Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 97
جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ الْهَدْیَ وَ الْقَلَآئِدَ١ؕ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
جَعَلَ
: بنایا
اللّٰهُ
: اللہ
الْكَعْبَةَ
: کعبہ
الْبَيْتَ الْحَرَامَ
: احترام ولا گھر
قِيٰمًا
: قیام کا باعث
لِّلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ
: اور حرمت والے مہینے
وَالْهَدْيَ
: اور قربانی
وَالْقَلَآئِدَ
: اور پٹے پڑے ہوئے جانور
ذٰلِكَ
: یہ
لِتَعْلَمُوْٓا
: تاکہ تم جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
يَعْلَمُ
: اسے معلوم ہے
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَا
: اور جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
وَاَنَّ
: اور یہ کہ
اللّٰهَ
: اللہ
بِكُلِّ
: ہر
شَيْءٍ
: چیز
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اللہ نے کعبہ کو حرمت کا گھر بنایا ہے لوگوں کے لیے قیام کا ذریعہ ٹھہرایا ہے نیز حرمت کے مہینوں کو اور قربانی کو اور ان جانوروں کو جن کی گردنوں میں پٹے ڈال دیتے ہیں ، یہ اس لیے کیا گیا تاکہ تم جان لو ، آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ سب کا حال جانتا ہے اور وہ ہر بات کا علم رکھنے والا ہے
کعبہ کیا ہے ؟ لوگوں کے لئے قیام امن و اجتماع کا ذریعہ ہے : 229: اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو لوگوں کے لئے قیام امن و اجتماع کا ذریعہ ٹھہرادیا ہے اور اس کے علم میں بیشمار مصلحتیں اور برکتیں ہیں جو تمہیں اس معاملہ سے حاصل ہوں گی۔ پس اس کی حرمت کے شعائر و اعمال قائم رکھو اور ان میں کسی طرح کا فتورنہ ہونے دو ۔ ” کعبہ “ عربی زبان میں اس مکان یا چار دیواری کو کہتے ہیں جو مربع یعنی چکور ہو یعنی جس کے چاروں اضلاع تقریباً برابر ہوں۔ اس نام سے بعض دوسرے قبیلوں اور خاندانوں نے بھی عمارتیں بنائی تھیں جیسے قبیلہ خثعم نے ایک مکان اسی نام سے موسوم کر رکھا تھا جس کو ” کعبہ یمانیہ “ کہا جاتا تھا اس لئے اس ” کعبہ “ کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لئے کعبہ کے ساتھ بیت الحرام کا لفظ بڑھا دیا گیا جس کو عام زبان میں ” بیت اللہ “ کہا جاتا ہے ۔ بیت الحرام یعنی حرمت والا گھر۔ اسی طرح ” کعبہ “ بھی ان متبرک ناموں میں سے ایک نام ہے جو فی الواقع اسم بامسمّیٰ ہیں جس طرح لفظ ” اللہ “ خود دلات کرتا ہے اپنے مسمی کے ساری مخلوق سے بلند ہونے اور اس کے معبود ہونے پر اور لفظ ” محمد “ خود جامعت رکھتا ہے ہر طرح کی بزرگی اور ستودہ صفات ہونے کی بالکل اسی طرح لفظ ” کعبہ “ کے اندر بھی اسکی عظمت اور بزرگی کی دلالت موجود ہے کیونکہ کعبہ کے معنی بلند مقام کے ہیں اور یہ بلندی ظاہری و معنوی دونوں کی جامع ہے۔ (رازی) پچھلی آیت میں حدود حرم میں اور حالت احرام میں شکار کی ممانعت تھی اس لئے اس ممانعت کے بعد بتایا جا رہا ہے کہ جس طرح کعبہ اور اس کی حدود جانوروں کے لئے امن گاہ ہیں اسی طرح کعبہ انسانوں کے حفظ وبقاء کا بھی سبب ہے فرمایا : ” قِیٰمًا لِّلنَّاسِ “ قیام جو اصل میں قوام تھا جس کے ” واو “ کو قاعدہ کے مطابق ” یاء “ سے بدل دیا گیا۔ (المنار) کعبہ مقدس تکوینی اور تشریہی دونوں لحاظ سے لوگوں کے حفظ وبقاء کا ذریعہ ہے تکوینی لحاظ سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کی عزت و عظمت لوگوں کے دلوں میں ایسی مستحکم کردی ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ جزیرہ عرب میں کوئی حکومت نہ تھی ، کوئی قانون نہ تھا ، کوئی مستقل دین نہ تھا بلکہ قتل و غارت کی گرم بازاری تھی اس وقت بھی یہاں کوئی کسی کو نہیں چھیڑتا تھا۔ کسی کے باپ کا قاتل بھی اگر وہاں آجاتا تو اس کی طرف بھی بری نگاہ سے نہ دیکھا جاتا۔ اس کے باوجود کہ گردونواح کا سارا علاقہ صحرا اور ریگستان تھا لیکن تجارتی قافلوں کی یہی منڈی تھی۔ عرب کے گوشہ گوشہ سے لوگ یہاں ہی جمع ہوتے اور کاروبار کرتے اور اسلام سے پہلے بھی اس طرح حج وعمرہ ادا کیا جاتا۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کو اللہ نے اتنی قبولیت بخشی کہ اس ” وادی غیر ذی زرع “ میں اتنی افراط سے سامان خوردونوش اور بہترین قسم کے پھل اور میوے دنیا کے دور دراز علاقوں سے کھچے چلے آتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس کو ” قیام الناس “ قرار دیا ہے اور جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ ” ناس “ کا لفظ عام انسانوں کے لئے بولا جاتا ہے ۔ جس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہوجاتی ہے کہ پورے عالم کے انسان اس میں داخل ہیں ۔ جس کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ اس کعبہ یعنی بیت اللہ کو پورے عالم انسانیت کے لئے قیام وبقاء اور امن و سکون کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ جس کا مطلب اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ دنیا اس وقت تک قائم ہے جب تک اس دنیا کے ہر ملک میں بسنے والے لوگ بیت اللہ کے اس احترام کو قائم رکھیں گے۔ تعداد میں وہ کم ہوں یا زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک کے سربراہوں کو بھی اس جگہ داخلہ کی ممانعت ہے وہاں سے بھی لوگ اس کی زیارت حج وعمرہ میں شریک ہوتے رہے ، ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔ اس لئے کہ یہ عالم انسانیت کے قیام وبقاء اور امن و سکون کا ذریعہ ہے۔ اس ” قِیٰمًا لِّلنَّاسِ “ کے مفہوم سے اگر علمائے اسلام ” اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ “ کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے تو آج وہ بکھیڑے نہ ہوتے اور وہ بحثیں نہ چھڑتیں جنہوں نے پورے عالم اسلام میں ایک ہل چل مچا رکھی ہے۔ قرآن کریم نے اگرچہ کوئی خاص زمانہ کعبہ کی تعمیر کا نہیں بتایا اس لئے کہ وہ کوئی تاریخ کی کتاب نہیں البتہ اس نے دو صفتیں اس کی بیان کی ہیں جن سے اس کی قدامت کا پتہ چلتا ہے ایک ” بیت العتیق “ یعنی نہایت پرانا اور قدیم گھر دوسرے ” اول بیت وضع للناس “ یعنی سب سے پہلا گھر جو انسانوں کے لئے اللہ کی عبادت کرنے کے لئے بنایا گیا۔ اس کی تفصیل عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 96 میں گزر چکی ہے اور جلد اول تفسیر سورة البقرہ کی آیت 125 بھی ملاحظہ فرمالیں۔ کعبہ کی تعمیر جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) نے کی وہ بھی سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے مدتوں پہلے ہوئی تھی اور یہ بھی اس کی قدامت ہی کی دلیل ہے۔ کعبہ کی اس تعمیر کے بعد سب سے پہلے نگران سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) ہی مقرر ہوئے تھے۔ اسماعیل (علیہ السلام) اگرچہ کثیر الاولاد تھے لیکن اس علاقہ میں بہر حال پردیسی تھے اس لئے آپ کی وفات کے بعد بنی جرہم نے جو وہاں کے اصلی باشندے کہلاتے تھے یا کم از کم سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) کی آمد سے قبل وہاں موجود تھے انہوں نے اس میں مداخلت شروع کردی اور یہی وہ خاندان ہے جو سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) کے سسرال اور آپ کے بیٹوں کے ننہال بھی تھے اس لئے اس مداخلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ مضاض ابن عمرو جرہمی جو اسماعیل (علیہ السلام) کی کچھ اولاد کے نانا تھے وہ اس کے نگران ہوگئے اس طرح اب نگرانی بنوجرہم میں چلی گئی ۔ بنو جرہم کے اختیار کے زمانہ میں پہاڑی نالہ بارش کے پانی سے چڑھا جس کے نتیجہ میں وہ عمارت زمین بوس ہوگئی جو سیدنا ابراہم (علیہ السلام) اور سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) نے بنائی تھی ۔ اب انہیں بنیادوں پر بنو جرہم نے اس عمارت کو کھڑا کردیا جو بنیادیں ابراہیم (علیہ السلام) نے رکھی تھیں۔ عرب میں جو لوگ آباد تھے وہ تین ناموں سے مشہور تھے عرب البائدہ۔ عرب العاربہ اور عرب المستعربہ۔ سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد کو عرب المستعربہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور بنو جرہم وغیرہ کو عرب العاربہ سے اور عرب البائدہ کا حال بہت کم ملتا ہے ۔ عمالیق کا تعلق عرب العاربہ سے تھا یا عرب البائدہ سے بہر حال وہ عرب المستعربہ میں سے نہ تھے ۔ بنو جرہم کی تعمیر شدہ عمارت پر بھی وہ وقت آیا کہ وہ ڈھیر ہوگئی اور پھر انہی بیالدوں پر قوم عمالیق میں سے عمالیق ثانی نے تعمیر کی جن بنیادوں پر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو کھڑا کیا تھا۔ کعبہ کی یہ تعمیر بھی سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے ایک صدی سے زیادہ پہلے ہوئی تھی۔ ازیں بعد کتنے لوگ آئے اور کیا کیا حالات گزرے اور پھر زمانہ آیا کہ بنی عمالیق کی تعمیر کو بھی خاصا نقصان پہنچا اور یہ زمانہ چونکہ قصی ابن کلاب کا تھا اور یہی سردار مکہ تھے اس لئے انہوں نے اس کو تعمیر کیا۔ قصی چونکہ ہمارے نبی کریم ﷺ سے چھ پشت اوپر ہیں اس لئے آپ کی پیدائش سے تقریباً دو سو سال پہلے کی بات اس کو کہا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی پیدائش سے دو صد سال قبل یہ تعمیر ہوئی۔ غالباً یہی وہ تعمیر ہے جس میں حطیم کا حصہ تعمیر میں نہ آیا۔ بعض مورخین نے اس کو تسلیم نہیں کیا بلکہ یہ لکھا ہے کہ اس وقت تک اس پر چھت نہیں پڑی تھی یہ بےچھت چار دیواری تھی اور بعد ازیں مختلف جگہیں اس کی متاثر ہوتی رہیں جن کو اس وقت تعمیر کیا جاتا رہا یعنی درست کردیا جاتا تھا۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کی پیدائش کے بعد آپ (علیہ السلام) کی عمر شریف تقریباً دس گیارہ سال کی ہوگی کہ غلاف کعبہ میں آگ لگ گئی اور کعبہ کی دیواریں آتشزدگی کے سبب بالکل بودی ہوگئیں اور کئی جگہ سے پھٹ بھی گئی اور پھر اس دوران بارش کے نالہ کا پانی آیا اور اس کے زور کے ساتھ خانہ خدا بھی تقریباً بہہ گیا اور اب قریش نے اس کے بنانے کی فکر کی۔ (کتاب اخبار مکہ ص 107) قریش نے جب اینٹ پتھراکٹھے کر لئے تو چھت کا ارادہ بھی ہوا کہ اس پر چھت ڈال دی جائے لیکن اتنی لکڑی اور پھر اس کا استعمال کون کرے اور کیسے کرے۔ قدرت کی نیر نگیاں دیکھیں ادھر یہ فکر لاحق تھی اور ادھر رومیوں کے ایک جہاز کو آگ لگ گئی جو مکہ کی بندرگاہ شعیب پر لنگرانداز ہوا تھا اس سے جب وہ جہاز ٹوٹا تو اس میں سے کچھ اس طرح کی لکڑی نکل آئی جو چھت کا کام دے سکتی تھی ۔ قریش نے وہاں پہنچ کر وہ لکڑی خرید لی اور وہیں سے ایک عیسائی انجینئر بھی مل گیا جو اس کا استعمال کرسکتا تھا ۔ اس طرح اب وہ سب سامان جمع ہوگئے جن کی اس جگہ ضرورت تھی۔ جب بنیادیں اٹھانے کا وقت آیا تو دیواروں کے پہلے پتھر جو ابھی تک ان بنیادوں پر پڑے تھے ان کو ہٹانے کے لئے کوئی آدمی تیار نہ ہوتا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اگر ان کو اٹھایا گیا تو نہ معلوم اٹھانے والے پر کیا آفت پڑے گی ۔ یہ انسان کی قوت وہمہ کی کرشمہ سازیاں ہیں جو کسی کو ہواؤں میں اڑاتی ہیں اور کسی کو تحت الثر یٰ میں پھینک دیتی ہیں۔ مختصر یہ کہ ولید بن مغیرہ نے اپنا دل مضبوط کیا کہ چلو میں بوڑھا آدمی ہوں جو ہوا سو ہوا اس نے وہ پتھر ہٹانے شروع کئے تو اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شامل ہوگئے اس طرح ان بنیادوں کو صاف کردیا گیا جو بنیادیں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے رکھی تھی اور اس طرح ان بنیادوں پر نئے سرے سے بیت اللہ کی عمارت کھڑا کرنا شروع کردی ۔ انجینئر صاحب نے جب چھت کا اندازہ لگایا تو وہ لکڑی اس کے لئے پوری نہ تھی جو قریش نے اس مقصد کے لئے اکٹھی کی تھی اور اس طرح قریش نے باہم مشورہ سے اس جگہ کو اس عمارت سے الگ کردیا جس کو حطیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ جگہ چھ ذراع اور ایک بالشت تھی ۔ اب اس جگہ کو چھوڑ کر بیت اللہ کی دیواریں مکمل کیں اور اس پر چھت ڈال دی گئی ۔ ازیں بعد اس اصل بنیاد پر بھی دیوار چن دی گئی تاکہ اس کا تقدس قائم رہے۔ یہی وہ تعمیر ہے جس میں نبی اعظم وآخر ﷺ نے بھی باقاعدہ حصہ لیا اور کم عمری کے باوجود پتھر اٹھانے اور لگانے میں بھی باقاعدہ کام کیا۔ دیواریں چنی جاچکیں اور اس پتھر کو رکھنے کا وقت آیا جس کو حجر اسود کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور طواف شروع کرنے پر ایک اہم نشانی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے توقریش میں جھگڑا شروع ہوگیا۔ اب ہر قبیلہ کی یہ خواہش ہوئی کہ یہ پتھر ہم رکھیں گے بڑی خیر ہوئی کہ ابو عبد بن مغیرہ کے سمجھانے سے وہ لوگ اس بات پر متفق ہوگئے کہ جو سب سے پہلے اس راستہ سے آئے وہی اس کا فیصلہ کرے اور وہ جو فلہہ کردے وہ سب کو منظور ہوگا۔ ان سب کی مزید خوش قسمتی یہ دیکھئے کہ سب سے پہلے اس راستہ سے نبی اعظم وآخر ﷺ کا وردو مسعود ہوا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ شرف اس گیارہ سالہ بچے کو بخش دیا جو بعد میں سارے قبیلوں کو ایک جسم و جان ہونے کی دعوت دینے والا تھا۔ بلاشبہ آپ کی عمر شریف ابھی چھوٹی تھی اور بزرگوں کے سامنے ابھی آپ ” عہد “ سنی میں تھے کہ سب لوگوں نے آپ (علیہ السلام) کے لئے امین امین کا نعرہ بلند کردیا۔ آپ غور کریں کہ کہاں وہ مقام کے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے اس ” عہد “ کی عمر میں یہ اعلان کرایا کہ ” انی عبد اللہ اتانی الکتب “ اور کہاں یہ بات کہ اس ” مہد “ ہی کی عمر میں مجھ رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس پر یہ انعام فرمایا کہ لوگوں نے آپ (علیہ السلام) کو ” الامین “ ، ” الامین “ پکارنا شروع کردیا۔ کوئی اپنے منہ سے اپنی تعریف کرے اور کسی کے لئے دوسروں کے منہ سے اس کی تعریف کا بندوبست کردیا جائے اس میں کتنا فرق ہے ؟ کسی صاحب عقل ، صاحب علم اور فلسفہ واخلاق کے ماہر سے دریافت کرلیجئے تو شاید تمہاری آنکھیں کھل جائیں کہ ان دونوں کے مقام میں کتنا بڑا فرق ہے ؟ افسوس علمائے کرام ! کہلانے والوں کی عقل پر کہ وہ اپنے منہ ” اتانی الکتب “ کہنے کو تو معجزہ قرار دیتے ہیں اور اس ” الامین “ کے نعرہ کو جو دوسرے لوگوں نے نبی اعظم و آخر ﷺ کے حق میں آپ (علیہ السلام) کی اس ” مہدی “ ہی کی عمر میں بلند کیا اس کا نام بھی نہیں لیتے اور اس کو ہماری زبان میں کہتے ہیں کہ ” کھانا کسی کا اور گانا کسی کا “ اور محاورہ میں ” نمک حرام “ کا لفظ بھی اسی مفہوم کے لئے بولا جاتا ہے۔ اب ان بزرگوں کے منہ سے ” الامین “ کہلانے والے بچہ کا فیصلہ بھی سن لو اس نے بتائید ایزدی کیا فیصلہ فرما دیا جس سے بڑے ، بوڑھے اور دانشور سب کے سب ششدر رہ گئے۔ آپ (علیہ السلام) نے روائے مبارک بچھائی اور حجر اسود کو اس میں رکھا اور سب قوموں کے سرداروں کو کہا کہ سب کے سب مل کر چادر کو پکڑ لو اور وہاں تک اس کو بلند کردوجہاں اس کو رکھا جانا ہے اور اس طرح حجر اسود کو اس مقام تک اس خوبصورتی کے سات پہنچا کر رکھ دیا جہاں اس کا رکھا جانا طے ہوچکا تھا ۔ جب یہ تنازع رفع ہوگیا تو تعمیر کا باقی کام شروع ہوگیا اور قریش نے اس تعمیر کو زمنس سے اٹھارہ ذرعہ تک بلند کردیا اور اس کی یہ بلندی بعد میں مزید بڑھا دی گئی۔ جب چار دیواری تیار ہوگئی تو ” باقوم “ یعنی اسی انجینئر نے قریش سے چھت کا مشورہ کیا کہ چورس ہو یا بنگلہ نماقریش نے چورس چھت ڈالنے کا مشورہ دیا تو باقوم نے چھ ستون کھڑے کئے اور چھت ڈالوادی ظاہر ہے کہ اس لکڑی میں اتنا لمبا شہتیر نہ تھا کہ ان ستونوں کی ضرورت نہ ہوتی اور پھر اس چھت کا پرنالہ اس حطیم میں ڈال دیا گیا جس کو دیوار چن کر محفوظ کردیا گیا اور وہ آج بھی اسی جگہ موجود ہے۔ باقوم نے کعبہ کے اندر ایک سیڑھی لگائی جس کے ذریعہ سے چھت پر پہنچا جاسکے اور چھت میں ایک روشن دان رکھا جس سے نکل کر چھت پر جایا جاسکے اور روشندان بیت اللہ کے اندر روشنی کا کام بھی دے۔ یہ تعمیر سیدنا معاویہ ؓ بن ابی سفیان کے بعد ان کے بیٹے یزید کے آخری دور تک رہی۔ یزید کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے عبد اللہ بن زبیر نے یزید کی بیعت میں تامل کیا اور مکہ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا اس پر حصین بن نمیر یزید کی طرف سے فوج لے کر مکہ پر چڑھ گیا اور کئی دنوں تک عبد اللہ بن زبیر سے لڑائی ہوتی رہی اس لڑائی میں حصین بن نمیر کی طرف ایک آتشین گولہ گرا جس سے ایک خیمہ میں آگ لگ گئی اور یہی آگ پھیلتی ہوئی غلاف کعبہ تک پہنچ گئی جس سے تمام کعبہ جل گیا اور لکڑی کی چھت نے اس بار پہلے سے بھی زیادہ نقصان کیا۔ یہ واقعہ 3/ربیع الاول 64 ھ کا ہے پھر اس کے دس گیارہ دن بعد یزید مر گیا جب یہ خبر مکہ میں پہنچی تو عبد اللہ بن حصین بن نمیر سے کہا کہ دیکھو کعبہ بھی جل گیا اور تمہارا امیر بھی مر گیا اب تم ہم سے کیوں لڑتے ہو ؟ اس پر حصین بن نمیر مع اپنے لشکر کے 5/ربیع الثانی 64 ھ کو مکہ سے شام کو چلا گیا اور ازیں بعد عبد اللہ بن زبیر نے اس ساری عمارت کو منہدم کر کے انہی بنیادوں پر تعمیر کیا اور اس نقشہ کے مطابق اور انہی بنیادوں پر کھڑا کردیا جن میں تین ستون ہٹائے گئے اور دو دروازے لگا دیئے گئے اور یہ بھی کہ دروازے زمین کے برابر رکھے گئے تاکہ لوگ آسانی سے ایک دروازہ سے داخل ہو کر دوسرے سے باہر نکل جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس ترمیم کے ساتھ بیت اللہ کی عمارت پھر کھڑی ہوگئی۔ عبد الملک بن مروان جب خلیفہ ہوا تو اس نے حجاج کو مع فوج کے عبد اللہ بن زبیر کے مقابلہ کے لئے بھیجا۔ اس خانہ جنگی میں عبد اللہ بن زبیر مارے گئے اور حجاج کا داخلہ مکہ میں ہوگیا اور اس نے عبد الملک بن مروان کو لکھا کہ کعبہ میں ابن زبیر نے یہ یہ تبدیلیاں کی ہیں اور دروازہ بھی نیا لگایا ہے۔ عبد الملک نے حجاج کو حکم دیا کہ اس کو قریش کی تعمیر کے مطابق کر دو اور نیا دروازہ بھی بند کر دو اس طرح حجاج نے ساری عمارت تو نہ اٹھائی لیکن کعبہ کی بلندی کم کردی۔ نیا دروازہ بند کردیا پہلا دروازہ اونچا کر کے اس جگہ لگادیا جس طرح پہلے لگایا گیا تھا اور میزاب و حطیم کو اسی طرح اس کے مقام پر رکھا گیا اور باقی عمارت وہی رہنے دی جو عبد اللہ بن زبیر نے بنوائی تھی ۔ ہاں ! اندر کی سیڑھی اور روشندان بھی حجاج ہی کے بندکئے ہوئے ہیں کیونکہ چھت پوری نئے سرے سے پڑی تھی۔ کعبہ یعنی بیت اللہ کے بیان میں پیچھے آپ پڑھ چکے ہیں کہ اس کے غلاف کو ایک سے زیادہ بار آگ نے نقصان کیا لیکن غلاف آج تک بیت اللہ پر موجود ہے اس لیے ممکن ہے کہ کوئی سعید روح یہ معلوم کرنا بھی چاہتی ہو کہ اس غلاف کعبہ کی تاریخ کیا ہے اور اس کا رواج کب ہوا۔ سو یاد رہے کہ سیدنا براہیم (علیہ السلام) کے وقت اور آپ کے مدت بعد تک کعبہ کی دیواریں وہی کھائی دیتی تھیں جیسی کہ بنی تھیں مگر سنہ عیسوی سے چھ سو سال قبل اسعد حمیری نے کعبہ کی دیواروں پر غلاف چڑھایا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ کعبہ کو کپڑا پہنا رہا جب اس کی نیند کھلی تو اس نے ارادہ کیا کہ وہ بیت اللہ پر غلاف چڑھائے چناچہ اس طرح اس نے انطاع کا غلاف چڑھایا لیکن ازیں بعد اس نے پھر وہی خواب دیکھا تو پھر اس نے یمن کے کپڑے کا جو بہت عمدہ ہوتا تھا غلاف چڑھا دیا اس طرح کعبہ پر غلاف کی رسم جاری ہوگئی جو آج تک قائم ہے۔ اس پہلے خلاف کے بعد مکہ جس کے قبضے میں آیا وہ کعبہ پر غلاف چڑھاتا رہا اور یہ رسم ہر سال ادا ہوتی رہی پہلے پہل ہر سال جو نیا غلاف چڑھایا تھا وہ اس پہلے غلاف کے اوپر چڑھایا جاتا تھا اس طرح مختلف قسم کا کپڑا بہت سا کعبہ کی دیواروں پر چڑھ جاتا اور ان کی اتنی تہیں جو جاتیں جب کبھی اس کو آگ پکڑ لیتی تو اس سے بچنے بچانے کی کوئی صورت باقی نہ رہتی ۔ غالباً عبد اللہ بن زبیر کی تعمیر تک پہلے غلاف پر ہی دوسرا غلاف چڑھایا جاتا رہا لیکن اس کے بعد پرانے غلاف پر نیا غلاف چڑھانے کی رسم جاتی رہی بلکہ ہر سال پرانا غلاف اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا دستور بن گیا جو آج تک بدستور قائم ہے اور یہ رسم بھی جاری رہی کہ پرانے غلاف کے ٹکڑے تبر کا تقسیم کئے جاتے رہے اور لوگوں نے ان کے ساتھ طرح طرح کی عقیدت کا اظہار کیا اور یہاں تک کہ قبر میں اس کا کوئی ٹکڑا رکھ دینا بھی باعث نجات تصور کیا جاتا رہا لیکن یہ ساری باتیں دین اسلام کی لائی ہوئی مطلق نہ ہیں لوگوں کے اوہام ہی کا نتیجہ ہیں جو کچے سورت سے بھی زیادہ بودی ہیں اسلام کا چہرہ ایسی باتوں سے بالکل صاف ہے ہماری مراد اس عبارت سے صرف غلاف کعبہ کو متبرک سمجھ کر اس کے ٹکڑوں کی تقسیم اور اس کے ساتھ طرح طرح کی عقیدت کا مظاہرہ ہے۔ آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل سلطان روم نے نہایت عمدہ اور سیاہ رنگ کا غلاف چڑھایا جس پر قرآن کریم کی آیات بھی کڑھائی کی گئی تھیں اور اس کے بعد آج تک رنگ اور آیات کی نقش نگاری سے بھی کام لیا جاتا رہا ہے۔ اسلام کی رو سے جو کچھ بحث اس پر ہو سکتی ہے وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ : ماھذا التعبد الکعبۃ او لتحسینھا فالا ول کفر علی مذھب الاسلام والثانی امر لا باس بہ ” یہ کام کس ارادہ سے کیا جاتا ہے کعبہ کی پرستش کے لئے یا اس کی خوبصورتی اور آرائش کے لئے اگر پہلی نیت سے کیا جائے تو کفر ہے اور اگر دوسرے ارادہ سے کیا جائے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔ “ اور ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ بیت اللہ کے متعلق جتنے کام ہیں ان میں سے ایک بھی نہیں جو اس کی عبادت سمجھ کر کیا جاتا ہو اور اس طرح غلاف کعبہ یا اس کے کپڑے کا انتخاب اور اس پر پچہ کاری کے کام سب کا تعلق صرف اور صرف زیبائش سے ہے اس کی عبادت کی نیت سے ہرگز ہرگز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک غلاف کو اتار کر دوسرا غلاف چڑھایا جاتا ہے تو ہماری نظر میں اس کے اندر کوئی تبرک کی چیز باقی نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ اس پر جو قرآن کریم کی آیات نقش کی گئی ہیں ان کا احترام و اکرام بالکل ویسا ہی باقی رہ جاتا جیسا کہ قرآن کریم کے اوراق کا ہے اور یہی اس کے سنبھال کر رکھنے کا طریقہ ہے جو بوسیدہ اوراق قرآن کریم کا ہے۔ کعبہ یعنی بیت اللہ کو اللہ کا گھر سمجھنے کے باوجود جو زیادتیاں روا رکھی گئیں ان میں سب سے بڑی زیادتی وہ تھی جب کعبہ کے اندر اصنام رکھے گئے۔ نبی جریم کے زمانہ میں صفا اور مروہ کی پہاڑویوں پر دوبت رکھے گئے تھے ۔ صفاء پر جو بت تھا وہ مرد کی شکل و صورت کا تھا اور اس کے کو ” اساف “ کہتے تھے ۔ دوسرا بت جو مروہ پر تھا وہ عورت کی شکل کا تھا اور ” نائلہ “ اسی کو کہتے تھے اور آہستہ آہستہ یہ بت اور ان کے ہمراہ بہت سے اور بت مختلف ادوار میں بنائے گئے اور بیت اللہ میں رکھے گئے ۔ ان میں سے کچھ مشہور نام ہیں جن کا تذکرہ آج تک تاریخ اور روایات میں پایا جاتا ہے جن میں زیادہ مشہور نہیک ، مطحم ، ببل ، مناۃ ، لات ، عزیٰ ، ذات انواط ، ذوالکفین ، سواع ، ود ، یغوث ، یعوق اور نسر کے ہیں جن میں سے بعض کے نام قرآن کریم میں بھی آئے ہیں۔ علاوہ ازیں مختلف ادوار میں کچھ خیالی تصاویر بھی بنائی گئی تھیں جن میں بعض فرشتوں کی تصاویر اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ مریم کی تصاویر بھی نقش ونگار میں موجود تھیں لیکن یہ کام زیبائش کے لئے تھا یا تعبد کے لئے بہر حال دونوں صورتوں میں حرام تھا۔ اس لئے جب نبی اعظم و آخر ﷺ نے مکہ فتح کیا تو سب سے پہلا کام یہی کیا کہ ان بتوں کو توڑ پھوڑ دیا اور دور دراز باؤلیوں میں پھنکوا دیا اور اس طرح ان مبارک ناموں کی تصاویر کو بھی دیواروں سے بالکل صاف کر ادیا اور پھر اللہ وحدہ لا شریک لہ کی پرستش کو قائم کیا جو قیامت تک محمد رسول اللہ ﷺ کے نام نامی کے ساتھ قائم رہے کی۔ حرمت کے مہینوں اور قربانی کے جانوروں کا احترام : 230: قرآن کریم نے ” قِیٰمًا لِّلنَّاسِ “ ہونے میں کعبہ کے ساتھ تین اور چیزوں کو شامل کیا ہے۔ پہلے ” شہر الحرام “ یعنی عزت و عظمت کے مہینہ کو اس جگہ لفظ ’۔ شہر الحرام “ کا آیا ہے اسلئے اکثر مفسرین نے اس سے مراد ذی الحجہ کا مہینہ لیا ہے لیکن بعض مفسرین نے ” شہر “ کو جنس مراد لے کر اس سے مراد ” اشہر الحرام “ ہی لی ہے جس کا ذکر دوسری جگہ قرآن کریم میں آیا ہے یعنی وہ حرمت وعزت کے مہینے جن میں قتل و قتال کی ممانعت ہے۔ بلاشبہ ان کی حرمت قبل از سلام تھی لیکن تاہم اسلام نے بھی اس کو برقرار وقائم رکھا ہے سوائے ان چیزوں کے جو کفار مکہ نے اپنی غرض وغایت کے پیش نظر ساتھ ملا دی تھیں جن کا ذکر پیچھے سورة البقرہ میں گزر چکا ہے ۔ ان مہینوں میں لڑائی کی ممانعت کی وجہ سے یہ قیام امن کا باعث تھے۔ دوسری چیز ” ھدی “ ہے اور ہدی اس جانور کو کہا جاتا ہے جس کی قربانی حرم شریف میں کی جائے اور ایسے جانور جس قافلہ کے ساتھ ہوتے تھے اس قافلہ کو ڈاکو اور لیٹرے بھی نہ چھیڑتے تھے اور وہ امن وامان کے ساتھ سفر کرتا تھا اس طرح اس قافلہ کا مقصد حج پورا ہوجاتا تھا اس طرح چونکہ ” ھدی “ بھی ایک قیام امن کا سبب تھی اور یہی بات قرآن کریم نے ارشاد فرمائی۔ تیسری چیز ” قلائد “ ہے جو قلادۃ کی جمع ہے اور قلادہ گلے کے باہر کو کہا جاتا ہے ۔ دور جاہلیت میں چونکہ لیٹرے اور ڈاکو بھی کچھ ضابطوں کے پابند تھے اور مہذب دور کی طرح بالکل بےحیاء اور بےلگام نہیں تھے اس لئے عربوں میں رواج ہوگیا تھا بیت اللہ کی طرف جانے والے اپنے گلے میں کوئی چیز لٹکا لیتے جس سے دیکھنے والوں کو دور ہی سے پتہ چل جاتا کہ یہ لوگ بیت اللہ کی طرف جا رہے ہیں اور وہ ڈاکو اور لیٹرے بھی ان کا احترام کرتے اور ان کو کوئی گزند نہ پہنچاتے ۔ پھر رفتہ رفتہ لوگوں نے جانوروں کے گلے میں بھی کوئی متعارف چیز لٹکانی شروع کردی تاکہ ان کو بھی کوئی تکلیف نہ پہنچائے اور راستہ میں کوئی لوٹ نہ لے اور راہ چلتے اگر کسی جگہ چراگاہ میں ان کو چرالیا جائے تو کوئی ان راہ گیروں کی مزاحمت نہ کرے کہ یہ بیت اللہ میں قربانی کی غرض سے لے جائے جا رہے ہیں اس لحاظ سے ان جانوروں کو بھی قلائد کہا جانے لگا۔ قرآن کریم نے ایسے انسانوں اور جانوروں کو بھی ” قیام للناس “ میں شمار کیا کیوں ؟ اس لئے کہ یہ بھی قیام امن کی ایک نشانی سمجھے جاتے تھے جس وجہ سے محفو ظ رہتے تھے اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کی ایک علامت سمجھے جاتے تھے۔ جس طرح اوپر بیان کیا گیا ہے مذکورہ تینوں چیزیں ” شہر حرام “ ” ہدی “ اور قلائد “ سب کے سب بیت اللہ کے متعلقات ہیں ۔ ان کا احترام بھی جس طرح اوپر بیان کیا گیا بیت اللہ ہی کے احترام کا ایک شعبہ ہے اس لئے بیت اللہ اور اس کے متعلقات کو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیائے انسانیت کے لئے عموماً اور عرب اہل مکہ کے لئے خصوصاً ان کے تمام امور دین و دنیا دونوں کے لئے قیام و قوام بنایا ہے جس سے کسی انسان کو انکار کی کوئی گنجائش نہیں اور انشاء اللہ تا قیامت ان کا یہ احترام قائم و دائم رہے گا۔
Top