Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 94
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُهٗۤ اَیْدِیْكُمْ وَ رِمَاحُكُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّخَافُهٗ بِالْغَیْبِ١ۚ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَيَبْلُوَنَّكُمُ : ضرور تمہیں آزمائے گا اللّٰهُ : اللہ بِشَيْءٍ : کچھ (کسی قدر) مِّنَ : سے الصَّيْدِ : شکار تَنَالُهٗٓ : اس تک پہنچتے ہیں اَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھ وَرِمَاحُكُمْ : اور تمہارے نیزے لِيَعْلَمَ اللّٰهُ : تاکہ اللہ معلوم کرلے مَنْ : کون يَّخَافُهٗ : اس سے ڈرتا ہے بِالْغَيْبِ : بن دیکھے فَمَنِ : سو جو۔ جس اعْتَدٰي : زیادتی کی بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد فَلَهٗ : سو اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اے مسلمانو ! شکار کے معاملہ میں جس تک تمہارے ہاتھ اور نیزے پہنچیں اللہ ضرور تمہاری ایک حد تک آزمائش کرے گا تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون اللہ سے غائبانہ ڈرتا ہے ، پھر اس کے بعد جو کوئی حد سے گزر جائے تو اس کے لیے عذاب دردناک ہے
223: ماہ ذیقعدہ 6 ہجری میں مسلمان عمرہ کا احرام باندھ کر نکلنے والے تھے کہ یہ حکم نازل ہوگیا ۔ فرمایا تم عمرہ کو چلے ہو اور اس واقعہ میں تمہاری آزمائش بھی ہوگی۔ وہ اس طرح کہ تم حالت سفر میں ہو گے اور زاد راہ کی کمی کے باعث تمہاری آزمائش اس طرح ہوگی کہ تم راستے میں بری شکار کو عام دیکھو گے اور تم کو معلوم ہے کہ اس شکار سے تم کو حالت احرام میں منع کیا گیا ہے جیسا کہ اس سورة المائدہ کی دوسری آیت میں آپ اس کی ممانعت پڑھ چکے۔ اب تم کو ضرورت بھی ہے اور شکار کھیلنے کا شوق بھی پھر تمہاری آزمائش اس طرح ہوگی کہ شکار تم عام دیکھو گے اب دیکھتے ہیں کہ اہل یہود کی طرح کون اس کی کوئی تاویل نکالتا ہے اور کون اس آزمائش کے وقت میں آزمائش پر پورا اترتا ہے ۔ یہ آزمائش کیوں کی گئی ؟ اس لئے کہ کھرا اور کھوٹا الگ الگ ہوجائے اور ” چپل کو حلال کرنے والے “ اپنے اصلی روپ میں سامنے آجائیں۔ یہ بات سب کو معلوم ہوجائے کہ اللہ پر ایمان لانے والا کون ہے اور وقت گزاری کون کر رہا ہے ؟ مزید وضاحت فرماتے ہوئے یہ ارشاد بھی فرمادیا کہ تمہاری آزمائش اس وقت مزید بڑ ھ جائے گی جب شکار جو جھپٹ کر پکڑنا اور تیروں کی مدد سے ان کو قابو میں لانے تمہارے لئے آسان ہوجائے اور تمہیں ایسا کرنے سے سوائے اللہ کے حکم کے کوئی اور چیز نہ روکے گی۔ ایسا کیوں ہوگا ؟ فرمایا اس لئے کہ کسی طالب علم کی حالت لوگوں پر اس وقت تک واضح نہیں ہو سکتی جب تک اس کا امتحان لے کر اس کے نتیجہ کا اعلان ہوجائے یہ گویا تمہارے علم حاصل کرچکنے کا امتحان ہے کہ کس کو سبق یاد ہے اور وہ کون ہے جو آگے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پچھلا بھلاتا چلا جا رہا ہے۔ اس سے یہ بات بھی پوری طرح واضح ہوگئی کہ اللہ کے علم اجمالی پر عذاب وثواب مرتب نہیں ہوتا اور یہ کہ ظور واقعہ سے پہلے عذاب ظلم ہے اگر یہ اصول ذہن نشین ہوجائے توکتنے غلط نظریات ہیں جن سے ہماری گلو خلاصی ہو سکتی ہے اور کتنے اختلافات ہیں جن کے مٹتے دیر نہیں لگتی۔ مثلاً یہ کہ خضر (علیہ السلام) نے ایک معصوم بچہ کو قتل کردیا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس کو بڑے ہو کر غلط کام کرنے تھے۔ تم کو کس نے بتایا ؟ اللہ کے علم اجمالی میں موجود تھا۔ اچھا وہ کون سی بات ہے جس کا علم اللہ کو نہیں۔ پھر اللہ ان سارے لوگوں کو ظلم کیوں کرنے دیتا ہے۔ صرف اس لئے کہ اس کے قانون میں یہ طے ہے کہ جب تک کوئی ظلم کرنے والا ظلم کر نہ لے وہ سزا نہیں دیتا۔ پھر اس نے سے معصوم بچہ کو جس نے ابھی تک کوئی ظلم نہیں کیا تھا کیوں سزادلوادی اور وہ بھی موت کی سزا۔ کیا اللہ اپنی کسی بات کا کوئی پاس نہیں کرتا کہ اس نے کہا کیا اور کیا کیا ؟ کیا قادر ہونے کا یہ مفہوم ہے ؟ کیا قادروہ نہیں ہوتا جو خود اپنے کہے کا خلاف نہ کرے اور نہ ہی خلاف ہونے دے ؟ کیا قادر قدرت کا غلط استعمال کر کے ہی قادر ہو سکتا ہے ؟ ؟ کیا وہ اپنی قدرت کا صحیح استعمال کر کے قادر نہیں ہو سکتا ؟ سوچ لو کہ کیا تم نے ان دنیا کے ظالموں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ؟ کیا تم نے ان ظالموں کو قادر نہیں بنا دیا اگر ایسا ہے تو کیا تم خود ظالم نہیں ہوگئے کیا آزمائش سے پورا اترنا اسی کو کہتے ہیں ؟ تم بھی عجیب ہو کہ کسی کو ” عیسیٰ (علیہ السلام) کی شبیہ بنا کر سولی چڑھا دیا “ کسی سے ” ماپنے کا آلہ بھائی کی بوری میں رکھوا کر دوسروں کو چور بنوادیا۔ “ پھر یہ ساری باتیں اللہ کے ذمہ لگا کر خودبری الذمہ ہوگئے۔ کیا یہ علم کا مقام ہے یا جہالت کی نشانی ۔ اللہ کا حکم یاد رکھو کہ ” اس کے بعد جو کوئی حد سے گزر جائے تو اس کے لئے عذاب درد ناک ہے۔ “
Top