Urwatul-Wusqaa - Adh-Dhaariyat : 38
وَ فِیْ مُوْسٰۤى اِذْ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ
وَفِيْ مُوْسٰٓى : اور موسیٰ میں اِذْ اَرْسَلْنٰهُ : جب بھیجا ہم نے اس کو اِلٰى فِرْعَوْنَ : فرعون کی طرف بِسُلْطٰنٍ : ایک دلیل کے ساتھ مُّبِيْنٍ : کھلی
اور موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی (نشان عبرت ہے) جب ہم نے اس کو فرعون کی طرف ایک واضح دلیل دے کر بھیجا
موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کو دیکھو کہ جب ہم نے اس کو قوم فرعون کی طرف روانہ کیا 38 ؎ موسیٰ (علیہ السلام) کو قوم فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا تعلق بنی اسائیل سے تھا اور بنی اسرائیل سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے دور حکومت میں مصر آئے تھے اور اس جگہ آ کر آباد ہوگئے تھے پھر یہ لوگ بڑھتے بڑھتے بہت ہی بڑھ گئے۔ انجام کار فرعون مصر نے جب حکومت نے بنی اسرائیل سے واپس لی تو اس قوم پر ظلم و ستم کی ساری حدود ختم کردیں جب یہ لوگ فرعون اور اس کی قوم کے ظلم میں پسنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو نبی بنا کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیج دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات پیچھے بہت سی سورتوں میں گزر چکے اور بہت تفصیل اس قصہ کی بیان کی جا چکی اگر اس کی تفصیلات دیکھنا مقصود ہوں تو مندرجہ ذیل سورتوں کی محولہ آیتوں کی تفسیر کو دیکھیں مثلا۔ غزوہ الوثقیٰ جلداول سورة البقرہ کی آیت 47 ‘ 61 ‘ 63 ‘ تا 75 ‘ 83 ‘ 87 ‘ 92 ‘ 93 ‘ 108 ‘ 136 ‘ 243 ‘ اور 251 ‘ جلد دوم سورة النساء کی آیات 153 ‘ تا 156 ‘ ‘ 164 ‘ جلد سوم سورة المائندہ کی آیات 12 ‘ 13 ‘ 20 تا 25 ‘ 32 ‘ 45 ‘ 70 ‘ 71 ‘ 78 ‘ 79 ‘ سورة الانعام کی آیات 84 ‘ تا 90 ‘ 146 ‘ 154 ‘ 189 ‘ سورة الاعراف 103 ‘ تا 107 ‘ 159 ‘ تا 171 ‘ جلد چہارم سورة الانفال آیت 54 ‘ سورة یونس آیت 74 ‘ تا 93 سورة ہود آیات 96 ‘ تا 99 ‘ 110 ‘ سورة ابراہیم آیت 5 ‘ 6 ‘ 8 ‘ جلد پنجم سورة النحل آیت 123 ‘ سورة بنی اسرائیل 2 تا 7 : 101 تا 104 ‘ سورة الکھف آیات 60 تا 82 سورة مریم آیات 51 ‘ تا 53 ‘ سورة طٰہ آیات 90 ‘ تا 98 ‘ جلد ششم سورة الانبیاء آیات 48 ‘ 49 ‘ سورة المومنون آیات 45 تا 49 ‘ سورة الفرقان آیات 35 ‘ 36 ‘ سورة الشعراء آیات 10 ‘ 62 ‘ سورة النمل آیت 7 تا 14 ‘ سورة القصص آیت 3 تا 48 ‘ جلد ہفتم سورة العنکبوت آیت 39 ‘ 40 ‘ سورة السجدہ آیت 23 ‘ 24 ‘ سورة الاحزاب آیت 29 ‘ سورة ال مومن آیت 23 تا 45 جلد ھذا سورة الزخرف آیت 36 تا 56 ‘ سورة الفرقان آیت 17 تا 33 ‘ سورة الجاثیہ آیت 16 17 ‘ موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کھلے نشانات دیئے گئے تھے ان کا ذکر بھی اوپر کی محولہ آیتوں میں موجود ہے اور خصوصاً (تسع آیات) کا ذکر سورة الاعراف کی آیت 130 تا 140 میں بڑی وضاحت سے کیا جا چکا ہے اور پھر ان نو نشانوں میں سے دو نشانات کو بہت اہمیت حاصل ہے ایک لاٹھی کا نشان اور دوسرا یدبیضاء کا نشان اور ان دونوں کی قدرے وضاہت ہم پیچے محولہ سورتوں اور ان کی آیتوں میں کرچکے ہیں اگر ضرورت ہو تو وہیں سے دیکھ لی جائے اور خصوصاً سورة طٰہ کی آیات 17 تا 22 ‘ 65 ‘ تا 70 کی تفصیل و تفسیر پر ضرور نگاہ ڈال لیں۔ عصا کے متعلق اس جگہ آپ کی توجہ کے لئے چند مثالیں پیش خدمت ہیں اگر آپ چاہیں تو ان پر بھی غور کرلیں۔ عصا کا محاورہ گزشتہ آسمانی کتابوں میں (1) ” یہوداہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی اور نہ اس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہوگا۔ “ (پیدائش 49 : 10) (2) ” اسرائیل سے ایک عصا اٹھے گا اور مو آب کی نواحی کو مار لے گا “۔ (گتنی 24 : 17) (3) ” لوہے کے عصا سے انہیں توڑے گا۔ “ (زبور 2 : 9) (4) ” تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے تو صداقت کا دوست اور شرافت کا دشمن ہے۔ “ (زبور 45 : 7) (5) ” تیری چھری اور تیری لاٹھی وہی میری تسلی کا باعث ہیں۔ (زبور 110 : 2) (6) ” خدا وند تیرے زور کا عصا صیتون سے بھیجے گا۔ “ (زبور 110 : 2) (7) ” اور تیری بادشاہی کا عصا راستی کا عصا ہے۔ “ (عبرانیوں باب اول : 9) (8) ” اور وہ لڑکا جو لوہے کا عصا سے سب قوموں پر حکومت کرے گا “۔ (مکاشفہ 12 : 5) عصا کا محاورہ جس طرح کتب احادیث میں پایا جاتا ہے (1) لا تقوم الساعۃ حتی یخرج رجل من قحاطن یسوق الناس بعصاء (فتح الباری شرح صحیح بخاری پارہ 29 ص 27) اس کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ رقم طراز ہیں کہ یسوق الناس بعصاء کنایۃ عن غلبتہ علیھم و اختیار ھم ولم یرونفس العصا (فتح الباری پارہ نمبر 14 ص 308) (2) فنکت ساعۃ بعصاء (صحیح مسلم ج اول ص 431) امام نووی (رح) اس کی شرح میں رقم طراز ہیں و ھذا عادۃ من تفکر فی امرھم۔ (3) فاخذ بیدہ عباس بن عبدالمطلب فقال لہ انت واللہ بعد ثلاث عبدالعصا وانی واللہ لاری رسول اللہ ﷺ سوف یتوفی من وجعہ ھذا (صحیح بخاری فتح الباری پارہ 18 ص 105) (سنن بیہقی ص 100 ج 7) (5) من اناکم و امر کم جمیع علی رجل واحد یرید ان یشق عصا کم او یغرق جماعتکم فاقتلوہ ۔ (صحیح مسلم ج 2 ص 128) فرعون نے موسیٰ سے منہ موڑا ‘ جاوگر اور پاگل ہونے کا الزام لگایا 39 ؎ (فتولی) فرعون نے ایمان لانے سے منہ پھیرا۔ (برکنہ) اپنے جتھے اور لشکر کے ساتھ رکن دراصل آسرا ‘ زور اور قوت کو کہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ کسی بھی بادشاہ اور حکمران کے لئے اس کی پارٹی اور اس کا لائو لشکر ہی زور اور قوت ہوتا ہے۔ برکنہ ای بقوتہ (ابن عباس ؓ) (رکن) کے معنی ذاتی قوت کے بھی کئے گئے ہیں اور اس سے مراد اس کا لائو لشکر بھی لیا گیا ہے اس طرح اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے اپنے لشکر ‘ اپنے اعوان و انصار یا اپنی ذاتی طاقت اور قوت سے مفرور ہو کر موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور پھر صرف انکار ہی نہ کیا بلکہ آپ پر جادو گر ہونے کا الزام رکھا اور کبھی جادو گر کہنے کی بجائے مجنون کا الزام بھی دیا اور پاگل سمجھ کر ٹھکرا دیا اور یہ عادت سارے مفروروں میں موجود تھی ‘ ہے اور رہے گی کہ وہ اپنے اقتدار کے نشہ میں جو چاہتے ہیں کہہ دیتے ہیں اور باوجود متضاد باتیں کرنے کے ان کے سامنے کوئی شخص بولنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے نبی و رسول ہی کی طاقت ہوتی تھی کہ وہ بےدھڑک جو کہنا چاہتے یا جو کہنے کا ان کو حکم ہوتا تھا کہہ دیتے تھے۔
Top