بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Adh-Dhaariyat : 1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ
وَالذّٰرِيٰتِ : قسم ہے پراگندہ کرنیوالی ( ہواؤں) ذَرْوًا : اڑاکر
قسم ہے ان ہواؤں (کے رب) کی جو (بخارات کو) اُڑانے والی ہیں
قسم ہے ان ہوائوں کے رب کی جو بخارات کو اڑانے والی ہیں 1 ۔ قسم کیوں کھائی جاتی ہے ؟ اپنی بات موکد اور پکا کرنے کے لیے تاکہ اس میں کسی طرح کا کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے اور سامع کو اگر کوئی شک و شبہ ہے تو بھی نکل جائے اللہ رب ذوالجلال والا کرام پر کسی کو کسی طرح کا کوئی شبہ ہو ، یہ بات تسلیم نہیں کی جاسکتی پھر قسم کھانے کا مقصد ؟ اس کا مقصد صرف انسانوں کی زبان ہے چونکہ قرآن کریم ہم انسانوں ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے لہٰذا اس نے پیرا یہ بیان وہی اختیار کیا ہے جو انسانوں کے ہاں متعارف ہے اور یہ بھی کہ ان چیزوں کا پیدا کرنے والا اللہ رب ذوالجلال والا کرام ہے اسی نے ان کو پیدا فرما کر بطور شہادت پیش کیا ہے اور یہ قسم محض شہادت کے طور پر ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر جگہ قسم کے ساتھ جس چیز کی قسم کھائی گئی ہے وہاں اس چیز کا پیدا کرنے والا یعنی اللہ تعالیٰ یا رب کریم وہاں محذوف ہے مثلاً اس جگہ ہوائوں کا ذکر ہے اور وہ ہوائیں بھی خاص قسم کی ہوائیں پھر ظاہر ہے کہ ہوائیں مخلوق ہیں لہٰذا ان کا خالق صرف اور صرف ایک ہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ لہٰذا اس جگہ اللہ تعالیٰ محذوف تسلیم کیا گیا ہے اور مفہوم یہ ہے کہ قسم ہے ان ہوائوں کے رب کی جس نے ان ہوائوں کو پیدا کیا اور ان ہوائوں میں یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ گردو غبار کو اڑا کر لاتی ہیں یا یہ کہ وہ خاص ہوائیں جو پانی کو بخارات بنا کر اڑاتی رہتی ہیں اور اس گردوغبار کے ذرات کو اس سے الگ چھانٹتی رہتی ہیں پھر الذرایات کے ساتھ (ذروا) کا اضافہ صرف بحر ملانے کے لیے نہیں ہے بلکہ ذرو اصل ہے الذاریات کی گویا ذرو سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مونث ہے یعنی بکھیرنے والیاں ، پراگندہ کرنے والیاں اور یہ ان ہوائوں کی صفت ہے اور اصل مادہ اس کا ذرا ہے جس کے معنی پیدا کرنے کے ہیں اس نے پیدا کیا اس نے بکھیرا ، اس نے پھیلایا۔ ان ہوائوں کے رب کی قسم جو ہوائیں گردو غبار کو اڑا کرلے جاتی ہی ، پھیلا دیتی ہیں یا پانی کو بخارات میں تبدیل کرکے اڑا لے جاتی ہیں اور پانی کی تطہیر کرکے اس کو صاف ستھرا کردیتی ہیں اور یہ بھی کہ اربوں کھربوں ٹن پانی اڑا کر فضا کے اندر اس طرح پھیلا دیتی ہیں کہ وہ اس فضا کے اندر کہیں نظر تک نہیں آتا یہ کام کوئی معمولی کام نہیں ہے ہم کو محض اس لیے معمولی نظر آتا ہے کہ ہماری آنکھیں روز مرہ زندگی میں اس کو برستا دیکھتی ہیں اور ہم نے کبھی غور ہی نہیں یا کہ وہ کتنا بڑا نظام ہوگا جس کے ذریعہ اتنا زیادہ پانی یہ ہوائیں اڑا کر اوپر فضا میں لے جاتی ہیں اور پھر اس کو اس طرح پھیلا دیتی ہیں کہ کہیں کسی جگہ پر فضا میں نظر تک نہیں آتا اگر اس پر ذرا غور و فکر سے دیکھا جائے تو انسان پکار اٹھتا ہے کہ : سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔
Top