Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 87
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تُحَرِّمُوْا : نہ حرام ٹھہراؤ طَيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں مَآ اَحَلَّ : جو حلال کیں اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور لَا تَعْتَدُوْا : حد سے نہ بڑھو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
اے مسلمانو ! اللہ نے جو چیزیں تم پر حلال کردی ہیں انہیں اپنے اوپر حرام نہ کرو اور (اس طرح کی روک ٹوک میں) حد سے نہ گزرو اللہ حد سے گزرجانے والوں کو دوست نہیں رکھتا
مسلمانوں کو ہدایت کہ جو چیزیں تمہارے لئے حلال کردی گئی ہیں ان کو حرام مت سمجھو : 212: اس سورة المائدہ کے شروع میں ” ایفائے عہد “ کے بعد حلال و حرام کا بیان شروع ہوا تھا۔ اس ضمن میں کچھ خاص مناسبت ہے جن کا ذکر موقع نہ موقع ہم کرتے آرہے ہیں دوسرے مفید مضامین کا سلسلہ چلایا گیا اور انجام کار یہو ونصاریٰ کا ذکر چھڑ گیا جن کا خلاصہ دو چیزیں تھیں یعنی یہود کا لذات و شہوات دنیا اور حرام خوری اور بدکاری میں انہماک جو ” تفریط فی الدین “ کا سبب ہوا اور نصاریٰ کا دین میں غلو اور افراط جو آخر کار ” رہبانیت “ پر منتہی ہوا بلاشبہ رہبا نیت جسے دینداری یا روحانیت کا ہیضہ کہنا چاہئے ۔ کچھ لوگ اس مرض میں مبتلا تھے کہ اسلام آیا اور اس نے آتے ہی ان کو ہیضہ کا ٹیکہ لگایا جس نے جاتے ہی کچھ لوگوں کے سارے جراثیم مار دیئے پھر جن کے جراثیم مر گئے ان کو کتاب ہدی کا سبق پڑھانا شروع کیا اور یہ دین چونکہ بنی نوع انسان کی فلاح دارین اور اصلاح معاش و معاد کا متکفل ہو کر آیا تھا ضروری تھا کہ اس طرح کے مبتدعانہ طریق عبادت پر سختی سے نکتہ چینی کرتا۔ اس نے اپنا فرض اچھی طرح ادا کیا اور زیر نظر آیت اور اس سے اگلی آیت میں اس کا خوب درس دے دیا گیا۔ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صاف طور پر اس سے روک دیا کہ وہ کسی لذیذ ، حلال اور رطیب چیز کو اپنے اوپر عقیدتاً یا عملاً حرام نہ ٹھہرا لیں پھر نہ صرف یہ بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی حلال وطیب نعمتوں سے متمع ہونے کی ترغیب دی ہے لیکن اس کے ساتھ دو شر طیں بھی عائد کردی ہیں ایک یہ کہ حد سے تجاوز نہ کریں اور دوسرے یہ کہ تقویٰ اختیار کریں یعنی اللہ سے ڈرتے رہیں۔ اعتداء یعنی حد سے تجاوز کے دو مطلب ہو سکتے ہیں حلال چیزوں کے ساتھ حرام کا معاملہ کرنے لگیں اور نصاریٰ کی طرح رہبانیت میں مبتلا ہوجائیں یا لذائذ وطیبات سے تمتع کرنے میں حد اعتدال سے گزر جائیں حتی کہ لذات و شہوات میں منہمک ہو کر یہود کی طرح حیات دنیا ہی کو اپنا مطمع نظر بنا لیں۔ مختصر یہ کہ افراط وتفریط کے درمیان متوسط ومعتدل راستہ اختیار کرنا چاہئے نہ تو لذائذ دنیوی میں غرق ہونے کی اجازت ہے نہ ازراہ اور رہبانیت مباحات وطیبات کو چھوڑنے کی۔ ازراہ رہبانیت کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ بعض اوقات بدنی یا روحانی علاج کی غرض سے کسی مباح سے عارضی طور پر پرہیز کرنا ممانعت میں داخل نہیں نیز یہ بھی کہ مسلمان تقویٰ کے داعی ہیں جس کے معنیٰ ہیں اللہ سے ڈر کر ممنوعات سے اجتناب کرنا اور تجربہ ومشاہدہ سے معلوم ہے کہ بعض مباحات کا استعمال بعض اوقات کسی حرام یا ممنوع کے ارتکاب کی طرف بڑھا دیتا ہے اس لئے ایسے مباحات کو عہد و قسم یا تقرب کے طور پر نہیں بلکہ بطریق اختیاط اگر کوئی شخص کسی وقت باوجود اعتقاد واباحت ترک کردے تو یہ رہبانیت نہیں ہے بلکہ ورع وتقویٰ میں شامل ہے۔ آخر الکلام یہ کہ ترک اعتداء اور اختیار تقویٰ کی قید کو ملحوظ رکھ کر ہر قسم کی طیبات سے مؤمن مستفید ہو سکتا ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں ترقیات کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ اس آیت کے شان نزول میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ چند صحابہ کرام ؓ حضرت عثمان بن مظعون کے گھر اکٹھے ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ ہمیشہ ہمیشہ روزہ رکھیں گے ، ساری رات عبادت کریں گے ، بستروں پر نہیں سوئیں گے ، گوشت ، گھی وغیرہ کا استعمال نہیں کریں گے اور عورتوں اور خوشبو سے بالکل اجتناب کریں گے اور اس طرح گویا دنیا سے قطع تعلق کرلیں گے۔ اس مشورہ کی اطلاع نبی اعظم وآخر ﷺ کو ہوگئی آپ (علیہ السلام) نے ان سب صحابہ ؓ کو جمع کیا جو عثمان بن مظعون کے گھر جمع ہوئے تھے اور انکے سامنے ایک واضح وعظ ارشاد فرمایا کہ : ان لا نفسکم علیکم حقا فصوموا وافطر وا وقوموا وتاموا فانی اقوم وانام واصوم وافطر واکل اللحم والدسم واتی النسآء فمن رغب عن سنتی فلیس منی (کشاف) ” بلاشبہ تمہاری جانوں کا تم پر حق ہے پس روزہ رکھو اور افطار بھی کرو (یعنی کبھی رکھو اور کبھی نہ رکھو یہ نفلی روزوں کی بات ہے) قیام بھی کرو اور سویا بھی کرو دیکھو میں قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ۔ روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ۔ گوشت بھی کھاتا ہوں اور روغنیات بھی استعمال کرتا ہوں اور ازدواجی تعلقات بھی قائم کرتا ہوں ۔ یادرکھو جو شخص میرے طریقہ سے منہ پھیرے گا وہ مجھ سے نہیں ہوگا یعنی میرے طریقہ پر نہیں ہے “ مطلب یہ ہے کہ اس طرح نبی اعظم و آخر ﷺ نے افراط وتفریط دونوں سے صحابہ ؓ کو روک دیا جس میں اہل کتاب مبتلا ہوچکے تھے اور یہی بات ان کی ہلاکت کا اصل باعث ہوئی ۔ لیکن افسوس کہ آج کل قوم مسلم کے پیروں ، مرشدوں اور مشائخ نے بھی وہی چلے کشتیاں سکھانا شروع کردیں اور لوگوں کو بناوٹی شریعت کا پابند کرنے کی کوشش کی اور قوم مسلم کی اکثریت کو تو ہم پر ست بنا کر رکھ دیا۔ بڑے بڑے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ گٹ ، تعویذ ، جھاڑ پھونک ، سایہ کے اتار چڑھاؤ جادو کے اثرات کے ازالوں اور جن ، بھوٹ اور چڑیلوں سے گلو خلاصی کرانے کے لئے بےحیاء پیروں ، فقیروں ، ملنگوں ، منتر پڑھنے والوں اور گدی نشینوں کے پیچھے دوڑتے پھرتے ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ ان کو بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں کی تسخیر میں جنات ہیں اور وہ ان سے جو چاہیں کام لے لیتے ہیں۔ حاش اللہ کہ ایسی کوئی بات ہو۔ یہ سارے فراڈ ہیں جو ان لوگوں نے قوم کے ساتھ پیٹ کی خاطر کئے ہیں اور یہ سارے لوگ ان یہودیوں سے کسی طرح بھی کم مجرم نہیں جن کی مذمت قرآن کریم نے کی ہے۔
Top