوں کو امن وامان کی زندگی میسر آگئی ہے ایک سفارت روانہ کی تاکہ شاہ حبش کو باور کرایا جائے کہ وہ ان کو لوگوں کو پناہ نہ دے۔ مختصر یہ کہ شاہ حبش نے دونوں گروہوں کا آمنا سامنا کرایا اور ایک مجلس میں اکٹھا کر کے سفارت کاروں سے محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھیوں کے متعلق مختلف سوال کئے جن کا جواب شاہ حبش نے سنا اور آخر میں مسلمانوں کے گروہ سے اس کلام کے سننے کی سفارش کی جو محمد رسول اللہ ﷺ کے سینہ اقدس میں اللہ نے نازل فرمایا تھا مہاجرین میں سے جعفر بن ابی طالب ؓ نے قرآن کریم کی سورة مریم کا ابتدائی حصہ مجلس میں پڑھ کر سنایا۔ نجاشی پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ اس کے بےاختیار آنسو جاری ہوگئے اور اس نے مجلس میں اپنا بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ اس سرچشمہ سے نکلا ہوا کلام ہے جس سے مسیح (علیہ السلام) پر نازل ہونے والا کلام نکلا تھا اور مسیح کی تعریف حرف بحرف یہی ہے جو اس کلام میں پڑھ کر سنائی گئی اور جس پر یہ کلام نازل ہوا وہ بلاشبہ اللہ کا رسول ہے اور خاتم النّبیین کے لقب سے ملقب ہوگا۔ اس طرح اس بادشاہ نے والہانہ انداز میں قرآن کریم اور پیغمبر آخر الزمان محمد رسول اللہ ﷺ کا خیر مقدم کیا۔ اس سے یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ نے اناجیل میں جو ” تسلی دینے والے “ اور جس ” نجات دہندہ “ کی بشارت تھی اور اس کی جو علامتیں بتائی تھیں وہ ان میں سے ایک ایک چیز کو محفوظ کئے ہوئے تھے اور اس آنے والے کے انتظار میں تھے اور ان کی تمام امیدیں دنیا وآخرت دونوں کی اس کے ساتھ وابستہ تھیں اس لئے وہ اس ہر اول دستہ میں شامل ہوگئے اور انہوں نے وہ ساری کامیابیاں حاصل کرلیں جو اس ہر اول دستہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی تھیں اور آج تک قرآن کریم میں ان کا ذکر انہی الفاظ میں پڑھا جاتا ہے جو اس وقت پڑھا گیا تھا اور رہتی دنیا تک ان کے ان مناقب کا تذکرہ جاری رہے گا۔ اس سے اندازہ کرلیجئے کہ کتنے خوش قسمت لوگ تھے وہ ان کی نشانی جو اس جگہ بیان کی گئی ہے وہ یہ تھی کہ وہ قرآن کریم کی آیات سنتے تو ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتیں ایسا کیوں ہوتا ؟ فرمایا اس لئے کہ وہ حق کو پہچان جاتے اور اسکی تصدیق کے لئے زبانیں کھول دیتے اور نہ اس کے چھپانے کی کوشش کرتے اور نہ ہی حق و باطل کے ملانے کی کوشش کرتے۔ وہ ڈبڈبائی آنکھوں اور بھرائی آواز سے اس طرح اعتراف کرتے ہیں : 208: (ب) ” اے اللہ ! ہم اس کلام پر ایمان لائے پس ہمیں ان میں سے لکھ اور شمار فرما جو تیری گواہی دینے والے ہیں۔ “ یہ کون ہیں ؟ قرآن کریم کی زبان میں ” اہل کتاب “ ” بنی اسرائیل “ اور ” نصاریٰ ‘ ‘ کے ناموں سے یاد کئے گئے ہیں اس لئے کہ یہ لوگ مذہباً ” اہل کتاب “ قوما ” بنی اسرائیل “ اور صحیح معنوں میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی لائی ہوئی ہدایت پر ” ایمان رکھنے والے “ ” ان کے مددگار “ تھے اور انہوں نے نبی اعظم و آخر ﷺ پر اتارے گئے کلام الٰہی کو سنا تو تصدیق کے لئے صرف تیار ہی نہ ہوئے بلکہ بےساختہ تصدیق کردی اور کلام الٰہی یعنی قرآن کریم کی لائی ہوئی آخری ہدایت کو بسرو چشم قبول کرلیا اور اس طرح وہ زمرہ اہل اسلام میں داخل ہوگئے۔ یہی وہ گروہ ہے جو مدت تک انہیں ناموں سے یاد کیا جاتا رہا جو نام ان کے آباء و اجداد سے ملا تھا جس طرح صحیح معنوں میں اسلام میں داخل ہونے کے بعد بھی ایک مدت مدیر تک اوس ، مہاجر اور انصاریٰ کے نام چلتے رہے ۔ یہی وہ لوگ تھے جن کے ساتھ کھانا پینا اور مناکحت جیسے نہایت اہم تعلقات قائم کرنے کی اجازت عام دی گئی اور انہی ناموں سے دی گئی جن ناموں سے وہ ایک مدت سے مشہور چلے آئے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کو عرب میں نصاریٰ کی ایک بہت بڑی جماعت نے قبول کیا اور وہ لوگ ایمان لے آئے لیکن یہودیوں کے جمود میں جنبش بھی نہ ہوئی وہ برابر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں خیبر سے جلا وطن کردیئے گئے۔ بلاشبہ یہود میں سے بھی کچھ لوگوں نے دعوت اسلام کو تسلیم کیا لیکن نصاریٰ کے مقابلہ میں وہ ” آٹے میں نمک کے برابر ہی تھے۔ “
Top